نوارا تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کمیابی
حدی را تیز تر مے خواں چو محمل را گراں بینی

از قلم: مولانا محمد یوسف بنوریؒ

ذیل کی تحریر ماہنامہ ’بینات‘ کراچی کی مارچ ۱۹۶۷ء کی اشاعت سے ماخوذ ہے‘ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ’بینات‘ کے ماہ رجب کے شمارے میں ’ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی راولپنڈی‘ کی جانب سے شائع شدہ ’مجموعہ قوانین اسلامی‘ مؤلفہ جناب تنزیل الرحمن پر ایک مفصل تبصرہ جناب مفتی ولی حسن صاحب ٹونکی کے قلم سے شائع ہوا اوّل تو یہ طرزِ عمل بجائے خود مثبت تعمیری طرزِ فکر کا آئینہ دار تھا کہ بجائے اس کے کہ محض اس بنا پر کہ زیر تبصرہ کتاب ایک معروف تجدد پسند ادارے کی جانب سے شائع ہوئی تھی اسے کلیتاً رد کر دیا جاتا‘ فاضل تبصرہ نگار نے انتہائی محنت سے پوری کتاب کا تنقیدی مطالعہ کیا اور شدید عرق ریزی سے اس کی ایک ایک دفعہ میں صحیح وغلط اور حق و باطل کی علیحدہ علیحدہ نشان دہی کر دی اس پر مستزاد یہ کہ تبصرے کے آخر میں ’’مؤلف اور تالیف کے بارے میں بحیثیت مجموعی ہماری رائے‘‘کے ضمن میں وسعت قلب کے ساتھ اور اعترافِ حق کے جذبے کے تحت یہ اعتراف بھی کر لیا کہ مؤلف سے غلطیاں ضرور سرزد ہوئی ہیں لیکن ان کے نقطۂ نظر میں کجی اور طرزِ فکر میں فتنہ انگیزی موجود نہیں ہے اور بحیثیت مجموعی یہ کتاب ’’بسامغتنم‘‘اور ’’قابل تحمل‘‘ ہے اس پر دینی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور بعض انتہائی ذمہ دار اور ممتاز علماء نے’بینات‘ کے سرپرست اور نگران حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری کے نام شکایتی خطوط لکھے جن کا مرکزی مضمون یہ تھا کہ ’’تجدد پسندی کا جواب ہی بینات تھا. اگر یہی گھٹنے ٹیک دے تو انجام کیا ہو گا؟‘‘ اور یہ کہ ’’تھوڑی سی نرمی علماء کے موقف کو کمزور کر دیتی ہے. اور اس طرح دشمنانِ دین کے موقف کو غیر شعوری طو رپر قوت مل جاتی ہے ‘‘ اس پر ادارۂ ’بینات‘ نے ایک جانب تو تبصرے کے اس حصے کی قدرے وضاحت کی جو شاید حضرات معترضین کے نزدیک تو ’’عذرِ گناہ بدتر ازگناہ‘‘ ہی قرار پائے. اور دوسری طرف علمائے کرام کی خدمت میں بھی ’’نوارا تلخ تر می زن …‘‘ کے عنوان سے بعض گزارشات بڑے ادب و احترام کے ساتھ پیش کیں.

ان گزارشات میں بعض باتیں چونکہ انتہائی اہم آ گئی ہیں اور اس لائق ہیں کہ پاکستان کے تمام علماء ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور ان کی روشنی میں اپنے موجودہ طرزِ فکر و عمل پر نظر ثانی فرمائیں لہذا ہم اس تحریر کو ادارئہ ’بینات‘ کے شکریے کے ساتھ ’قارئین میثاق‘ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں (مدیر)

’’نوارا تلخ ترمے زن چو ذوقِ نغمہ کمیابی
حدی را تیز تر مے خواں چو محمل را گراں بینی

اس موقعہ پر ہم علمائے اُمت کی خدمت میں بھی چند گزارشات پیش کر دینا ضروری فرض سمجھتے ہیں: 

الف: انگریز کے دورِ حکومت میں ہمارے اکابر نے جو شاندار دینی و ملی کارنامے انجام دیے‘ ان کا خلاصہ نکالیے تو انہیں بڑے بڑے دو شعبوں میں بانٹا جا سکتا ہے. اول: ہر قسم کے جدید و قدیم فتنہ کا استیصال بذریعہ تقریر و تحریر‘ وعظ و تبلیغ‘ درس و خطابت اور ارشاد و تلقین : دوم : اُمت مسلمہ کے لیے روحانی غذا مہیا کرنا‘ بذریعہ قیامِ مدارس و معاہد‘ دارالافتاء و دار العلوم‘ مساجد و خانقاہ‘ تصنیف و تالیف اور جلسہ و کانفرنس. آج کل کی اصطلاح میں قسم اول کو’’منفی‘‘ اور قسم ثانی کو’’مثبت‘‘ کہا جاتا ہے‘ اور کوئی شک نہیں کہ دین کی پاسبانی کے لیے علمائے اُمت نے ان دونوں میدانوں میں بیش قیمت قربانیاں دیں اور اور اپنے خونِ جگر سے ’’گلشن ِدین خداوندی‘‘ کو سیراب کیا. الحمد للہ کہ آج تک اپنی بساط کے موافق یہ سلسلہ جاری ہے‘ خدمت دین کی ان ہی مثبت و منفی تاروں کے ذریعہ جب تک اُمت ِمسلمہ کا رابطہ (کنکشن) ذاتِ نبوی (بآبائنا ھو وامھاتنا، صلی اللّٰہ علیہ وسلم) سے قائم رہے گا‘ اُمت انوارِ نبوت سے مستفید ہوتی رہے گی‘ اور اس سلسلہ میں سعی کرنے والے حضرات اپنی اپنی محنت اور قربانی کے بقدر‘ اجر عظیم کے مستحق ہوں گے. 

ب: انگریز کے رخصت ہو جانے اور اسلامی نظریہ ٔحیات کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد علمائے اُمت پر مذکورہ بالا دوگونہ ذمہ داریوں کے ساتھ ایک تیسری ذمہ داری عائد ہو گئی ‘ یعنی حکومت ِپاکستان کے سامنے نہایت پیار و محبت‘ انتہائی ہمدردی اور خلوص اور بے حد حکمت و فراست کے ساتھ اسلامی اور دینی نقوشِ حیات پیش کرنا‘ جن پر ایک اسلامی ریاست کی بنیادیں اٹھائی جائیں ‘نیز دورِ حاضر کی تمام مشکلات کا حکیمانہ جائزہ لے کر اسلامی قانون کی تدوین ‘ جسے عدلیہ میں نافذ کیا جائے‘ یہ علمائے اُمت کا اپنا منصبی فریضہ تھا ‘ خواہ حکومت ان سے مطالبہ کرتی یا نہ کرتی‘ انہیں صحیح اور واقعی مقام دیتی یا نہ دیتی‘ ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کسی حلقہ کی جانب سے کیا جاتا یا نہ کیاجاتا‘ دنیا کے ہر اجر و مزد‘ منصب و وجاہت اور مال و جاہ کی منفعت سے بالاتررہ کر صرف رضائے الٰہی ‘ادائے حق ِرسالت‘ نصح اسلام اور فلاحِ آخرت کی خاطر انہیں یہ کام کرنا چاہیے تھا‘ جانشین نبوت کی حیثیت سے ان کا مشن وہی ہونا چاہیے تھا جو تمام انبیاء علیہم السلام کا رہا یعنی : 

وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۸۰﴾ؕ 
(الشعراء) 
’’میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا‘ میرا اجر و ثواب تو بس رب العالمین نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے.‘‘

لیکن ہمیں اپنی اس ’کمی‘ کا اعتراف کرنا چاہیے کہ جہاں ہم دین کی اور بیش بہا 
خدمتوں کی بنا پر رحمت خداوندی سے اجر وثواب کے متمنی ہیں وہاں اس عظیم الشان فریضہ سے صرفِ نظر کرنے کی وجہ سے معرضِ مسئولیت میں آجانے کا شدید اندیشہ بھی لاحق ہے‘ اگر میدانِ قیامت میں یہ مناقشہ فرمالیا گیا کہ تم نے اس نازک مرحلہ میں اپنی اجتماعی قوتوں کو کیوںنہ کھپایا؟ اس زبردست خلاء کو پر کر کے اُمت کی قیادت کیوں نہ کی؟ وقت کے ایک عظیم دینی فریضہ سے کیوں بے اعتنائی برتی؟ تمہارے ذاتی مشاغل‘ نجی مقاصداور گروہی فوائد اس کے درمیان کیوں حائل رہے؟ اور اسلامی حکومت کے سامنے ایک صحیح ’’مجموعہ ٔقوانین اسلام‘‘ پیش کر کے تم نے اتمامِ حجت کیوں نہ کیا؟ تو غالب گمان یہ ہے کہ جہاں ارکانِ مملکت‘ اربابِ سیاست اور ادارہ تحقیقات اسلامی کے لوگوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا‘ وہاں علمائے اُمت بھی اس کی مسئولیت سے بری نہ ہو سکیں گے . اِلَّا مَنْ رَّحِمَ اللّٰہُ ! 

ج: 
ایک جمہوری ملک میں تہذیب و متانت اور خیر خواہی و دل سوزی کے ساتھ حکومت کو نیک مشورہ دینا کوئی شجرئہ ممنوعہ نہیں‘ بلکہ ایک اچھی روایت ہے اور علمائے امت پر تو ایک شرعی فریضہ کی حیثیت سے یہ لازم ہے کہ وہ اصلاحی مشورے دیں‘ لیکن علمائے اُمت کی ذمہ داری مجرد اس بات پر ختم نہیں ہو جاتی کہ وہ حکومت پر تنقید کر لیا کریں اور ’’یہ نہ کرو‘ وہ نہ کرو!‘‘ کا صرف وعظ کہہ لیا کریں‘ بلکہ انہیں آگے بڑھ کر حکومت کو یہ بھی بتلانا ہو گا کہ ’’یہ کرو!‘‘ ان کے پاس ایسا مرتب شدہ مجموعہ ٔقوانین ہوجسے دفعات کی شکل میں جدید طرز کی قانونی زبان میں مدوّن کیا گیا ہو اور شرعی حدود کے تقاضوں کی رعایت پوری طرح اس میں ملحوظ رکھی گئی ہو‘ نئے دور کی مشکلات کاشرعی حل پیش کیا گیا ہو‘ قرآن و حدیث ‘ اجماعِ اُمت اور اصولِ اجتہاد کی ٹھیک ٹھیک پابندی رکھتے ہوئے … اُمت کے لیے ممکن حد تک آسانی کی گنجائش باقی رکھی گئی ہو‘ پھر اس ’’مجموعہ قوانین اسلام‘‘ کو پوری بصیرت سے انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گےکہ ’’اسے اسلامی ریاست میں نافذ کرو!‘‘ اور اس وقت اربابِ اختیار بالفرض اسے نافذ نہ بھی کریں تو کم از کم علمائے اُمت عند اللہ اخروی مسئولیت سے تو بری ٔالذمہ ہو ہی جائیں گے اور داورِ محشر کی عدالت میں اوّلین و آخرین کے سامنے وہ اتنا تو کہہ سکیں گے کہ : 

’’یااللہ! اپنی فہم و بصیرت کی ممکنہ حد تک تیرے پاکیزہ قانون کو ہم نے آسان سے آسان تر صورت میں قوم کے سامنے پیش کر دیا تھا. اے اللہ! ہم اپنے ضعف اور اپنی ناداری کے باعث بس اتنا کام ہی کر سکتے تھے‘ لیکن قوت کے ساتھ اسے نافذ کرانا ہمارے بس سے باہر تھا. 

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾ 
(المائدۃ) 
’’اب آپ انہیں عذاب دینا چاہیں تو یہ تیرے بندے ہیں ‘اور اگر آپ ان کی بخشش فرما دیں تو بلاشبہ آپ زبردست ہیں حکمت والے ہیں.‘‘

اور کیا بعید ہے کہ حق تعالیٰ کسی وقت اربابِ اختیار کو اس کے نافذ کرنے کی توفیق ہی دے دیں (جہاں تک ہمیں معلوم ہے حکومت میں اب بھی اللہ کے ایسے مخلص بندے موجود ہیں‘ جو دل و جان سے اس بات کے متمنی ہیں کہ انگریزی قانون (جو جزوی ترمیمات کے ساتھ ہمارے یہاں رائج ہے) کی جگہ اسلامی قانون نافذ کیا جائے‘ چنانچہ صدرِ مملکت نے ادارۂ تحقیقات اسلامی اسی نیک مقصد کے لیے قائم کیا تھا کہ تدریجاً مروّجہ قانون کی دفعات کو اسلامی قانون میں ڈھال دیا جائے. یہ الگ بات ہے کہ اس ادارہ کے بعض ارکان کی الٹی ذہنیت نے اس کے مقاصد ہی کو الٹ کر رکھ دیا ہے اور صرف ’’مغربیت پر اسلام کی چھاپ‘‘ لگا دینے کے لیے ہی تمام الحادی اسلحہ استعمال کیا جانے لگا.) 

د: اس سلسلہ میں علمائے اُمت کے سامنے جو مشکلات ہیں اور جن دشوار گزار مراحل سے وہ گزر رہے ہیں‘ نکتہ چین لوگوں کو ان کا احساس ہویا نہ ہو‘ہمیں ان کا پوری طرح احساس ہے‘ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ زمانے کے دینی تقاضے ہماری مشکلات پر نظر رکھنے کے عادی نہیں ہیں‘ مقتضیاتِ وقت کی عدالت میں ہمارے اس عذر کی کوئی شنوائی نہیں کہ ہمارے پاس نہ تو اس کا م کے لیے باصلاحیت افراد کو فارغ کرنے کی ادنیٰ گنجائش ہے‘ اورنہ ہم اس کے لیے زرِکثیر فراہم کر سکتے ہیں. ’’قاضی ٔوقت‘‘ کا فیصلہ یہی ہے کہ تمہار ے پاس فرصت ہو یا نہ ہو‘ قوت ہو یا نہ ہو‘ سرمایہ ہو یا نہ ہو‘ بیٹھنے کی جگہ ہو یا نہ ہو‘ تمہیں یہ کام بہرحال کرنا ہوگا اور بغیر کسی دنیوی منفعت کے کرنا ہو گا‘ کیونکہ کرنے کا کام صرف گفت و شنید سے نہیں ہوتا‘ وہ تو بہرصورت کرنے ہی سے ہوتا ہے. گزشتہ چند سالوں سے ہندوستانی علماء نے ایک ’’ادارۂ تحقیقاتِ شرعیہ‘‘ قائم کر لیا ہے جس سے قارئین ’بینات‘ متعارف ہیں. لیکن بڑی ندامت کی بات ہے کہ پاکستانی علماء اب تک اپنا ’’ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘‘ قائم نہیں کر سکے جو ہر قسم کی سیاست بازی سے الگ رہ کر پوری ملت کی اس عظیم خدمت کو بجالاتا. ’فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ‘ یہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر کرنا چاہیے‘ نری جذباتیت سے مسائل حل نہیں ہو جاتے. 

لعمری لقد نبّھتُ من کان نائمًا
وأسمعتُ من کانت لہ اُذنان! 


(الامام الکشمیری)