فرمایا : فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ ’’توعنقریب اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو لے آئے گا‘‘. اب اس قوم کے کیا اوصاف ہوں گے؟ وہ آپ کو یہاں تین dimensions نظر آجائیں گی.گویا کہ بالواسطہ تلقین ہو رہی ہے کہ اگر اس راستے پر چلنا ہے تو تمہیں یہ تین اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہوں گے. یہ اصل میں مؤمنین صادقین کے تین اوصاف کا بیان ہے: 

یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ’’(۱) جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا. (۲) جو اہل ایمان پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے. (۳) جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘.
یہاں ذرا ترتیب اور اسلوب بدلتا ہے. گزشتہ صفحات میں ہم نے دیکھا کہ سورۃ الصف کے حوالے سے پہلے جہاد کا ذکر آیا تھا‘ لیکن یہاں جہاد آخر میں ہے. پھر سورۃ الفتح میں پہلے یہ وصف بیان ہوا : 
اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ . یہاں اس کا ذکر بھی بعد میں ہے : اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ .وہاں اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ پہلے ہے رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ بعد میں ہے‘ جبکہ یہاں اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ پہلے ہے اور اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ بعد میں ہے. 

پھر وہاں 
تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا کے الفاظ میں تعلق مع اللہ کا وصف آخر میں بیان کیا گیا‘ یہاں آغاز اس وصف سے کیا جا رہا ہے‘ لیکن اس کے لیے الفاظ مختلف ہیں: یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ’’جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا‘‘. یہ ہے اللہ اور بند ے کے مابین باہمی محبت کا ایک رشتہ. عجیب بات ہے کہ وہاں اس تعلق مع اللہ کی صرف ایک جہت بیان ہوئی کہ وہ نماز پڑھتے ہیں. تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ یہاں اس تصویر کا دوسرا رُخ نمایاں کیا گیا اور اس کا ذکر پہلے لایا گیا. اس لیے کہ اللہ اور بندے کے مابین جو بھی نسبت و تعلق ہے وہ دو طرفہ ہے. بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو اللہ بھی بندے سے محبت کرتا ہے. بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے. فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ ’’تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘. اور حدیث قدسی میں (جو متفق علیہ ہے) اس کی نہایت پیاری شرح آئی ہے کہ میرا بندہ اگر مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور میرا بندہ اگر کسی محفل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اس سے کہیں اعلیٰ محفل میں اس کا ذکر کرتا ہوں (یعنی اللہ تعالیٰ ملأ اعلیٰ اور ملائکہ مقربین کی محفل میں اس بندے کا ذکر فرماتا ہے). اور اگر میرا بندہ بالشت بھر مجھ سے قریب ہوتا ہے تو میں ہاتھ بھر اس سے قریب ہوتا ہوں. اور اگر میرا بندہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں. تو یہ تعلق مع اللہ کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے بلکہ دو طرفہ ہے. قرآن حکیم میں فرمایا : اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا‘‘. اسی طرح کا معاملہ ولایتِ باہمی کا ہے کہ جو اہل ایمان اللہ کے ولی ہوتے ہیں اللہ ان کا ولی ہوتا ہے. چنانچہ فرمایا : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (البقرۃ:۲۵۷’’اللہ اہل ایمان کا حامی و مددگار ہے‘ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال کر لاتا ہے‘‘. اور: اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس) ’’ آگاہ رہو! یقینا جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے‘‘. تو یہ موالاتِ باہمی ہے کہ تم میرے دوست بنو تو میں تمہارا دوست ہوں. اس اعتبار سے نوٹ کیجیے یہ بڑا پیارا مقام ہے : یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ’’اللہ ان سے محبت کرے گا اوروہ اللہ سے محبت کریں گے‘‘. 

اس جگہ ایک بڑی لطیف بات آئی ہے جو درحقیقت صوفیاء کا موضوع ہے کہ ان مطلوبہ اوصاف میں سب سے پہلے اللہ کی محبت کا ذکر ہوا ہے. اصل میں یہ اللہ کا سلیکشن 
ہے. یہ جان لیجیے کہ پہلے اللہ اپنے کسی بندے کو چنتا ہے اور اس کا چناؤ (selection) ہی اس بندے کے لیے کل خیر کی توثیق کا اصل سبب بنتا ہے . اہل جنت کی زبانوں پر جو ترانہ ٔ حمد ہو گا اس میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ ’’ہم ہرگز ہدایت نہ پا سکتے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا‘‘. گویا اس نے ہمیں چنا ہے . سورۃ الحج کے آخری رکوع میں ارشاد ہوا : ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ ’’اس نے تمہیں چن لیا ہے‘‘. اب اس میں جو سرور اور کیف ہے یہ سرور دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل کو آسان کر دے گا. یہ کیف وہ ہے کہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی ظاہری نعمت میں وہ کیف اور سرور نہیں ہو گا کہ اللہ نے مجھے پسند فرمایا‘ اللہ کی نظر عنایت مجھ پر ہے‘ میں اللہ کی نگاہِ التفات میں ہوں(جیسے نبی اکرم  سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا: فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا ’’تم ہماری نگاہوں میں ہو!) مجھے خیر کی توفیق ملی ہے تو زہے نصیب کہ ؏ قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند!اب اس کیف کو اپنے اوپر طاری کیجیے تو اندازہ ہو گا کہ یہ چیز انسان کے لیے استقامت کی کتنی بڑی بنیاد بنے گی. وہ جو اقبال کہتا ہے کہ؏ ’’اپنی خودی پہچان‘ او غافل افغان!‘‘ اسی طرح بندہ اپنی اس حیثیت کا شعور وادراک کرے کہ میرے ربّ کا بلاوا میرے نام آیا ہے‘ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے تو خود تو نہیں پہنچی ‘ کسی کے پہنچائے پہنچی ہے‘ میرے دل میں نیکی کا یہ ارادہ پیدا ہوا تو از خود نہیں ہوا ‘ اُسی کے پیدا کیے پیداہوا ہے.اور یہ درحقیقت محسوس کرنے کی شے ہے‘ اس کو الفاظ میں بیان کرنا بھی فی الواقع ممکن نہیں ہے. یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ’’اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے‘‘. 

اقامت دین کی جدوجہد میں اصل نصب العین اور اصل جذبۂ محرکہ یہی ہونا چاہیے. یہی ہو گا تو جدوجہد میں دوام ہو گا‘ ثبات ہو گا‘ استقامت ہو گی. اور اگر یہ نہیں ہے‘ بلکہ کوئی دنیاوی تبدیلی لے آنا‘ کوئی انقلاب برپا کر دینا ‘کوئی نظام درست کر دینا پیش نظر ہے‘ اور اسی کو کہیں نصب العین کا درجہ دے دیا تو مار کھا جائیں گے. پھر وہ استقامت حاصل نہیں ہوسکتی. استقامت کی اصل بنیاد یہی ’’محبت خداوندی ‘‘ ہے. 
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ ’’اور جو اہل ایمان ہیں وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہیں‘‘. یہ جذبۂ محبت موجود ہے تو گویا کہ رُخ صحیح ہو گیا اور انسان کا اصل جذبۂ محرکہ اب خالص ہو گیا . ورنہ ؏ ’’گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!‘‘ عبادت کے ضمن میں بھی میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ’’اَلْـعِبَـادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ : غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ ‘‘ یعنی ’’عبادت کی دو بنیادیں ہیں: اللہ تعالیٰ سے انتہا درجے کی محبت اور اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور پستی اختیار کرنا‘‘. 

اب دوسرا وصف آیا : 
اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ ’’مؤمنوں پر بہت نرم ‘ کافروں پر بہت سخت‘‘. یہی وصف سورۃ الفتح کے آخری رکوع میں بایں الفاظ بیان ہو چکا ہے : اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ اس سے آپ اس کی اہمیت کا اندازہ کیجیے. یہ بارہا کا بیان کردہ اصول ہے کہ اہم مضامین قرآن مجید میں کم سے کم دو مرتبہ ملتے ہیں اور ان میں اکثر و بیشتر ترتیب عکسی ہو جاتی ہے. مثال کے طور پر سورۃ الحج کے آخری رکوع میں شہادت علی الناس کے ضمن میں حضور کا ذکر پہلے اور اُمت کا بعد میں ہے : لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ جبکہ سورۃ البقرۃ میں اُمت کا ذکر پہلے اور حضور کا ذکر بعد میں آیا ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت ۱۴۳یہ بات آپ کو قرآن حکیم میں اکثر و بیشتر ملے گی. مزید یہ دیکھئے کہ سورۃ الفتح میں ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ ‘‘ پہلے اور ’’رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ ‘‘ بعد میں ہے ‘لیکن یہاں ’’اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ‘‘ پہلے اور ’’اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ ‘‘ بعد میں ہے. ’’اَذِلَّۃٍ‘‘ جمع ہے ذلیل کی اور ’’اَعِزَّۃٍ ‘‘ جمع ہے عزیز کی.ذلیل اور عزیز ایک دوسرے کے اضداد (antonyms) ہیں. لیکن ذلیل کا لفظ ہمارے ہاں جس معنی میں مستعمل ہے عربی میں اس کا اصلی مفہوم وہ نہیں ہے‘ بلکہ ذلیل کے معنی کمزور کے ہیں. گویا وہی بات جو میں نے گزشتہ درس میں علامہ اقبال کے شعر کے حوالے سے کہی تھی کہ ؏

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن! 

دوستوں کے لیے نہایت نرم خو. دوست جو فرمائش کر رہے ہیں ٹھیک ہے‘ قبول ہے. انہوں نے کوئی بات چاہی تو حاضر ہیں‘ کرنے کے لیے تیار ہیں. معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے لیے بہت ہی نرم اور ڈھل جانے والے ہیں‘ موم کی طرح پگھل جانے والے ہیں. لیکن جب کفار سے مقابلہ ہوگا تو آہنی چٹان ثابت ہوں گے. وہاں محسوس ہو گا کہ یہ تو بڑے سخت ہیں‘ کوئی لالچ (temptation) ان کو ہلا نہیں سکتی‘ کوئی ایذا رسانی (persecution) انہیں ہراساں نہیں کر سکتی‘ کوئی ’’نصیحت‘‘ ان کے اوپر کارگر نہیں ہوتی.اس سے مراد اس طرح کی نصیحت ہے کہ خواہ مخواہ تم اپنا کیریئر کیوں برباد کر رہے ہو‘ اپنی زندگی کی فکر کرو‘ یہ تم کس راستے پر چل نکلے ہو. اس طرح کی بڑی بزرگانہ اور بڑی خیر خواہانہ انداز کی نصیحت بھی اثر انداز نہیں ہو رہی . دھمکی بھی اثر نہیں کر رہی. 

اسی وصف کو حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریین کو ہدایات دیتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں یوں ادا کیا ہے کہ ’’سانپ کی مانند ہوشیار لیکن فاختہ کی مانند بے ضرر بنو‘‘. یعنی متضاد اوصاف کو بیک وقت جمع کرنا. سانپ بہت چوکس‘ چوکنا اور ہوشیار ہوتا ہے‘ لیکن وہ دوسرے کو ضرر بھی پہنچاتا ہے‘ اور فاختہ بے چاری بے ضرر ہے‘ لیکن ساتھ ہی بہت کمزور بھی ہے‘ اسے جو چاہے مار لے. تو یہ نہ ہو ‘فاختہ بھی نہ بنو اور سانپ بھی نہ بنو‘ لیکن سانپ کا ایک وصف تمہیں اپنے اندر لانا ہو گا ‘یعنی ہوشیار‘ چوکس‘ چوکنے رہنا ہو گا. کوئی تمہاری غفلت سے فائدہ نہ اٹھا جائے‘ کوئی تمہیں بھولا سمجھ کر تمہارے اس بھول پن کو 
exploit نہ کر جائے. لیکن تم سے کسی کو ضرر بھی نہ پہنچے. اس اعتبار سے تمہیں فاختہ کا وصف اپنانا ہو گا.اب یہ اپنی اضداد کے اعتبار سے بہت ہی بلیغ پیرایہ ہے. یہاں پر میں نے اس کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے. تو ایک طرف نرمی ہے‘ جیسا کہ ہر وقت ‘ ہر سانچے میں ڈھلنے کے لیے تیار‘ لیکن کس کے لیے؟ اہل ایمان کے لیے‘ اپنے ساتھیوں کے حق میں‘ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ‘لیکن مدّمقابل یہ محسوس کرے کہ ان کے اندر تو انگلی دھنسانے کا بھی امکان نہیں ہے‘ کسی بھی درجے میں ان کو متاثر کر لینے کا کوئی امکان نہیں ہے‘ یہ تو چٹان کی طرح کھڑے ہوئے ہیں .

تیسرا وصف وہ ہے جس کا ذکر سورۃ الصف کے حوالے سے صفحاتِ گزشتہ میں کیا گیا تھا اور ہمارے اس منتخب نصاب (۱) میں وہ کماحقہ‘ بیان ہو جاتا ہے ‘یعنی جہاد‘ اور جہاد میں جان و مال دونوں کا کھپانا. فرمایا : 
یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ’’وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے‘‘. اب دیکھئے‘ قرآن مجید کا ایک اسلوب ہے‘ میں نے بھی کسی درجے میں ا س اسلوب کو قرآن سے مستعار لیا ہے. چنانچہ میری تحریروں میں آپ کو یہ اسلوب ملے گا کہ اگر کچھ باتیں جوڑوں کی صورت میں آ رہی ہیں تو پھر جوڑوں ہی کی شکل میں بات آگے بڑھتی ہے. اس آیت میں ’’یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ‘‘ بھی ایک جوڑا ہے اور ’’اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ ‘‘ بھی جوڑے ہی کی شکل ہے. لہذا اب جہاد کے ساتھ بھی ایک جوڑا لے آیا گیا: یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ’’وہ (ایسے لوگ ہوں گے کہ) اللہ کے راستے میں (اپنے جان و مال کے ساتھ) جہاد کریں گے اور (اللہ کے معاملے میں) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کریں گے‘‘.

اب یہ ملامت بھی دو طرح کی ہوتی ہے. ایک ملامت وہ ہوتی ہے جو ڈانٹ ڈپٹ‘ شرم دلانے‘ غلطی پر متنبہ کرنے اور احمق قرار دینے پر مشتمل ہوتی ہے. یعنی یہ انداز کہ غلط جا رہے ہو‘ یہ صحیح راستہ نہیں ہے جو تم نے اختیار کیا ہے‘ تمہاری مت ماری گئی ہے‘ جبکہ ایک ملامت ناصحانہ ہوتی ہے کہ دیکھو کچھ فکر کرو‘ بال بچوں کا خیال کرو‘ کچھ اپنے مستقبل‘ اپنے کیریئر کا دھیان کرو‘ تمہارے والدین نے تمہیں کن ارمانوں کے ساتھ پالا پوسا‘ تم ان کے دل توڑ رہے ہو‘ آخر انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر تم کو پڑھایا‘ اپنے اوپر سختیاں جھیلیں اور تمہاری ضرورتیں پوری کیں‘ اب تم ان کے ارمانوں کا خون 
تو نہ کرو. یہ ہے ایک ناصحانہ انداز.سورۃ العنکبوت کی آیت ۱۲ میں اسی ناصحانہ انداز کی طرف اشارہ ہے : وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ ’’اوریہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے‘‘. تو یہ دو طرح کی ملامت ہے جس سے اس راہ پر چلنے والوں کو سابقہ پیش آئے گا.بلکہ یہ ناصحانہ‘ مشفقانہ اور خیرخواہانہ ملامت زیادہ خوفناک ہوتی ہے . بسا اوقات انسان ڈانٹ ڈپٹ کے مقابلے میں تو اور سخت ہوتا چلا جاتا ہے‘ لیکن میٹھی چھری کے انداز میں جو کاٹ ہے اس سے بچنا زیادہ مشکل ہے. فیض کی شاعری چونکہ انقلابی رنگ لیے ہوئے ہے لہذا یہ چیز آپ کو وہاں بھی ملے گی ؎

چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت!

تو غیروں کی طرف سے ناوکِ دشنام تو آئیں گے ہی‘ گالیاں آئیں گی‘ الزامات آئیں گے‘ مگر اپنوں کی طرف سے بھی ہر طرح کی ملامت برداشت کرنا پڑے گی.اب آپ اندازہ کیجیے کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ‘کو ان کے کسی دوست نے حالتِ درویشی میں دیکھا ہو گا تو اُن سے کہا ہو گا کہ تم نے اپنے اوپر کیا ظلم کیا ہے‘ تمہارا دو دو سودرہم کا جوڑا سل کر آتا تھا‘ تمہارا پورا لباس معطر ہوتا تھا‘ تم خوش لباسی اور خوش ذوقی کی ایک علامت بن گئے تھے‘ جدھر سے تم گزرتے تھے وہ گلیاں معطرہو جاتی تھیں‘ لوگوں کی نگاہیں اٹھتی تھیں اور اب تم اس پھٹے پرانے کمبل کے اندر ملبوس ہو جس میں پیوند لگے ہوئے ہیں! حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا انتقال اس حالت میں ہوا تھا کہ ان کے جسم پر چادریں بھی دو نہیں تھیں‘ صرف ایک چادر تھی .اس تہہ بند کے ساتھ وہ اللہ کا بندہ لڑ رہا تھا‘ اور وہ تہہ بند بھی اتنا تھا کہ جب شہادت ہو گئی تو پورے جسم کو ڈھانپ نہیں سکا‘ سر کو ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں کو ڈھانپتے تو سر کھل جاتا. حضور کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو. تو وہ کہاں سے کہاں پہنچے! از کجا تا بہ کجا! اوریہ سب کچھ ایک دن میں تو نہیں ہو گیا. اس کو یوں سمجھئے کہ کم و بیش دس گیارہ برس لگے. مکہ میں قبولِ اسلام کے بعد جب انہیں مادر زاد برہنہ کر کے گھر سے نکالا گیا تو اُس وقت ان کے دوستوں کا جو حلقہ ہو گا‘ انہوں نے کس انداز میں ملامت کی ہو گی. چچا نے یہ کہتے ہوئے گھر سے نکال دیا کہ تم نے اپنے باپ کا دین چھوڑ دیا ہے تو اس کی جائیداد اور اس کی چھوڑی ہوئی دولت پر بھی تمہارا کوئی حق نہیں. گھر سے نکلنے لگے تو چچا نے کہا کہ یہ لباس بھی اسی باپ کی کمائی کا ہے جو تم نے پہنا ہوا ہے‘ تم نے تو آج تک پھوٹی کوڑی نہیں کمائی‘ یہ تو باپ کی چھوڑی ہوئی دولت ہے جس پر تم آج تک گلچھرے اڑاتے رہے ہو. اس نے بدن کے کپڑے بھی اتروا کر مادر زاد برہنہ کر کے گھر سے نکال دیا. 

رہی ناصحانہ اور خیر خواہانہ اندازِ ملامت تو یہ زیادہ خطرناک ہے. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ پر ایک دورِ ابتلاء تو وہ تھا کہ ان کو ماریں پڑ رہی تھیں‘ ایسی مار کہ اگر ہاتھی کو ماری جائے تو وہ بلبلا اٹھے‘ مگر اس پر کبھی کوئی آنسو آپؒ کی آنکھ میں نہیں آیا. جب دربارِ خلافت کی صورتِ حال بدلی‘ وہ فتنے والا دَور ختم ہو گیا‘ تختِ خلافت پر متمکن ہونے والے نئے خلیفہ نے اشرفیوں کا ایک توڑا بھیجا تو اس کو دیکھ کر رو پڑے اور کہا کہ اے اللہ! میں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں. یہ آزمائش زیادہ بھاری ہے ان کوڑوں سے جو میری پیٹھ پر پڑ رہے تھے. تو یہ ہے وہ وصف مطلوب 
لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ کہ وہ کسی ملامت گر کی ملامت کا خوف نہ کریں گے. 

یہ ان لوگوں کے مطلوبہ اوصاف کی تین 
dimensions ہیں‘ جو دراصل ہمارے لیے تین کسوٹیاں ہیں.اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مطلوبہ اوصاف کے حوالے سے یہ وہ آئیڈیل ہے جو ہمیں پیش نظر رکھنا ہے. اگر ہم اس معیار پر اپنے آپ کو پورا نہیں پا رہے ہیں تو اپنی کوتاہی کا احساس رہے‘ اس کا اعتراف ہو اور اس کا اقرار رہے‘ لیکن آئیڈیل کو مسخ نہ کیا جائے. اگر ہم اس آئیڈیل کو بدل دیں گے تو پھر اصلاح کا کوئی امکان نہیں رہے گا. تو ان مقامات کو اس اعتبار سے مستحضر رکھنا ضروری ہے کہ یہ اس راہ کے مسافروں کے لیے زادِراہ ہے‘ یہ اس جدوجہد کے لیے کمر ہمت کسنے والوں کے لیے لازمی اوصاف ہیں.