اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والی اس جماعت کے رفقاء کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں 3-dimensional space کا تصور ذہن میں رکھئے!
ہمارے بین الانسانی علائق میں جو خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے اس میں بھی وہی 3-dimensional space کا تصور سامنے آتا ہے.اس کا آغاز دو افراد سے ہوتا ہے . جب اولاد ہو جاتی ہے تو بُعد ثانی (nd dimension 2) کا اضافہ ہو جاتا ہے. جب اولاد میں کثرت ہوتی ہے تو ان کے مابین رشتۂ اخوت قائم ہوتا ہے. یہ اس ادارے کا بُعد ثالث (rd dimension3) ہے. اسی طرح جو جماعت اقامت دین کی جدوجہد کے لیے کمر کسے اس کے مطلوبہ اوصاف کو بھی آپ اَبعادِ ثلاثہ (3-dimensions) کے حوالے سے سمجھ لیں.اس میں اوّلین dimension جہاد ہے‘ جو مال سے بھی ہو گا اور جان سے بھی.اسے آپ انفاقِ مال اور بذلِ نفس کہہ لیں یا جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کہہ لیں‘ کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. یہ وہ چیز ہے جو ہمارے منتخب نصاب میں بتمام و کمال وضاحت سے آ چکی ہے. سورۃ الصف میں وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ کے الفاظ آئے ہیں. سورۃ التوبہ میں ’’اظھارُ دینِ الحق‘‘ کی آیت مبارکہ سے کچھ ہی پہلے یہ آیت آئی ہے:
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
’’(اے نبیؐ !) کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں‘ تمہارے عزیز و اقارب‘ تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں‘ تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہے‘ اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں‘ تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے. اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا.‘‘
پھر اس جہاد سے کنی کترانے پرجو سزا نفاق کی صورت میں ملتی ہے اس کا تذکرہ بھی منتخب نصاب میں سورۃ المنافقون اور سورۃ الحدید میں آ چکا ہے. اس جہاد کے لیے ابتدائی طریقۂ کار اور اساسی منہاج سورۃ الجمعہ میں بیان ہو گیا کہ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ یعنی یہ سارے کا سارا کام قرآن حکیم ہی کے ذریعے ہو گا. پھر اس جہاد میں صبر و مصابرت کی ضرورت پیش آتی ہے. ہمارے منتخب نصاب کا حصّہ پنجم ان ہی مباحث پر مشتمل ہے. تو ایک dimension تو وہاں آ چکی.
اب آیئے دوسری dimension کی طرف.ویسے تو عام اخلاقی اور معاشرتی و سماجی سطح پر اور دین کے اصل خلاصے اور لب لباب کی حیثیت سے وہ دو چیزیں بھی ہمارے منتخب نصاب میں آ چکی ہیں ‘ یعنی اوّلاًمسلمانوں کا باہمی رشتۂ اخوت سورۃ الحجرات میں بیان ہو چکا ہے : اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ ’’مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘. اور ثانیاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے اور اس کے لیے خاص طور پر نماز کی اہمیت بھی قرآن حکیم کی روشنی میں بیان ہو چکی. سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی آیات میں نماز کو تعمیر سیرت کی اساسات میں سے اہم ترین اساس کی حیثیت سے بیان کیا گیا. سورۃ البقرۃ کے انیسویں رکوع میں الفاظ آگئے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ (آیت ۱۵۳) ’’اے اہل ایمان! صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کرو‘‘. ان دونوں dimensions میں سے ایک کا تعلق اپنے ہم مقصد ساتھیوں سے اور ایک کا تعلق اللہ سے ہے جس کے لیے یہ کام کر رہے ہیں. ان کی ایک اضافی شان اس سطح پر آ کر نمایاں ہونی چاہیے. چنانچہ ان دو اضافی شانوں کے لیے یہ مقامات ہم نے اس منتخب نصاب (۲) میں شامل کیے ہیں. یہ دو‘ dimensions سورۃ الفتح کی زیر مطالعہ آیت میں بڑی خوبصورتی سے آ گئیں : مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ. اصل میں تو یہاں ’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ ہی بیان کرنا مقصود ہے‘ لیکن تُعرفُ الاشیاء باضدادھا‘ کسی بھی شے کو اس کی ضد کے حوالے سے صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے. دوسری بات یہ کہ عام اسلوب یہ ہے کہ نفی پہلے ہوتی ہے‘ اثبات بعد میں . لہذا فرمایا : اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ . وقت کی کمی کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے‘ لیکن آپ ان واقعات کو ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن سے کہا تھا کہ غزوۂ بدر کے دوران اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو کبھی نہ چھوڑتا.غزوۂ بدر میں رشتۂ ایمانی کے مقابلے میں سب رشتے کٹ گئے تھے اور ماموں بھانجا‘ چچا بھتیجا‘ بھائی بھائی اور باپ بیٹا ایک دوسرے کے مقابل تھے. اگر یہ نہ ہو تو اس جدوجہد میں اگلا قدم اٹھایا ہی نہیں جا سکتا. حدیث نبویؐ ہے کہ مؤمن کامل صرف وہی ہے جس کی محبت اور نفرت کا معیارِ واحد صرف اللہ رہ جائے. فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۱)
’’جس نے محبت کی تو صرف اللہ کے لیے‘ کسی سے بغض و عداوت رکھی تو صرف اللہ کے لیے‘ کسی کو کچھ دیا تو صرف اللہ کے لیے اور کسی سے کچھ روکا تو صرف اللہ کے لیے‘ اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی‘‘. (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ. اب یہ تمام چیزیں ہمارے دروس و خطابات میں تفصیلا ً آتی رہی ہیں. میں صرف حوالہ دے رہا ہوں .اس کو اب nd dimension2 سمجھیں کہ اس اجتماعی جدوجہد میں آ کر یہ رشتہ صرف اخوت ہی نہیں بلکہ رفاقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے. اور میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ رفیق کے لفظ کی اصل حقیقت کیا ہے.’’رِفق‘‘ نرمی کو کہا جاتا ہے‘ اور اس کے لیے اقبال نے کہا ہے ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!
لہذا اس سطح پر جو کیفیت مطلوب ہے اس کو ظاہر کرنے کے لیے یہ لفظ (رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ) اخوت کے لفظ سے بھی زیادہ مناسب ہے.
اب تیسری dimension ملاحظہ کریں:
تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ ’’تم دیکھو گے انہیں تورکوع و سجود‘ اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے.‘‘
’’ تَرٰى‘‘ فعل مضارع ہے‘ اس میں حال اور مستقبل دونوں cover ہو جاتے ہیں (تم دیکھتے ہو یا تم دیکھو گے). صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ نقشہ بالفعل تھا جسے ہر دیکھنے والا بچشمِ سر دیکھ رہا تھا‘ اور آئندہ بھی کبھی یہ جدوجہد کامیاب نہیں ہو گی جب تک کہ اس کا ایک عکس اُن لوگوں کے اندر موجود نہ ہو جو اِس کام کا بیڑا اٹھائیں اور اس کا داعیہ لے کر اٹھیں. یہ حقیقت ہے کہ ہر کام کا ایک محرک ہوتا ہے. اس جدوجہد کا محرکِ واحد اگر اللہ کی رضا نہیں ہے تو اب اس میں ملاوٹ ہو گئی. اس کو ہم ایک اعتبار سے شرک سے بھی تعبیر کریں گے‘ اس لیے کہ خلوص و اخلاص توحید کا لازمی تقاضا ہے ‘ جبکہ ریا اور سُمعہ شرک ہے. یہ شرکِ خفی ہے‘ لیکن شرک تو بہرحال ہے. حدیث نبویؐ ہے:
مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ (۱) (۱) مسند احمد. ’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا.‘‘
اور یہ حدیث بھی ہمارے دروس میں بارہا بیان ہو چکی ہے کہ قیامت کے روز ایک ایسے شخص کو محاسبہ کے لیے پیش کیا جائے گا جو جہاد فی سبیل اللہ کے دوران مقتول ہوا تھا اور دنیا میں شہید سمجھا جاتا تھا. اس سے جب اس کے اعمال کے بارے میں دریافت کیا جائے گا تو وہ کہے گا : اے اللہ! میں نے تیرے راستے میں جنگ کی تاکہ تو راضی ہو جائے اور میں نے اپنی جان دے دی. لیکن اللہ تعالیٰ اس کی یہ بات اس کے مُنہ پر دے ماریں گے اور فرمائیں گے : لٰــکِنَّکَ قَدْ قَاتَلْتَ لِاَنْ یُقَالَ جَرِیْ ءٌ (۱) ’’تو نے تو جنگ اس لیے کی تھی کہ کہا جائے کہ تو بہت جری ہے‘‘.کہا جائے کہ بڑا جی دار آدمی ہے‘ دیکھو کیسے لڑ رہا ہے . فَقَدْ قِیْلَ ’’پس وہ کہا جا چکا.‘‘ تمہاری مراد مل چکی‘ اب یہاں تمہارے لیے کچھ نہیں ہے. اور فرشتوں کو حکم ہو گا اور وہ اسے مُنہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں جھونک دیں گے . تو اب یہ جو خلوص و اخلاص ہے کہ یہ کام صرف اللہ کے لیے ہو گا‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ بندے کا تعلق مع اللہ مضبوط ہو ‘اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ نماز ہے. چنانچہ فرمایا : تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا ’’تم ان کو دیکھتے ہو رکوع کرتے ہوئے ‘ سجدہ کرتے ہوئے‘‘.یہ ان کی شخصیت‘ سیرت اور ان کے کردار کا ایک ایسا جزوِ لاینفک بن جاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی نماز کے کھونٹے سے بندھی ہوئی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف ہے.