اِن صفحات میں ہم مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب نمبر ۲ کا سلسلہ وار مطالعہ کریں گے جو خاص طور پر اقامت دین یا ’’اظہارُ دینِ الحقّ علی الدِّینِ کُلِّہٖ‘‘ کے لیے قائم ہونے والی اجتماعی قوت یا جماعت سے متعلق مسائل سے بحث کرتا ہے.ہمارا بنیادی منتخب نصاب جو ہماری پوری دعوت و تحریک کی اساس بنا ہے‘ اس سے آپ میں سے ہر شخص بخوبی واقف ہے. اس میں جہاں تک اوصاف کا تعلق ہے ‘ افراد میں جو اوصاف مطلوب ہیں ان کا ذکر اعمالِ صالحہ کے ضمن میں آتا ہے کہ ایمان کا جو نتیجہ انسان کے سیرت و کردار اور اس کے اعمال میں رونما ہونا چاہیے اور اس کے جن اثرات و ثمرات کا ظہور انسانی شخصیت میں ہونا چاہیے وہ کیا ہیں.

اس منتخب نصاب کے تیسرے حصّہ میں سب سے پہلے ہم نے انفرادی کردار اور انفرادی سیرت سے متعلق مقامات شامل کیے کہ ازروئے قرآن ایک فرد کی سیرت کن اساسات پر تعمیر ہو گی اور ایک پورے طور سے تعمیر شدہ انسانی شخصیت‘ تعمیر شدہ انسانی خودی‘ یا ایک پوری طرح 
mature انسان ‘جو قرآن کا انسانِ مطلوب ہے ‘اس کی شخصیت کے خدوخال کیا ہیں. چنانچہ ایک فرد کے اعتبار سے ابتدا اور انتہا ‘ یعنی بنیادی اوصاف اور تکمیلی اوصاف کو منتخب نصاب میں شامل کیا گیا. جہاں تک بنیادی اوصاف کا تعلق ہے سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور ان کی بالکل ہم مضمون سورۃ المعارج کی آیات کے حوالے سے ہم نے یہ سمجھا کہ وہ عمل صالح جو انسان کی شخصیت میں پیدا ہونا چاہیے ‘اس کی اساسات کیا ہیں. یعنی عمل صالح کے اعتبار سے شخصیت کی تعمیر کن بنیادوں پر ہو گی. پھر ایک بندۂ مؤمن کی پختہ اور پوری طرح تعمیر شدہ شخصیت کی جھلک ہمارے سامنے سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں ’’عباد الرحمن‘‘ کے اوصاف کی صورت میں آ گئی‘ جہاں ا س کی پوری طرح تکمیل شدہ و تیار (finished) او ر ہر اعتبار سے پختہ (mature) حالت کی کامل تصویر کشی کر دی گئی.

ہمارے اس منتخب نصاب کا حصّہ چہارم جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے مباحث پر مشتمل ہے. چنانچہ اس میں قرآن حکیم کے وہ مقامات شامل ہیں جن میں دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کی فرضیت واضح ہوتی ہے. اس جدوجہد سے جی کترانے کا جو نتیجہ نکلتا ہے‘ یعنی نفاق‘ اس کے اعتبار سے سورۃ المنافقون شاملِ نصاب کی گئی ہے. پھر یہ کہ اقامتِ دین یا غلبۂ دین کی جدوجہد کے ضمن میں اساسی منہاج سورۃ الجمعۃ میں بیان 
ہوا ہے. چنانچہ یہ مقامات اس میں شامل ہیں.

مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا حصّہ پنجم مباحث صبر و مصابرت پر مشتمل ہے. یہ حصّہ 
تواصی بالصبر سے متعلق ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد میں بندۂ مؤمن کو جو تکالیف و مصائب‘ ابتلاء ات اور آزمائشیں پیش آتی ہیں ان میں ثابت قدم رہنے کی ضرورت و اہمیت کے ضمن میں ہمیں قرآن مجید سے کیا ہدایات ملتی ہیں. لیکن اگر آپ غور کریں گے تو یہ بات سامنے آ جائے گی کہ وہاں ایک خلا رہ گیاتھا. اور وہ یہ کہ اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو اپنے اندر جو خصوصی اوصاف پیداکرنے لازم ہیں وہ کیا ہیں؟ اگر ان اوصاف میں کوئی کمی رہ گئی تو وہ ایک اچھا انسان توہو گا‘ اچھا مسلمان بھی ہو گا‘ اس کی شخصیت کے اندر ایک دلآویزی بھی پیدا ہو جائے گی‘ اور عبادالرحمن کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں وہ اپنے سیرت و کردار میں پیدا کر لے تو وہ یقینا اللہ کا محبوب بندہ بھی ہو گا اور وہ عبد الرحمن کہلانے کا مستحق ہو جائے گا‘ لیکن وہ اس جدوجہد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا. ہر سطح پر کچھ نئے تقاضے ابھر کر سامنے آتے ہیں. چنانچہ اقامت دین کی جدوجہد‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ اللہ کے دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کے ضمن میں جن اضافی اور خصوصی اوصاف کی ضرورت ہے ان کو ہم نے اس منتخب نصاب نمبر ۲ میں شامل کیا ہے اور اس طرح جو خلا وہاں رہ گیا تھا اُسے پورا کرنے کی کوشش کی ہے.

اسی طرح‘ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے‘ اقامت دین کی جدوجہد ایک انقلابی جدوجہد ہے. لہذا قیامِ جماعت‘ التزامِ جماعت‘ نظم کا قیام‘ امیر اور مأمور کا باہمی رشتہ جیسے موضوعات اس انقلابی جدوجہد کے لوازم میں سے ہیں. یہ موضوع از خود نہایت اہم ہے کہ اس جماعت کی بنیاد کیا ہے‘ اس کی اساس کیا ہے‘ یہ کس طرح وجود میں آتی ہے‘ اس کا دستور کیا ہے‘ اس میں امیر کے حقوق اور اس کے فرائض کیا ہیں‘ مأمورین کے حقوق و فرائض کیا ہیں اور ان کے باہمی مشورے کا نظام کیا ہو گا! اقامت دین کی جدوجہد کے ضمن میں یہ نہایت اہم موضوعات بھی ہمارے اس بنیادی منتخب نصاب میں موجود نہیں تھے. تو اصل میں اس خلا کو پُر کرنے کے لیے یہ منتخب نصاب (۲) ترتیب دیا 
گیا ہے‘ جسے آپ چاہیں تو اُ سی منتخب نصاب کا ضمیمہ یا تتمہ سمجھ لیں.

اِس منتخب نصاب کی ترتیب کے وقت میرے ذہن میں ایک پلان تھا‘ جس میں سب سے پہلی چیز یہ پیش نظر تھی کہ قرآن حکیم کی روشنی میں ہم پر واضح ہوجائے کہ دین کے ہم سے کیا تقاضے اور مطالبے ہیں!یعنی ہمارا دین ہم سے چاہتا کیا ہے! یہ چیز ہمارے سامنے رہے تو پھر ہم امکانی حد تک‘ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور تائید شاملِ حال ہوتی جائے‘ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمر بستہ ہوں . اس کی اہمیت پر میں نے بہت سے مواقع پر تقریریں کی ہیں اور دروس دیے ہیں‘ اس لیے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا .اگر یہ تصور ہی واضح نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ ہم کسی درمیانی منزل کو آخری منزل سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں. ورنہ ہمارے سامنے یہ بات تو رہے گی کہ عچلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی! اور یہ چیز ہمیں آگے سے آگے بڑھاتی رہے گی. لہذا ہمیں اپنی منزل متعین کرنی ہے اور بلند ترین ہدف کے اعتبار سے اس کا تعین کرنا ہے. باقی یہ کہ چلنا قدم بقدم ہے. اگر ہم نے کچھ سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر چڑھنے کی کوشش کی تو گرنے کا شدید اندیشہ ہے. چنانچہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں توازن کی ضرورت ہے. ایک تو یہ کہ منزل بلند ہو‘ اور دوسرے یہ کہ چلنے کے اندر جو بھی تدریج مطلوب ہے اس کو ہم نظر انداز نہ کریں. اور یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہونی چاہئیں. یہی وجہ ہے کہ اصلا ً اس منتخب نصاب (۲) کے درس اوّل کا عنوان ’’ فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ ہے اور یہ ہے اصل میں وہ ربط جو منتخب نصاب (۱) سے قائم ہوتا ہے‘ جس کا میں حوالہ دے چکا ہوں. اسی لیے یہاں پہلے سورۃ الحج کی آخری دو آیات کا ذکر ہے. یہ ہمارے منتخب نصاب کا ایک بڑا مرکزی درس ہے. 

مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا چوتھا حصہ جب شروع ہوتا ہے ‘تو اس حصے کا پہلا سبق یہی سورۃ الحج کا آخری رکوع ہے. اس کی پہلی چار آیات میں ایمانیات کی بحث ہے اور آخری دو آیات میں اب وہ تقاضے ہیں کہ اللہ چاہتا کیا ہے؟ چنانچہ ایک آیت میں تابڑ توڑ چار حکم ہیں: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ ’’اے ایمان والو! رکوع کرو‘ سجدہ کرو ‘ اپنے ربّ کی عبادت کرو اور بھلائی کے کام کرو‘‘. یہ ہمارے فرائض دینی کی اوّلین سطح ہے :اللہ کی بندگی‘ اچھے اعمال اور اچھے کردار کو اختیار کرنا اور رکوع و سجود. یعنی ارکانِ اسلام پر کاربندہونا.

اس کے بعد اگلی آیت میں دوسری منزل کا ذکر ہے. وہ دوسری منزل جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی منزل ہے. فرائض دینی کی پہلی سطح پر بھی لفظ ’’مجاہدہ‘‘ استعمال تو ہوتا ہے‘ مجاہدہ مع النفس نہیں کریں گے تو اللہ کے بندے کیسے بنیں گے؟ حرام سے کیسے بچیں گے؟ نفس کے خلاف جہاد کرنا ہے‘ لیکن اس کے لیے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح قرآن و حدیث میں نہیں ہے. وہ اپنے نفس سے مجاہدہ ہے‘ کشمکش ہے‘ تاکہ اسے اللہ کی اطاعت کا خوگر بنایا جائے. لیکن ’’جہادفی سبیل اللہ‘‘ جو ایک مستقل اور مکمل اصطلاح بنتی ہے‘ اُس کی پہلی منزل‘ جو فرائض دینی کے اعتبار سے دوسری منزل ہے‘ وہ شہادت علی الناس ہے. فرمایا: 
وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ’’جہاد کرو اللہ کے لیے جتنا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے‘‘. ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ ’’اس نے تمہیں چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی‘‘ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ’’قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر‘‘. ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا ’’اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)‘‘. آگے بیان کیا جا رہا ہے کہ اس جہاد فی سبیل اللہ کی غرض و غایت کیا ہے. اس کی غایتِ اولیٰ ہے: لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ ’’تاکہ رسول گواہ بنیں تم پر اور تم گواہ بنو پوری نوعِ انسانی پر‘‘.رسول اتمامِ حجت فرمائیں تم پر اور تم اتمامِ حجت کرو پوری نوعِ انسانی پر. تو یہ گویا کہ ہمارے فرائض دینی ہیں. یہ دوسری منزل متعین ہو گئی. اس پر تفصیلی درس دینا اس وقت مقصود نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ ہمارے منتخب نصاب (۱) کا اہم درس ہے‘ اس کے بے شمار کیسٹس موجود ہیں اور بہت مرتبہ آپ حضرات نے یہ درس خود مجھ سے براہِ راست بھی سنا ہو گا. اب اس کے بعد تیسری منزل آتی ہے‘ جس کے لیے ہمارے اس منتخب نصاب(۱) میں اہم ترین اصطلاح ’’اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ‘‘ ہے.

یعنی دینِ حق کو پورے کے پورے دین پر‘ پورے نظامِ زندگی پر غالب کر دینا. اس منتخب نصاب میں سورۃ الصف اسی موضوع پر مشتمل ہے اور یہ آیت اُس کا عمود ہے‘ main theme ہے‘ axis ہے‘ سنٹرل آئیڈیا ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ اللہ کے فضل وکرم سے اس پر نہ صرف میرے متعدد دروس موجود ہیں‘ بلکہ ’’نبی اکرم  کا مقصدِ بعثت‘‘ کے عنوان سے میری ۲۴ صفحات کی ایک تحریر صرف اس ایک آیۂ مبارکہ پر ہے‘ جس کے بارے میں الحمد للہ مجھے اطمینان ہے کہ اس تحریر میں اس آیۂ مبارکہ کا حق ادا ہو گیا ہے. قرآن حکیم کی شان یہ ہے کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوتے‘لہذا بعد میں آنے والوں کے لیے مزید راستے کھلے ہوں گے‘ لیکن اس وقت کی حد تک میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اس تحریر کے بارے میں مجھے بعد میں کوئی ایسا احساس نہیں ہوا کہ کوئی بات غلط لکھی گئی ہے یا کہیں کوئی بات قابل اصلاح رہ گئی ہے. اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی شخص کی نیت میں کھوٹ نہ ہو اور کوئی بغض و عناد‘ عداوت ‘ ہٹ دھرمی یا تعصب حائل نہ ہو جائے تو ان ۲۴ صفحات کے بعد اس آیت کے بارے میں کسی کے لیے بھی اشتباہ کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی کہ یہ دین کے تقاضوں میں آخری اور بلند ترین منزل ہے. یہی وجہ ہے کہ اب یہاں اس کا حوالہ سورۃ الصف کی طرف سے دے دیا گیا کہ سورۃ الصف میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لیے جہاد کرو‘ یہ مقصدِ بعثتِ محمدی ہے.لیکن ظاہر بات ہے اس کے لیے تن من دھن وہی لگائیں گے جو اہلِ ایمان ہیں‘جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے مدعی ہیں. چنانچہ فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 
تو یوں سمجھئے کہ اُس منتخب نصاب (۱) کی ان پانچ آیات (سورۃ الحج کی آخری دو آیات اور سورۃ الصف کی آیات ۹تا۱۱) کے ذریعے اِس منتخب نصاب (۲) کے ساتھ اس کا تعلق جوڑا گیا ہے‘ جیسے ریل کی دو بوگیوں کو انٹرلاک کیا جاتا ہے.