اب آگے خطاب کا جو انداز آ رہا ہے اس میں ان لوگوں کے لیے جو دین کے خادم ہونے کے مدعی ہوں ‘بہت بڑا سبق ہے. ہم بچپن میں مُٹھیوں پر مُٹھیاں رکھ کر کھیل کھیلا کرتے تھے ’’ آم والے آم دے آم ہیں سرکار کے ہم بھی ہیں دربار کے‘‘. تو اس جدوجہد میں ہم کوئی غیر تھوڑا ہی ہیں! تم دین کا کام کر رہے ہو تو ہم بھی کر رہے ہیں .دین کی خدمت تم بھی کر رہے ہو ‘ ہم بھی کر رہے ہیں! تو اس کی نفی نہ کیجیے‘ اس کو recognize کیجیے کہ اگر تم بھی واقعتا دین ہی کا کام کر رہے ہو تو ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں ہے. یہ انداز نہ ہو کہ تم کہاں سے دین کے نئے نویلے ٹھیکے دار آگئے؟یہ ضرور ہے کہ طریق کار میں اختلاف ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر دین ہی کے لیے تم کام کر رہے ہو اور دین ہی کے لیے ہم کر رہے ہیں تو جھگڑا کا ہے کا؟ تو فرمایا : اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ ’’اللہ ہی ہمارا ربّ بھی ہے اور تمہارا ربّ بھی!‘‘ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ ’’ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال‘‘. اگر ہم سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو ان کا وبال تم پر نہیں جائے گا اور تم اگر صحیح راستے پر ہو تو تمہارا اجر و ثواب تمہی کو ملے گا‘ اس میں سے ہم حصہ نہیں بٹوا سکیں گے. لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ ’’ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘آپس میں کوئی دلیل بازی‘ کوئی جھگڑا ‘ کوئی فساد‘ کوئی ایک دوسرے کو اڑنگا لگانا آخر کس لیے؟ 

اس آیت میں دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم ہونے والی جماعت یا تنظیم کے لیے یہ ہدایت ہے کہ اس مقصد کے لیے جو بھی دوسری ہم عصر دینی تنظیمیں اور تحریکیں کام کر رہی ہوں ان کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے. اس ضمن میں یہ قرآن حکیم کا اہم ترین مقام ہے. 
اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ ’’اللہ ہی ہمارا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے‘ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں‘ ہمارے اور تمہارے مابین کوئی جھگڑا نہیں ہے‘‘. تم جو محنت کر رہے ہو اگر صحیح ہے تو اس کا اجر و ثواب تمہی کو ملے گا‘ ہم اس میں سے کچھ claim نہیں کر سکتے اور اگر ہم کوئی غلط کام کر رہے ہیں تو اس کا وبال ہم پر ہی آئے گا‘ تم پر نہیں جائے گا. تو جھگڑا کاہے کا ہے!یہ آپس کی حجت بازی‘ آپس میں سر پھٹول‘ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہونا‘ آپس میں بحث و تکرار‘ آپس میں مناظرہ اور مجادلہ آخر اس کاکیافائدہ!

اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا فرما دے گا‘‘ .عجیب نکتہ ہے کہ یہاں ’’یَجْمَعُنَا‘‘ نہیں فرمایا کہ ’’اللہ ہمیں جمع کر دے گا‘‘ .اس مفہوم کے لیے یہاں ’’بَیۡنَنَا ‘‘ کی ضرورت ہی نہیں تھی .بلکہ ذرا سا فصل کر دیا کہ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا کر دے گا‘‘. اس میں اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ ایک ہوتا ہے جماعتوں کا یاافراد کا جمع ہو جانا‘ متحد ہو جانا‘ جبکہ ایک ہوتا ہے کام کا کسی ایک کھاتے میں جمع ہوتے رہنا. اگر تم بھی دین کا کام کر رہے ہو اور ہم بھی کر رہے ہیں تو کام تو جمع ہو رہا ہے!مثال کے طور پر دیکھئے کہ اگر کوئی نوجوان جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے دین کے قریب آ گیا اور کوئی دوسرا تبلیغی جماعت کے ذریعے دین کے قریب آ گیا تو دونوں صورتوں میں کام تو دین ہی کا ہوا. یہ جماعتیں اگر اتحاد نہ کریں‘ جمع نہ ہوں‘ پھر بھی کام تو جمع ہو رہا ہے. کم از کم اس بات کو اپنے ذہن میں رکھو تو باہم دست و گریبان ہونے میں وقت ضائع نہیں کرو گے. اگر ہمارا ہدف ایک ہے اور اہم ایک ہی منزل کی طرف جا رہے ہیں تو جتنا آگے بڑھیں گے قریب تر آئیں گے. بہت سی جماعتوں اور تنظیموں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم دین کا کام کر رہے ہیں‘ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم بھی دین کا کام کر رہے ہیں‘ تو ہدف تو ایک ہوا نا! توفرض کیجیے اس وقت ہماری approaches مختلف ہیں‘ ہم مختلف راستوں سے اس ہدف پر جا رہے ہیں‘ لیکن اگر ہدف ایک ہے تو جتنا آگے بڑھیں گے‘ قریب تر ہوں گے یا بعید تر ہوں گے؟ 

اس کے لیے میں منیٰ اور عرفات کی مثال دیا کرتا ہوں. آپ اندازہ کریں کہ پچیس تیس لاکھ افراد منیٰ سے عرفات کی طرف 
move کر رہے ہیں. تقریباً چھ میل کا فاصلہ ہے اور وقت بڑا محدود ہے جس میں وہاں پہنچنا ہے. جو وہاں پہنچنے سے رہ گیا اس کا حج ہی رہ گیا. اس لیے کہ ازروئے حدیث نبویؐ اَلْحَجُّ عَرفَۃُ (۱حج تو نام ہی عرفہ کا ہے.کوئی اور چیز رہ جائے تو اس کی تلافی ہو سکتی ہے‘ لیکن عرفہ کا وقوف نہیں کیا تو حج ہی نہیں ہوا. اُس وقت کیا قیامت ہوتی ہے! یہی وجہ ہے کہ وہاں پر اب چھ چھ‘ آٹھ آٹھ سڑکیں بنا دی گئی ہیں جو مختلف راستوں سے جا رہی ہیں. کوئی اس پہاڑ کے اُدھر (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الحج‘ باب ما جاء فیمن ادرک الامام بجمع فقد ادرک الحج سے جا رہی ہے‘ کوئی اس پہاڑکے اِدھر سے جا رہی ہے‘ کوئی اس پل کے نیچے سے نکل رہی ہے. پھر وہ سڑکیں بھی اتنی چوڑی چوڑی ہیں کہ فٹ بال کے گراؤنڈ معلوم ہوتے ہیں. ان میں سے ہر ایک کے اوپر ایک اژدھام چل رہا ہے. قافلے رواں دواں ہیں. پیدل جانے والوں کے لیے الگ راستے مختص ہیں اور ٹریفک کے لیے الگ سڑکیں ہیں. جو قافلے پیدل جا رہے ہیں انہوں نے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر اس قافلے کے لوگ جمع رہیں. تو اگرچہ وہ قافلے جدا ہیں‘ ان کے عَلَم جدا ہیں‘ سڑکیں جدا ہیں‘ لیکن منزل سب کی ایک ہے. تو اس concept کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ جھگڑا کاہے کا ہے‘ لڑائی کاہے کی ہے‘ دنگا فساد کی کیا ضرورت ہے. اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ ’’اللہ ہمارے مابین جمعیت پیدا فرما دے گا‘‘.

وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵﴾ ’’اور اُسی کی طرف (سب کو) جانا ہے‘‘. اگر ہم یہاں نہ بھی جمع ہوئے تو قیامت کے میدان میں تو جمع ہوں گے ہی! وہاں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا. کیوں بے صبرے ہو رہے ہو؟کیا ضروری ہے کہ سارے قضیے یہیں چکا دیے جائیں! آخر میدانِ حشر میں بھی تو جمع ہوں گے. لوٹنا تو اللہ ہی کے پاس ہے. وہاں تو ہم جمع ہو کر ہی رہیں گے. 

تو اب یہ جمعیت کے تین درجے ہو گئے: (۱) ہم علیحدہ علیحدہ رہتے ہوئے اپنے اپنے طور پر کام کر رہے ہیں تو کام اسلام ہی کے حق میں جمع ہو رہا ہے. (۲) اگر ہم بھی آگے بڑھیں اور آپ بھی آگے بڑھیں‘ چاہے اپنے اپنے طریقہ کار پر بڑھیں‘ فاصلہ تو لازماً کم ہو گا اور کیا عجب کہ ہم‘ 
physically بھی جمع ہو جائیں. (۳) اور یہاں جمع نہ ہوئے تو وہاں قیامت میں تو جمع ہونا ہی ہے. وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون کتنے پانی میں تھا‘ کون واقعی اسی ہدف کو معین کر کے چل رہا تھا .تو بے صبری کی ضرورت نہیں. یہ تین آیات (۱۳تا۱۵) میرے نزدیک اقامتِ دین کے موضوع پر قرآن مجید کا ذروۂ سنام یعنی کلائمکس ہیں.