آیت کے آخری حصے میں فرمایا : وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ ’’اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے‘ اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘. اسی طرح کا ایک وعدہ‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ سورۃ النور میں اس سے زیادہ گاڑھی شکل میں آیا ہے: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ (آیت ۵۵) ’’اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ لازماً ان کو زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے‘‘.
یہاں (سورۃ الفتح میں) اس دنیاوی وعدہ کا ذکر نہیں ہو رہا ‘ بلکہ یہاں اُخروی وعدے کا ذکر ہو رہا ہے جو اصل نصب العین ہے. اصل بنیاد یہ ہے کہ دنیا میں صحابہؓ کے ساتھ جو وعدہ تھا وہ قطعی تھا اور وہ پورا ہوا‘ لیکن دنیا میں کسی اور جماعت کے ساتھ یہ وعدہ حتمی اور یقینی نہیں ہے کہ لازماً غالب کر دیے جائیں گے. یہ اللہ کے علم میں ہے کہ کب کسی کام کے لیے کوئی وقت معین ہے اور اس کے لیے کب اس کی حکمتِ بالغہ کا تقاضا ہوتا ہے. اس میں تفویض الامر الی اللہ کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے. اور جب نصب العین درست ہو جائے گا تو آپ سے آپ اس میں غلطی کا احتمال ختم ہو جائے گا. آپ کو یاد ہو گا کہ یہ بحث سورۃ الصف میں بھی آئی ہے. وہاں فرمایا : وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ ’’اور ایک دوسری چیز جو تمہیں محبوب ہے(وہ بھی تمہیں ملے گی. یعنی) اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح‘‘. اس کو دیکھئے کیسے لطیف انداز میں فرمایا :’’تُحِبُّوۡنَہَا‘‘ کہ جو تمہیں پسند ہے‘ جو تم چاہتے ہو. یہ تمہاری ایک فطری خواہش ہے. ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ جو محنت میں کر رہا ہوں اس کا نتیجہ میں اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھوں. اس درجے میں تمہارے ساتھ یہ وعدہ بھی ہے ‘ لیکن یہ کوئی ضروری شے نہیں ہے. تم سے تو یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دو‘ اور جھونک دو اور اس طرح اپنے خلوص و اخلاص کا ثبوت فراہم کردو. تم ثابت کر دو کہ تن من دھن اللہ سے زیادہ عزیز نہیں تھے.
سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ ذہنوں میں تازہ کیجیے جہاں ایک میزان قائم کر دی گئی ہے کہ اگر مال و دولتِ دنیا اور رشتہ و پیوند تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو پھر اللہ کا فیصلہ ظاہر ہونے کا انتظار کرو. تمہیں یہ ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ مؤخر الذکر تین محبتوں کا پلڑا مقدم الذکر آٹھ محبتوں کے پلڑے سے بھاری ہے. اس کا ثبوت فراہم کرنا تمہاری کامیابی کے لیے شرطِ لازم ہے. تم نے یہ ثبوت فراہم کر دیا تو تم کامیاب ٹھہرے. لیکن دین کو بالفعل غالب کر دینا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے. کتنے انبیاء آئے‘ انہوں نے اپنا یہ ثبوت دیا اور سرخرو ہو گئے. دین غالب ہو یا نہ ہو‘ اس کی اُن سے بازپُرس نہیں ہو گی. اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت میں کس خوش قسمت کے لیے یہ سہرا رکھا ہوا ہے جس کے سر اُسے باندھنا ہے ‘یہ اس کا اپنا انتخاب ہے. جیسے فرمایا : اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ (الحج:۷۵) ’’اللہ چن لیتا ہے ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں اور انسانوں میں سے بھی‘‘. اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ (الانعام:۱۲۴) ’’اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا کام کس سے لے اور کس طرح لے‘‘. کس کا کیا مقام ظاہر کرنا ہے یہ اس کا فیصلہ ہے. تم نے اگر اس کی راہ میں اپنا تن من دھن لگا دیا تو تم سرخرو ہو گئے.تمہارا مطلوب و مقصود اور نصب العین آخرت کی فوز و فلاح اور اللہ کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں ہونا چاہیے. لہذا اس آیت میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ دوسری بات (یعنی تمکن فی الارض) کا ذکر نہیں کیا گیا. البتہ یہ کام حضورﷺ کے ہاتھوں ہو کر رہنا تھا‘ سو ہوا. پھراس کے ساتھ خلافت راشدہ کا تتمہ آنا تھا وہ آیا. اب غور کیجیے کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد ثقیفہ بنی ساعدہ میں انصار پورے دعوے اور دلائل کے ساتھ ڈٹے ہوئے تھے کہ خلافت ہمارا حق ہے‘ ہماری مدد سے یہ صورت پیدا ہوئی‘ ورنہ مہاجرین بے چارے تو بے یارو مددگار اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے. دلیل بڑی قوی تھی. آپ سوچئے کہ یہ معاملات کتنے حساس اور کس قدر جذباتی ہوتے ہیں‘ لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ایک حدیث نبویؐ سنا رہے ہیں کہ : اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ (۱) اور بات ختم ہو گئی.
اس ضمن میں یقینا مشیّتِ خداوندی کو دخل ہے.دین کا بالفعل غلبہ اگر ہو گا تو اللہ کے کرنے سے ہو گا. سورۃ الانفال میں ارشاد ہوا: فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪
(آیت ۱۷) کہ اے مسلمانو! یہ جو میدانِ بدر میں تم نے ستر سردارانِ قریش مار لیے تو یہ نہ سمجھنا کہ انہیں تم نے اپنے زورِ بازو سے کھیت کر لیا‘ بلکہ ان کو تو اللہ نے قتل کیا. فاعلِ حقیقی اور مؤثر حقیقی اللہ کے سوا کوئی اور ہے ہی نہیں.انسان کاسبِ اعمال تو ہے‘ خالقِ اعمال نہیں ہے‘ خالقِ اعمال اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہے. تو ان دونوں چیزوں کو بیک وقت ذہن میں رکھئے. اللہ جب چاہے گا اس کے دین کا غلبہ ہو جائے گا. اگر یہ بات ذہن میں نہ ہو تو انسان عجلت پسندی کا شکار ہو جاتا ہے‘ پھر by hook or by crook کا (۱) مسنداحمد. معاملہ ہوتا ہے کہ اگر سیدھی انگلیوں سے گھی نہ نکلتا ہو تو انگلیاں ٹیڑھی کر کے نکالو‘ جو راستہ ہم نے پہلے طے کیا تھا اس راستے پر چلتے ہوئے کام نہیں ہورہا تو کوئی راہِ یسیر (short cut) تلاش کرو‘ کہیں سے کوئی چھلانگ لگاؤ. درحقیقت یہ تمام چیزیں منطقی طور پر نصب العین کے غلط تعین کا نتیجہ ہوتی ہیں. بات چھوٹی ہوتی ہے‘ لیکن اس کے نتائج بہت دور تک جا کر نکلتے ہیں.
آیت کے آخری ٹکڑے میں جو لفظ ’’ مِنۡہُمۡ ‘‘ آیا ہے اس کے بارے میں بھی ایک دقیق بحث ہے کہ یہ ’’مِنْ بیانیہ ‘‘ ہے یا ’’مِنْ تبعیضیہ‘‘! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھنے والے لوگ اسے ’’مِن‘‘ تبعیضیہ قرار دے کر اس سے دلیل پکڑ لیتے ہیں. قرآن مجید کے بارے میں ایک بنیادی بات جان لیجیے کہ اس کا ایک بڑا ’’وصف لاینفک‘‘ یہ ہے کہ اس میں اہل زیغ کے لیے بھی پوری غذا موجود ہے. جو کوئی کجی کا طالب ہے اس کے لیے بھی اللہ نے اس میں مواد رکھا ہوا ہے اور جو ہدایت کا طالب ہے اس کے لیے بھی اس میں وافر مواد موجود ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ ’’اللہ گمراہ کرتا ہے اسی قرآن کے ذریعے سے بہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے اسی قرآن کے ذریعے سے بہتوں کو‘‘. چنانچہ قرآن مجید میں ایسے مقامات موجود ہیں جنہیں اہل تشیع نے غلط معنی پہنائے ہیں. اسی طرح کا ایک مقام یہ ہے . اہل تشیع اسے ’’مِن‘‘ تبعیضیہ قرار دیتے ہیں اور اس سے یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ یہ وعدہ تمام صحابہ سے نہیں تھا‘ بلکہ بعض صحابہ سے تھا. حالانکہ یہ ’’ مِن‘‘ بیانیہ ہے جو کسی کے وصف کو ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے ‘یعنی یہ لوگ جن میں ایمان اور عمل صالح کا وصف ہے ان سے یہ وعدہ کیا جا رہا ہے. یہاں ’’ مِن‘‘ صرف اخبار کے لیے ہے کہ ان کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے‘ ان کے وصف کا بیان ہو رہا ہے.
اوّل تو اسی مِن تبعیضیہ قرار دینا ہی ترجیح بلامرجح ہے. ان کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ اور اگر بالفرض اس کا احتمال مان بھی لیا جائے تو منطق کے اعتبار سے جہاں احتمال پیدا ہوتا ہے وہاں دو امکانات پیدا ہوتے ہیں اور اس صورت میں وہ دلیل دونوں طرف سے ساقط الاعتبار ہو جاتی ہے. ایک درجے میں یہ بات اس حد تک تسلیم کی جا سکتی ہے کہ جو بھی حضورﷺ کے ساتھ تھا وہ صحابی نہیں تھا‘ منافقین بھی تو تھے‘ جو ظاہری طور پر ساتھ تھے. آخر وہ مسجد نبویؐ میں حضورﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے. یہ دوسری بات ہے کہ جب امتحان کا کڑا وقت آتا تھا تو یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ کے مصداق وہ کھسک جاتے تھے. لیکن بہرحال نمازوں میں تو موجود رہتے تھے‘ اس لیے کہ اس میں تو کوئی جان و مال کی مصیبت نہیں آتی تھی. البتہ نماز میں کھڑے ہوتے تھے تو کسل مندی کے ساتھ. طبیعت میں آمادگی نہیں ہوتی تھی‘ انشراح اور ابتہاج کی کیفیت سے محروم تھے کہ دل کی کلی کھلی ہوئی ہو اور اللہ سے لو لگی ہوئی ہو‘ جس کو حضورﷺ نے فرمایا ہے : جُعِلَ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ (۱) ’’میری تو آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘. جہاں کہیں آپؐ کوکوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا‘ کسی چیز پر غور و فکر کرنے کی حاجت ہوتی تھی تو آپؐ فوراً نماز کی طرف رجوع کرتے تھے. تو معلوم ہوا کہ نماز تو کلیدِ مسائل ہے. نماز مؤمنوں کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے. لیکن منافقین کی نماز کی کیفیت قرآن حکیم میں یوں بیان کی گئی ہے : وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ ... (النساء:۱۴۲) ’’اور جب وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے (کسل مندی کے ساتھ)‘ محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر‘‘. لیکن بہرحال ظاہری طور پر تو وہ اس جماعت میں موجود تھے. بلکہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کا یہ حال تھا کہ جب بھی حضورﷺ کوئی خطبہ ارشاد فرماتے تواس سے پہلے اپنی حیثیت کے اظہار کے لیے کھڑا ہو کر اعلان کیا کرتا تھا کہ لوگو! یہ اللہ کے رسولؐ ہیں‘ ان کی بات توجہ سے سنو اورمانو! منافقین کے ظاہرو باطن کا یہی تضاد تھا جسے سورۃ المنافقون میں بایں الفاظ بیان کیا گیا:
اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾
’’(اے نبیؐ !) جب یہ منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں. ہاں! اللہ جانتا ہے کہ آپؐ اس کے (۱) سنن النسائی‘ کتاب عشرۃ النساء‘ باب حبّ النساء. رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا یہ منافقین جھوٹے ہیں‘‘.
تو اس اعتبار سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگرچہ رسول اللہﷺ کی ظاہری معیت تو منافقین کو بھی حاصل تھی‘ لیکن دل کی سچائی‘ راست بازی اور خلوص و اخلاص کے ساتھ حضورﷺ کی معیت صرف صحابۂ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو حاصل تھی. گویا آنحضورﷺ کے ساتھ جو جماعت تھی اس میں چند کالی بھیڑیں بھی تھیں. اب اس میں معاملہ نسبت تناسب کا ہو جائے گا. اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس میں کالی بھیڑوں کی اکثریت تھی تو وہ بتائے کہ پھر عالمِ واقعہ میں یہ تحریک کامیاب کیسے ہوئی؟ یہ ناممکن ہے‘ محالِ عقلی ہے. حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت میں مؤمنین صادقین کی عظیم اکثریت تھی‘ البتہ کچھ کالی بھیڑیں بھی تھیں‘ تب ہی تو یہ جدوجہد کامیاب ہوئی ہے‘ ورنہ کفر کی ساری شیطانی قوتیں اس کی ناکامی پر ادھار کھائے بیٹھی تھیں.
بہرحال اس مقام پر ایک حرف ’’ مِن‘‘ کی بنیاد پر یہ کہہ دینا کہ اس جماعت میں بس چند ہی صاحب ایمان اور مخلص تھے‘ باقی سب کے سب منافقین تھے (معاذ اللہ)‘ یہ میرے نزدیک بالبداہت غلط ہے‘ اور سوائے ان لوگوں کے جو مسلوب التوفیق ہو چکے اور کسی وجہ سے اللہ کی درگارہ سے راندۂ درگاہ ہو چکے‘ کوئی شخص نہ دل سے اس بات کا قائل ہو سکتا ہے اور نہ زبان سے اس کا اظہار کر سکتا ہے. اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اپنے رسولﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) کی محبت سے معمور فرمائے اور ہماری ہدایت میں اضافہ فرمائے.آمین!
نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾ (المائدۃ)
سورۃ الفتح کی آخری آیت میں اُن لوگوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جو اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے کمر کس لیں اور غلبۂ دین کے لیے میدان میں اتریں. وہی مضمون نہایت جامعیت کے ساتھ اور اِک ذرا مختلف اسلوب میں سورۃ المائدۃ کی اس آیت میں آ رہا ہے. بلکہ یہاں ایک اضافی حسن سامنے آئے گا. میں نے وہاں اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے والوں کے مطلوبہ اوصاف کے تین اَبعاد (3-dimensions) مکمل کرنے کے لیے سورۃ الصف سے مدد لی تھی کہ ان تین اَبعاد میں سے ایک سورۃ الصف کی اس پکار میں سامنے آتا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ یعنی اللہ کی راہ میں مال کا خرچ کرنا اور جان کا کھپانا (انفاقِ مال اور بذلِ نفس) ان کے اوصافِ ثلاثہ میں سے پہلا وصف ہے. دوسرا اُن کا یہ وصف ہے کہ کفار کے مقابلے میں بہت سخت ہیں جبکہ آپس میں بہت رحیم ہیں. اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ . ان کا تیسرا خصوصی وصف تعلق مع اللہ ہے. تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ گویا کہ وہ آیت مبارکہ جو سورۃ الصف میں آئی ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ تو ان اَبعادِ ثلاثہ میں سے ایک dimension تو اس کے ساتھ متصل ہو کر آ گئی اور بقیہ دو ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ کے ساتھ متصل ہو کر آ گئیں. سورۃ المائدۃ کی آیت ۵۴ میں آپ دیکھیں گے کہ یہ تینوں یکجا ہیں. گویا کہ مضمون وہی ہے لیکن یہاں مزید جامعیت ہے اور اس میں ایک اضافی حسن موجود ہے.