فرمایا : مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ ’’جو کوئی لوٹ گیا تم میں سے اپنے دین سے‘‘. ارتداد کے لفظ کو سمجھ لیجیے. رَدَّ‘ یَرُدُّ کے معنی ہیں لوٹا دینا. اسی سے لفظ مردود ہے‘ یعنی لوٹایا ہوا‘ جس کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے دھکے دے دیے گئے ‘ راندۂ درگاہِ حق.اس سے بابِ افتعال میں’’ارتداد‘‘ بنا. ارتداد کے معنی ہوں گے خود لوٹ جانا‘ خود پھر جانا‘ پسپائی اختیار کرنا. اتفاق کی بات ہے کہ ابھی میں نے قوت وضعف کا ذکر کیا کہ ایک ظاہری ہے ایک باطنی ہے. اسی طرح ایمان سے پسپائی بھی ایک ظاہری ہے ایک باطنی. ظاہری پسپائی یا علی الاعلان پسپائی کو ہم عرفِ عام میں یااصطلاح میں ارتداد کہتے ہیں. ایک شخص کھلم کھلا اسلام سے انحراف کا اعلان کر کے کوئی اور مذہب اختیار کر لیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ مرتد ہو گیا. حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے جس مسلمان شوہر کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ گئی تھیں وہ وہاں جا کر عیسائی ہو گیا تھا. یہ بالکل ابتدائے اسلام میں ارتداد کا واقعہ ہے. پھر جو نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کا آخری دَور ہے اس میں ارتداد شروع ہو چکا تھا. چنانچہ نئی نبوت کے دعوے دار صرف حضور کے انتقال کے بعد کھڑے نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ‘ؐ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں یہ فتنہ سر اٹھا چکا تھا. کچھ طالع آزما قسم کے لوگوں نے یہ دیکھا کہ نبوت کی بنیاد پر محمدؐ ‘ کی دکان تو خوب چمک گئی (معاذ اللہ) اور انہوںؐ نے کیا کچھ حاصل کر لیا ‘تو ’’ آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی!‘‘ کے مصداق اگر ہم بھی نبوت کا دعویٰ کریں تو شاید ہمارا دھندا بھی چمک جائے. جن کور باطن لوگوں نے اسے حضور کا دھندا سمجھا تھا انہوں نے اپنا دھندا جمانے کی کوشش کی. اور یہ حضور کی حیاتِ طیبہ ہی میں ہوا.

تو ایک ارتداد ہے اسلام سے علی الاعلان ‘کھلم کھلا انحراف‘ کسی اور نبوت کا اقرار یا کسی اور مذہب کو قبول کر لینا. اسلام میں اس قسم کے مرتد کی سزا قتل ہے. البتہ ایک باطنی ارتداد ہے کہ آدمی اندر ہی اندر مرتد ہو گیا ہو. گویا انڈے کے اندر جو کچھ تھا چوزہ تو بن چکا ہے مگر ابھی خول ٹوٹا نہیں ہے. قانون کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ جب تک وہ خول نہیں ٹوٹتا اس وقت تک وہ مسلمان شمار ہو گا. اندر سے انسان کافر ہو چکا ہو اور قانونی اعتبار سے ظاہراً مسلمان ہو تو یہ باطنی ارتداد ہے جس کو ہم نفاق کہتے ہیں. منافق حقیقت میں کافر تو ہو چکا لیکن قانوناً وہ مسلمان رہتا ہے. سورۃ المنافقون میں‘ جو ہمارے منتخب نصاب (۱) میں شامل ہے‘ الفاظ آئے ہیں : ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا... ’’یہ اس لیے ہوا کہ وہ ایمان لائے تھے‘ پھر انہوں نے کفر کیا…‘‘ لیکن یہ کفر کون سا تھا؟ یہ اعلانیہ کفر نہیں تھا‘ بلکہ اندر ہی اندر کا کفر تھا.

سورۃ المائدۃ کی زیر نظرآیت کے سمجھنے میں یہی لفظ ’’ارتداد‘‘ رکاوٹ بن گیا ہے‘ کیونکہ اس کا جو بھی عام مفہوم ہے‘ یعنی قانونی اور ظاہری ارتداد ‘اکثر لوگوں نے اسی پر اس کو محمول کر لیا ہے‘ حالانکہ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہے‘ بلکہ باطنی پسپائی یعنی نفاق مراد ہے جس میں انسان اندر ہی اندر لوٹ رہا ہوتا ہے. میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک شعوری اور ایک غیر شعوری. یعنی آدمی اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوتا ہے جبکہ اسے خود پتا نہیں ہوتا کہ میں کھوکھلا ہو چکا ہوں اور ایک یہ کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوں‘ میں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اسلام کاصرف لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘ حقیقت میں اندر سے میں بدل چکا ہوں.