اب یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے اور اس میں آپ کو بہت گہری ہدایت اور رہنمائی ملے گی کہ تفرقہ اور اختلاف دو بالکل الگ چیزیں ہیں اور ان میں باہم خلط مبحث نہیں ہونا چاہیے. اوّل تو ان دونوں الفاظ میں فرق ہے. اسی سورۂ مبارکہ کی آیت ۱۰ میں اختلاف کا ذکر ہے. فرمایا : وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ ’’تمہارے مابین جس معاملے میں بھی اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ ہے اللہ کے حوالے‘‘. اختلاف ایک لفظ ہے اور تفرقہ ایک دوسرا لفظ. اختلاف ہماری زبانوں میں ہے‘ ہمارے مزاجوں میں ہے‘ ہماری رنگتوں میں ہے‘ ہمارے افتادِ طبع میں ہے. ؏ ’’ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘.اور بقول شاعر ؏ 

’’ اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!‘‘

اختلاف تو اس فطرت کی تخلیق کے اندر جزولاینفک کی حیثیت سے مضمر ہے. اصل میں قرآن جہاں مذمت کرتا ہے وہ تفرقے کی کرتا ہے. ایک دوسرے سے کٹ جانا‘ جدا ہوجانا‘ من دیگرم تو دیگری. یہ نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اختلاف کو برداشت 
کرو‘ اپنے سینے کشادہ رکھو‘ اپنے دلوں کو کشادہ رکھو. جہاں تک اختلاف جائز حدوں میں ہو اس کے لیے گنجائش خود پیدا کرو. میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کی گنجائش حضور نے خود پیدا فرمائی ہے. آپؐ نے نماز میں کبھی ہاتھ سینے پر باندھے اور کبھی ناف پر.کبھی ہاتھ کھول کر بھی لازماً نماز پڑھی ہو گی‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ امامِ دار الحجرت امام مالکؒ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے! یقینا یہ چیزیں حضور سے ثابت ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ کس کس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے. البتہ تفرقہ نہ ہو جائے کہ ’’من دیگرم تو دیگری! ‘‘

مختلف فقہی مسالک کے مابین فقہی اختلافات موجود ہیں. ہر فرقہ کے استنباط کے کچھ اصول ہیں‘ جن کے اعتبار سے ایک فرق کیا جا رہا ہے. اس میں کسی کا کوئی اختلاف قطعاً نہیں ہے کہ شارع حقیقی اللہ اور اس کے رسول ہیں. لیکن اصولِ استنباط میں اختلاف ہو گیا. اب ان اصولوں کا انطباق کیا گیا تو مختلف فقہی مسالک وجود میں آگئے. اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلک حنفی‘ مسلک شافعی‘ مسلک حنبلی اور مسلک مالکی کے اعتبار سے آپ علیحدہ علیحدہ رہیں. یہ کفر اور شرک نہیں ہے‘ جبکہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ اصل میں شارع حقیقی اللہ ہے اور اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے اللہ کا رسول ہے.اگر کسی نے یہ سمجھا کہ شارع کی حیثیت ابوحنیفہ ‘ شافعی‘ مالک یا احمد بن حنبل (رحمہم اللہ) کو حاصل ہے تو وہ مشرک ہو جائے گا. لیکن جب استنباط‘ استدلال اور استنتاج کے مختلف اصولوں اور اسلوبوں کے فرق سے مسلک کا اختلاف ہو جائے تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں .یہ تفرقہ نہیں کہلائے گا. البتہ جہاں یہ اختلاف توحید تک پہنچ جائے اور اللہ کے سوا کسی اور کو مستقل شارع مان لیا جائے تو یہ تفرقہ ہو گا‘ اسی طرح اللہ کی بجائے جمہور حاکم ہوں تو یہ تفرقہ ہو گیا. اللہ کی بجائے کوئی فرد حاکم ہے تو یہ تفرقہ ہو گیا. جب تک وہ بات قائم ہے‘ وہ توحید اصلی کہ حاکم مطلق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے تو اس سے نیچے نیچے اختلاف 
تفرقہ فی الدین نہیں شمار ہو گا. یعنی توحید جو قدرِ مشترک ہے‘ جو دین کی اساس ہے‘ جو دین کی جڑ ہے اس میں تفرقہ نہ ہو. 

وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ’’فِیۡہِ ‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر مجروردین سے متعلق بھی ہے کہ اس دین کے بارے میں متفرق نہ ہو جاؤ اور اس کا تعلق اقامت دین سے بھی ہے کہ دین کے قائم کرنے میں متفرق نہ ہو جاؤ! میں ابتدا سے جو دو ترجمے لے کر چل رہا ہوں ان کے اعتبار سے یہ دوسرا مفہوم ہو گا. پہلا مفہوم یہ ہو گا کہ دین تمہارے لیے ایک ہی مقرر کیا گیا ‘ اس میں متفرق نہ ہوجاؤ. اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دین کے ضمن میں تم سب پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ اسے قائم کرو‘ اس فرض کی ادائیگی میں متفرق نہ ہو! حنفی‘ مالکی‘ حنبلی‘ شافعی اور اہل حدیث کا اختلاف اپنی جگہ رہے‘ لیکن اقامت دین میں آکر سب جڑ جائیں. توحید عملی کے قیام میں تفرقہ نہ ہو. یہاں اگر کٹ گئے تو یہ ہے اصل کاٹ‘ یہ ہے اصل تفرقہ. تو ان دونوں اعتبارات سے میں بات کو مکمل کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں.

یہی لفظ (تفریق) دین کو پھاڑنے کے لیے بھی قرآن میں آیا ہے 
اِنَّ الَّذِیۡنَ فَرَّقُوۡا دِیۡنَہُمۡ وَ کَانُوۡا شِیَعًا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ ؕ (الانعام:۱۵۹’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں‘‘. کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اگر وہاں سے تفرقہ ہو گیا کہ حاکمیت خداوندی کے تصور کو اگر کہیں کوئی زک پہنچ گئی یا وہ مجروح ہو گیا تو یہ تفرقہ اور تفریق دین ہو گا. حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف جو یہ الفاظ منسوب ہیں کہ ’’جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو‘‘ یہ تفریقِ فی الدین ہے. میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ان الفاظ کا وہ مطلب نہیں سمجھتا لیکن جو مطلب سمجھا جاتا ہے وہ تو دین میں تفریق ہو گئی. آپ نے دین کو پھاڑ دیا کہ دین کا ایک حصہ اللہ کے لیے اور ایک حصہ قیصر کے لیے. یہ بلاشبہ دین کی تفریق ہے. سیکولرزم بھی دین کی تفریق ہے کہ جو احوالِ شخصیہ ہیں ان میں ہم دین پر چلیں گے‘ مگر جو احوالِ اجتماعیہ ہیں ان میں لوگوں کی جو مرضی ہو گی اس کے مطابق قانون سازی ہو گی. وہاں گویا کہ حاکمیت انسانی تسلیم کی جاتی ہے. البتہ مسلکوں کا جو اختلاف ہے اُس کے اوپر اس کا اطلاق درست نہیں ہے. اس میں دین پھٹتا نہیں ہے‘ دین برقرار رہتا ہے‘ سب اللہ ہی کو حاکم مانتے ہیں‘ سب اسی کوشارع اصلی مانتے ہیں. میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ یہ چیزیں اس وقت بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی ہیں.