آگے فرمایا : ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ ’’یہ اللہ کا فضل ہے ‘ وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے‘‘. لفظ ’’فضل‘‘ کے مفہوم اور قرآن مجید میں اس کے استعمالات پر ہم گزشتہ نشست میں گفتگو کر چکے ہیں. یہاں ’’فضل‘‘ کا استعمال ایک نئی شان سے ہوا ہے. اس کا تعلق ’’ یُّحِبُّہُمۡ ‘‘ سے جڑتا ہے ‘یعنی اللہ کا یہ فضل ہوا تو انسان اس راستے کی طرف آیا. پھر یہ کہ ان اوصاف میں جتنی جتنی بھی ارزانی ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے ہی سے ہوئی. یہ اللہ کا فضل ہے‘ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے. اب معلوم ہوا کہ اُسی نے چنا اگر کسی کو چنا‘ اُسی نے ذوق عطا فرمایا اگر عطا فرمایا‘ اُسی نے شوق عطا فرمایا اگر شوق ملا‘ اُسی نے جذبہ عطا کیا اگر کسی کو جذبہ ملا. کوئی اورذریعہ (source) تو ہے ہی نہیں. تو یہ چیزیں اللہ کے فضل میں سے ہیں. ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘ اس کی دین ہے‘ اس کی عطا ہے. پھر اس کو نوٹ کیجیے کہ یہ اگر احساس رہے گا تو انسان میں کبھی تکبر پیدا نہیں ہو گا. پہلی بات تو یہ کہ اس میں ایک سرور ہے‘ اس میں کیف ہے کہ میرے ربّ نے مجھے چنا ہے‘ میرے ربّ نے مجھے پسند فرمایا ہے. قرعۂ فال میرے نام نکالا ہے. تو اس میں عنایت خداوندی کا اپنی ذات پر جو ایک خاص احساس ہوتا ہے یہ انسان کے لیے قوت کا سب سے بڑا منبع اور سرچشمہ ہے. پھر یہی وہ چیز ہے کہ جو تکبر کا راستہ مسدود کرتی ہے. اگر اس کے برعکس صورت ہو کہ میں نے یہ کیا‘ میرے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوئی ‘تو جان لیجیے کہ یہی ’’ مَیں‘‘ ہے جو اصل میں کِبر اور تکبر کی شکل اختیار کرتی ہے.
 
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان کے وار سب پر ایک طرح کے نہیں ہوتے. جو 
لوگ اس وادی میں آ گئے ہوں اور وہ کچھ منزلیں طے بھی کر بیٹھے ہوں‘ کچھ امتحانات پاس بھی کر چکے ہوں‘ کچھ آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ نکل بھی آئے ہوں‘ اب ان پر شیطان کا کوئی اوروار کارگر نہیں ہوگا‘ان کے لیے شیطان کے پاس بہت بڑا ہتھیار تکبر کا ہے. اور وہ کس قدر مہلک ہتھیار ہے؟ حضور فرماتے ہیں : لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ (۱’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہے‘‘. حقیقت کے اعتبار سے تکبر شرک کی بدترین صورت بنتی ہے. یہ شرکِ معنوی ہے‘ شرکِ خفی ہے. شرکِ خفی اور شرکِ جلی پر میں بہت بحثیں کر چکا ہوں کہ اس میں فرق صرف یہ ہے کہ شرکِ جلی وہ ہے جو نظر آتا ہے‘ جس پر کسی مفتی کا فتویٰ لگ جائے گا اور شرکِ خفی وہ ہے جو نظر نہیں آتا‘ وہ مفتی کے فتوے کی زد میں نہیں آئے گا‘ لیکن شرک ہونے کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے.

یہ نہ سمجھئے کہ شرکِ جلی بڑا شرک ہے اور شرکِ خفی چھوٹا شرک ہے. بڑے اور چھوٹے شرک کی نسبت اگر آپ نے جلی اور خفی کے حوالے سے کی ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے. تو یہ تکبر درحقیقت بہت بڑا شرک ہے‘ اس لیے کہ اس کے لیے حدیث قدسی میں الفاظ یہ آئے ہیں : اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ (۲’’تکبر تو میری چادر ہے‘‘.گویا جو کوئی تکبر کرتا ہے وہ میرے کاندھے سے میری چادر گھسیٹ رہا ہے. اور عرب میں یہ کسی کی سب سے بڑی توہین تھی. عربوں کے لباس میں ان کی شخصیت اور وجاہت کا انڈکس ان کی چادر ہوتی تھی. وہ چادر جو خواتین اوڑھتی تھیں جلباب کہلاتی تھی‘ جس کا ذکر سورۃ الاحزاب میں آیا ہے. وہ اپنے پورے جسم کو اس چادر کے اندر لپیٹ کر نکلتی تھیں. اسلام نے اس میں صرف یہ اضافہ کیا کہ اس چادر کا ایک حصّہ چہرے پر لٹکا لیا جائے‘ ورنہ پہلے سے وہ چادر اُن کے لباس کا جزوِ لازم تھی. اسی طرح (۱) سنن الترمذی‘ کتاب البر والصلۃ عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فی الکبر.

(۲) سنن ابی داوٗد‘ کتاب اللباس‘ باب ما جاء فی الکبر. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب البراء ۃ من الکبر والتواضع. 
مَردوں کے لباس میں بھی چادر کو خصوصی اہمیت حاصل تھی‘ جیسے آج کل پٹھانوں کے لباس میں چادر جزوِ لازم ہے‘ جو ان کے کندھے پر ہوتی ہے‘ اور وہ بڑی کثیر المقاصد(multipurpose) چادر ہوتی ہے. بوقت ضرورت وہ مصلیٰ بنتی ہے‘ وہی سونے کے کام آتی ہے. وہ رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہیں تو اپنی اس چادر کو اپنے گرد بالکل ایک خیمے کی طرح تان لیتے ہیں. تو یہ بڑی ’’ملٹی پرپز‘‘ چادر ہے. (۱عرب میں بھی چادر لباس کا جزوِ لازم تھا اور ہر شخص اپنے جاہ و مرتبہ اور مالی حیثیت کے لحاظ سے چادر اپنے کندھے پر رکھتا. گویا اس چادر سے انسان کا رتبہ معین ہوتا تھا. اب کسی کی چادر اس کے کندھے سے گھسیٹ لینے کا مطلب اسے بے عزت کر دینا تھا. تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کبر میری چادر ہے‘‘. یہ جامہ صرف مجھ کو راست آتا ہے. اگر کوئی متکبر ہے تو گویا اس نے میرے کاندھے سے میری چادر گھسیٹی ہے‘ اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے. 

یہ تکبر اس راہ کا سب سے بڑا فتنہ ہے. یہ پندار کہ میں نے اس راہ میں یہ کچھ کھپا دیا‘ میں نے تو بہت دولت صرف کر دی‘ اپنی جوانی کھپا دی‘ اپنی توانائیاں لگا دیں‘ یہ چیز تکبر کی بدترین بنیاد بن جائے گی. اس کے برعکس یہ خیال ہو کہ یہ سب کچھ اس کی دین ہے‘ اس نے عطا کیا ہے ‘ اس نے توفیق دی ہے‘ اس نے تیسیر فرمائی ہے‘ اس نے ایسے مواقع پیدا فرمادیے‘ وہ مواقع اگر نہ ملتے تو نہ معلوم ہم کہاں بھٹک رہے ہوتے! کس نالی میں گرے ہوتے! آخر شراب پی کر نالیوں میں گرے ہوئے لوگ بھی تو ملتے ہیں‘ وہ بھی انسان ہیں‘ پتا نہیں کس وقت اس کا پاؤں پھسل گیا اور ایک مرتبہ کی لغزش اسے کہاں سے کہاں لے گئی. ہماری نہ معلوم کتنی لغزشیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے‘ کتنی خطائیں ہیں جن سے درگزر فرمایا ہے. اب یہ احساس اگر ہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے‘ اس میں میرا کوئی ذاتی استحقاق نہیں تھا‘ کوئی میرا دعویٰ 
(claim) 

(۱) افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں افغان مجاہدین اپنی چادر کے ذریعے روسی ٹینکوں کا شکار بھی کرتے رہے ہیں. وہ اپنی چادر کو گیلا کر کے چلتے ہوئے ٹینک پر ایک خاص انداز سے پھینکتے تو یہ ٹینک کے chain میں پھنس جاتی اور ٹینک رک جاتا اور مجاہدین اس پر قبضہ کر لیتے.(اضافہ از مرتب) نہیں تھا‘ جو کچھ ملا ہے صرف اس کی عطا‘ اس کا فضل اور اس کی دین ہے ‘ تو انسان تکبر سے بچ جائے گا. ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ ’’یہ اللہ کا فضل ہے‘ وہ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘.