آگے فرمایا: سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ’’علامت ہے اُن کی اُن کے چہروں پر سجدوں کے آثار سے‘‘. اس علامت سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں. خدا ترسی کا نور اُن کے چہروں پر نمایاں ہوتا ہے. اب اس ضمن میں خواہ مخواہ کی بحثیں چھڑ جاتی ہیں کہ آیا کثرتِ سجود سے پیشانی پر جو نشان پڑ جاتا ہے آیایہ بھی اس میں شامل ہے یانہیں!اِس دَور کی تفاسیر میں اس موضوع پر آپس میں کچھ نوک جھونک بھی ہوئی ہے‘ حالانکہ میرے نزدیک وہ بے محل ہے‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے. وہ بھی یقینا آثار میں سے ہے‘ اس کی نفی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے. البتہ اگر کوئی تکلفاً اپنی پیشانی کو خوب رگڑ رہا ہے کہ ذرا نشان اور ابھر آئے پھرتو یہ ریاکاری ہے. مزید یہ کہ سجدوں کا صرف وہی ایک اثر چہرے پر نہیں ہوتا. درحقیقت یہ تو چہرے کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے کہ مقامِ بندگی کا اس سے ظہور ہو رہا ہوتا ہے. محسوس ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے بندے کا چہرہ ہے. سجدوں کے آثار کسی معین نشان تک محدود نہیں ہیں‘ لیکن اس معین نشان کو اس سے زبردستی خارج کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے. سجدوں کے اثرات بہت وسیع مفہوم کے حامل ہیں. یوں کہنا چاہیے کہ ان کے چہرے ان کی باطنی کیفیات کی غمازی کررہے ہوتے ہیں. علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ میں کیا خوب کہا ہے ؎

بوئے گل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہے غمازِ چمن!

تو یہ چہرہ جو ہے یہ انسان کی باطنی شخصیت کا ایک عکس لیے ہوئے ہوتا ہے. سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدوں کے آثار ہویدا ہوں گے‘ نمایاں ہوں گے.