غیر شعوری پسپائی یا نفاق کے بھی مختلف مدارج ہیں. سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ آدمی کی ہمت جواب دینے لگتی ہے کہ اسلام کے تقاضے تو بڑے کٹھن ہیں‘ یہ تو قدم قدم پر کہتاہے کہ لاؤ جان حاضر کرو‘ آؤ نکلو اللہ کی راہ میں نقدِ جان ہتھیلی پر رکھ کر. یہ معاملہ تو بہت مشکل اور کٹھن ہے. اب یہاں سے وہ پسپائی شروع ہو گئی. میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ معاملہ تو وہ ہے کہ یا تو آپ آگے بڑھیے‘ ورنہ آپ پیچھے ہٹنا شروع ہو جائیں گے‘ اس لیے کہ ؏ ’’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں!‘‘ ایک آدمی پیش قدمی کر رہا ہے‘ آگے بڑھ رہا ہے. ؏ ’’ہرچہ بادا باد ماکشتی در آب انداختیم!‘‘ لیکن کسی وجہ سے ٹھٹھک کر کھڑا ہو گیا کہ نہیں بھائی‘ آگے خطرہ ہے‘ آگے مشکلات ہیں. تو اب یہ ٹھٹھک کر کھڑا ہو جانا اس کو کھڑا نہیں رہنے دے گا ‘بلکہ اب ریورس گیئر لگے گا اور وہ لامحالہ پیچھے کی طرف پسپائی شروع کر دے گا‘ البتہ ابتدائی مرحلہ میں اس کا اعتراف ہو گا کہ میری کمزوری ہے‘ میں کمزور آدمی ہوں‘ مجھ سے خطا ہو گئی‘ میری معذرت قبول کی جائے. حضور کے زمانے میں ایسے لوگ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اعتراف کرتے اور درخواست کرتے کہ حضورؐ مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے‘ آپؐ خود بھی مجھے معاف فرمائیں اور اللہ تعالیٰ سے بھی میرے لیے استغفار کریں. اس کو نفاق نہیں کہیں گے‘ یہ صرف ضعفِ ایمان ہے. لیکن اس سے اگلے مرحلے میں اب آدمی جھوٹے بہانے بنانا شروع کرتا ہے‘ اپنے طرزِ عمل کی عقلی توجیہہ پیش کرتا ہے اور اس کی justifications دیتا ہے کہ نہیں جی‘ یہ بات نہیں تھی‘ مجبوری تھی‘ میں تم سے کوئی کم نہیں ہوں‘ یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے جذبے میں کمی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا‘ بلکہ میری مجبوری تھی‘ حالات ہی کچھ ایسے تھے.اب جب یہ جھوٹ شروع ہوا تو یوں سمجھ لیجیے کہ ایسے شخص نے ضعفِ ایمان سے آگے بڑھ کر نفاق کی سرحد میں قدم رکھ دیا. یہ گویا نفاق کی پہلی سٹیج ہے.

نفاق کی دوسری سٹیج تب آتی ہے کہ جب انسان محسوس کرتا ہے کہ جھوٹ بول بول کر اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ میرا اعتبار اٹھ گیا ہے‘ تو اب وہ اپنے جھوٹ کو جھوٹی قسم سے زیادہ مؤ کد کرتا ہے. ارشاد ہوا : 
اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً ’’انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے‘‘. اب ان کا طرزِ تکلم یہ ہوتا ہے کہ خدا کی قسم! یہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں صحیح ہے‘ مجھے واقعتا مجبوری لاحق تھی. 

نفاق کی تیسری سٹیج وہ آتی ہے کہ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میرا راز اب طشت ازبام ہو چکا ہے‘ اب میری قسموں کا بھی اعتبار اٹھ گیا ہے ‘تو اب طبیعت میں ایک جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کے دین کے راستے میں اپنے مال و جان قربان کرتے ہوئے سیدھے آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں ان سے ایک بغض و عناد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ انہوں نے ہمارے لیے مصیبت ڈالی ہوئی ہے‘ یہ آگے بڑھتے ہیں تو ہمارا پیچھے رہنا نمایاں ہو جاتا ہے‘ اگر یہ بھی آگے نہ بڑھیں ‘ سب بیٹھے رہیں تو سب برابر رہیں‘ ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے‘ یہ 
fanatics ہیں‘ جنونی ہیں‘ پاگل ہیں‘ سُفَہَآءُ ہیں. سورۃ البقرۃ میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا کَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ کَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَہَآءُ ؕ ’’اور جب ان (منافقوں) سے کہا جاتا ہے کہ اس طرح ایمان لاؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں : کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟‘‘ یہ تو بے وقوف لوگ ہیں ‘ انہیں اپنے خیر اور شر کا پتا نہیں‘ نفع و نقصان کی فکر نہیں‘ ہم تو ایسے پاگل اور بے وقوف نہیں ہیں. یہ تیسری اور آخری سٹیج ہے‘یہ تباہی اور بربادی کی وہ سرحد ہے کہ جس سے اب واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے.