اب اُس وقت جو کھیتی بالفعل اپچ رہی تھی اس کا کیا خوب نقشہ کھینچا گیا ہے : کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ ’’(اس جماعت کی مثال)ایک کھیتی کی مانند ہے جس نے پہلے اپنی سوئی (کونپل) نکالی‘ پھر اُس کو تقویت دی‘ پھر وہ گدرائی (موٹی ہو گئی)‘ پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی.‘‘ سب سے پہلے کھیتی کی بڑی نرم و نازک کونپلیں اور پتیاں نکلتی ہیں‘ پھر وہ ذرا اوپر کو آتی ہیں تو ان میں کچھ قوت پیدا ہوتی ہے‘ پھر یہ ذرا گدراتی ہیں‘ موٹی ہوتی ہیں‘اس کے بعد اپنی نال پر کھڑی ہو جاتی ہیں. تو جس طرح کہ ایک کھیتی کا تدریجی منظر نگاہوں کے سامنے آتا ہے اسی طرح یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کھیتی ہے جن میں سے ایک ایک پودے پر محمدٌ رسول اللہ نے جو محنت کی ہے اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے. حضور کا مقام و مرتبہ‘ آپؐ کی شخصیت‘ آپؐ کی صلاحیتیں‘ آپؐ کی استعدادِ کار اور آپؐ کی محنت و مشقت ان سب کو ذرا ذہن میں رکھئے‘ جس کے لیے امتناعِ نظیر کی بحث ہے کہ آپؐ کی کوئی مثال ممکن ہی نہیں‘ اور دوسری طرف اِس امرِ واقعہ کو سامنے رکھئے کہ آپؐ کی مکی زندگی کی دس برس کی محنت کا حاصل ایک سو افراد سے زیادہ نہیں تھے. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کھیتی پر آپؐ کی کتنی محنت ہوئی ہو گی اور اس کا ایک ایک پودا حضور کو کتنا عزیز‘ کتنا پیارااور کتنا محبوب ہو گا اور حضور کی نگاہ میں اس کی کتنی قدر و منزلت ہو گی. اس کے بعد جب یہ کھیتی اپچی ہے تو کس کا دل باغ باغ ہوا ہو گا؟ کس کو اپنی نگاہوں کے سامنے اپنی محنت کے ثمرات دیکھ کر خوشی حاصل ہوئی ہو گی؟ ظاہر ہے اُسی کو جس کے خون پسینے سے یہ کھیتی سیراب ہوئی اور سینچی گئی ہے. فیضؔ نے کہا تھا ؎ 

دھرتی کے کونے کھدروں میں پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے‘ پھر اگلی رُت کی فکر کرو! 

تو جس نے اس کھیتی کو اپنے خون پسینے سے سیراب کیا ہے اس کھیتی کو دیکھ کر اس کا دل باغ باغ کیوں نہ ہوا ہوگا! اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا : یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ ’’ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعے سے کافروں کا دل جلائے‘‘. ظاہر ہے کہ وہ کاشت کار جس نے محنتیں کی تھیں‘ ہل چلایا تھا‘ جس نے راتوں کو جاگ کر کھیتی کو پانی دیا تھا‘ اب کھیتی اپچے گی‘ بہار پر آئے گی تو اس کا دل تو باغ باغ ہو گا. میں نے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ عربی میں عجیب کے معنی وہ نہیں جو ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں‘ یعنی کوئی غیر معمولی (unusual) اور abnormal شے‘ بلکہ عربی میں عجیب شے وہ ہے جو دل آویز ہو‘ جو دل کو لبھائے‘ جس کو دیکھ کر انسان خوش ہو جائے.
اب یہاں 
یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ کے الفاظ کے ساتھ ہی اس کا عکس بھی بیان فرما دیا : لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ ’’تاکہ ان کے ذریعے سے کافروں کا دل جلائے‘‘. اس لہلہاتی ہوئی کھیتی کے ذریعے سے کفار کے دل جلیں. سیدھی سی بات ہے کہ جو رکاوٹیں ڈالتے رہے‘ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ یہ کھیتی نہ اپچے‘ جنہوں نے قدم قدم پر مخالفتیں کیں‘ جنہوں نے ان کا راستہ روکنے کی ہر تدبیر اختیار کر لی‘ اس کھیتی کو ہر ی بھری دیکھ کر اُن کا دل تو جلے گا. یہ بہت اہم نکتہ ہے اور ہمارے لیے اپنے دلوں کو جانچنے کے لیے ایک معیار ہے کہ محمدٌ رسول اللہ کی کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو وہ حقیقت ایمان سے بالکل بے بہرہ ہے. اگر محمد سے تعلق ہے تو اس کھیتی پر جیسے ان کا دل باغ باغ ہوا ویسے ہی ہر اُس شخص کا دل باغ باغ ہونا چاہیے جسے کوئی تعلقِ خاطر محمدٌ رسول اللہ سے ہے. صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض ہو اور دعویٰ محمد سے پیار کا ہو تو یہ جھوٹ ہے‘ اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں. یقینا یہ چیز ایک لٹمس پیپر ہے جو بتا دیتا ہے کہ یہ محلول acidic ہے یا alkaline ہے. حضور کا وہ خطبہ دراصل اسی معیار کی وضاحت ہے :

اَللہَ اَللہَ فِیْ اَصْحَابِیْ‘ اَللہَ اَللہَ فِیْ اَصْحَابِیْ‘ لَا تَتَّخِذُوْھُمْ غَرَضًا بَعْدِیْ‘ فَمَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ‘ وَمَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَھُمْ (۱)

’’میرے صحابہ ؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو‘ میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو! میرے بعد کہیں ان کو ہدفِ ملامت نہ بنا دینا( اور اُن کو کہیں اپنی تنقیدوں کا نشانہ نہ بنانا). آ گاہ ہو جاؤ‘ جو بھی اُن سے محبت کرے گاوہ درحقیقت میری محبت کے عکس کے طور پر اُن سے محبت کرے گا اور جو اُن سے بغض رکھے گا تو وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ایسا کرے گا‘‘.

یعنی جس کو مجھ سے محبت ہو گی اس کو میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ہو گی اور جس کو مجھ سے بغض ہے درحقیقت وہی ہے جو اُن سے بغض رکھتا ہے. ایسے بدبخت کے دل میں دراصل رسول اللہ سے بغض ہے لیکن وہ مصلحت کی بنا پر اس کا اظہار نہیں کرتا اور اپنا غصہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پرنکالتا ہے. یہ بہت اہم بات ہے‘ معمولی بات نہیں‘ اس کو اس آیت کے حوالے سے اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور دل میں بٹھا لیں اور اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہیں.

یہ ضرور ہے کہ ہم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو معصوم نہیں سمجھتے.معصومیت خاصۂ نبوت ہے‘ لہذا آپ ان کے کسی فعل سے اختلاف کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں‘ لیکن یہ بات کہ دل میں ان کی محبت نہ رہے‘ ان کی عظمت اور قدر کا احساس نہ رہے‘ یہ درحقیقت ایمان سے محرومی کی علامت ہے. ان دونوں چیزوں میں فرق ہے. اگر ان کو معصوم سمجھیں گے تو اصل میں ختم نبوت کی مہر کو توڑیں گے. چنانچہ ابوبکرؓ معصوم 
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب المناقب عن رسول اللہ ‘ باب فیمن سبّ اصحاب النبیؐ . ہیں نہ عمرؓ معصوم ہیں‘ تابہ دیگراں چہ رسد! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود کہا تھا کہ اگر میں سیدھا چلوں تو تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر کہیں میں ٹیڑھا ہونے لگوں تو تم پر لازم ہے کہ مجھے سیدھا کرو! بس یہیں پر فرق واضح ہو گیا. ظاہر بات ہے کہ محمدٌ رسول اللہ کی شان یہ نہیں تھی کہ لوگ انہیں سیدھا کریں. وہاں معاملہ یک طرفہ تھا‘ وہ لوگوں کو سیدھا کرنے آئے تھے‘ لیکن معصومیت آپ پر ختم ہوئی‘ اب وہ شان کسی کی نہیں ہے. آپ کے بعد خلفاء راشدین تک کا معاملہ یہی ہے کہ اگر وہ دوسروں کو سیدھا کر سکتے ہیں تو کسی وقت ضرورت پیش آ سکتی ہے کہ لوگ انہیں سیدھا کریں. اس اعتبار سے اگر اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھیں گے تو گمراہی ہو جائے گی. عگرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی! لیکن ان کی محبت ‘ عظمت‘ تعظیم اور قدر و منزلت نگاہوں میں ہونا عین لازمۂ ایمان ہے.