ان آیاتِ مبارکہ کے مطالعہ سے قبل ایک بات آپ آغاز ہی میں نوٹ فرما لیں. میرے مختلف دروس کے ذریعے سے بہت سے حضرات کے علم میں یہ بات آ چکی ہو گی کہ میرے قلب پر سورۃ الحدید کا انتہائی گہرا تأثر ہے اور میں مسلمانوں سے خطاب کے ضمن میں اس سورۂ مبارکہ کو قرآن مجید کا ذروۂ سنام سمجھتا ہوں‘ اور یہ ا س سے بھی ظاہر ہے کہ میں نے مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب (۱) کا حرفِ آخر سورۃ الحدید کو قرار دیا ہے. اس کا نقطۂ آغاز سورۃالعصر ہے اور حرفِ آخر سورۃ الحدید. میرے نزدیک جو مقام مدنی سورتوں میں سورۃ الحدید کا ہے بالکل وہی مقام مکی سورتوں میں سورۃ الشوریٰ کا ہے. اور ان دونوں میں بڑی عجیب مماثلت ہے.
سورۃ الشوریٰ حجم کے اعتبار سے سورۃ الحدید سے دوگنی ہے. اِس کی آیات ۵۳ ہیں‘ اُس کی ۲۹ ہیں. اور آپ دیکھیں گے کہ جس طرح سورۃ الحدید کی ابتدائی چھ آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کے ضمن میں نہایت اہم ہیں اور ان میں ذات و صفاتِ باری تعالیٰ اعلیٰ ترین علمی و عقلی سطح پر اور اعلیٰ ترین فلسفیانہ سطح پر زیر بحث آئی ہیں‘ اسی طرح (دوگنے حجم کے پہلو سے) سورۃ الشوریٰ کی ابتدائی بارہ آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ سے بحث کرتی ہیں اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور صفاتِ جلال کا بیان ہے. وہاں چھ آیات کے بعد ساتویں آیت میں تقاضا سامنے آتا ہے : اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ...یہاں بارہویں آیت کے بعد تیرہویں آیت اس تقاضے پر مشتمل ہے : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ . کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ وہ تو حقیقتِ کبریٰ ہے‘ وہ تو حقیقتِ مطلقہ ہے. لیکن اصل میں تمہاری نجات‘ تمہاری فلاح‘ تمہاری کامیابی کا دار و مدار اس پر ہے کہ ا س کو مانو جیسا کہ ماننے کا حق ہے اور اس کے حکم کو مانو جیسا کہ اس کے حکم کو ماننے کا حق ہے. اس کو ماننے کا حق کیا ہے؟ اس کا تقاضا کیا ہے؟ ایمان! چنانچہ فرمایا: اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر‘‘. اور اس کے حکم کو ماننا کیا ہے؟ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ ’’اور (اُس کی راہ میں) لگا دو‘ کھپا دو‘ صرف کر دو اُن سب چیزوں میں سے کہ جن میں اس نے تمہیں خلافت اور اختیار عطا فرمایا‘‘. سورۃ الحدید میں یہ انداز تھا. یہاں وہی چیز اقامتِ دین کی اصطلاح کے حوالے سے سامنے آئی : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ’’ کہ قائم کرو دین کو اور اس میں باہم تفرقہ مت ڈالو!‘‘
پھر یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ میزان کا لفظ کتاب کے ساتھ جڑ کر قرآن مجید میں صرف دو سورتوں میں آیا ہے‘ ایک سورۃ الشوریٰ اور دوسری سورۃ الحدید. یہاں فرمایا : اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ (آیت ۱۷) اور اسی انداز سے بریکٹ ہو کر یہ دو الفاظ سورۃ الحدید میں آئے ہیں : لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ کسی ا ور جگہ آپ کو یہ دو الفاظ اس طرح جڑے ہوئے نہیں ملیں گے. اور اس ضمن میں وہ اصول بھی پھر دوبارہ ہمارے سامنے آیا کہ اہم مضامین قرآن میں دو مرتبہ لازماً آتے ہیں. اس کی بھی گویا کہ ایک اور مثال آپ کے سامنے آ گئی.