اب آگے چلیے . فرمایا : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ جنہوں نے یہ مانا کہ تمہارے لیے دین وہی مقرر کیا جس کی نصیحت کی تھی نوح کو‘ ابراہیم کو‘ موسیٰ کو‘ عیسیٰ کو(علیہم الصلوٰۃ والسلام) انہوں نے اس سے آگے محذوف مانا کہ اس کے ضمن میں تم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کہ دین کوقائم رکھو یا قائم کرو‘ اور دین کے ضمن میں آپس میں متفرق مت ہو جاؤ. اور جن لوگوں نے یہ مانا ہے کہ آیت کے آغاز ہی سے مطلب یہ ہے کہ دین کے ضمن میں (دربارۂ دین) تمہارے لیے وہی بات طے کی گئی ہے جو سب کے لیے طے تھی‘ تو وہاں اب محذوف نہیں ماننا ہو گا اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ گویا اس کا بیان ہے کہ کیا چیز ہمیشہ سے عائد کی گئی تھی ‘ کیا چیز لازم کی گئی تھی‘ سب کو خطاب یہی تھا اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کہ دین کو قائم کرویا دین کو قائم رکھو. یہ بحث مَیں بعد میں کروں گا.ترکیب نحوی کے اعتبار سے جو دو متبادل آراء ہمارے ہاں موجود ہیں وہ دونوں میں نے بیان کر دی ہیں‘ اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ نتیجے کے اعتبار سے دونوں میں سرِ مو کوئی فرق نہیں.

اب آیئے اس پر کہ 
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کے معنی کیا ہیں! اس پر بدقسمتی سے اس زمانے میں ایک علامہ صاحب نے مورچہ لگایا ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے ایک کتابچے پرتائیدی مقدمہ اُن صاحب نے لکھا ہے کہ جو ’’اقامت دین‘‘ کی اصطلاح کو جماعت اسلامی کی تحریک میں متعارف کرانے والے تھے. ہوتا یہی ہے کہ جب کسی چیز سے کسی سبب سے کوئی بُعد ہو جائے‘ کوئی بغض پیدا ہو جائے تو اب معاملہ حبّ علی کا نہیں بلکہ بغض مُعاویہ کا ہوجاتا ہے. اب جو بھی اس کا مخالف ہو گاوہ اس کو اپنے سے قریب محسوس کرتے ہوئے اس کی تائید و توثیق کرنی شروع کر دے گا. اس کی بدترین مثال اِس دَور میں مولانا اصلاحی صاحب نے قائم کی ہے اور میرے نزدیک ؎ 

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

اس شعر کا اس معاملے میں صد فی صد اطلاق ہوتا ہے.اس لیے کہ خود انہوں نے پورے قرآن مجید میں ترجمہ وہی کیا ہے جس کو وہ علامہ صاحب غلط قرار دے رہے ہیں. اُن علامہ صاحب کی تو ہمیں کوئی پروا نہیں ہے‘ لیکن مولانا اصلاحی صاحب کا ایک علمی مقام ہے اور بڑا افسوس ہوتا ہے اس پر کہ عمر کے آخری درجے میں آدمی اپنے کیے دھرے پر پانی پھیرنے پر تل جائے. (۱اصلاحی صاحب یا تو صاف صاف تسلیم کر لیتے کہ اس معاملے میں میرا سابقہ موقف غلط تھا اور آج مجھے اِنشراح ِ صدر ہو گیا ہے‘ لیکن معاملہ یہ بھی نہیں. بہرحال چونکہ اسے بہت سے لوگوں تک پہنچایا گیا ہے اور اس ضمن میں کافی اشکالات ذہنوں میں پیدا کیے گئے ہیں‘ لہذا اِس وقت یہ ہماری ایک جماعتی‘ تنظیمی اور تحریکی ضرورت ہے کہ اس جنگل کو صاف کیا جائے . اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کا جو ترجمہ سب نے کیا وہی اصلاحی صاحب نے بھی کیا ’’ کہ اس دین کو قائم رکھو‘‘. یہ لفظ سورۃ المائدۃ میں بھی آیا ہے‘ وہاں بھی اصلاحی صاحب نے اس کا ترجمہ ’’قائم کرو‘‘ کیا ہے‘ ملاحظہ ہو آیت ۶۸ :


قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ
’’کہہ دو :اے اہل کتاب! تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے جب تک تم تورات‘ انجیل اور اُس چیز کو قائم نہ کرو جو تمہاری طرف تمہارے ربّ کی جانب سے اتاری گئی ہے‘‘. (تدبر قرآن)

یعنی اصلاحی صاحب نے ایک جگہ ’’قائم رکھنا‘‘ اور ایک جگہ ’’قائم کرنا‘‘ ترجمہ کیا ہے 
(۱) واضح رہے کہ یہ دروس اُس دَور کے ہیں جب مولانا امین احسن اصلاحی بقید حیات تھے. اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے. کوئی چیز اگر بالفعل قائم نہیں ہے تو قائم کی جائے گی‘ قائم ہے تو قائم رکھی جائے گی.مثال کے طور پر خیمہ گرا ہوا ہے تو اسے کھڑا کیا جائے اور اگر کھڑا ہے تو کھڑا رکھا جائے . اگر آندھی آ رہی ہے تو اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے کہ خیمہ گر نہ جائے. اس کے کھونٹے خوب اچھی طرح مضبوط کر دیے جائیں‘ اس کی رسیاں خوب کس دی جائیں‘ کوئی رسی کمزور ہو تو اس کو بدل دیا جائے. ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جھکڑ بہت زوردار آ رہا ہو تو لوگ خیمے کی طنابیں اور بانس پکڑ کر کھڑے رہیں. یہ سارے کام اس لیے ہیں کہ خیمے کو کھڑا رکھنا ہے. اور اگر وہ گر جائے تو لامحالہ اب اس کو از سر نو کھڑا کرنا ہو گا. تو ’’اَقِیۡمُوا ‘‘ فعل متعدی ہے‘ اس کا ترجمہ یہی ہو گا کہ کسی دوسری شے کو کھڑا کرنا یا کھڑا رکھنا. لیکن آج ہمیں یہ نیا ترجمہ بتایا جا رہا ہے کہ اس کے معنی تو ہیں ’’کھڑا رہنا‘ قائم رہنا‘‘. گویا کہ یہ فعل لازم ہے. اس کے لیے بہت سے جاہلی اشعار سے استدلال کیا گیا ہے اور اس میں بھی بڑی چالاکی اور بددیانتی سے کام لیا گیا ہے. ایک شعر میں اقامت کے بعد ’’عَلٰی‘‘ کا صلہ آیا ہے‘ اس سے تو معنی یقینا بدل جائیں گے‘ کیونکہ preposition سے verb کے مفاہیم بدل جاتے ہیں. to give کے معنی اور ہیں ‘ to give up کے معنی کچھ اور ہیں ‘ to give in کے معنی کچھ اور ہیں. preposition بدلنے سے تو معنی میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو جاتا ہے. اب سارے پڑھنے والے اتنی باریک بینی سے تو پڑھیں گے نہیں. تو یہ ایک دھوکے کے علاوہ کچھ بھی نہیں. ایک جگہ لفظ استقامۃ آیا ہے‘ اس کے معنی ہم بھی مانتے ہیں کہ ’’کھڑے رہنا‘‘ کے ہیں. 

یعنی اقامت کس شے کی ہے؟ کوئی معنوی شے ہے‘ کوئی مادی شے ہے جسے کھڑا کرنا ہے‘ کوئی ستون گرا ہوا ہے اسے کھڑا کرنا ہے. یہ اقامت ہے. نماز معنوی شے ہے‘ اس کو کھڑا کرنا ہے‘ اس کو قائم کرنا ہے. ہمیں ہمیشہ سے یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ اقامت صلوٰۃ سے مراد صرف نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ نماز کے پورے نظام کو اس کے شرائط و آداب کے ساتھ قائم کرنا ہے . جمعہ اور جماعت کا نظام‘ اس کے لیے اذان کا 
معاملہ‘ یہ ساری چیزیں بھی اقامت صلوٰۃ میں شامل ہیں .تو اقامت کے معنی کھڑا کرنا یا کھڑا رکھنا کے ہیں‘ اگرچہ اس کا شاذ استعمال کھڑا ہونے کے لیے بھی ہو جاتا ہے .

اچھا اب اس میں ایک اور بات پر غور کیجیے! اگر ہم یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ ’’قائم رہو دین پر‘‘ تو سوال پیدا ہو گا دین کے معنی کیا ہیں؟ کیااس کا مطلب جزوی دین پر قائم رہنا ہو گا یا کلی دین پر قائم رہنا؟ اگر کلی دین پر قائم رہنا ہے تو پھر بھی اقامت دین فرض ہو گی‘ کیونکہ صرف عبادات اور اعتقادات ہی پر تو قائم نہیں رہنا ہے.کیا شریعت دین کا جزو ہے یا نہیں؟ کیا حلال اور حرام کے احکام دین کا جزو ہیں یا نہیں؟ کیا حدود و تعزیرات دین کا جزو ہیں یا نہیں؟ اگر یہ سب کچھ دین میں شامل ہے تو ’’قائم رہو دین پر‘‘ ٹھیک ہے .اس پورے دین پر قائم رہنا ہے توا س کے ایک تقاضے اور منطقی نتیجہ کے طور پر دین کو ایک کامل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنا از خود شامل ہو جائے گا. تو وہ ترجمہ کریں تب بھی نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے‘ بشرطیکہ آپ کا دین کا تصور محدود نہ ہو. اگر آپ کا تصور ِدین صرف عقائد اور عبادات تک محدود ہے تو اور بات ہو جائے گی. پھر تو آپ نے اپنے عقائد درست کر لیے‘ عبادات پر کاربند ہو گئے تو گویا کہ آپ دین پر قائم ہو گئے . لیکن اگر آپ کا تصورِ دین یہ ہے کہ دین تو اس سے وسیع تر شے ہے‘ دین پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو پھر اگر کوئی شخص 
اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ کا یہ ترجمہ کرنے پر تل ہی جائے تب بھی قرآن مجید اپنے مفاہیم کی حفاظت کر سکتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی:

لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ (حٰمٓ السجدۃ:۴۲)
’’باطل اس پر حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا‘ نہ سامنے سے نہ پیچھے سے‘‘.

کچھ کم علم لوگ‘ یا جن کی نیتوں میں خلل ہو جائے‘ کچھ لوگوں کو کچھ عرصہ کے لیے مغالطے اور اشتباہ میں ڈال دیں تو یہ بات اور ہے‘ ورنہ قرآن تو اپنی اتنی حفاظت کرتا ہے کہ چلو کر لو دین پر قائم رہنے کا ترجمہ ‘تب بھی نتیجہ وہیں پہنچے گا. تمہارے لیے اس سے مفر نہیں‘ کہ اس کا بھی ایک لازمی تقاضا دین کو قائم کرنا ہے.