ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ’’اے ایمان والو!‘‘ یا بالفاظِ دیگر ’’اے ایمان کے دعوے دارو!‘‘ میرے دروس میں بارہا یہ بات آ چکی ہے کہ قرآن مجید میں ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ‘‘ کا صیغۂ خطاب مسلمانوں کے لیے ہے. اب مسلمانوں میں مؤمنین صادقین بھی شامل ہیں اور منافقین بھی. مسلمانوں میں عزیمت اور ہمت والے بھی شامل ہیں اور رخصتوں پر چلنے والے بھی. مسلمانوں میں ضعفاء بھی ہیں اور قوی بھی. میرا ذہن حضور کی اس حدیث کی طرف منتقل ہوا ہے : اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَاَحَبُّ اِلَی اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ (۱’’وہ مؤمن جو قوی ہو‘ ضعیف مؤمن سے بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے‘‘ . اب یہ قوت اور ضعف بھی سمجھ لیجیے کہ ایک ظاہری ہوتا ہے اور ایک باطنی. ظاہر بات ہے کہ انسان کے جسم و جان میں ظاہری توانائیاں بھی درکار ہیں‘ تب ہی وہ محنت کر سکے گا‘ بھاگ دوڑ کر سکے گا. مقابلہ پیش آئے گا تو اُس میں بھی قوت و توانائی کی ضرورت ہو گی. لیکن ایک انسان کی باطنی قوت یعنی قوتِ ارادی ہوتی ہے جس کو ہم ہمت و عزیمت کہتے ہیں. بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا تن و توش توبہت ہے ‘گوشت اور چربی کا منوں وزن موجود ہے‘ لیکن ہمت نام کو موجود نہیں ہے ‘اور بسا اوقات آپ کو نظر آئے گا کہ جسم بہت ہی لاغر اور بہت ہی نحیف و ناتواں ہے‘ لیکن اندر جو ہمت و عزیمت ہے وہ کوہِ ہمالہ کے مانند ہے. یہی وجہ ہے کہ بارہا قرآن مجید میں حضور سے خطاب فرماتے ہوئے منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ اے نبیؐ ! آپؐ ان کے تن و توش سے متأثر نہ ہوں. وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز والاستعانۃ باللہ. تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ. اس کے برعکس دیکھئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ضعیف و ناتواں ‘رقیق القلب انسان تھے‘ لیکن ان میں ہمت و عزیمت جس درجے کی تھی وہ خاص طور پر حضور کے انتقال کے بعد ظاہر ہوئی کہ جس قسم کے حالات یک دم پیدا ہوئے اور جس طرح سے ہر طرف سے ایک طوفان اٹھا اس طوفان میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جس طرح کی عزیمت کا ثبوت دیا اس میں یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان سے بہت پیچھے نظر آتے ہیں.انہوں نے بھی مصلحت کا مشورہ دیا تھا کہ کم سے کم مانعین زکوٰۃ کے ساتھ ایک نیا محاذ نہ کھولیے. تو اصل میں ہر اعتبار سے قوی اور ضعیف مسلمانوں میں تو گڈ مڈ ہیں‘ لہذا جب قرآن مجید میں ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا‘‘ کے الفاظ سے خطاب ہوتا ہے تو وہاں یہ معین کرنا پڑتا ہے کہ روئے سخن اصلاً کن کی طرف ہے. کہیں وہ مؤمنین صادقین کی طرف ہوتا ہے اور کہیں اصلاً اُس وقت مخاطَب منافق ہوتے ہیں‘ لیکن ان سے بھی قرآن میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ’’یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا‘‘ بلکہ ان سے بھی خطاب ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا‘‘ کہہ کر ہی کیا جاتا ہے‘ کیونکہ درحقیقت قانوناً وہ بھی مسلمان ہیں اور ایمان اور اسلام کے دعوے دار ہیں .اس لیے کہیں کہیں میں ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا‘‘ کا ترجمہ ’’اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو!‘‘ کیا کرتا ہوں‘ جس کو ترجمہ نہیں ترجمانی کہنا چاہیے.