آگے فرمایا: وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ ’’اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ تمہارے مابین عدل کروں‘‘. اس ضمن میں آپ کو متداول تفاسیر میں تھوڑا سا ابہام ملے گا. اکثر مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ ’’لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ‘‘ سے مراد یہود اور نصاریٰ کے مابین عدل ہے کہ ان کے جو تفرقے تھے ان میں کون کس معاملے میں حق پر ہے. یعنی مجھے حکم ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ میں تمہاری پیروی کروں‘میں تو خود تمہارے معاملے میں عدل اورانصاف کرنے آیا ہوں. اس مفہوم کا تعلق آیت ماسبق (آیت ۱۴) سے جڑ جاتا ہے : وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ کہ اگر ایک وقت معین نہ ہو گیا ہوتا اور بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ابھی ان کا قصہ چکا دیا جاتا. لیکن اے نبیؐ آپ کہہ دیں کہ میں تمہارے مابین عدل کر سکتا ہوں‘ میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیا درست ہے‘ کیا باطل ہے! یہود کس معاملے میں غلط چلے گئے ہیں اور نصاریٰ نے کس معاملے میں غلو کیا ہے‘ اُن کی گمراہی کیا ہے‘ تمہاری غلطی کیا ہے. تو اس مفہوم کے اندر بھی بالکل کوئی حرج نہیں ہے .لیکن میرے نزدیک اس ’’عدل‘‘ کا تعلق بھی اقامت دین سے ہے‘ کہ دین اس لیے آیا ہے کہ لوگ عدل پر قائم ہوں.

میں نے درس کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ سورۃ الشوریٰ اور سورۃ الحدید میں گہری مماثلت ہے اور یہ کہ 
’’الکتاب‘‘ اور ’’المیزان‘‘ کے دو الفاظ جمع ہو کر قرآن مجید میں صرف ان دو سورتوںمیں آئے ہیں. چنانچہ اس سورۂ مبارکہ کی اگلی آیت (نمبر۱۷) میں یہ الفاظ آرہے ہیں: اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ اور سورۃ الحدید (آیت ۲۵) میں ارشاد ہوا : لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘. ہم نے قرآن نازل کیا‘ دوسری کتابیں نازل کیں‘ رسول بھیجے‘ شریعتیں نازل کیں اور میزان اتاری آخر کس لیے؟اس لیے کہ اسے نصب کرو! دین اس لیے دیا کہ اسے قائم کرو! شریعت اس لیے دی کہ اسے نافذ کرو! حدود اس لیے دیں کہ ان کا اجراء کرو! اگر یہ نہیں کرتے ہو تو یہ سب کھیل ہے‘ تماشا ہے‘ hobby ہے‘ پیشہ ہے‘ کاروبار ہے! تو یہ سمجھ لیجیے کہ اقامت دین کا اصل مقصد اقامتِ عدل و قسط ہے. لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ’’تاکہ لوگ عدل پر کاربند ہوں‘‘ اور اگر کوئی اس میں آڑے آتا ہے تو بگڑے تگڑوں کے علاج کے لیے ہم نے تلوار بھی اتاری. وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ ... چنانچہ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ کا مفہوم سمجھنے کے لیے سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کو یہاں مندرج مانیے. یہ عدل صرف نصاریٰ اور یہود کے مابین نہیں ہے‘ یہ عدل تو طبقات کے مابین ہے‘ یہ عدل مرد اور عورت کے مابین ہے‘ یہ عدل جماعت اور فرد کے مابین ہے‘ یہ عدل اجتماعیت اور انفرادیت کے مابین ہے‘ یہ عدل سرمائے اور محنت کے مابین ہے‘ یہ عدل حکومت اور شہریوں کے مابین ہے. چنانچہ ہر اعتبار سے عدل و توازن اورمیزان کو نصب کرنے اور عدل وقسط کے نظام کو قائم کرنے کے لیے آئے ہیں محمدٌ رسول اللہ . گویا محمدٌ رسول اللہ کا اعلان یہ تھا کہ تم مجھے محض واعظ نہ سمجھو‘ میں تمہارے مابین عدل قائم کرنے کے لیے آیا ہوں.

ایک واعظ کی دعوت اور رسول کی دعوت میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ وعظ کہنے والا وعظ کہتا ہے‘ لفاظی کے جوہر دکھاتا ہے‘ اپنے اسلوبِ بیان کا لوگوں کو نظارہ کراتا ہے اور پھر وہ اپنا راستہ لیتا ہے. اگلی منزل پر پہنچ کر وہ پھر اپنا وعظ کہتاہے. لوگ اس کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ لوگوں سے یہ نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو جاؤ‘ اپنے سودی کاروبار چھوڑ دو! اگر یہ کہے گا تو اسے کون حلوہ کھلائے گااور کون نذرانے پیش کرے گا؟ واعظ کا کام یہ ہے کہ بات کہی اور 
’’وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلَاغُ‘‘ پر ختم کر دی. اب تم جانو اور تمہارا کام‘ ہم تو جا رہے ہیں.لیکن نبی ورسول کی دعوت اور وہ دعوت جوعلیٰ منہاج النبوۃ ہو گی وہ بنیادی طور پر مختلف ہے. اس لیے کہ وہ تو عدل قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘جیسا کہ سورۃ النساء میں ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ (آیت ۱۳۵’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار‘ اللہ کے لیے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ!‘‘ جبکہ سورۃ المائدۃ میں یہی بات ان الفاظ میں فرمائی گئی : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ (آیت ۸بات ایک ہی ہے‘ ترتیب بدل گئی. مضمون وہی ہے‘ ترتیب عکسی ہو گئی.