وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ ’’اور وہ لوگ کہ جو اِن کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کتاب کے بارے میں بڑے اضطراب انگیز شک میں مبتلا ہیں‘‘. وہ ایسے شک میں پڑے ہیں کہ جو ان کے دلوں میں خلجان اور الجھن پیدا کر رہا ہے. یہ ایک بہت اہم مضمون ہے. دیکھئے‘ آپ کے علم میں ہو گا کہ شاہ اسماعیل شہید اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے مابین ایک خالص علمی بحث کا آغاز ہو گیا تھا اور اس میں ابتذال کسی طرف سے نہیں تھا‘ دونوں علم‘ منطق اور فلسفے کی تلواروں سے لڑ رہے تھے. لیکن اس کا نتیجہ دو نسلوں کے بعد کیا نکلا؟ یہ کہ آج آپ کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ایک کثیر تعداد دین ہی سے برگشتہ ہو گئی ہے کہ یہ ان مولویوں کا حال ہے ‘ یہ ان چیزوں پر لڑتے ہیں! ان کا قرآن ایک‘ ان کا رسول ایک‘ ان کا کعبہ ایک‘ اور پھر ان کے مابین سر پھٹول ہے‘ کفر کے فتوے ہیں! پھر یہ ہے ان کا حال جو ہو رہا ہے. اس سے ایک نتیجہ نئی نسل کے اندر دین ہی سے بے اعتباری کی صورت میں نکلتا ہے . یہ ہے وہ بات جو یہاں کہی گئی ہے .علماء جب اس کیفیت میں مبتلا نظر آتے ہیں اور جب وہ جغادری لوگ جو دین کے ٹھیکے دار اور دین کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں‘ ان کا حال یہ نظر آتا ہے تو اگلی نسل کے لوگ جو وارث ہوتے ہیں وہ کتاب ہی کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں. وہ سوچتے ہیں کہ قرآن تو کہتا ہے کہ یہ جمع کرنے والی شے ہے‘ مگر ہمارے یہ علماء قرآن پڑھتے ہیں اور پھٹے ہوئے ہیں. قرآن کہتا ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے‘ یہ نمازیں پڑھنے پڑھانے کے بہت پابند ہیں مگر کردار ان کا یہ ہے! یہی چیز ہے جو لوگوں کو دین سے برگشتہ کر دیتی ہے اور لوگ خود کتاب اللہ ہی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں.

مطلب یہ ہوا کہ اے نبیؐ ! جو آپؐ کے سامنے اہل کتاب ہیں‘ یہ بس نام کے اہل کتاب ہیں‘ ان سے آپؐ کوئی اچھی توقع نہ رکھئے. جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں فرمایا : 
وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ (آیت ۱۲۰’’ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے نہ یہود نہ نصاریٰ جب تک کہ آپؐ ان کے طریقے کی پیروی نہ کریں‘‘. سارا جھگڑا تو یہ ہے .یہ کبھی نہیں مانیں گے‘ کبھی آپ سے راضی نہیں ہوں گے. یعنی آپؐ کو ان کی مخالفت کے علی الرغم آگے بڑھنا ہے. اس کے لیے آپ ذہناً تیار رہیے. اگر آپؐ ان سے کوئی امید وابستہ کر لیں گے تو ناامیدی ہو گی ‘ صدمہ ہو گا. اور اگر آپؐ امید پہلے ہی منقطع کر دیں تو صدمہ نہیں ہو گا.

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی! 

جب توقع ہی نہیں تو پھر صدمہ نہیں ہو گا‘ اعصا ب پر تناؤ نہیں آئے گا. تو دراصل حضور کو دونوں گروہوں کے بارے میں بتا دیا گیا. اس کی تأویل عام کے لیے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا‘ اس کا انطباق اور اطلاق آپ خود کر سکتے ہیں. یہ سارے کیریکٹر ہر دَور میں موجود رہے ہیں اور ہمارا دَور کوئی استثنائی دَور نہیں ہے.