وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ ’’اور نماز قائم کریں.‘‘ وہ اپنی اس جدوجہد کے لیے جو اجتماعی ہیئت قائم کریں اس کا اہم ترین وصف اقامتِ صلوٰۃ ہو گا. اقامتِ صلوٰۃ کو اس اجتماعیت میں مرکزہ (nucleus) کی حیثیت حاصل ہو گی‘ جس طرح کہ چکی کے درمیان وہ کلی ہوتی ہے جس پر وہ گھومتی ہے.
سورۃ الفتح کی آخری آیت میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ ’’تم انہیں دیکھو گے تو رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے‘‘. اپنے انفرادی معاملے کے اعتبار سے وہ نماز نفل ہے‘ تہجد ہے‘ قیام اللیل ہے‘ یعنی انفرادی اعمال میں تو تقرب بالنوافل کی اہمیت زیادہ ہے. لیکن اجتماعیت کے اعتبار سے اصل اہمیت تقرب بالفرائض کی ہے ‘ چنانچہ یہاں اصل شے فرض نماز ہے. لہذا یہاں فرمایا : وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ ’’وہ نماز کو قائم رکھتے ہیں‘‘. معلوم ہوتا ہے کہ ان کا پورا پروگرام‘ ان کے معمولات‘ ان کے چوبیس گھنٹے کے مشاغل اس نظامِ صلوٰۃ کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں‘ ان کی پوری زندگی میں نماز کوریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے.