دو صفاتِ الٰہیہ کے حوالے سے حسد کا سدّباب

آیت کے آخر میں فرمایا : وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾ ’’اور اللہ بہت وسعت والا‘ جاننے والا ہے‘‘. اس آیت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کی یہ جو دو صفات آئی ہیں اس مضمون کے ساتھ ان کی نسبت اور تعلق تلاش کیجیے! آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس میں حسد کی جڑ کٹتی ہے. اگر اللہ نے کسی کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے تو جلتے کیوں ہو؟ اللہ کے فضل کا خزانہ محدود تو نہیں ہے‘ تم اس سے مانگو‘ وہ تمہیں دے گا.اس راستے میں آ کر بربادی کا جو اصل سبب بنتا ہے وہ اوّلاً تکبر اور ثانیاً حسد ہے. حدیث نبویؐ کے مطابق حسد نیکیوں کوا س طرح جلا دیتا ہے جیسے آگ ایندھن کو جلا دیتی ہے. حسد اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے یہ شے کیوں دے دی؟ حسد مال و دولت پر بھی ہوتا ہے اور اس بات پر بھی کہ فلاں کو یہ رتبہ کیوں مل گیا. لیکن جب یہ خیال ہو کہ یہ اللہ کا فضل ہے جو اس پر ہوا ہے‘ اللہ نے اسے چن لیا ہے‘ یہ اس کی دین ہے ‘تو پھر حسد پیدا نہیں ہو گا. جب ہمیں اللہ سے محبت ہے تو راضی برضائے ربّ رہنا ہو گا. یہ بات حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں پر بھی آخر کار کھل گئی تھی‘ اگرچہ بہت دیر میں کھلی تھی. شروع میں حسد تھا کہ یوسف اور اس کا بھائی بنیامین ہمارے والد صاحب کو بہت زیادہ محبوب ہیں‘ حالانکہ ہم عُصبہ ہیں‘ ہم دس جوان ہیں‘ ہم دست و بازو ہیں‘ کوئی مقابلہ پیش آئے گا تو لاٹھیاں لے کر مقابلے میں ہم آئیں گے‘ مگر یہ چھوٹے چھوٹے دو بچے جو ہیں ان پر زیادہ عنایت ہے‘ زیادہ شفقت ہے.لیکن جب وہ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آخری مرتبہ خستہ حالی کی کیفیت میں پہنچے اور جب وہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ یوسف ہیں تو وہ پکار اٹھے : تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا ’’اللہ کی قسم (آج ہم تسلیم کر رہے ہیں کہ) اللہ نے آپ کو ہم پر ترجیح دی ہے‘‘. ہماری نسبت آپ کو پسند فرما لیا ہے.

اس حقیقت کا اگر پہلے روز سے ادراک ہو جائے کہ یہ اللہ کا انتخاب 
(choice) ہے‘ اللہ کی پسند ہے‘ اللہ نے جس کو جو چاہا دے دیا ‘تو پھر حسد نہیں ہو گا.یہ اس کا اختیار خصوصی ہے‘ جس طرح چاہے استعمال کرے. اور یہ بھی سوچیں کہ آخر اس کا خزانہ خالی تو نہیں ہو گیا! تم بھی اس سے مانگو. حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ مَیں نے آپ کو سنائے تھے کہ دستک دو‘ کھولا جائے گا‘ مانگو‘ دیا جائے گا… تم میں سے کون ایسا ہے کہ اس کا بیٹا اس سے مچھلی مانگے اور وہ اسے سانپ پکڑا دے! تم اپنی اولاد کے ساتھ اگر یہ نہیں کرتے تو کیا وہ تمہارا آسمانی باپ اگر تم اس سے مانگو گے تو کیا تمہیں نہیں دے گا؟ مانگ لو اس سے‘ اس کا خزانہ تو اتھاہ ہے. اس سے تم مانگو‘ وہ تمہیں دے گا. ہو سکتا ہے کہ کسی کو ایک پہلو سے نواز دے‘ کسی دوسرے کو کسی دوسرے پہلو سے نواز دے. وہاں تو قسم قسم کی نعمتیں ہیں‘ انواع و اقسام کے رنگا رنگ ہیرے اور موتی ہیں ‘وہ واسع ہے‘ بڑی وسعت والا ہے. وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴

’’علیم‘‘ میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ جس کو جو کچھ دیتا ہے اپنے علم کی بنیاد پر دیتا ہے کہ کون کس شے کا اہل ہے. حضرت مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں بھی آیا ہے کہ اپنے بچوں کے حصے کی روٹی کتوں کے آگے مت ڈالو. کون کس شے کا اہل ہے‘ دیکھ کر دو. اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ جس کو جو کچھ دیتا ہے الل ٹپ نہیں دیتا. بسا اوقات کسی کو دولت سے محروم کرنا اس کے لیے بہتر ہوتا ہے. ایک شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں ہے کہ یہ ضعیف ہے‘ اپنی خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتا‘ دولت کی فراوانی ہو گی تو عیاشیوں میں مبتلا ہو جائے گا. اگر اس وجہ سے اللہ نے ہاتھ روکا ہوا ہے تو اللہ اس کے لیے خیر کر رہا ہے‘ شر تو نہیں کر رہا ہے. اس سے اس دولت کا روک لینا اور رزق میں تنگی کر دینا اس کے لیے خیر ہے‘ شر نہیں ہے. تو وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے علمِ کامل کی بنیاد پر کرتا ہے کہ کسے کیا دینا ہے اور کیا نہیں دینا‘ کون کس چیز کا اہل ہے اور کس چیز کا اہل نہیں ہے. تو وہ واسع بھی ہے اور علیم بھی ہے. جو مانگنا ہے اس سے مانگو. البتہ اس پر راضی بھی رہو کہ جو اُس نے ہمیں دیا ہے یقینا یہی ہمارے لیے خیر ہے. 

ooبارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیمoo