علی گڑھ اور دیو بند کی دو انتہاؤں کے مابین

چند درمیانی راہیں 


(تذکرہ وتبصرہ‘ ’میثاق‘ لاہور نومبر۱۹۶۸؁)
یوں تو ایک عظیم ملت میں فکر ونظر کے صدہا رنگوں 
(shades) کا پایا جانا ایک فطری اور قدرتی امر ہے‘ چنانچہ ہماری قوم میں بھی سوچنے کے لاتعداد انداز اور غور وفکر کے بے شمار طور طریقے پائے جاتے ہیں. تاہم ذرا دقت ِنظر سے دیکھا جائے تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ فکر ونظر کے ان لاتعداد رنگوں میں اصل اور پختہ رنگ دو ہی ہیں‘ ایک علی گڑھ کا دوسرا دیوبند کا. بقیہ تمام رنگ جو ان کے مابین یا ان کے اردگرد پائے جاتے ہیں سب ان کے امتزاج ہی سے وجود میں آئے ہیں اور ان میں سے کسی میں علی گڑھ کا رنگ زیادہ نمایاں ہے اور کسی میں دیوبند (۱کا
گویا کہ ہماری ملت کے بحر محیط کی اصل دو روئیں یہی ہیں جو تقریباً ایک سو سال سے 
مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾ کی طرح بالکل ملحق اور متصل لیکن بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾ کی سی علیحدگی اور لاتعلقی کے ساتھ مسلسل چلی آ رہی ہیں ان میں سے ہر ایک کا ایک مستقل ماضی اور متعین فکری اساس ہے‘ اور چونکہ ان میں سے ہر ایک کی پشت پر ایک وسیع و عریض اور پختہ و محکم نظامِ تعلیم بھی موجود ہے‘ لہٰذا اِن دونوں کے اثرات نہایت دُور رس ہیں اور ان (۱) کیا اللہ کی شان ہے کہ ملت اسلامیہ پاکستان کے ان دونوں دینی و مذہبی اور تہذیبی و ثقافتی سوتوں کے اصل منابع ہندوستان ہی میں رہ گئے… اور یہی نہیں بلکہ جیسا کہ بعد میں واضح ہو گا‘ ان دونوں کے مابین امتزاج کی جتنی کوششیں ہوئیں ان سب کے اصل مراکز بھی وہیں رہ گئے. کی جڑیں ہمارے جسد ِملی میں بہت گہری اتری ہوئی ہیں. گویا کہ یہ دونوں مکاتب فکر ہماری قومی و ملی زندگی میں اَصْلُھَا ثَابِتٌ کی سی محکم اساس اور وَفَرْعُھَا فِی السَّمَائِ کا ساہمہ گیر اثر ونفوذ رکھتے ہیں.

ان میں سے علی گڑھ کی ’مذہبی عقلیت‘ جسے جسٹس امیر علی‘ سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی 
وغیرہم نے مرتب کیا تھا ‘اس کا تذکرہ ہم کرچکے ہیں. ساتھ ہی اس کے مقابلے میں دیوبند جس کی بنیاد مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے ہاتھوں پڑی اور جن کے ذریعے اس میں کتاب و سنت کا علم ہی نہیں بلکہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کی روحانیت بھی سرایت کر گئی تھی‘ جس طرح قال اللہ اور قال الرسول کا حصار اور دین و مذہب کے ’نقل‘ کے دفاع کا مرکز بنا‘ اس کی تفصیل بھی ہم بیان کرچکے ہیں اور دونوں کے ’مذہبی فکر‘ کے مابین جو بعد المشرقین پایا جاتا ہے اس کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ ہو چکا ہے لیکن اس کے بارے میں یہ گمان درست نہ ہو گا کہ یہ بعد ہمیشہ‘ ہر حال اور ہر صورت میں موجود رہا. اس کے برعکس‘ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں سے بعض ایسی شخصیتیں بھی ابھریں جو اپنے اصل مکتب فکر کے مجموعی مزاج کی بالکل ضد ثابت ہوئیں. چنانچہ ’’حسنؓ زِبصرہ‘ بلال ؓ از حبش‘ صہیبؓ ازروم‘‘ کے مصداق سر زمین علی گڑھ سے بھی بہت سے راسخ العقیدہ‘ درد مند‘ ذہناً مسلم اور قلباً مؤمن لوگ اُٹھے جن میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر ؒ کی مثال ہی اتنی درخشاں و تابناک ہے کہ مزید کی کوئی حاجت نہیں (۱دوسری طرف خاکِ دیوبند سے مولانا عبیداللہ سندھیؒ ایسی متجددانہ مزاج رکھنے والی شخصیت اُبھری جنہوں نے جدید دنیا کا مطالعہ ہی نہیں بھرپور مشاہدہ بھی کیا. اور جدید رجحانات کے زیر اثر ملت ِاسلامیہ کے لیے تمدن و معاشرت اور معیشت و سیاست کے میدانوں میں ایسی راہیں تجویز کیں جن کے لیے استناد دیوبند کے موجودالوقت مقلدانہ ماحول سے نہیں‘ بلکہ صرف امام الہند شاہ ولی اللہ الدہلویؒ کے فلسفہ ارتفاقات ہی سے مل (۱) خود علامہ اقبال بھی جن کا تذکرہ بعد میں تفصیل سے آئے گا‘بہرحال اسی شاخ سے متعلق ہیں. سکتا تھا! تاہم یہ مثالیں محض استثنائی ہیں اور ایک انگریزی مثل (۱کے مطابق‘ ان سے وہ کلیہ مزید مستحکم ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیا تھا‘ یعنی یہ کہ علی گڑھ اور دیو بند کے مابین کم از کم بعد المشرقین موجود ہے. (۲

اس بعد کا احساس بھی بالکل شروع ہی سے ہو گیا تھا اور اس فا صلے کو کم کرنے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لانے کی ضرورت بھی بالکل ابتدا ہی سے محسوس کی جانے لگی تھی چنانچہ ان کے مابین امتزاج اور ارتباط کی کوششوں کا سراغ بھی بالکل ابتدا ہی سے ملتا ہے. ندوۃ العلماء کا قیام ان کوششوں کا مظہر اوّل تھا اور دہلی میں جمعیت الانصار اور جامعہ ملیہ کا قیام مظہر ثانی. پھر ان ہی کوششوں کا ایک تیسرا مرکز جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن بنا اور اس نے بھی جدید و قدیم کو قریب لانے میں ایک اہم رول ادا کیا.

ندوہ کے بارے میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ وہ علی گڑھ کی کوکھ سے برآمد ہوا. مولانا شبلی نعمانی مرحوم جو پہلے علی گڑھ کے پروفیسر شبلی تھے اور بعد میں ندوہ کے علامہ شبلی بنے‘ ابتداء ً سرسید مرحوم کے رفقاء اور اعوان و انصار میں سے تھے‘ جو بعد میں ان سے بدظن اور ان کی تعلیمی سکیم سے غیر مطمئن ہو کر ان سے علیحدہ ہوئے. ہمیں یہاں ان اسباب سے کوئی بحث نہیں جن کی بنا پر یہ علیحدگی واقع ہوئی. ہمیں بحث قیام ندوہ کے صرف اس پہلو سے ہے کہ یہ قدیم وجدید اور تجدد و جمود کے مابین ایک متوازن علمی و فکری راہ پید اکرنے کی سعی کا سب سے پہلا اور ہر اعتبار سے اہم ترین مظہر ہے. 


لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ ندوہ فکر و نظر کا مرکز بننے کی بجائے صرف عربی 
(۱) Exceptions prove the rule 

(۲) یہ بعد صرف مذہبی تصورات اور دینی فکر کے میدان تک ہی محدود نہیں رہا‘ بلکہ جیسا کہ ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں‘ اس بعد سے ملی و قومی سیاست بھی بری طرح متاثر ہوئی اور اس میدان میں بھی ان دونوں کے رخ بالکل متضاد سمتوں میں مڑ گئے. زبان و ادب کا ایک گہوارہ اور تاریخ اسلامی کا ایک دارالاشاعت بن کر رہ گیا. اور علی گڑھ کے جدید اور دیوبند کے قدیم مذہبی فکر کے مابین کوئی حقیقی اور واقعی امتزاج پیدا کرنے میں بالکل ناکام رہا! 

ایک جدید لیکن متوازن ’’علم کلام‘‘ کی تدوین کی ضرورت کا احساس تو مولانا شبلی کو شدت کے ساتھ تھا. چنانچہ اسی لیے پہلے انہوں نے ’علم الکلام‘ میں قدیم علم کلام کی تاریخ مرتب کی او رپھر نیا علم کلام ’الکلام‘ کے نام سے لکھنا شروع کیا لیکن ایک تو وہ اس کی صرف ایک جلد لکھ کر رہ گئے‘ حالانکہ اس کی تکمیل ان کے پیش نظر سکیم کے مطابق تین جلدوں میں ہونی تھی. 
(۱اور دوسرے یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ وقت کے تقاضے کو بھی بالکل نہ سمجھ پائے. اور جو ’’علم کلام‘‘ اس وقت حقیقتاً مطلوب تھا اس کے فروع کیا اصول بھی ان پر واضح نہ ہو سکے!

جن دو انتہائوں کے مابین مولانا شبلی ایک متوازن راہ نکالنا چاہتے تھے ان کا تذکرہ خود ان کے الفاظ میں سنئے: 


’’حال ہی میں علم کلام کے متعلق مصر‘ شام اور ہندوستان میں متعدد کتابیں تصنیف کی گئی ہیں اور نئے علم کلام کا ایک دفتر تیار ہو گیا ہے. لیکن یہ نیا علم کلام دو قسم کا ہے: یا تو وہی فرسودہ اور دور ازکار مسائل و دلائل ہیں جو متاخرین اشاعرہ نے ایجاد کیے تھے. (۲یا یہ کہ یورپ کے ہر قسم کے معتقدات اور خیالات کو حق کا معیار قرار دیا ہے اور پھر قرآن و حدیث کو زبردستی کھینچ تان کر ان سے ملا دیا ہے. (۳پہلا کورانہ تقلید ہے اور دوسرا تقلیدی اجتہاد.‘‘ (۴(علم الکلام‘ تمہید) (۱) غالباً اس لیے کہ اس پہلی ہی جلد پر جو مخالفت ہوئی اور کفر کے فتوے موصول ہوئے‘ وہی مولانا شبلی کے لیے بہت کافی تھے.

(۲) یہ صاف اشارہ ہے حلقہ دیو بند کی نئی کلامی تصنیفات کی جانب ‘جیسے مثلاً مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کی ’حجۃ الاسلام‘ !
(۳) مراد ہے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی کا علم کلام.
(۴) مولانا کا یہ طرزِ تعبیر یقینا بہت قابل داد ہے. 
ان دونوں کو رد کر کے جس تیسرے علم کلام کی ضرورت ہے اس کے ضمن میں ’جدید تعلیم یافتہ گروہ‘ کا نقطہ نظر مولانا نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: 

’’ہر طرف سے صدائیں آ رہی ہیں کہ پھرایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے. اس ضرورت کو سب نے تسلیم کر لیا ہے‘ لیکن اصول کی نسبت اختلاف ہے. جدید تعلیم یافتہ گروہ کہتا ہے کہ نیا علم کلام بالکل نئے اصول پر قائم کرنا ہو گا‘ کیونکہ پہلے زمانے میں جس قسم کے اعتراضات اسلام پر کیے جاتے تھے‘ آج ان کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے. پہلے زمانے میں یونان کے فلسفے کا مقابلہ تھا جو محض قیاسات اور مظنونات پر قائم تھا. آج بدیہیات اور تجربہ کا سامنا ہے‘ اس لیے اس کے مقابلہ میں محض قیاساتِ عقلی اور احتمال آفرینیوں سے کام نہیں چل سکتا.‘‘ (ایضاً)
لیکن کمال سادگی کے ساتھ اس رائے کو محض یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ: 


’’لیکن ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں. قدیم علم کلام کا جو حصہ آج بے کار ہے پہلے بھی ناکافی تھا اور جو حصہ اس وقت کارآمد تھا آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا. کیونکہ کسی شے کی صحت اور واقعیت زمانہ کی امتداد وانقلاب سے نہیں بدلتی. اس بنا پر مدت سے میرا ارادہ ہے کہ علم کلام کو قدیم اصول اور موجودہ مذاق کے موافق مرتب کیا جائے…‘‘ (ایضاً)

چنانچہ جو کچھ انہوں نے کیا وہ یہی تھا کہ قدیم علم کلام کو نئے اسلوب‘ نئے پیرایۂ بیان اور نئے انداز میں گویا کہ نئے ’مذاق‘ کے مطابق پیش کرد یا.

لیکن اصل مسئلے کے فہم کی کوتاہی میں مولانا شبلی غالباً بالکل معذور ہیں. اس لیے کہ ایک تو ان کے زمانے تک جدید فلسفے اور سائنس کا ادغام نہیں ہو اتھا. دوسرے خود فلسفہ بھی ابھی صرف اسپنسر اور مل 
(۱تک ہی پہنچا تھا. گویا کہ فکر جدید کا اصل چیلنج ابھی پوری طرح 
(۱) بقول اکبراِلٰہ آبادی مرحوم ؎ غزالی و رومی کی بھلا کون سنے گا محفل میں چھڑا نغمہ اسپنسرو مل ہے! 
سامنے نہیں آیا تھا. یہی وجہ ہے کہ ’الکلام‘ کے مقدمے میں مولانا نے فلسفہ و سائنس کی موجودالوقت صورتِ حال کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: 

’’تمام دنیا میں ایک غل مچ گیا ہے کہ علومِ جدیدہ اور فلسفہ جدیدہ نے مذہب کی بنیاد متزلزل کر دی ہے. فلسفہ و مذہب کے معرکے میں ہمیشہ اس قسم کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں اور اس لحاظ سے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں‘ لیکن آج یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلسفۂ قدیمہ قیاسات اور ظنیات پر مبنی تھا اس لیے وہ مذہب کا استیصال نہ کرسکا. برخلاف اس کے فلسفۂ جدیدہ تمامتر تجربہ اور مشاہدہ پر مبنی ہے‘ اس لیے مذہب کسی طرح اس کے مقابلے میں جانبر نہیں ہو سکتا… یہ ایک عام صدا ہے جو یورپ سے اٹھ کر تمام دنیا میں گونج اٹھی ہے‘ لیکن ہم کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ اس واقعیت میں مغالطہ کا کس قدر حصہ شامل ہو گیا ہے.

یونان میں فلسفہ ایک مجموعہ کا نام تھا جس میں طبیعیات‘ عنصریات‘ فلکیات‘ الٰہیات‘ مابعد الطبیعیات سب شامل تھا‘ لیکن یورپ نے نہایت صحیح اصول پر اس کے دو حصے کر دیئے. جو مسائل مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر قطعی اور یقینی ثابت ہوگئے ان کو سائنس کا لقب دیا اور جو مسائل تجربہ و مشاہدہ کی دسترس سے باہر تھے ان کا نام فلسفہ رکھا!‘‘ 

لیکن افسوس کہ یورپ میں یہ ’’نہایت صحیح اصول‘‘ بس تھوڑی دیر ہی چل سکا اور جلد ہی اس کے بجائے وہ ’فطری اصول‘ پھر بروئے کار آ گیا کہ علم ایک ناقابل تقسیم وحدت ہے‘ اور اسے سائنس اور فلسفے کے دوجداگانہ خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا. چنانچہ یورپ کا بعد کا فلسفہ ان نظریات کی اساسات پر مرتب و مدوّن ہوا جو سائنس کے بعض شعبوں سے اُبھرے ‘جیسے مثلاًڈارون کا نظریۂ ارتقاء اور فرائیڈ کا نظریۂ جنس وغیرہ.

الغرض‘ جدید دنیا کوجو نیا علم کلام فی الواقع مطلوب تھا اس کے تو اصول واساسات 
کے بارے میں بھی مولانا شبلی صحیح تصور قائم نہ کر پائے تو ا س کی تدوین کیا کرتے. رہا دوسرے معاملات میں علی گڑھ اور دیو بند کے مابین امتزاج تو ا س کی بھی کوئی صورت ندوہ میں پیدا نہ ہو سکی او رمولانا شبلی کے بعد ان کے جانشین مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے جب حلقہ دیو بند کی ایک علمی و روحانی شخصیت یعنی مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو یہ بات بالکل ہی کھل گئی کہ ندوہ کوئی مستقل چیز ہے ہی نہیں. اس کی حیثیت بس ایک چھوٹی سی لہر کی ہے جو علی گڑھ کی عظیم رو سے نکل کربالآخر دیوبند کی دوسری بڑی رو میں جا شامل ہوئی. بعدمیں جب سید سلیمان ندوی کے شاگردِ رشید سیدابوالحسن علی ندوی نے کچھ عرصہ اِدھر اُدھر کی خاک چھاننے کے بعد بالآخر اسی حلقہ ٔدیوبند کی ایک دوسری روحانی شخصیت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تو یہ اسی سنت ِ سلیمانی کا ’اتباع‘ ہے. بہرحال اب ندوہ کی حیثیت دیو بند کے ایک ضمیمے کی ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک توسیع (Extension) کی‘ اس کا مستقل جداگانہ وجود کوئی نہیں!

اس طرح ندوہ تو بہت جلد ختم ہو گیا اور مولانا شبلی جو درمیانی راہ نکالنا چاہتے تھے وہ اس کے ذریعے سے نہ نکل سکی. تاہم ان کی یہ خواہش بعض دوسری پگڈنڈیوں کی صورت میں ظاہر ہوئی جن کا تذکرہ اہمیت کا حامل ہے.

مولانا شبلی اپنی ذات میں ایک نہایت جامع الصفات انسان تھے اور ان کی شخصیت ندوہ کی نسبت بہت زیادہ جامع اور گھمبیر تھی. چنانچہ وہ بیک وقت علم و فضل‘ فلسفہ و کلام‘ شعر و ادب اور ملی وقومی سیاست حتیٰ کہ رندی ورنگینی سب کے جامع تھے. ان کے اصل جانشین سید سلیمان ندوی مرحوم کی شخصیت میں مولانا شبلی کی شخصیت کے صرف چند ہی پہلوؤں کا تسلسل قائم رہ سکا. لیکن ان کے زیر اثر د واور ہستیاں ایسی پروان چڑھیں جو ان کی بعض دوسری صفات کی وارث بنیں اور جن میں مولانا شبلی کی شخصیت کے بعض دوسرے پہلو اجاگر ہوئے. ہماری مراد مولانا حمید الدین فراہی او ر مولانا ابوالکلام آزاد سے ہے. یہ 
دونوں حضرات براہِ راست ندوی تو نہیں ہیں لیکن ان کی تربیت میں مولانا شبلی کا بڑا حصہ ہے اور چونکہ برصغیر کی حالیہ مذہبی فکر کے میدان میں علی گڑھ اور دیوبند کی دو انتہائوں کے مابین دو اہم علمی و فکری سوتے ان ہستیوں کی بدولت پھوٹے ہیں لہٰذا ان کا کسی قدر تفصیلی تذکرہ ضروری ہے.

مولانا فراہیؒ اورمولانا آزاد مرحوم میں متعدد امور بطور قدر مشترک بھی ہیں. مثلاًایک یہی کہ دونوں کی تربیت میں مولانا شبلی کا حصہ تھا. دوسرے یہ کہ دونوں کو قرآن حکیم سے خاص شغف تھا. تیسرے یہ کہ دونوں اپنے وقت کے انتہائی وضع دار انسان تھے. چوتھے یہ کہ دونوں‘ مولانا شبلی کے بالکل برعکس… جنہوں نے اپنی ’حنفیت‘ کی شدت کے اظہار کے لیے ’’نعمانی‘‘ کی نسبت کو اپنے نام کا مستقل جزو بنا لیا تھا‘ تقلید سے یکساں بعید وبے زار تھے اور دونوں کو اصل ذہنی و علمی مناسبت امام ابن تیمیہؒ سے تھی لیکن ان اشتراکات کے بعد اختلافات کا ایک وسیع میدان ہے جس میں یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کی بالکل ضد تھیں. مولانا آزاد میں شبلی کی رندی ورنگینی کا تسلسل بھی موجود رہا جبکہ مولانا فراہی بالکل زاہد خشک تھے. مولانا آزاد کی وضعداری میں شکوہ وتمکنت کی آمیزش تھی جبکہ مولانا فراہی پر فقرود رویشی کا رنگ غالب تھا. مولانا آزاد ’’ابوالکلام‘‘ تھے اور ان کی شعلہ بیان خطابت میں ایک لاوا اگلنے والے زندہ آتش فشاں کا رنگ تھا جب کہ مولانا فراہی ؒ نہایت کم گو تھے اور ان کا سکوت ایک ایسے خاموش آتش فشاں سے مشابہت رکھتا تھا جس کے باطن میں تو خیالات و احساسات کا لاوا جو ش مارتا ہو لیکن ظاہر میں وہ بالکل ساکت و صامت ہو. مولانا آزاد کی تحریر میں اصل زور ادبیت اور عبارت آرائی پر تھا جب کہ مولانا فراہی کی تحریر نہایت سادہ لیکن مدلل ہوتی تھی. مولانا آزاد سیاست کے میدان کے بھی شہسوار تھے اور دین کی وادی میں بھی ان کا اصل مقام داعی کا تھا جبکہ مولانا فراہی سیاست سے تمام عمر کنارہ کش رہے اور دین و مذہب کے میدان میں بھی ان کا اصل مقام آخر دم تک صرف ایک طالب علم یا زیادہ سے زیادہ ایک مفکر کا رہا 
چنانچہ مولانا آزاد طوطی ٔ ہند تو تھے ہی ایک وقت ایسا بھی گزرا جب وہ’امام الہند‘ قرار پائے جبکہ مولانا فراہی سے ان کی زندگی ہی میں نہیں بلکہ آج تک بھی صرف کچھ علم دوست لوگ ہی واقف ہو سکے لیکن اس کے برعکس مولانا آزاد تو آندھی کی مانند اٹھے اور بگولے کی طرح رخصت ہو گئے تاآنکہ آج وہ لوگ بھی ان کا نام لینا تک گوارا نہیں کرتے جنہوں نے اپنی قندیل خود ان ہی کی شمع سے روشن کی‘ جب کہ مولانا فراہیؒ ایک مستقل طرز فکر اور مکتب ِ علمی کی بنیاد رکھ گئے جن کا نام لیوا ایک ادارہ ’’دائرہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے ہندوستان میں اور ایک انجمن مولانا امین احسن اصلاحی کی ذات میں پاکستان میں موجود ہے. 

قرآن مجید سے جو شغف ان دونوں بزرگوں کو تھا‘ مزاج کے افتاد کے فرق کی بناء پر اس کا ظہور بھی مختلف صورتوں میں ہوا. مولانا آزاد کی تفسیر سورۃ الفاتحہ اردو ادب کا تو شاہکار 
(Classic) ہے ہی قرآن کے جلال و جمال کابھی ایک حسین مرقع ہے. پھر سورۃ الکہف کے بعض مباحث میں ان کی تحقیق و تدقیق کا تو کوئی جواب ہی نہیں‘ بایں ہمہ قرآن حکیم کا کوئی مرتب و منضبط فکروہ پیش نہیں کر سکے. جبکہ مولانا فراہیؒ نے قرآن حکیم کے استدلالی پہلو کو واضح کیا اور ایک طرف نظم قرآن کی اہمیت واضح کر کے تدبر قرآن کی نئی راہیں کھولیں اور قرآن پر غوروفکر کے اصول وقواعد ازسر نو مرتب و مدوّن کیے اور دوسری طرف اپنی بعض تصنیفات میں (جو تا حال نامکمل مسودات ہی کی صورت میں ہیں) خالصتاً قرآن حکیم کی روشنی میں ایک نئے علم کلام کی بنیاد رکھ دی جیسا کہ ہم نے عرض کیا‘ آسمانِ شبلی کے ان ’’دو ٹوٹے ہوئے تاروں‘‘ سے برصغیر کی موجودہ اسلامی فکر کے دو سوتے پھوٹے ہیں جن کا تذکرہ صورتِ حال کے صحیح اور مکمل جائزے کے لیے ناگزیر ہے.

مولانا فراہی رحمہ اللہ کے علمی ورثے کے حامل مولانا امین احسن اصلاحی ہیں‘ جنہوں نے اپنی عملی زندگی کی ابتدا ان کے مشن کی تکمیل کے ارادے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کے آغاز ہی سے کی تھی. چنانچہ تحصیل علم سے فراغت کے فوراً بعد انہوں نے ایک طرف 
مولانا فراہیؒ کی یادگار‘ یعنی مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کو سنبھالا‘ دوسری طرف دائرہ حمیدیہ قائم کیا. تیسری طرف ۱۹۳۸ء میں ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘ جاری کیا جس کے ذریعے فکر فراہیؒ کی اشاعت شروع ہوئی. وقس علیٰ ہذا لیکن ابھی یہ تمام کام بالکل ابتدائی حالت ہی میں تھے کہ حکیم فراہیؒ کا یہ جانشین ابوالکلام کے معنوی خلیفہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی گھن گرج سے متاثر ہو کر‘ رخت سفر باندھ ان کی خدمت میں جا حاضر ہوا اور ایک آدھ نہیں سترہ سال ان کی شخصیت کے پیچ و خم میں الجھا رہا تاآنکہ پورے سترہ سال اس دشت کی بادیہ پیمائی کے بعد‘ آج سے دس سال قبل (۱جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ ماضی بہت پیچھے رہ گیا. دائرہ حمیدیہ اور فکر فراہیؒ کے تمام قدردان ہندوستان میں رہ گئے. یہاں یکہ و تنہا‘ نہ کوئی رفیق نہ ہمراہ‘ نہ اسباب نہ وسائل‘ الغرض ؏ 

’’جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا!‘‘ 

ان حالات میں مولانا امین احسن اصلاحی نے جس طرح پھر ’’جگر لخت لخت‘‘ کو جمع کیا اور ازسر نو اپنے کام کی ابتدا کی‘ واقعہ یہ ہے کہ یہ اس بڑھاپے کے عالم میں ان کی جواں ہمتی کی دلیل ہےبہرحال ’الاصلاح‘کی جگہ ’میثاق‘ کا اجراء ہوا‘ جو قلت اعوان و انصار کی بناء پر کچھ عرصہ ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کی مانند چلا اور پھر بند ہو گیا ’’حلقہ تدبر قرآن‘‘ قائم ہوا ‘جس کے ذریعے چند نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا‘ لیکن کچھ عرصہ نہایت کامیابی سے چلنے کے بعد ان نوجوانوں کے ادھر ادھر منتشر ہو جانے کی بناء پر اس کا کام بھی بند ہو گیا تاآنکہ آج سے ڈھائی سال قبل راقم الحروف‘ جس نے خود مولانا مودودی کی ’’تحریک اسلامی‘‘ ہی کی گود میں آنکھ کھولی تھی اور ان ہی کے واسطے سے مولانا اصلاحی سے متعارف ہوا تھا‘ لاہور منتقل ہوااور اسے اللہ نے مولانا کے ان کاموں میں تعاون کی توفیق و سعادت بخشی‘ تو اس کے فضل وکرم سے ’میثاق‘ بھی ازسرنو جاری ہوا
 (۱) اس تحریر کو پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ۱۹۶۸ء میں لکھی گئی تھی! اور بحمد اللہ تاحال جاری ہے‘ ’’تدبر قرآن‘‘ کی جلد اوّل بھی شائع ہوئی اور مولانا کے درسِ قرآن و حدیث کی ایک ہفتہ وارنشست کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بفضلہ تعالیٰ باقاعدگی سے جاری ہے.

راقم الحروف کو مولانا اصلاحی سے براہِ راست تلمذ کا شرف تو حاصل نہیں تاہم یہ واقعہ ہے کہ قرآن حکیم سے جو قلبی رابطہ اور کسی قدر ذہنی مناسبت اسے حاصل ہوئی ہے وہ مولانا ہی کی تحریروں کے مطالعے سے ہوئی ہے اور راقم کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کو بھی عمردراز اور صحت و فراغت عطا فرمائے‘ تاکہ وہ اپنے استاذ مولانا فراہیؒ کے علمی ورثے کو مزید اضافوں کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کر سکیں‘ ان کے شاگردوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس کام کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کرنے کا عزم کر سکیں اور راقم کو بھی اس نیک کام میں تعاون کی سعادت نصیب کیے رکھے! آمین. 
(۱

بہرحال فکر فراہیؒ اور سلسلہ تدبر قرآن علی گڑھ اور دیو بند کے درمیانی علمی وفکری سوتوں میں سے ایک ہے جو اپنی کمیت اور حلقہ اثر کے اعتبار سے تو فی الحال زیادہ اہم نہیں لیکن اپنے امکانات کے اعتبار سے یقینا نہایت اہم ہے‘ خصوصاً اس لیے کہ اس کی بنیادبھی خالصتاً قرآن حکیم پر ہے اور اس میں سارا استدلال بھی قرآن ہی سے کیا جاتا ہے اور تدبر قرآن کا جو خاص اسلوب و نہج اس کے ذریعے عام ہو رہا ہے اس سے ان شاء اللہ ’حکمت قرآنی‘ کے بہت سے نئے گوشے سامنے آئیں گے اور فکر انسانی کو نئی رہنمائی ملے گی مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تصانیف حقیقت ِ شرک‘ حقیقت ِتوحید اورحقیقت ِتقویٰ میں ایمان باللہ کے مختلف پہلوئوں سے جس انداز میں بحث کی ہے وہ اگرچہ
 (۱) افسوس کہ اس تحریر کی تسوید کے کچھ عرصہ بعد سے راقم الحروف کے تعلقات مولانا موصوف سے کشیدہ ہونے شروع ہوئے. اور ’تدبر قرآن‘ کی جلد چہارم میں جب مولانا نے حدزنا کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی تب سے تو تعلق بالکل ہی منقطع ہو گیا. اس پورے معاملے کی تفصیل راقم نے اپنی تالیف ’’دعوت رجوع الی القرآن: منظرو پس منظر‘‘ میں درج کر دی ہے. باصطلاح معروف تو’علم کلام‘ نہیں‘ لیکن خالص ’قرآنی علم کلام‘ ضرورہے اور اگر مولانا اپنی سکیم کے مطابق معاد اور رسالت پر بھی اسی انداز سے لکھ سکے تو اس طرح خالصتاً قرآن حکیم کی بنیاد پر ایک ’نئے علم کلام‘ کی ترتیب و تدوین کی راہ کھل جائے گی.

سیدابوالاعلیٰ مودودی نے اگرچہ کبھی صراحتہً کیا کنایۃً بھی یہ تسلیم نہیں کیا اور ان کی انانیت پسند اور خود پرست 
(ego-centric) شخصیت سے اس کی توقع بھی عبث ہے کہ انہوں نے اپنی تحریک کے اصول و مبادی مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم سے اخذ کیے ہیں (۱تاہم واقعہ یہی ہے کہ ۳۸.۱۹۳۷ء کے لگ بھگ جب مسلمانانِ ہند کی قومی وملی سیاست کا ایک رخ متعین ہو گیا اور اس کی قیادت و سیادت میں انہیں کوئی مقام حاصل نہ ہو سکا تو انہوں نے کسی ’دوسری راہ‘ پر سوچنا شروع کیا اور اس کے لیے انہیں سارا پکا پکایا اور بالکل تیار مواد مولانا ابوالکلام آزاد سے مل گیا. چنانچہ انہوں نے (۱) اس معاملے میں مودودی صاحب جتنے ’’پختہ‘‘ واقع ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے (۱) نہ تو کبھی نیا زفتح پوری سے حاصل کردہ انشاپردازی کی بنیادی تربیت کا ذکر فرمایا. (۲) نہ ابوالکلام مرحوم اور خیری برادران سے اخذ کردہ تصورِ حکومت ِالٰہیہ پر ان حضرات کا کبھی ذکر ِخیر کیا. (۳) اور نہ ہی علامہ اقبال کا یہ احسان کبھی علانیہ تسلیم کیا کہ انہوں نے انہیں حیدر آباد دکن ایسی سنگلاخ جگہ سے جہاں بقول خود ان کے کوئی ان سے یہ بھی نہ پوچھتا تھا کہ ’’تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں!‘‘ پنجاب کی اس سرزمین میں پہنچایا جو ہر تحریک اور نئی دعوت حتیٰ کہ دعوائے نبوت تک کے لیے نہایت زرخیز وسازگار ہے حتیٰ کہ جب علامہ اقبال کا انتقال ہوا اور ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی تب بھی مدیر ’ترجمان القرآن‘ نے کوئی کلمہخیریا کلمۂ تعزیت اپنے مؤقر جریدے میں شائع نہ فرمایا اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی راوی ہیں کہ جب خود انہوں نے اس معاملے میں مودودی صاحب سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا ’’میں اس وقت حالت ِ جہاد میں ہوں اور میدانِ قتال میں مردے دفن کرنے کی فرصت کب ہوتی ہے.‘‘

چشتی صاحب فرماتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے یہ دیکھا کہ مودودی صاحب کے حلقے کے جرائد نے مولانا مسعود عالم صاحب ندوی اور چودھری علی احمد مرحوم کی وفات پر خاص نمبر تک نکالے اور کتابیں شائع کیں تو میں حیران رہ گیا ؏ ’’کہ ہم نے انقلابِ چرخِ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں!‘‘ 
مولانا آزادکو ان کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے کر ان کی جگہ خود سنبھالی‘ ان کی وضع کردہ اصطلاح ’حکومت ِ الٰہیہ‘ کو اپنا نصب العین بنایا (جس کی مزید تشریح خیری برادران کر چکے تھے) ان کی ’حزب اللہ‘ کے نقشے پر اپنی ’جماعت اسلامی‘ قائم کردی اور اپنی ’تحریک اسلامی‘ کو انہی خطوط پر شروع کر دیا جو مولانا آزاد نے متعین کیے تھے لیکن جن پر وہ خود اپنی بعض کمزوریوں یا کچھ موانع کے باعث آگے نہ چل سکے تھے. یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی اگرچہ ایک بہت بڑے مصنف اورمؤلف ہیں اور بسیار نویسی میں ان کے مد مقابل صرف دو غلام احمد ہی ہیں (۱تاہم دین و مذہب کے میدان میں ان کا اصل مقام ابوالکلام مرحوم ہی کی طرح داعی کا ہے نہ کہ مفکر کا بایں ہمہ چونکہ ان کا وسیع و عریض لٹریچر برصغیر کے طول و عرض میں بھی پھیلا ہے اور مشرق وسطیٰ میں بھی‘ لہٰذا ملت اسلامیہ کی جدید مذہبی فکر کے اس جائزے میں ان کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے!

مودودی صاحب خودبھی اس امر کے مدعی ہیں اور ان کے بارے میں عام طور پر یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ’’بیچ کی راس‘‘ کے آدمی ہیں. یعنی انہوں نے علی گڑھ کی پیداکردہ متجددانہ ذہنیت اور دیوبند کے قدامت پرستانہ مزاج کے مابین ایک درمیانی راہ پیدا کی ہے اور گویا کہ قدیم وجدید کو بہم کر دیا ہے. ان کا یہ دعویٰ اس اعتبار سے وزنی بھی ہے کہ ان کی دینی دعوت اور ان کا مذہبی فکر دونوں زیادہ تر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں پھیلے ہیں اور نہ صرف ملت اسلامیہ ہندوپاک بلکہ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی نوجوان نسل کا بھی ایک خاصا قابل ذکر حصہ ان کے زیر اثر آیا ہے. پھر یہ بھی ان کے خود ’’بیچ کی راس‘‘ کے آدمی ہونے ہی کا ثمرہ تھا کہ ابتداء ً برصغیر کے تمام درمیانی مکاتب فکر کے علمبردار ان کی جانب کھنچ آئے 
(۲چنانچہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا‘ ایک جانب مولانا فراہیؒ کے جانشین مولانا اصلاحی اپنے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر ان کے پاس آ گئے. دوسری طرف مولانا سید (۱) یعنی ایک آنجہانی غلام احمد قادیانی اور دوسرے ایں جہانی غلام احمد پرویز! 
(اس عرصہ کے دوران پرویز صاحب بھی اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ چکے ہیں!)

(۲) یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ سکہ بند مذہبی حلقوں میں سے مولانا مودودی کی طرف صرف اس طبقہ اہل حدیث کے لوگ آئے جو ایک تو غیر مقلد ہونے کے باعث ویسے ہی’آزاد‘ ہوتے ہیں‘ دوسرے یہ واقعہ ہے کہ اس طبقے میں خدمت و نصرتِ دین کا داعیہ ہمیشہ سے اتنا شدید رہا ہے کہ یہ ہر نئی دعوت پر اس امید میں والہانہ لپکتے ہیں کہ شاید اسی کے ذریعے اسلام کی ’غربت‘ ختم ہوجائے اور وہ خدا کے یہاں اسلام کے اس دورِ غربت میں اس کے ہمدرد و مونس و غم خوار شمارہوجائیں! 
ندویؒ کے دونوں اہم شاگرد یعنی مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم اور مولانا سیدابوالحسن علی ندوی بھی ان کے گرد جمع ہو گئے پھر یہ بھی ان کے علی گڑھ اور دیوبند کے مابین کی شخصیت ہونے کا نتیجہ تھا کہ ایک جانب حلقہ دیوبند سے ایک بے تاب روح‘ مولانا محمد منظور نعمانی کی صورت میں ان کی طرف کھنچ آئی اور دوسری طرف سلسلۂ سرسید سے بھی مولانا عبدالجبار غازی (پرنسپل اینگلو عربک ہائی سکول دہلی) ایسے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے یہ دوسری بات ہے کہ مولانا مودودی اس شیرازے‘کو مجتمع نہ رکھ سکے اور کوئی جلد اور کوئی بدیر بدظن یا غیر مطمئن ہو کر ان سے کٹ گیا‘ تاہم چونکہ ان میں تنظیمی صلاحیت اور محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے کا مادہ ابتدا ہی سے موجود تھا‘ وہ اس ساری ’آمدورفت‘ کے علی الرغم ایک مذہبی فرقے کی حدتک مضبوط جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ جس میں چوٹی کے نہ سہی درمیانی سطح کے لوگ کالجوں اور یونیورسٹیوں اور مدرسوں اور دارالعلوموں دونوں سے ہی فارغ التحصیل شامل ہیں.

مولانا مودودی کی تحریکِ اسلامی کہاں اور کس موقف سے شروع ہوئی اور پھر وہ کن کن مراحل سے گزر کر بالآخر کہاں پہنچی اور اب ’’عشق بلا خیز‘‘ کا یہ ’’قافلۂ سخت جان‘‘ کس وادی اور کس منزل میں ہے‘ یہ ایک علیحدہ مستقل موضوع ہے‘ جس پر ہم نے اپنی کتاب ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے. یہاں اصل گفتگو ان کی تحریک سے نہیں بلکہ ان کے ’فکر‘ سے ہے اگرچہ یہاں اس اعتراف کا اعادہ کیے بغیر گزرا نہیں جا رہا کہ راقم الحروف نے خود بھی شعورکی آنکھ اسی تحریک کی گود میں کھولی اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اسی کے طفیل پایا !! 
فکر کے میدان میں مولانا مودودی نے ابتدا ہی سے یہ ’حکمت ِعملی‘ برتی کہ فلسفہ اور علم کلام کے مشکل موضوعات سے کامل اجتناب کیا. حتیٰ کہ عقائد کے باب میں بھی ہمیشہ نہایت اجمال و اختصار کے ساتھ بات کی اور جتنی کی اس میں بھی زیادہ تر ان اعتقادات کو بیان (narrate) کرنے پر اکتفاء کیا جو امت کے سوادِاعظم کے یہاں معروف و مقبول ہیں. چنانچہ انہوں نے نہ تو الٰہیات ومابعد الطبیعیات سے بحث کی‘ نہ جدید فلسفیانہ رجحانات سے تعرض کیا‘ حتیٰ کہ ان گمراہ کن نظریات سے بھی براہِ راست بحث و گفتگو سے احتراز کیا جو جدید سائنس کے مختلف شعبوں سے ابھرے ہیں (۱)گویا کہ علم کلام کی اصل سنگلاخ وادی میں انہوں نے سرے سے قدم ہی نہیں رکھا.

اس کے برعکس انہوں نے عمرانیات ِاسلام کو اپنا اصل موضوع بنایا اور عمرانیات کے مختلف شعبوں یعنی تمدن و اخلاق‘ معاشرت ومعیشت اور ریاست و سیاست کے باب میں جدید نظریات جن اصطلاحات میں اور جس اسلوب و انداز سے مرتب و مدوّن ہوئے ہیں انہی کو استعمال کرکے انہوں نے ’’اسلامی نظامِ زندگی‘‘ کا ایک مربوط ومنضبط تصور پیش کرنے کی کوشش کی جس میں وہ بلاشبہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے اس اعتبار سے انہیں زیادہ سے زیادہ ایک عمرانی مفکر 
(Social Thinker) قرار دیا جا سکتا ہے. گویا کہ ان کی اوّلین‘ نمایاں ترین اور بنیادی و اساسی حیثیت تو داعی کی ہے (اور اس پہلو سے وہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی شخصیت کا معنوی تسلسل ہیں). ثانوی حیثیت میں انہیں اسلام کا ایک جدید عمرانی مفکر بھی قرار دیا جا سکتا ہے.

متذکرہ بالا حکمت عملی سے مودودی صاحب کو فائدے بھی بہت سے پہنچے. مثلاً ایک یہی کہ اعتقادی و کلامی بحثوں سے احتراز کی بناء پر ایک طویل عرصے تک وہ مذہبی طبقات کی مخالفت سے بچے رہے اور اس میدان میں قدم رکھتے ہی تکفیر و تفسیق کے جن فتووں کا سامنا ناگزیر ہوتا ہے ان سے محفوظ رہے دوسرے یہ کہ ان کا یہ اوسط درجے کا فکر قوم 
(۱) ان نظریات (مثلاً ڈارون کا نظریۂ ارتقاء) پر مولانا کی تنقید زیادہ سے زیادہ کچھ پھبتیاں کسنے تک محدود ہے اور وہ بھی صرف ’’رسائل و مسائل‘‘ ایسی کتابوں میں. کے درمیانی و متوسط طبقے میں تیزی کے ساتھ پھیلا اور سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ بہت سے نوجوان ’’اسلامی نظامِ حیات‘‘ کے اس تصور کو قبول کر کے اس کے ’قیام‘ کی عملی جدوجہد کے لیے آمادہ ہو گئے گویا ان کی ’تحریک اسلامی‘ کے لیے راہ ہموار ہو گئی لیکن اس کے بہت سے مضر عواقب بھی ظاہر ہوئے. مثلاً سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کا اعتقادی و تعبدی پہلو بالکل دب کر رہ گیا اور اسلام کی بس یہی ایک حیثیت نگاہوں کے سامنے رہ گئی کہ وہ ایک ’’نظام زندگی‘‘ ہے. پھر چونکہ عمرانیات کے مختلف شعبوں میں سے بھی مودودی صاحب کا اصل میدان ’’سیاسیات‘‘ کا ہے اور اسلام کے نظام زندگی میں بھی ان کی اصل نگاہ اس کے نظریہ ریاست و سیاست پر ہے‘ لہٰذا پورے دین و مذہب کی انہوں نے ایک خالص سیاسی تعبیر کر ڈالی اور دین کا اصل جوہر یعنی عبدومعبود کا باہمی ربط و تعلق بالکل نظر انداز ہو گیا. (۱

یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والوں میں سے اکثر وبیشتر کے معاملے میں یہ صورت حال نظر آتی ہے کہ وہ مذہب کے بنیادی لوازم سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ نماز روزے تک کے پابند نہیں رہتے. گویا کہ ان کا دین و مذہب کے ساتھ کل لگاؤ تحریک اسلامی ہی کی بنیاد پر قائم تھا جو اس سے انقطاع کے ساتھ ہی منہدم ہو گیا. دوسرا ‘اور ہماری اس وقت کی گفتگو کے اعتبار سے اہم تر‘ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ان کے زیراثر نوجوانوں میں سے جنہیں بعد میں باہر کی دنیا سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ اپنے ملک اور اس کے بھی خالص اپنی تحریک کے محدود حلقے سے باہر نکل کر یورپ کی یونیورسٹیوں میں پہنچتے ہیں اور وہاں مغرب کے اصل فکر سے براہِ راست ان کا سامنا ہوتا ہے تو ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں 
(۲کہ ان کا سابق اسلامی فکر ریت کے کچے گھروندوں کی طرح جواب دے جاتا ہے اور وہ ریب و تشکک کا شکار ہو کر (۱) اس موضوع پر اختصار کے ساتھ راقم نے اپنی تحریر ’اسلام کی نشأۃ ثانیہ‘ میں بحث کی ہے.

(۲) اور یہ صورت عموماً نسبتاً ذہین تر نوجوانوں کے ساتھ پیش آتی ہے اور’جماعت اسلامی‘ سے قریب کا تعلق رکھنے والے لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ اس طرح کے حادثوں (causalties) کی مثالیں بہت عام ہیں. 
بعض اوقات بے دینی والحاد تک جا پہنچتے ہیں اسی کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ ’مذہبی فکر‘ کسی پختہ اور محکم فلسفیانہ اساس پر قائم نہیں‘ لہٰذا اس میں نمو اور ترقی کی صلاحیتیں بھی مفقود ہیں. چنانچہ جماعت اسلامی کے حلقے کے جرائد کو دیکھ لیجئے یا نئی مطبوعات کو حتیٰ کہ ان کے قائم کردہ ریسرچ کے اداروں تک سے جو چیزیں شائع ہو رہی ہیں ان سب میں بس دو ہی چیزیں نظر آئیں گی‘ یا تو ’’فرموداتِ مائوزے تنگ‘‘ کی طرح ’فرموداتِ مودودی‘ کی تشریح و توضیح یا پھر خالص جماعتی اور تحریکی پروپیگنڈا اس میں اگر کوئی اضافہ پچھلے چند سالوں سے ہوا ہے تو صرف یہ کہ الاخوان المسلمون کے اہل قلم کی نگارشات اور ان کی تحریک اور شرق اوسط کے عام حالات پر معلوماتی مضامین بھی مل جاتے ہیں اور بس!

الغرض قدیم وجدید کا جو امتزاج سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی جماعت کے ذریعے ہوا ہے ‘واقعہ یہ ہے کہ وہ بہت سطحی ہے اور اس نئے پیوند کی اپنی مستقل جڑ کوئی نہیں! لہٰذا نہ صرف یہ کہ اس کے نشوونما اور بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ اس کا بقاء و وجود بھی بہت مشتبہ ہے!

اس اعتبار سے ہمارے نزدیک برصغیر کی اہم ترین شخصیت علامہ اقبال کی ہے اور علوم و فنونِ جدیدہ کی روشنی میں ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے ضمن میں واقعی اور حقیقی قدروقیمت رکھنے والا کچھ کام اگر کسی نے کیا ہے تو وہ تنہا ان ہی کی ذات ہے. چنانچہ اعلیٰ ریاضی و طبیعیات اور اعلیٰ نفسیات کی بنیاد پر انہوں نے مذہب کی بعض اساسات کا اثبات جس طریق پر کیا ہے اور خوگرانِ تجربہ و شہود کے سامنے مذہب کو بھی ایک واقعی اور حقیقی تجربے کی حیثیت سے جس طرح پیش کیا ہے وہ فکر جدید کا رشتہ ایمان کے ساتھ جوڑنے کی ایک اہم کوشش ہے جو بالکل ابتدائی اور بنیادی ہونے کے باوجود اور اپنی بعض خامیوں اور غلطیوں کے علی الرغم نہایت وقیع اور قابل قدر ہے.

ضمیمۂ اوّل


مکتوب مولانا عبدالماجددریابادیؒ

اس سلسلہ ٔمضامین کی آخری کڑی یعنی’’علی گڑھ اور دیوبند کی دو انتہاؤں کے مابین چنددرمیانی راہیں‘‘ کے عنوان سے جو تحریر ابھی آپ نے مطالعہ فرمائی‘ وہ ’میثاق‘ بابت نومبر ۱۹۶۸ء میں بطور ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ شائع ہوئی تھی اور اس پر ایک حد درجہ تحسین آمیز خط مولانا عبدالماجد دریابادی کی جانب سے موصول ہوا تھا!

لکھنے اور بولنے والوں کو اپنی تحریر و تقریر پر داد و بیداد دونوں ہی سے سابقہ رہتا ہے اور عام قاعدہ یہی ہے کہ ان کا زیادہ ذکر نہیں کرنا چاہیے‘ خصوصاً اپنی تعریف و تحسین کو نقل کرنا تو بہت ہی معیوب ہے . لیکن مولانا عبدالماجد دریابادی کا وہ خط ’میثاق‘ دسمبر ۶۸ء کے کور پر لفظ بلفظ شائع کر دیا گیا تھا اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ بلاشبہ مولانا موصوف خود اپنی ذات کے اعتبار سے برصغیر ہندوپاک کے دورِ حاضر کے علمی‘ ادبی‘ فکری اور صحافتی حلقے کی چوٹی کی شخصیتوں میں سے تھے‘ اور یہ بات بجائے خود کچھ کم اہم نہیں ‘لیکن اُن کے خط کی اشاعت کا اصل سبب یہ تھا کہ زیرتذکرہ تحریر میں مسلمانانِ ہند کی جس بزمِ ملی و دینی کے اعاظم رجال کا ’تذکرہ‘ اور ان کی علمی و فکری تحریکوں پر ’تبصرہ‘ کیا گیا تھا مولانا موصوف نہ صرف یہ کہ خود اس بزم کے شرکاء میں سے تھے بلکہ اس تحریر کی اشاعت کے وقت وہی اس قافلہ ٔملی کی آخری بقید حیات شخصیت تھے.گویا ان رجال کے ضمن میں مولانا کی رائے ایک چشم دید گواہ کی شہاد ت کا درجہ رکھتی ہے (افسوس کہ اب مولانا موصوف بھی ؏ ’’اِک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے!‘‘کا مصداق بن چکے‘ 
فیغفراللّٰہ لنا ولہ وادخلہ فی اعلٰی عِلّیّین) . ’میثاق‘ دسمبر ۱۹۶۸ء کے کور کا عکس سامنے کے صفحے پر ملاحظہ فرمائیں! 
(اسرار احمد)