سورۃ الصف کی مرکزی آیت کا زیر مطالعہ آیت سے ربط و تعلق

اب اصل میں اس آیہ ٔمبارکہ کا سورۃ الفتح کی آخری آیت سے جو ربط و تعلق ہے اس درس میں اس پر گفتگو ہو گی. اقامت دین اور غلبۂ دین کی جو یہ جدوجہد ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ یہ جدوجہد کس نے کی؟ اور وہ لوگ کن اوصاف کے حامل تھے؟ یہ اس آخری آیت کا مضمون ہے اور ہمارے اِس منتخب نصاب نمبر ۲ کے ساتھ منتخب نصاب نمبر ایک کاربط اب یہاں سے قائم ہو رہا ہے. 

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ پہلے تو اس کی ترکیب کے بارے میں جو اختلاف ہے اس کو سمجھ لیں. ایک رائے یہ ہے کہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ‘‘ ایک مکمل جملہ ہے اور ’’وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ‘‘ سے ایک جملہ مستانفہ شروع ہو جاتا ہے. یعنی یہاں سے ایک نئی بات کا آغاز ہو رہا ہے اور اس جملے کا سابقہ جملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں. چنانچہ اس صورت میں ترجمہ ہو گا :’’محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘. یہ جملہ اسمیہ خبریہ ہے. ’’محمد‘‘ مبتدأ اور ’’رسول اللہ‘‘ مضاف‘ مضاف الیہ مل کر خبر ہو گئی‘ جملہ کامل ہو گیا.اگلے الفاظ سے نیا جملہ شروع ہو گا : ’’اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں...‘‘ دوسری رائے کی رو سے ترجمہ ہو گا: ’’اللہ کے رسول محمدؐ اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں‘‘. معطوف اور معطوف علیہ جمع ہو کر مبتدا بنیں گے‘ جبکہ خبر بعد میں آئے گی اور وہ ہے ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘. خبر اوّل ہو گی ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ ‘‘ اورخبر دوم ہو گی ’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ اور یہ سلسلہ آگے چلے گا .تو یہ پورا معاملہ خبر کا ہو جائے گا. یعنی اللہ کے رسول محمد ( ) اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں ان کے یہ یہ اوصاف ہیں.
اگر پہلی رائے قبول کی جائے تو یوں بات ہو گی کہ جہاں تک تعلق ہے محمد کا وہ تو اللہ کے رسول ہیں ہی. گویا کہ وہ تو تمام کمال و محاسن کے جامع ہیں‘ ان کے بارے میں تو کچھ کہنے کی احتیاج ہے ہی نہیں‘ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب. ان کے خصائص‘ اوصاف ‘ محاسن اور کمالات از خود روشن ہیں. مزید اُن کے کسی ذکر کی حاجت نہیں‘ صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ’’محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘. جیسے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘. تو گویا کہ ایک جملے میں وہ ساری بات آ گئی اور جتنی بھی ان کی مدح ہو سکتی تھی وہ اس میں ہو گئی کہ ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں.‘‘ اب اس پر مزید کسی اور شے کے اضافے کی کوئی احتیاج نہیں. اب جو اوصاف بیان ہو رہے ہیں ان کے حامل حضور کے ساتھی ہیں.یہ آپ ؐ کی جماعت کے افراد کے 
اوصاف ہیں جن کو یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے . ظاہر بات ہے کہ جب تمام کمال و محاسن محمدٌ رسول اللہ کی ذاتِ گرامی میں جمع ہیں تو یہ اوصاف بھی بدرجہ اَتم‘ بدرجۂ کمال آپ کے اندر بھی موجود ہیں. اس اعتبار سے اگر ان دونوں کو مبتدأ بنا لیا جائے تو خبر میں بھی دونوں شریک ہو جائیں گے‘ لیکن ہمارے لیے عملی اعتبار سے جو اہم تر پہلو ہے وہ آگے ہے کہ جو حضور کے ساتھی ہیں اُن کے اوصاف کیا ہیں!