اب ہم اس سورۂ مبارکہ کی آیات ۴۷‘ ۴۸ کا مطالعہ کرتے ہیں جو اسی درس کا حصہ ہیں: 

اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ ﴿۴۸﴾ 
ارشاد ہوا : اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ ’’لبیک کہو اپنے ربّ کی بات پر!‘‘ یہاں پھر جمع کا صیغہ آ گیا ہے. ایک اہم بات نوٹ کر لیجیے کہ ۵۳ آیات پر مشتمل اس سورۂ مبارکہ میں‘ جو پانچ رکوعوں میں منقسم ہے‘ فعل امر جمع کے صیغے صرف ان ہی دو مقامات پر آئے ہیں. ابھی تک پوری سورت میں جمع کے صیغے میں اُمت یا مسلمانوں سے خطاب کے لیے صرف ایک امر اور ایک نہی آیا ہے. یعنی اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ اب اِس امر اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ کا تعلق اسی سے ہے. آپ نوٹ کیجیے کہ سورۃ الشوریٰ پوری کی پوری خبریہ کلام پر مشتمل ہے اور انشائیہ کلام اس پوری سورت میں صرف ان دومقامات پر آیا ہے. جمع کے صیغے سے آیت ۱۳ میں ایک امر اور ایک نہی‘ اور یہاں آیت ۴۷ میں ایک امر. جبکہ حضور کے لیے واحد کے صیغے سے آیت ۱۵ میں تین امر اور ایک نہی. یہ کل انشائیہ کلام ہے اس پوری سورت میں‘ باقی سارا کلام خبریہ ہے. لہذا اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ کا تعلق اسی امر و نہی سے ہو گا : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ یہ ہے وہ قول‘ وہ پکار‘ وہ ذمہ داری جو تم پر عائد کی گئی ہے. اب فرمایا: لبیک کہو اپنے ربّ کی پکار پر! قبول کرو اپنے ربّ کی دعوت کو! استجابت اور اجابت دونوں کے معنی ایک ہیں. اللہ پکار رہا ہے‘ آؤ اس کی پکار پر لبیک کہو‘ آغاز کرو‘ بسم اللہ کرو‘ کھڑے نہ رہو‘ گومگو میں نہ رہو‘ تذبذب میں نہ رہو‘ تأخیر نہ کرو ‘معاملے کو تعویق میں نہ ڈالو. یہی تأخیر اور تعویق تباہ کن ہے. آخر تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ قدم بڑھاؤ‘ دعوت قبول کرو‘ لبیک کہو اپنے ربّ کی پکار پر!

دیکھئے‘ اس میں کہیں یہ حکم نہیں آیا کہ نماز پڑھو‘ یا روزہ رکھو ‘یا زکو ٰۃ دو یا حج کرو! ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلّمہ ہے‘ لیکن غور کیجیے کہ یہاں 
اِسۡتَجِیۡبُوۡا کا معنی کیا ہے ؟اللہ تعالیٰ کی وہ کون سی پکار ہے جس پر یہاں لبیک کہنے کی دعوت دی جا رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی وہ پکار آیت ۱۳ میں ہمارے سامنے آ چکی :اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کہ قائم کرو دین کو اور اس دین کے بارے میں یا اس دین کی اقامت کے بارے میں متفرق مت ہو! تفرقے‘ تفرقے میں فرق ہے‘ بازی بازی باریش بابا ہم بازی! 

اب یہاں جو اپیل ہے اس کو صرف اپنے ان ظاہری کانوں سے نہیں‘ دل کے کانوں سے سنئے! اس کا مخاطب میں بھی ہوں‘ آپ بھی ہیں‘ ہر مسلمان ہے. فرمایا: 
اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ ’’لبیک کہو اپنے ربّ کی پکار پر اس سے پہلے پہلے کہ اللہ کی طرف سے وہ دن آ دھمکے جس کے ٹلنے کی پھر کوئی صورت نہیں‘‘. یہاں ترکیب دراصل یوں ہے : ’’اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ مِنَ اللّٰہِ لَا مَرَدَّ لَہٗ‘‘ لیکن قرآن کی اپنی ایک موسیقی اور اپنا ایک آہنگ (rhythm) ہے جس میں الفاظ کی تقدیم و تأخیر کا معاملہ ہو جاتا ہے.اللہ کے حکم سے جب وہ دن آ دھمکے گا تو پھر کوئی اس کا لوٹانے والا نہیں ہو گا. وہ دن جب آ جائے گا تو لوٹایا نہیں جائے گا. سورۃ المنافقون کی آخری آیت میں الفاظ آئے ہیں : وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۱﴾ ’’اور اللہ ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا کسی کوجب اُس (کی مہلتِ عمل پوری ہونے) کا وقت آ جاتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ خوب باخبرہے اس سے جو تم کرتے ہو‘‘. آیت زیر مطالعہ میں یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ سے قیامت صغریٰ یعنی ہماری موت بھی مراد ہے اور قیامت کبریٰ بھی جس کو ہم یومِ قیامت کہتے ہیں. 

مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ ’’نہیں ہو گی تمہارے لیے اُس دن کوئی جائے پناہ اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے والا ہو گا‘‘.اُس دن تمہارے لیے کوئی ملجا‘ کوئی مأویٰ‘ کوئی ٹھکانہ‘ کوئی پناہ گاہ‘ کوئی جائے فرار نہیں ہو گی. ’’مَلۡجَا‘‘ کہتے ہیں جہاں آدمی جا کر کسی کی پناہ لے لیتا ہے. یہ لفظ ایک مأثور دعا میں بڑی عجیب شان سے آیا ہے. آپ نے یہ منظر دیکھا ہو گا کہ بچے کو اگر ماں مار رہی ہو تو بچہ بھاگتا نہیں ہے‘ بلکہ ماں ہی سے لپٹتا ہے. ماں اگرچہ مار رہی ہے‘ لیکن وہ جائے کہاں! کس در پہ جائے؟ اس کا تو ملجا اور مأویٰ وہی ہے .حدیث میں الفاظ آئے ہیں : لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ اِلَّا اِلَـیْکَ (۱یعنی اے اللہ! تجھ سے بچ کر جائیں کہاں سوائے تیری ہی پناہ میں آنے کے؟ تجھ سے بھاگ کر کوئی جائے پناہ کہاں تلاش کی جا سکتی ہے؟کوئی ملجا‘ کوئی مأویٰ‘ کوئی ٹھکانہ‘ کوئی پناہ گاہ تجھ سے بھاگ کر جانے کی نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ تیرے ہی دامنِ عفو کے اندر آ کر پناہ لیں!

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں!

کہاں جاؤں‘ کس دروازے پر دستک دوں؟ کوئی ہے ہی نہیں! تو یہ ہے وہ بات کہ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ اُس دن کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا. اور حقیقت یہ ہے کہ ٹھکانہ تو آج بھی کوئی نہیں ہے‘ لیکن آج کچھ سراب نظر آ رہے ہیں جو ہم نے خواہ مخواہ اپنے جی سے گھڑ لیے ہیں. کچھ شفاعت باطلہ کے تصورات ہیں‘ کچھ اور چیزوں کو ہم نے اپنے ذہنوں کے اندر پناہ گاہیں بنایا ہوا ہے. اُس روز حقیقت کھل جائے گی کہ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ ’’نکیر ‘‘ سے مراد ہے کوئی نکیر کرنے والا ‘کوئی انکار کرنے والا‘ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا. آپ کے کسی پڑوسی کو پولیس پکڑ کر لے جائے تو آپ تھانے جا کر پوچھتے ہیں کہ بھئی اسے کیوں پکڑا ہے‘ کیا مسئلہ ہے‘ کیا معاملہ ہے؟ لیکن اُس روز تمہارا کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہو گا. تمہارے حق میں کوئی کچھ کہنے والا‘ کوئی باز پرس کرنے والا‘ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا بھی نہیں ہو گا. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب اذا بات طاھرا وفضلہ.وصحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع.

رسول کی ذمہ داری صرف ابلاغ ہے

آگے فرمایا: فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ ’’اب اگر یہ لوگ مُنہ موڑتے ہیں تو (اے نبیؐ !) ہم نے آپ کو اِن پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘. اگر یہ سب کچھ سن کر پی جائیں‘ ہضم کر جائیں‘ ٹس سے مس نہ ہوں‘ تو بھی اے نبیؐ ! آپ ملول نہ ہوں‘ غمگین نہ ہوں‘ ہم نے آپؐ کو اِن پر نگران بنا کر نہیں بھیجا‘ ہم نے آپؐ کو ان کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا‘ ان کو اپنی جواب دہی خود کرنی ہو گی‘ آپؐ ان کی طرف سے مسئول نہیں ہیں. اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ ’’نہیں ہے آپؐ پر سوائے پہنچا دینے کی ذمہ داری کے‘‘. آپ پر صرف بات پہنچادینے کی ذمہ داری ہے. آپؐ نے پہنچا دیا‘ حق ادا کر دیا‘ اب آپ بَری ہیں‘ کوئی مانے گا تو اپنے لیے‘ نہیں مانے گا تو اپنے لیے. جس نے خیر کمایا اپنے لیے اور جس نے شر کمایا اپنے لیے. لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ہاں اگر ابلاغ کا حق آپؐ ادا نہ کریں تو آپؐ جواب دہ ہوں گے. آپؐ نے ابلاغ کا حق ادا کر دیا‘ آپؐ بَری ٔالذمہ ہیں‘ اب ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے‘ وہ اللہ کے ہاں جواب دہی کرے گا. 

اعراض کا اصل سبب . نقطۂ نظر کی غلطی

اس اعراض کا اصل سبب کیا ہے! آدمی اس طرف کیوں نہیں آتا؟ اس لیے کہ دنیا کی نعمتوں اور دنیا کی تکالیف کے بارے میں اس کے ذہن میں ایک غلط تصور بیٹھا ہوا ہے. فرمایا : وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً فَرِحَ بِہَا ۚ ’’اورانسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو اس پرپھول جاتا ہے‘‘. جب ہم اسے اپنے خاص خزانۂ فضل سے کچھ رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں‘ فراوانی ہے‘ عیش ہے‘ آرام ہے‘ سکون ہے تو اترانے لگتا ہے‘ پھولے نہیں سماتا. ہم سے غافل ہو جاتا ہے‘ آخرت سے غافل ہو جاتا ہے.

وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَاِنَّ الۡاِنۡسَانَ کَفُوۡرٌ ﴿۴۸﴾ ’’اور اگر ان کے اپنے ہی کرتوتوں کی پاداش میں اُن پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے تو پھر یقینا انسان انتہائی ناشکرا بن جاتا ہے‘‘. پھر وہ انتہائی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے‘ اس کی کمر ہمت ٹوٹ کر رہ جاتی ہے. میں ایک مثال دیا کرتا ہوں‘ میں نے سنا تھا کہ یوپی کے مشرقی حصے پُرب کے لوگ جو پُربیے کہلاتے ہیں‘ کسی زمانے میں ان کے ہاں یہ رواج تھا کہ چوبیس گھنٹے میں صرف دوپہر کے وقت ایک ہی کھانا کھاتے تھے. اب آپ خود سمجھ لیجیے کہ صرف دوپہر کے وقت چوبیس گھنٹے کے لیے کھاتے تو خوب ٹھونس ٹھونس کر کھاتے تھے. لہذا شام تک تو پیٹ میں سخت گرانی رہتی تھی‘ اور اگلی صبح اٹھتے ہی سخت بھوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا. تو ان کے ہاں یہ محاورہ تھا ’’ آدھا دن دھاپت مرت‘ آدھا دن بھوکت مرت‘‘. یعنی ایک عذاب ہے کہ آدھا دن تو شکم سیری سے مر رہے ہیں‘ اس سے پیٹ میں ایک بے چینی ہے‘ گرانی ہے اور آدھا دن بھوک سے مر رہے ہیں. صبح سے جو بھوک لگنی شروع ہوئی تو دوپہر تک برداشت کرنی پڑ رہی ہے. تو یہی حال ہے کہ کثرت ہوئی تو مرت اور تکلیف آ گئی تو مرت. نہ اِدھر کام کے رہے نہ اُدھر کام کے رہے. فراوانی ہوئی تو غافل ہو گئے‘ ا ترا رہے ہیں‘ اکڑ رہے ہیں ‘ دندنا رہے ہیں اور کہیں مصیبت آ گئی تو ناشکری پر ا تر آئے ہیں کہ کیا کریں جی‘ ہمارے تو یہ مسائل ہیں‘ ہمارا تو معاش کا معاملہ ہے‘ ہم کیا کریں‘ ہم دین کا کام کیسے کر سکتے ہیں! یہ ہے اصل میں اس نقطۂ نظر کی غلطی. صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ سب امتحان ہیں‘ آزمائشیں ہیں‘ ہمت کرو‘ بسم اللہ کرو‘ قدم بڑھاؤ‘ اللہ آسانی کرے گا‘ تیسیر کرے گا. وہ تمہیں وہاں سے دے گا جہاں سے تمہیں گمان تک نہیں‘ ازروئے الفاظِ قرآنی: وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ (الطلاق:۳اور اگر اپنے حالات کو دلیل کے طور پر اپنے سامنے رکھ کر کھڑے رہ گئے تو پھر کھڑے رہ گئے! پھر تو آپ خس و خاشاک کی مانند ہوا میں اڑ گئے یا پانی میں بہہ گئے. اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس سے بچائے! 

ooبارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم‘ ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیمoo