پہلی آیت میں دو اوصاف بیان ہوئے ہیں اور یہ ایمان کا لبّ لباب اور حاصل ہے . ہمارے ہاں یہ تشبیہہ اورتمثیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے کہ دین کا جو عملی پہلو ہے اس کے لیے ایمان کو جڑ کا درجہ حاصل ہے. یہ عملی پہلو چاہے انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی ذات سے متعلق ہو‘چاہے شہادت علی الناس اور اقامتِ دین کی جدوجہد ہو‘ ان سب کے لیے ظاہر بات ہے کہ اصل شے وہ جڑ ہے جس سے کہ غذا ملتی ہے‘ جس سے توانائی حاصل ہوتی ہے‘ اور وہ ایمان ہے. لہذا یہاں ان اوصاف کے ضمن میں سب سے پہلے ایمان کا لب لباب بیان کر دیا گیا. اس ضمن میں پہلی شے یہ فرمائی گئی کہ فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ’’جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا سرو سامان ہے‘‘. جو کچھ بھی تم دیے گئے ہو ‘ کوئی بڑی سے بڑی شے یا چھوٹی سے چھوٹی شے‘ وہ اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا برتنے کا سامان ہے. ’’شَیۡءٍ ‘‘ یہاں نکرہ ہے اورنکرہ عربی زبان میں تفخیم کے لیے بھی آتا ہے‘ تعظیم کے لیے بھی اور تحقیر کے لیے بھی. یعنی کسی چیز کی عظمت کا بیان کرنا ہو‘ اس کی بڑائی کا بیان مقصود ہو یا اس کا چھوٹا پن ظاہر کرنا ہو تو اسے نکرہ استعمال کرتے ہیں. میں نے ان دونوں کو جمع کیا ہے کہ کوئی بڑی سے بڑی شے جو دنیا میں مل جائے‘ فرعون کی حکومت‘ نمرود کی حکومت یا قارون کا خزانہ ‘اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی شے جو یہاں کسی کو ملتی ہے‘ اس کے بارے میں یہ واضح فرما دیا کہ اوّل تو وہ ’’ اُوۡتِیۡتُمۡ ‘‘ کے حکم میں ہے‘ وہ تمہاری اپنی کمائی ہوئی نہیں ہوتی‘ دی گئی ہوتی ہے. سورۃ الحدید میں الفاظ آئے ہیں کہ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ ’’اور خرچ کرو ہر اُس چیز میں سے جس کا اس نے تمہیں اختیار بخشا ہے‘‘. یہاں بھی صرف اسلوب کے بدلنے سے ایک اہم رہنمائی ہو گئی کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہ تمہارا اپنا کسب ہے‘ تمہاری اپنی کمائی ہے‘ تمہاری اپنی محنت سے حاصل کردہ شے ہے‘ تمہاری اپنی صلاحیتوں کا ثمرہ ہے‘ تمہاری ذہانت کا نتیجہ ہے. اگر یہ سمجھو گے تو تمہارا قدم قارونیت کی طرف اٹھ جائے گا‘ اس لیے کہ اُس نے یہ کہا تھا کہ یہ دولت و ثروت میرے علم کا حاصل ہے اِنَّمَاۤ اُوۡتِیۡتُہٗ عَلٰی عِلۡمٍ عِنۡدِیۡ ؕ 

دوسری بات یہ واضح کر دی گئی کہ یہ ’’مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ‘‘ ہے ‘یہ بس اس چند روزہ دنیا کی زندگی کا برتنے کا سامان ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں. اللہ نے تمہیں یہاں امتحان کی خاطر کچھ عرصے کے لیے ٹھہرائے رکھنا ہے‘ جو تیس چالیس سال بھی ہو سکتا ہے‘ پچاس ساٹھ سال بھی اور دس بیس سال بھی. یہ تمہارا امتحانی عرصہ ہے. تو اگر کمرۂ امتحان میں تمہیں ایک کرسی اور میز دے دی گئی‘ کوئی قلم دے دیا گیا اور وہاں تمہارے لیے پانی کا کوئی اہتمام کر دیا گیا کہ کوئی ملازم کھڑا ہے‘ تو کیا ان چیزوں کے بارے میں تمہارا یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں؟ ان سے تمہیں کوئی قلبی لگاؤ ہوتا ہے؟ بلکہ ساری توجہ کا ارتکاز تو امتحان پر ہوتا ہے. تو بس یوں سمجھو کہ یہ امتحانی وقفہ گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں کچھ سامان دے دیا ہے. اگر اس سے زیادہ اس کے لیے دل میں کوئی وقعت پیدا ہوگئی اور اس سے زیادہ کوئی تعلق خاطر قائم ہو گیا تو پھر اور جو چاہو کرو‘ اُس (اقامت دین کی) وادی میں قدم نہ رکھنا ؏ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں! نقطۂ نظر کا اگر یہ فرق واقع نہیں ہوا ہے تو اس راستے پر نہیں چل پاؤ گے. سوچ سمجھ کر اس وادی میں قدم رکھو ؎ 

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!

دلوں کو ٹٹول لو کہ اس راہ کے مسافر کا وصفِ لازم یہ ہے کہ بڑی سے بڑی شے اور چھوٹی سے چھوٹی شے جو کچھ ملی ہے‘ یہ صرف اس دنیا کی عارضی زندگی کے برتنے کا ایک سامان ہے. اس سے زیادہ اس کی وقعت‘ اس سے زیادہ اُس کی قدر و قیمت‘ اس سے زیادہ اس سے کوئی تعلقِ خاطر اور اس سے بڑھ کر اس کے ساتھ کوئی قلبی لگاؤ اگر ہے تو گویا کہ آدمی پہلے ہی امتحان میں ناکام ہے ؎ 

ہوئے ہیں پاؤں پہلے ہی نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے‘ نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے ! 

پھر تو انسان اس شعر کا مصداق بنا رہے گا کہ چلنا چاہتا ہے‘ چل نہیں پاتا. دل میں آگے بڑھنے کی آرزو ہے‘ خواہش ہے‘ لیکن پاؤں میں کوئی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں. اس راستے پر چلنا ہے تو اس مخمصے سے آزاد ہو کر آؤ.

آگے فرمایا : 
وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾ ’’اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی‘ اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں.‘‘ ایک لفظ میں اس وصف کو ’’ ترجیح آخرت‘‘ کا عنوان دیا جا سکتا ہے کہ مطلوب آخرت رہے‘ دنیا نہ رہے. قدروقیمت آخرت کی نعمتوں کی ہو‘ دنیا کے ساز و سامان کی نہ ہو. یہ ہے اس راستے کی شرطِ اوّل.