اس سلسلے کا چوتھا وصف یہ بیان ہوا : وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾ ’’اور جب انہیں غصہ آ جائے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘. اس آیت میں بیان کردہ یہ دوسرا وصف ہوا کہ انسان غصے میں آ کر کوئی قدم نہ اٹھائے‘ جھنجھلاہٹ میں آ کر زبان سے کوئی کلمہ نہ نکالے.آپ آیت کے الفاظ پر غو ر کیجیے کہ یہاں غصے کی نفی نہیں ہے. سرے سے غصہ نہ آنا تو غیرت و حمیت کے فقدان کی علامت ہے. جس شخص کو غصہ آتا ہی نہیں وہ یا تو وہی شخص ہو گا جس میں غیرت و حمیت نہیں ‘یا پھر پرلے درجے کا کوئی منافق ہو گا. جو لوگ بہت زیادہ ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں وہ بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں. اللہ نے انسان کے اندر غیرت و حمیت کا مادہ رکھا ہے جس کا اظہار غم و غصہ کی صورت میں ہوتا ہے‘ لہذا غصہ آنا چاہیے‘ البتہ ٹھیک جگہ پر آنا چاہیے‘ غلط جگہ پر نہیں آنا چاہیے. اللہ تعالیٰ نے انسان میں اگر شہوت کا جذبہ رکھا ہے تو وہ کوئی بری شے نہیں ہے ‘ ہاں اس کو صحیح رُخ پر استعمال ہونا چاہیے‘ غلط راستہ پر نہیں پڑنا چاہیے. اسی طرح غصہ جو ہے اس کی نفی نہیں ہے‘ لیکن یہ کہ غصے میں کوئی اقدام کیا جائے گا توغلط ہو جائے گا. انسان جو بھی اقدام کرے وہ غصہ رفع ہونے کے بعد کرے ‘اور اگر غصے کی حالت میں ہو تو معاف کرے. 

سورۂ آل عمران میں اہل تقویٰ کی صفات کے ضمن میں فرمایا: 
وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ (آیت ۱۳۴’’غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے‘‘. یہ چیز خاص طور پر کسی اجتماعی جدوجہد میں بہت ضروری ہے. اگر جھنجھلاہٹ طاری ہونے لگے‘ غصے میں آدمی کچھ کہہ دے‘ غصے میں کوئی قدم اٹھا لے تو یہ بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے. میں نے آپ کو خلیل جبران کا فقرہ سنایا تھا کہ ’’عقل سے رہنمائی حاصل کرو اور جذبے کے تحت حرکت کرو‘‘. منزل کا تعین کہ جانا کہاں ہے‘ عقل سے ہو گا‘ ایسا فیصلہ جذبات میں کیا گیا تو غلط ہو جائے گا‘ البتہ جب طے کر لیا کہ ادھر جانا ہے تو اب عقل کو ایک طرف رکھ دو‘ چلنے میں یہ رکاوٹ بنے گی‘ قدم قدم پر مصلحتیں سجھائے گی‘ قدم قدم پر خطروں سے باخبر کرے گی تو چل نہیں پاؤ گے. جب آپ نے منزل کا تعین کر لیا تو عقل کا کام مکمل ہو گیا‘ اب اسے ایک طرف رکھو اور جذبے کے تحت حرکت کرو ؎ 

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی!

اسی طرح غصے میں فیصلہ مت کرو‘ غصے میں اقدام مت کرو. غصہ آئے تو اسے پینے کی کوشش کرو اور ایسے میں مغفرت اور عفو کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرو. 
آگے فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸

’’اور جنہوں نے اپنے ربّ کی پکار پر لبیک کہی اور نماز قائم کی‘ اور وہ اپنے معاملات باہم مشورے سے چلاتے ہیں‘ اور ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.‘‘