نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ (الفتح) ... صدق اللہ العظیم 

اس منتخب نصاب (۲) کا اصل موضوع ’’اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی جماعت کے اوصاف اور اس کے تنظیمی مسائل‘‘ ہے . چنانچہ اس موضوع سے متعلق قرآن مجید کے کچھ مقامات منتخب کر کے اس میں شامل کیے گئے ہیں. اس کے اوّلین دو مقامات درحقیقت اُس پہلے اور اصل منتخب نصاب اور اِس دوسرے منتخب نصاب کے مابین نقطۂ اتصال ہیں اور ان کے باہمی ربط کو ظاہر کر رہے ہیں . سورۃ الحج کی آخری دو آیات میں شہادت علی الناس کا تصور ہمارے سامنے آیا: لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ ’’تاکہ رسولؐ گواہ ہو جائے تم پر اور تم گواہ ہو جاؤ لوگوں پر‘‘. اور شہادت علی الناس کی ذمہ داری کو ادا کرنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جہاد کا ذکر آیا : وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ ’’جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے. اس نے تمہیں (اس مقصد کے لیے) چن لیا ہے.‘‘ درحقیقت اب اس کا تعلق سورۃ الصف سے جڑ رہا ہے جس میں نہ صرف جہاد بلکہ قتال کا تصور دیا گیا ہے. سورۃ الصف کی مرکزی آیات یہ ہیں: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 

چنانچہ ازروئے قرآن جہاد فی سبیل اللہ کا پہلا ہدف ہے ’’شہادت علی الناس‘‘ اور دوسرا ہدف ہے ’’اظہارُ دینِ الحقّ علی الدِّینِ کُلِّہٖ‘‘ یعنی دین حق کو کُل کے کُل دین پر غالب کر دینا. سورۃ الصف ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے اور متذکرہ بالا آیات اس کی مرکزی آیات ہیں‘ لہذا اس ضمن میں ہمارے منتخب نصاب کے دروس میں پورے شرح و بسط کے ساتھ بیان ہو جاتا ہے. پھر یہ کہ ان آیات میں سے پہلی آیت‘ جس کو ایک روایت کے مطابق امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے پورے قرآن مجید کا عمود قرار دیا ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ اس پر اللہ کے فضل و کرم سے نہ صرف ہمارے منتخب نصاب کے دروس میں تفصیل موجود ہے‘ بلکہ بڑی طویل بحثیں موجود ہیں.