آگے ارشاد ہوا : ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ ’’یہ ہے ان کی مثال تورات میں‘ اور ان کی مثال انجیل میں‘‘. یہاں پھر ترکیب کا معاملہ ہے. جیسے میں نے عرض کیا تھا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کے الفاظ میں ترکیبِ نحوی کا فرق پڑتا ہے کہ آیا ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ‘‘ کومرکب توصیفی مان کر وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کامعطوف علیہ قرار دیا جائے اور دونوں کو جمع کر کے مبتدا ٔمانا جائے‘ یا یہ کہ ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ‘‘ مبتدا ٔاور خبر سمیت پورا جملہ اسمیہ ہو اور آگے استیناف مانا جائے کہ ’’وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ‘‘ سے نیا جملہ شروع ہو رہا ہے.زیر نظر الفاظ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کے معاملے میں تلاوت میں ہی ایک فرق واقع ہو جاتا ہے. مصحف میں ’’التَّوۡرٰىۃِ‘‘ کے بعد بھی تین نقطے لگے ہوئے ہیں اور ’’الۡاِنۡجِیۡلِ‘‘ کے بعد بھی. اسے قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’معانقہ‘‘ کہتے ہیں اور قرآن مجید میں غالباً ایسے چودہ مقامات ہیں.قاعدہ یہ ہے کہ قاری چاہے پہلے تین نقطوں پر رک جائے چاہے دوسرے تین نقطوں پر. چنانچہ یہاں ایسے بھی پڑھا جا سکتا ہے : ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃ ’’یہ ہے ان کی صفت تورات میں‘‘. وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ ....الآیۃ ’’اور انجیل میں ان کی مثال یوں بیان کی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی کونپل نکالی…‘‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ اس کواکٹھا پڑھا جائے اور کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ کو استیناف مان کر نیا جملہ شروع کیا جائے. یعنی یہ دو جگہ جو تین تین نقطے ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے مابین جو عبارت ہے وہ عبارت ماسبق سے بھی جڑ سکتی ہے اور اس کے بعد سے نیا جملہ شروع ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت مابعد سے جڑے اور اس سے پہلے سابق جملہ ختم ہو جائے.

قرآن حکیم میں سب سے پہلا معانقہ سورۃ البقرۃ کے بالکل شروع میں ہے. وہاں الفاظ آئے ہیں : 
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ اب ’’ فِیۡہِ‘‘ کو ماسبق سے جوڑیں گے تو اس طرح پڑھا جائے گا ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں‘‘. ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲’’ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے‘‘.اور اگر ’’ فِیۡہِ‘‘ کو مابعد سے جوڑا جائے تو یوں پڑھا جا سکتا ہے : ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ’’یہ بلاشبہ(اللہ کی) کتاب ہے.‘‘ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ ’’اس میں ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے‘‘. اسی طرح زیر نظر آیت میں اگر ’’التَّوۡرٰىۃِ‘‘ پر وقف کرتے ہوئے یوں پڑھا جائے : ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ جو مثال یہاں بیان ہوئی ہے کہ نورِ بندگی سے اُن کے چہرے دمکتے ہوئے ہوں گے اور سجدوں کے آثار اُن کے چہروں میں نمایاں ہوں گے‘ یہ بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی علامات میں سے تورات میں آئی ہو گی. اور اگلا جملہ اس طرح ہو گا: وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ ’’اور ان کی مثال انجیل میں یہ بیان کی گئی تھی گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی‘پھر اُس کو تقویت دی‘ پھر وہ گدرائی‘ پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی‘‘. اور اگر یوں پڑھا جائے: ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ تواس کا مفہوم یہ ہو گا کہ ان کی یہ علامت کہ ان کے چہروں میں سجدوں کے آثار ہویدا ہوں گے‘ تورات میں بھی مذکور ہے اور انجیل میں بھی مذکور ہے. اور آگے جو بات شروع ہو رہی ہے وہ مستقبل کی ایک پیشین گوئی ہے کہ اب یہ کھیتی کیسے پروان چڑھے گی اور اس میں کیسے ترقی ہو گی. بہرحال یہ دونوں امکانات بالکل مساوی ہیں اور اس میں نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. مجھے زیادہ انشراحِ صدر اسی دوسرے امکان پر ہے کہ ’’الۡاِنۡجِیۡلِ‘‘ پر آ کر رکا جائے ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ اس لیے کہ ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ کے مصداق آگے آنے والی پیشین گوئی کا ایک معنوی تعلق سورۃ النور میں بیان کردہ وعدۂ اِستخلاف سے جڑتا ہے: لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ (النور:۵۵’’وہ لازماً اُن کو اس طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے‘‘. ہمارے اس منتخب نصاب (۲) میں یہ مقام بھی آئے گا.

یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ علامات تورات اور انجیل میں موجود تھیں. 
مستند تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف بحیثیت مجموعی اس جماعت کی علامات مذکور تھیں بلکہ بعض اہم افراد کے حلیے تک بھی اہل کتاب کے ہاں موجود تھے. چنانچہ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو معاملہ ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے مذہبی راہنماؤں نے اپنی کتابیں ہاتھوں میں لی ہوئی تھیں اور وہ ان میں مذکور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے آثار کو دیکھ رہے تھے.اور اسی بنیاد پر انہوں نے بیت المقدس کے دروازے کھول دیے. بہرحال حضور اور ان کے صحابہ کا ذکر سابقہ کتابوں میں موجود تھا اور اُن کے آثار و علامات پیشگی طور پر وہاں مندرج تھے.