اب چلیے‘ اس حال میں کرنا کیا ہے !فرمایا : فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ ’’پس آپ اسی (دین) کی دعوت دیتے رہیں!‘‘ اب دیکھئے ‘ یہاں خطاب جمع کے صیغے سے نہیں ہے‘ واحد کے صیغے سے ہے. اس سے پہلے ایک فعل امر (اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ ) اور ایک فعل نہی (وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ) جمع کے صیغے میں آ چکے ہیں. اس لیے کہ یہ کام ایک آدمی کے کرنے کا نہیں ہے‘اس کے لیے مددگار درکار ہیں. اب آپ دیکھئے ‘یہ بھی ایک لطیف نکتہ ہے کہ صیغہ کیوں بدل گیا؟ وہاں جمع کیوں ہے اور یہاں واحد کیوں آ گیا؟ آپ یوں سمجھئے کہ یہ جو اَب احکام آ رہے ہیں‘ یہ اصلاً حضور کے لیے ہیں‘اور تبعاً ہر اُس شخص کے لیے جو بھی تاقیامِ قیامت اُمت محمدؐ میں سے اسی کام کو لے کر داعی کی حیثیت سے اٹھے گا. اس داعی کو اس ساری صورتِ حال کا مقابلہ کرنا پڑے گا. اس کا سامنا جن لوگوں سے ہو گا ان میں اس اُمت کے مشرکین بھی ہوں گے اور اس اُمت کے یہود و نصاریٰ بھی ہوں گے. اور یہ یہود و مشرکین اس کی دشمنی میں اسی طرح شدید ترین ہوں گے جیسے قرآن حکیم میں فرمایا گیا : لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ (المائدۃ:۸۲’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے‘‘. چنانچہ تمام لوگوں میں سب سے شدید دشمن حضرت محمد اور اس دین کے یہودی تھے‘ حالانکہ ان کو توقریب ترین ہونا چاہیے تھا‘ اس لیے کہ ان کے ہاں علم کا چرچا تھا‘ ان کے ہاں فقہاء تھے‘ عالم تھے‘ قاضی تھے‘ مدینہ میں ان کی شرعی عدالتیں تھیں‘ لیکن بدترین دشمن وہ ہوئے‘ اور آج تک ہیں. تو ان حقائق کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے. تو یہاں اب اصلاً خطاب ہے محمدٌ رسول اللہ سے صیغہ واحد میں‘ اور تبعاً یہ خطاب ہر اُس شخص سے ہے جو بھی کبھی تاقیامِ قیامت اُمت محمد میں سے ایک داعی کی حیثیت سے اسی کام کا بیڑا اٹھاکر کھڑا ہو گا. کسے باشد. 

وہ خطاب کیا ہے : 
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ ’’تو اسی کی دعوت دیتے رہو‘‘. ’’ذٰلِکَ‘‘ اسم اشارہ ہے ‘ اس کا مشارٌ الیہ کیا ہے؟ اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ یعنی اقامتِ دین کی دعوت دیتے رہیے. آپ کم پر سودا نہ کیجیے گا. کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ دباؤ سے متأثر ہو کر مداہنت اختیار کر لیں. سورۃ القلم میں فرما دیا تھا : فَلَا تُطِعِ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۸﴾وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾ کہ اے نبیؐ ! آپ ان جھٹلانے والوں کی باتوں میں نہ آیئے! یہ تو چاہتے ہیں کہ آپؐ ذرا ڈھیلے پڑیں تو یہ بھی ڈھیلے ہو جائیں. .They have tested your metal وہ پوری طرح ٹھونک بجا کر آپؐ کو دیکھ چکے ہیں کہ آپؐ جھکنے والے نہیں ہیں‘ اور کسی تشدد‘ دباؤ یا کسی لالچ سے آپؐ کو جھکایا نہیں جا سکتا.لہذا اب وہ پوری کوشش کریں گے کہ کوئی معاہدہ ہو جائے‘ کوئی لے دے کر صلح ہو جائے اور کچھ تو آپؐ کو اپنے مقام سے کھسکائیں. یہی بات سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۷۳تا۷۵) میں بایں الفاظ فرمائی گئی:

وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳
’’(اے نبی!) یہ تو اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ آپ کو بچلا کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے تاکہ آپ ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ لیں. (اس سے کم پر کوئی مصالحت کر لیں‘ کچھ give & take کا معاملہ کر لیں) اور اگر آپ کہیں ایسا کر لیتے تو وہ ضرور آپ کو اپنا دوست بنا لیتے‘‘.

اس طرح ان کا جھگڑا ختم ہو جاتا‘ اس لیے کہ ان کی اصل لڑائی تو اس قرآن سے ہے‘ آپؐ سے تو ان کی کوئی شخصی لڑائی نہیں ہے.

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾ 
’’اور اگر ہم نے ہی آپ کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو بعید نہ تھا کہ آپ ان کی طرف کسی درجے میں جھک ہی جاتے‘‘. 

اِذًا لَّاَذَقۡنٰکَ ضِعۡفَ الۡحَیٰوۃِ وَ ضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیۡنَا نَصِیۡرًا ﴿۷۵﴾ 
’’اور اگر کہیں ایسا ہو جاتا تو پھر ہم آپ کو دوہری سزا دیتے دنیا کی اور دوہری سزا دیتے موت کی‘ پھر ہمارے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہ پاتے‘‘.

لہذا یہاں فرمایا: اے نبیؐ ! فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ ’’پس آپ اسی کی دعوت دیتے رہیے اور اسی پر مضبوطی سے ڈٹے رہیے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘. یہاں اب جس چیز کا حکم دیا جا رہا ہے وہ اقامت نہیں‘ استقامت ہے اور میں کہا کرتا ہوں کہ اس استقامت میں ایک قیامت مضمر ہے. آپ اپنی دعوت پر جمے رہیں‘ کوئی آپ کو ہلا نہ سکے‘ آپ کو اپنے موقف سے بال برابر اِدھر سے اُدھر منحرف نہ کر سکے‘ جھکا نہ سکے‘ مداہنت پر آمادہ نہ کر سکے‘ کسی معاملے میں نرم نہ کر سکے. آپ کی کیفیت یہ ہو نی چاہیے جو اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ اور اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے.لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک چٹان ہے جس کو ہلایا نہیں جا سکتا‘ اس کو کہیں بھی جھکنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا. یہ ہے اصل میں داعی کا مطلوبہ کردار. 

وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ ’’اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے‘‘. اس کا کوئی سوال نہیں تھا کہ حضور ان کی خواہشات کی پیروی کرتے‘ لیکن پھر بھی اصولی طور پر وارننگ دے دی گئی‘ اس لیے کہ یہ ہدایت صرف حضور کے لیے نہیں‘ ہمارے لیے بھی تو یہی ہدایت ہے نا! حضورکے لیے یہ چیز اگر خارج از بحث بھی ہو جائے تو بعد میں آنے والے کسی داعی کے لیے تو خارج از بحث نہیں ہے کہ وہ کسی مداہنت یا compromise پر آ جائے‘ کہیں کوئی شارٹ کٹ نکالنے پر آ جائے‘ کہیں اپنے اصولوں کے اندر کتر بیونت کرنے پر آ جائے ‘تو یہ اس کے لیے راہنمائی ہے. یہاں بھی ’’اتباع‘‘ کا لفظ آیا ہے جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۲۰ میں آیا ہے : وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ ان کی کیا ملت ہے! ان کی تو خواہشات ہیں‘ ملت تو یہ ہے‘ دین یہ ہے‘ حق یہ ہے جو آپؐ پر نازل ہوا ہے. اب اگر یہ آپؐ پر دباؤ ڈال رہے ہیں‘ آپ کو pressurize کر رہے ہیں تو کس چیز کی طرف؟ اپنی خواہشِ نفس کی طرف!

وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ ’’ اور(ڈنکے کی چوٹ)کہہ دیجیے مَیں تو ایمان رکھتا ہوں اس کتا ب پر جو اللہ نے نازل فرمائی‘‘. یہاں یہ ’’مِنۡ ‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے کہ کتاب کے ایک حصے پر ایمان رکھتا ہوں‘ بلکہ یہ مِنْ بیانیہ ہے‘ یہ ’’بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ‘‘ کا بیان ہے‘ یعنی وہ کتاب جو اللہ نے نازل فرمائی ہے‘ میرا ایمان تو اس پر ہے‘ میں اس پر ڈٹا ہوا ہوں‘ میں اس سے نہیں ہٹوں گا. اسی قرآن سے تو وہ آپ کو بچلانے کی فکر میں تھے‘ اسی کے لیے وہ زور لگا رہے تھے‘ تاکہ آپؐ (معاذ اللہ)کوئی چیز اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر دیں. یہی بات سورۂ یونس (آیت ۱۵) میں بھی آئی کہ اے نبیؐ ! وہ آپ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ ’’اس کے بجائے کوئی اور قرآن لایئے یا اس میں کچھ ترمیم کیجیے‘‘. قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ ’’کہہ دیجیے کہ میرے لیے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے جی سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں‘‘. اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ ’’میں تو بس اُسی وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے‘‘. میں تو خود وحی ٔ الٰہی کا پابند ہوں. میں تو خود عبد ہوں‘ معبود تو نہیں ہوں‘ میں حاکم تو نہیں ہوں‘ میں تو اللہ کا محکوم ہوں‘ لہذا میں وحی ٔ الٰہی میں ترمیم کیسے کر دوں؟ وہی بات یہاں فرمائی جا رہی ہے : وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ ’’اورکہہ دیجیے میرا پختہ یقین ہے اس پر جو اللہ نے نازل فرمایا‘ یعنی کتاب‘‘. البتہ اس کتاب میں قرآن بھی شامل ہے اور تورات اور دوسری آسمانی کتب کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو وحی ٔ الٰہی پر مشتمل ہے. ان سب پر ہمارا ایمان ہے‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ.