آگے بڑھنے سے پہلے نوٹ کیجیے کہ یہاں اقامت دین کے لیے قائم ہونے والی جماعت کی ہیئت ترکیبی کی طرف بھی ایک اشارہ موجود ہے. اس کا تعلق سورۃ الصف کی آخری آیت سے جڑتا ہے کہ وہ جمعیت اس طور سے فراہم ہوتی ہے کہ کوئی داعی پکارتا ہے: ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ اور دوسرے اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے یہ اقرار کرتے ہیں : ’’ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ!‘‘ یہ اس جماعت کی ترکیب اور اس کا synthesis ہے. ظاہر ہے کہ وہ پہلے داعیانِ حق انبیاء و رُسل تھے. حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کی ندا لگائی کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ اب یہاں اُس کو بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آج یہ کام محمدٌ رسول اللہﷺ کر رہے ہیں. وہ اللہ کے رسول ہیں‘ دین کو غالب کرنا اصلاً ان کا فرضِ منصبی ہے. جیسے دین کی تبلیغ اصلاً ان کا فرضِ منصبی ہے‘ اُمتی جو بھی اس میں حصّہ لے رہا ہے وہ آپؐ کی جانب سے (on his behalf) لے رہا ہے اور اس کام میں آپؐ کا مددگار بنا ہے. آپؐ کے سب ساتھی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں آپؐ کے اعوان و انصار بنے ہیں. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں مَیں نے بارہا عرض کیا ہے کہ حضورﷺ پر ایمان لانے کے بعد وہ اس پیغام کو آگے پہنچانے پر جس طرح کمر بستہ ہوئے اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ عشرۂ مبشرہ میں سے چھ وہ ہیں جو حضرت ابوبکر ؓ کی دعوت و تبلیغ سے اسلام لائے.لیکن یہ ذمہ داری اصلاً محمدٌ رسول اللہﷺ کی ہے جبکہ آپؐ کے ساتھی درحقیقت آپؐ کی جانب سے اس فرض کو ادا کر رہے ہیں. اسی طرح غلبۂ دین کی ذمہ داری اصلاً تو محمدٌ رسول اللہﷺ کی ہے اور جو حضرات بھی آپؐ کے ساتھ آئے ہیں وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ وہ آپؐ کے اعوان و انصار ہیں‘ آپؐ کے مددگار ہیں‘ آپؐ کے دست و بازو بنے ہیں.
اس جماعت میں حضورﷺ کی ایک تو وہ حیثیت ہے کہ جو تمام حیثیتوں سے بالاتر ہے. یعنی آپؐ اللہ کے رسول ہیں. لیکن اب یہاں ایک اور نسبت قائم ہو گئی اور وہ امیر اور مأمور کی نسبت ہے .انفرادی طور پر نبی اکرمﷺ کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بہت سی نسبتیں قائم ہوئیں. جیسے حضورﷺ کے ساتھ ایک نسبت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے‘ یہ شوہر اور بیوی کی نسبت ہے. ایک نسبت آپؐ کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہے‘ یہ داماد اور خسر کی نسبت ہے.مختلف نسبتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہیں‘ داماد اور خسر کی نسبت بھی ہے. لیکن بحیثیت مجموعی آپؐ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو نسبتیں قائم ہوئیں وہ یہ ہیں کہ حضورﷺ امیر ہیں اور تمام صحابہؓ مأمور ہیں‘ حضورﷺ حاکم ہیں اور باقی سب لوگ آپؐ کاحکم تسلیم کر رہے ہیں‘ حضورﷺ اس ریاست کے چیف جسٹس ہیں‘ اور تمام صحابہؓ ‘ اپنے نزاعات آپؐ کے حضور پیش کرتے ہیں. اگر دو مسلمان کوئی مقدمہ لے کر آپﷺ کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں تو اس وقت ان دونوں کی آپس میں نسبت مدعی اور مدعا علیہ کی ہے‘ جبکہ دونوں کے لیے منصف‘ جج اور قاضی کی حیثیت آپؐ کی ہے. تو یہ اضافی نسبتیں تھیں جو آپﷺ کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ قائم ہوئیں. اسی طرح ایک نسبت اس جماعت میں امیر اور مامور کی ہے جو آپؐ اور صحابہؓ کے مابین قائم ہوئی. لیکن یہ کہ اس کا اصل synthesis یہ ہے : ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ‘‘. اور اس کا ربط پھر ذہن میں قائم کر لیجیے ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ؟‘‘ اور ’’نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ‘‘ کے ساتھ.
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے آئندہ جو بھی جماعت قائم ہو گی اس کے لیے بنیاد ہمیں قرآن و سنت ہی سے اخذ کرنی ہے. اس لیے کہ ہمیں اتباع تو آپؐ ہی کا کرنا ہے‘ پیروی آپؐ ہی کی کرنی ہے‘ اور حتی الامکان زیادہ سے زیادہ جتنی پیروی کی جا سکے کرنی ہے. البتہ ایک بات بالکل واضح ہے کہ اب جو کوئی بھی اس جدوجہد کے لیے کھڑا ہو گا وہ داعی تو ہو گا نبی نہیں ہو گا. اس حیثیت کو ہمیشہ ذہن میں رکھا جائے. وہ سلسلہ آپؐ پر ختم ہو چکا ہے. حضورﷺ کسی غزوہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپؐ نے اپنے نائب یا خلیفہ کے طور پر مدینے میں مقیم رہنے کا حکم دیا.اب جنگ پیش آ رہی ہو‘ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شرکت کے لیے جا رہے ہوں ‘ جان کی بازی لگانے کا موقع مل رہا ہو اور حضرت علیؓ مدینہ میں رہیں‘ یہ بات آپؓ کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتی تھی. چنانچہ حضرت علی ؓ نے حضورﷺ سے شکوہ کیا کہ آپؐ مجھے یہاں خواتین کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں ! اس پر آپﷺ نے دلجوئی کے لیے فرمایا کہ کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو موسٰی ؑ کے ساتھ ہارونؑ کی تھی؟ سوائے اس فرق کے کہ نبوت مجھ پر ختم ہو چکی ہے‘ وحی کا معاملہ بند ہو چکا ہے. یعنی اس تشبیہہ سے کہیں یہ مغالطہ نہ ہو جائے کہ حضرت علیؓ حضرت ہارون ؑکی طرح نبی بھی ہیں. چنانچہ حضورﷺ نے ساتھ ہی یہ صراحت فرما دی کہ مبادا لوگ اس کو حضرت علیؓ کی نبوت کے لیے دلیل بنا لیں. اگرچہ لوگوں نے تو حضرت علیؓ کو خدا تک بنا لیا‘ لیکن اگر حضورﷺ نے یہ صراحت نہ فرمائی ہوتی تو کچھ لوگوں کے لیے اس کا امکان بھی پیدا ہو جاتا کہ اس قولِ رسولؐ کی بنیاد پر ان کی نبوت ثابت کر دیں. چنانچہ ایک بات ہمیشہ مستحضر رہنی چاہیے کہ معصومیت ختم ہو چکی‘ وحی کا دروازہ بند ہو چکا‘نبوت کا سلسلہ محمدٌ رسول اللہﷺ پر ختم ہو چکا. البتہ اقامت دین کے لیے جو جماعت یا تنظیم قائم ہو گی اس کے لیے اگر وہی مسنون نسبت قائم نہ کی گئی تو وہ ’’علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ نہیں ہو گی‘ وہ حضورﷺ کے نقشِ قدم پر نہیں ہو گی اور اس کا خاکہ ہم نے گویا کہیں اور سے مستعار لیا ہو گا. جبکہ ہمیں ہر چیز کے اندر رسول اللہﷺ کی پیروی کرنی ہے. اتباعِ رسولؐ صرف عبادات میں ہی نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں ہے. اقامت دین کی جدوجہد جو کہ دین کی بلند ترین منزل ہے‘ اس کے لیے بھی سارا نقشہ وہیں سے لیناہے.لیکن یہ فرق ہمیشہ ملحوظ رہے کہ اگر کہیں کسی شخصیت کے بارے میں کوئی مبالغہ‘ کسی کے بارے میں عقیدت میں کوئی غلو یا کسی کے آداب کو ملحوظ رکھنے میں حدِّ اعتدال سے تجاوز ہو جائے گا تو شخصیت پرستی کی بنیاد پڑ جائے گی اور اس طرح ایک نیا فتنہ شروع ہو جائے گا. چنانچہ اس احتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں باقی pattern وہیں سے لینا ہے‘ سارا نقشہ وہیں سے اخذ کرنا ہے.
اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم ہونے والی جماعت کی نوعیت کے ضمن میں ہمیں قرآن و سنت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ کوئی ایک شخص داعی کی حیثیت سے اٹھتا ہے اور وہ ایک کام کا بیڑا اٹھاتا ہے‘ اللہ اس کو ہمت دیتا ہے اور اس کے اندر ایک جذبہ ابھارتا ہے. اس لیے کہ ہر چیز کا فاعلِ حقیقی اور مؤثرِ حقیقی تو اللہ ہی ہے. کسی کے دل میں اگر ارادہ پیدا ہوا ہے تو وہ بھی اللہ کا عطا کردہ ہے. پھر یہ کہ ایک تو منزل ہے جس کا قصد کیا جا رہا ہے کہ جانا کہاں ہے اور ایک یہ کہ وہ طریق‘ وہ راستہ کون سا ہے جو ہمیں اس منزل تک پہنچائے گا. ان دونوں چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اگرکسی کو انشراح عطا فرماتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ ’’جاایں جا ست‘‘ بات یہی ہے‘ حق یہ ہے‘ تو اس کو جو انشراح ہوا ہے وہی کچھ ذہنوں اور کچھ سینوں کے اندر منتقل ہو گا اور وہ لوگ اب اس کے دست و بازو بنیں گے‘ اس کی پکار پر لبیک کہیں گے‘ اس کے ساتھ جڑیں گے. ’’جوڑ‘‘ اور ’’جڑنا‘‘ کے الفاظ ہمارے تبلیغی بھائی بالکل صحیح معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں. اب اس ایک فرد کے ساتھ دوسرے افراد کے جڑنے سے اس کے گرد دائرے بنتے چلے جائیں گے. پہلے چار چھ آدمی آئے‘ پھر اس کے بعد اور بڑھے‘ پھر اور بڑھے.
یہ ہے اصل میں وہ فطری ترتیب جو ہمیں انبیاء و رُسل کی دعوت میں ملتی ہے‘ جبکہ اس کے برعکس اِس دورکا تصور یہ ہے کہ کچھ لوگ مل جل کر ایک جماعت بنائیں. ہمارے ہاں انجمنیں اسی طرح بنتی ہیں. انجمنوں کے لیے کوئی داعی نہیں ہوا کرتا‘ بلکہ کوئی وقت کا تقاضا ہوتا ہے‘ کوئی ایک وقتی ضرورت ہوتی ہے جس کے تحت انجمن ظہور میں آ جاتی ہے. انگریز کے زمانے میں محسوس کیا گیا کہ ہندو تعلیم میں ہم سے آگے نکل گیا ہے. چونکہ ہمارے ہاں تو اختلافِ رائے ہو گیا تھا‘ ہمارے علمائے کرام نے انگریزی پڑھنے کو اور انگریزی علوم حاصل کرنے کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا تھا‘ لہذا مسلمان پیچھے رہ گئے اور ہندو اس دوڑ میں آگے نکل گئے‘ انگریز کے دربار میں انہیں رسائی حاصل ہو گئی. اُس وقت ہر اعتبار سے محسوس ہونے لگا کہ اگر تعلیم کے میدان میں مسلمان کا یہی حال رہا تو پھر وہ صرف پلے دار یا بہشتی بن سکیں گے اور معاشرے کے اندر بالکل پسماندہ ہو کر رہ جائیں گے. چنانچہ اجتماعی سطح پر ایک جذبہ ابھرا اور پیش نظر تقاضے کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ بنا لی جس کے تحت تعلیمی ادارے قائم کیے گئے . اسی طرح کئی اور انجمنیں قائم ہوئیں‘ کسی کے تحت کوئی ہائی سکول قائم ہو گیا‘ کسی کے تحت کوئی کالج بن گیا‘ کوئی کالج بن کر یونیورسٹی کے درجے کو پہنچ گیا. وہ درحقیقت ایک جذبہ تھا‘ وقت کی ایک ضرورت تھی جسے بہت سے لوگوں نے بیک وقت محسوس کیا اور بہت سے لوگوں نے مل جل کر اپنے آپ کو ایک انجمن کی صورت میں منظم کر لیا. اس میں کسی فردِ واحد کی دعوت‘ اس کا فکر‘ اس کا انشراح‘ اس کا پکار بلند کرنا اصلاً فیصلہ کن نہیں تھا.تو انجمنیں بھی بلاشبہ ایک طرح کی ہیئت تنظیمی ہوتی ہیں ‘ان میں سب لوگ مساوی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں‘ پھر ووٹ کی بنیاد پر کسی کو صدر بناتے ہیں‘ ووٹ کی بنیاد پر مجلس منتظمہ معین کرتے ہیں اور ان کے مابین حدود و اختیارات اور حقوق میں توازن پیدا کیا جاتا ہے‘ اس طرح یہ گاڑی چلتی ہے.
لیکن اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم جماعت کی ہیئت تشکیلی یہ نہیں ہے‘ بلکہ اس میں اصل معاملہ داعی و مدعو کا ہے ‘یعنی ’’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کی ندا لگانے والے کا اور جو اُس کی ندا پر لبیک کہے اس کا ہے. وہ شخص کہ جو آگے بڑھا ہے‘ جس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور وہ لوگ کہ جو اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس کے ساتھی بنے ہیں اُن کے آپس میں جڑنے سے وہ جماعت وجود میں آتی ہے. تو یہ ایک اہم نکتہ ہے جو قرآن کے ان دو مقامات کے حوالے سے پوری طرح واضح ہوکر ذہن نشین رہنا چاہیے.ایک سورۃ الصف کی آخری آیت: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ اور دوسری سورۃ الفتح کی زیر نظر آیت: مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اس جماعت کی جو تشکیل ہوئی ہے‘ اس کی جو ہیئت ترکیبی ہے وہ یہی ہے کہ ’’محمد اللہ کے رسول اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ہیں‘‘ جنہوں نے آپؐ کی پکار پر لبیک کہا ہے اور حاضر ہو گئے ہیں.