اس سلسلے میں آگے جو دوباتیں آ رہی ہیں یہ حکمتِ قرآنی کا بہت اہم موضوع ہے. فرمایا:
اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾
’’اللہ تعالیٰ کھینچ لیتا ہے اپنی طرف جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو اُدھر رجوع کرتا ہے‘‘.
یہ حق کی طرف آنے کے دو مختلف راستے ہیں. صوفیاء نے اس کے لیے مستقل اصطلاحات وضع کی ہیں: ’’سالک مجذوب‘‘ اور ’’مجذوب سالک‘‘. ایک وہ ہوتا ہے جسے اللہ پہلے کھینچ لیتا ہے اور پھر اس کی تربیت فرماتا ہے‘ اس کو راستے طے کراتا ہے . اور ایک وہ ہوتا ہے جو بے چارہ خود چل کر آتا ہے‘ قدم بقدم خود سفر طے کر کے آرہا ہوتا ہے‘ وہ از خود دستک دے رہا ہوتا ہے کہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے کہ خوش آمدید! تم چل کر آئے ہو‘ تم نے محنت کی ہے‘ تم نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں! ان اصطلاحات کا انطباق کریں تو ’’سالک مجذوب‘‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں اور ’’مجذوب سالک‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں‘ جو نکلے تو تھے قتل کرنے کے ارادے سے‘ اللہ نے کیا شکل پیدا کی کہ راستے ہی میں کھینچ لیا.یہ ہیں دو راستے! تو اے محمدؐ ! آپ مطمئن رہیے! ان میں سے جسے ہم چاہیں گے کسی وقت کھینچ لیں گے. اور ان میں سے کوئی رفتہ رفتہ قدم بڑھاتے ہوئے آئے گا .ان کے اندر جو بھی کسی درجے میں بھی حق کا جویا اور متلاشی ہے اور ابھی وہ اپنی ہمت کو مجتمع نہیں کر پا رہا‘ ہم اس کو ہمت عطا فرما دیں گے. جس پر حق تومنکشف ہو گیا‘ آگے بڑھنا چاہتا ہے‘ لیکن مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ کے مصداق اب برادریاں ہیں‘ رشتہ داریاں ہیں‘ تعلقات ہیں‘ دوستیاں ہیں‘ ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے‘ پچیس پچیس برس‘ تیس تیس برس بیت گئے ہیں‘ اب ایک دم ان میں سے آدمی کیسے نکل آئے ‘جیسے کہ دودھ میں سے مکھی نکل آتی ہے‘ یہ بڑی مشکل بات ہے‘ بہت کٹھن مرحلہ ہے ان تمام بیڑیوں کو کاٹ کر نکل آنا. تو اس کے لیے اطمینان کے ساتھ منتظر رہیے. جس کو ہم چاہیں گے‘ جب چاہیں گے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیں گے اور پھر اُسے راستہ طے کرا دیں گے. اور جو کوئی ان میں سے ایسا ہے کہ جس پر حق منکشف ہو رہا ہے‘ طبیعت مائل ہو رہی ہے‘ اس کی بیڑیوں کو رفتہ رفتہ کاٹ دیں گے.