نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ :
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿٪۵۶﴾ (المائدۃ) 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ ۙ وَ یَحۡلِفُوۡنَ عَلَی الۡکَذِبِ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴﴾اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۶﴾لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا فَیَحۡلِفُوۡنَ لَہٗ کَمَا یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ ؕ اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۸﴾اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ ﴿۲۰﴾کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱﴾ لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ وَ یُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾ (المُجادلۃ)

لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۸﴾اِنَّمَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۹﴾ (المُمتحنۃ) صدق اللہ العظیم 

قبل ازیں ہم سورۃ الفتح کی آخری آیت اور پھر سورۃ المائدۃ کی آیت ۵۴ (جو مذکورہ بالادو آیات سے متصلاً قبل ہے) میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ جو اجتماعیت اقامتِ دین‘ غلبۂ دین‘ اعلائے کلمۃ اللہ‘ تکبیر ربّ ‘ حکومتِ الٰہیہ کے قیام یا اسلامی انقلاب کی جدوجہد کے عظیم مقصد کے لیے قائم ہو‘ اسے کن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے. اوّل تو ہم نے سورۃ الصف کی آخری آیت سے یہ سمجھا کہ اس جماعت کی ہیئت ِتشکیلی اس طور سے وجود میں آتی ہے کہ کوئی ایک داعی مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ کی پکار لگائے اور کچھ باہمت لوگ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کا ساتھ دینے پر کمرہمت کس لیں. یہی بات ہمیں سورۃ الفتح کی آخری آیت میں مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کے الفاظ میں ملی. اس مقصد کے لیے اب آئندہ جو اجتماعیت بھی قائم ہو گی‘ ظاہر بات ہے کہ اس میں ایک چیز نہیں ہو گی‘ یعنی جو بھی کوئی شخص کھڑا ہو گا وہ نبی اور رسول نہیں ہو گا‘ باقی اس اجتماعیت کا پورا خاکہ مکمل تفاصیل کے ساتھ ہمیں سیرتِ نبویؐ ہی سے لینا ہے. مندرجہ ذیل شعر اگرچہ بعض اعتبارات سے نامناسب ہے لیکن اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے اس بات کو بہت خوبی کے ساتھ واضح کرتا ہے کہ ؎ 

زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا کہ جہاں پر خدا نہ ہو!

تو ظاہر بات ہے کہ ہمیں جماعتی زندگی کا پورا نقشہ وہیں سے لینا ہے‘ وہی ہمارے لیے اُسوۂ کاملہ ہے‘ البتہ اس میں سے جو حصہ ہمیشہ ہمیش کے لیے ساقط ہو چکا ہے اس کو اپنے ذہن سے بھی دُور رکھنا ہے‘ کہیں اس مغالطے میں مبتلا نہیں ہو جانا. اس کے لیے شعوری طور پر اپنی حفاظت کا اہتمام کرنا ہے کہ کہیں غلو نہ ہو جائے‘ کہیں حدّ اعتدال سے تجاوزنہ ہو جائے. 

اقامتِ دین کی جدوجہد کرنے کے لیے جو لوگ ایک جمعیت کی شکل اختیار کر لیں ہم نے ان کے اوصاف کی تین جہات 
(dimensions) معین کی تھیں اوّلاً تعلق مع اللہ‘ ثانیاً آپس کا رشتۂ اخوت و رفاقت‘ اور ثالثاً جو مقابلے پر ہوں‘ یعنی کفار‘ ان کے ساتھ اس کے برعکس ایک کیفیت. اور یہ تیسری چیز اصل میں جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ یعنی جان اور مال کا کھپانا. جہاں تک جہاد کا تعلق ہے اس کے مقتضیات‘ اس کے تقاضے‘ اس کے مراحل اور اس کے لوازم چونکہ ہمارے منتخب نصاب (۱) میں بالتفصیل بیان ہو جاتے ہیں لہذا اس نصاب میں ہم نے ان کو شامل نہیں کیا. اسی طرح تعلق مع اللہ کا بیان بھی ایمان کے مباحث میں تفصیلاً زیر بحث آ جاتا ہے. البتہ اب ہمیں جن چیزوں پر گفتگو کرنی ہے ان میں ایک تو وہ باہمی رشتۂ اخوت و رفاقت ہے جو اس اجتماعیت کے اندر مطلوب ہے‘ اور پھر یہ کہ اس کے برعکس جو لوگ مدّمقابل ہوں‘ جو اِس جدوجہد میں مزاحم ہو رہے ہوں ‘ان کے ساتھ طرزِ عمل کیا ہو. دوسرے یہ کہ پیشِ نظر اجتماعیت کی صورت میں جو نظم قائم ہو رہا ہے اس میں داعی اور وہ لوگ جو اُس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کے اعوان وانصار بن کر حاضر ہو رہے ہوں ‘ان کے مابین ایک نئی نسبت امیر اور مأمور کی قائم ہو رہی ہے اور یہ نسبت اب سارے ڈسپلن کی اساس ہے. چنانچہ اب ہمیں زیادہ تر انہی دو گوشوں کو قرآن حکیم کی روشنی میں explore کرنا ہے.
سورۃ الحدید سے لے کر سورۃ التحریم تک جو مدنی سورتیں ہیں ان میں سے متعدد سورتیں پوری کی پوری ہمارے اصل منتخب نصاب میں شامل ہیں. سورۃ الحدید اُس کا نقطۂ عروج اور کلائمکس ہے. ا س پر وہ نصاب ختم ہوتا ہے‘ بلکہ پورا چھٹا حصہ اسی پر مشتمل ہے. اسی طرح اس منتخب نصاب کے چوتھے حصے میں سورۃ الصف ‘ سورۃ الجمعۃ اور سورۃ المنافقون شامل ہیں. اس سے بھی پیچھے جایئے تو اس کے تیسرے حصے میں سورۃ التحریم ہے. مزید پیچھے جایئے تو اس کے دوسرے حصے میں جہاں ایمان کے مباحث آتے ہیں‘ سورۃ التغابن موجود ہے. تو یوں سمجھئے کہ ان دس سورتوں میں سے چھ سورتیں تو پہلے ہی ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہیں. اب یہاں آپ نوٹ کیجیے گا کہ یہ جو دو حصے مَیں آپ کے سامنے لا رہا ہوں ان میں سے اکثر و بیشتر انہی دس سورتوں میں سے منتخب مقامات ہیں. اقامت دین اور نظامِ عدل و قسط کے قیام کی جدوجہد 
لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ کا تعین سورۃ الحدید میں ہو جاتا ہے‘ اظہار دین الحق علی الدین کلہٖ کی جدوجہد سورۃ الصف کا مرکزی مضمون ہے. اس کے لیے جو اجتماعیت قائم ہو گی اس کے استحکام کے لیے ہدایات بھی آپ کو انہی سورتوں (مثلاًسورۃ المجادلۃ‘ سورۃ الممتحنہ) میں ملیں گی. لہذا یہ بات پھر ذہن نشین کر لیجیے کہ مکی اور مدنی سورتوں کا یہ گروپ‘ جس میں سات سورتیں مکی ہیں (سورۂ ق سے سورۃ الواقعہ) اور دس سورتیں مدنی ہیں (سورۃ الحدید سے سورۃ التحریم) ‘ ان میں مکی اور مدنی کی نسبت بڑی عجیب ہے . سورۃ المدثر کی ابتدائی تین آیات میں ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ تو جہاں تک انذار کا تعلق ہے قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وہ اس گروپ کی سات مکی سورتوں کا مرکزی مضمون ہے‘ جبکہ تکبیرِ ربّ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ اس گروپ کی دس مدنی سورتوں کا main theme ہے. چنانچہ ان سورتوں میں ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات ملتے ہیں کہ تکبیر ربّ کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کے لیے دو اصطلاحات کیا ہیں؟ پھر یہ کہ اس کے لیے بنیادی منہاج کیا ہے؟ اس کے لیے جو جماعت قائم کرنی ہے اس جماعت کی تربیت کس طور سے ہو گی؟ اس کے لیے جو دعوت دینی ہے اس دعوت کے لیے منبع و سرچشمہ اور مرکز و محور کون سا ہو گا؟ اس جدوجہد سے پہلو تہی کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اس جدوجہد کے لیے جو اجتماعیت قائم ہو گی اس کی اساسات کیا ہیں؟ اور اس کے استحکام کے لیے کون کون سی چیزیں ہیں کہ جن کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے؟ یہ ایک اہم حقیقت ہے جس کو اگر آپ ذہن نشین کر لیں گے تو امید ہے کہ ان سورتوں کے مابین ربط و تعلق اور منطقی ترتیب کے حوالے سے اللہ تعالیٰ آپ کو ایک باطنی بصیرت عطا فرمائے گا. 

اب ہم سورۃ المائدۃ کی آیات ۵۵ اور ۵۶ پر غور کرتے ہیں :
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿٪۵۶﴾ 

’’تمہارے رفیق توحقیقت میں صرف اللہ اور اس کے رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں. اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے تو (وہ جان لے کہ) اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے‘‘.
گویا اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے قائم ہونے والی تنظیم میں شامل ہونے والے ساتھیوں میں جو باہمی رشتۂ محبت و اخوت مطلوب ہے اس کی اصل جڑ ایک نسبتِ ولایت یعنی ایک دوستی کا سلسلہ ہے. سلسلہ زنجیر کو کہتے ہیں اور زنجیر کڑیوں 
(links) سے مل کر بنتی ہے. تو اس زنجیر کی تین کڑیاں ہیں. اس کی اصل اساس اور اصل الاصول اللہ سے رشتۂ ولایت ہے. اللہ اہل ایمان کا ولی ہے اور اہل ایمان اللہ کے اولیاء. ازروئے الفاظ قرآنی : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (البقرۃ:۲۵۷اور: اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ (یونس) اس لفظ ’’ولایت‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ اردو میں ہم محبت‘ حمایت‘ پشت پناہی‘ مددگاری جیسے بہت سے الفاظ استعمال کرتے ہیں‘ ان سب کا خلاصہ عربی زبان میں نسبتِ ولایت ہے. ’’اللہ ولی ہے اہل ایمان کا‘‘سے مراد یہ ہے کہ اللہ اہل ایمان کا دوست ہے‘ کارساز ہے‘ پشت پناہ ہے‘ حامی ہے‘ ناصر ہے‘ مددگار ہے‘ محافظ ہے. یہ گویا کہ ایمان کا لبّ لباب اور ایمان کا حاصل ہے کہ اللہ اور بندے کے مابین یہ رشتۂ ولایت قائم ہو جائے‘ لیکن یاد رہے کہ یہ رشتہ ’’ولایتِ باہمی‘‘ کا ہوگا . 

سورۃ المائدۃ کی آیت ۵۴ میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس مضمون کی تمہید پڑ چکی ہے. اس آیت میں تین جہات 
(dimensions) ذکر ہوئی تھیں : (۱’’یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ‘‘ (۲’’اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ ‘‘ (۳’’یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ‘‘. اب اس آیت میں پہلی دو نسبتوں کا خلاصہ نکالا جا رہا ہے کہ اس تنظیم میں شریک لوگوں میں جو رشتۂ اخوت و محبت مطلوب ہے اس کی اصل جڑ بھی وہی ہے کہ پہلا رشتۂ محبت اللہ کے ساتھ مضبوط ہو تو یہ زنجیر آگے چلے گی. اگر اساس ہی ابھی نہیں پڑی تو زنجیر آگے کیسے چلے گی؟ اصل شے تو یہ ہے . چنانچہ سورۃ البقرۃ میں اس کے لیے الفاظ آئے ہیں: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ یعنی وہ لوگ کہ جو حقیقتاً مؤمن ہیں وہ اللہ کے ساتھ محبت میں شدید ترین ہوتے ہیں. اللہ کی محبت اگر تمام محبتوں پر غالب نہیں تو ظاہر ہے کہ اب یہ سلسلہ آگے چل ہی نہیں سکتا. مطلوب تو یہ ہے کہ معیارِ محبت و نفرت اور دوستی و عداوت اللہ کی ذات پر آ کر ٹھہر جائے. جیسا کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ :

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۱

’’جس نے محض اللہ کے لیے کسی سے دوستی کی ‘ اللہ ہی کی خاطر کسی سے بغض رکھا‘ اللہ ہی کے لیے کسی کو کچھ دیا اور اللہ ہی کے لیے کسی سے کچھ روک رکھا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا‘‘. (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ. اگر یہ بات نہیں ہوئی تو ظاہربات ہے کہ آگے بھی دوستیوں کے معیار مختلف ہوں گے‘ دوستیاں منتشر ہوں گی‘ محبتیں مختلف سمتوں میں بکھر جائیں گی‘ کسی سے کسی اعتبار سے محبت ہو گی‘ کسی سے کسی اور اعتبار سے محبت ہو گی. اس محبت کو منظم کرنے کے لیے‘ یکسو کرنے کے لیے اور اس قلبی تعلق کو ایک زنجیر کی شکل دینے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ یعنی پہلے تو تمہارا دل اس پر ٹھک جانا چاہیے کہ تمہارا دوست‘ تمہارا ساتھی‘ تمہارا ہمدرد‘ تمہارا خیر خواہ‘ تمہارا بہی خواہ‘ تمہارا پشت پناہ‘ تمہارا حامی‘ تمہارا مددگار اللہ ہے. اور دوسرے نمبر پر وَ رَسُوۡلُہٗ ’’اور اس کا رسول‘‘. اب یہاں سے دوسرا لنک قائم ہو رہا ہے. تو جس طرح اطاعت میں اللہ کے ساتھ رسول نتھی (bracketted) ہو جاتے ہیں اور اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ایک وحدت ہے اسی طرح کا معاملہ اللہ کی محبت اور رسول کی محبت کا ہے. رسول کی محبت اصل میں اللہ کی محبت کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے. اللہ سے جوڑنے والے کون؟ رسول! اللہ سے متعارف کرانے والے کون؟ رسول! اللہ کی راہ میں چلنے کے لیے اُسوۂ کاملہ فراہم کرنے والے کون؟ اللہ کے رسول! ہمیں اگر نماز کی توفیق ہو رہی ہے تو ہر شخص کی اس نماز کے اندر کس کی محنتیں اور مشقتیں شامل ہیں؟ اللہ کے رسول کی! ان کی توانائیاں‘ ان کی قوتیں‘ ان کی صلاحیتیں ہیں کہ جن کا یہ ظہور ہو رہا ہے ‘ کہ ان کے طفیل ہم نمازیں پڑھ رہے ہیں‘ روزے رکھ رہے ہیں. یہ سارا دین آپ ہی کے ذریعے تو ہم تک پہنچا ہے. اس اعتبار سے اللہ کی محبت کے ساتھ رسول کی محبت بھی ناگزیر ہے. اور جب تک باقی تمام چیزوں اور شخصیتوں کی محبت پر رسول کی محبت غالب نہیں ہو گی‘ ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہو گا. ازروئے حدیث نبویؐ : 

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱

’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد‘ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں‘‘. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب حبّ الرسول من الایمان. اب اگر یہ لنک قائم ہو گیا ہے تو اس کا ایک منطقی نتیجہ ہے وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ’’اور اہل ایمان بھی (تمہارے رفیق ہیں)‘‘. اب تیسرے درجے میں یہ محبت غالب ترین ہونی چاہیے. جیومیٹری میں اگر آپ ایک نقطے سے کوئی خط کھینچیں تو کسی بھی سمت میں کھینچ سکتے ہیں‘ لیکن اگر دو نقطے معین ہو جائیں تو اب ظاہر بات ہے کہ ان کو ملاتا ہوا سیدھا خط صرف ایک ہی سمت میں کھینچا جا سکتا ہے‘ اس کی کوئی اور سمت ممکن ہی نہیں ہے. لہذا اگر یہ رشتۂ ولایت ومحبت اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ قائم ہو جائے تو پھر محبت کے کہیں بھٹکنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے. اب یہ تیر کی طرح اس رُخ پر سیدھی جائے گی وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اب یہ محبت ہو گی ان کے لیے جو ایمان لائے‘ چاہے ان سے کوئی خونی رشتہ نہ ہو‘ چاہے ان سے قبیلے کا‘ لسان کا‘ نسل کا‘ وطن کا کوئی رشتہ نہ ہو. رشتۂ ایمان موجود ہے تو محبت ہے‘ اور اگر یہ رشتۂ ایمان موجود نہیں ہے تو چاہے حقیقی بھائی ہو‘ چاہے باپ اور بیٹے کی نسبت ہو‘ چاہے بیوی اور شوہر کا تعلق ہو‘ سب پس منظر میں جا کر دھندلا جائے گا. قانونی معاملات کی نوعیت کچھ اور ہے‘ وہ میں بعد میں عرض کردوں گا‘ یہاں اصل میں دلی لگاؤ‘ تعلق خاطر اور محبت قلبی کی بات ہو رہی ہے : اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ’’تمہارا دوست تو بس اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور جو ایمان والے ہیں‘‘. 

اب آگے 
’’اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ‘‘ کی وضاحت کر دی گئی کہ کون اہل ایمان! اہل ایمان میں تو منافق بھی تھے .کیا ان سے محبت ہو گی؟ظاہر بات ہے کہ قانونی طور پر تو وہ مسلمان تھے اور ان کے اس لیگل سٹیٹس کا یہ تقاضا تھا کہ عبد اللہ ابن اُبی بھی مرا تو اس کی نماز جنازہ پڑھادی گئی ‘اس لیے کہ بحیثیت مسلم یہ بات اس کے حقوق میں شامل تھی. جیسا کہ حضور نے فرمایا : حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ… (۱’’ایک (۱) یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. رسول اللہ نے فرمایا: 

حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِیْلَ : مَا ھُنَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ : اِذَا لَقِیْتَہُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ ‘ وَاِذَا دَعَاکَ فَاَجِبْہُ ‘ وَاِذَا اسْتَنْصَحَکَ فَانْصَحْ لَہٗ‘ وَاِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللّٰہَ فَشَّمِّتْہُ ‘ وَاِذَا مَرِضَ فَعُدْہُ ‘ وَاِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْہُ (باقی اگلےصفحہ پر) مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں...‘‘ یہ حقوق اس وقت تک ساقط نہیں ہوں گے جب تک کہ اسے مسلمان مانا جائے .یعنی جب تک وہ قانونی ایمان کے درجے میں ہے اس کے یہ حقوق برقرار رہیں گے. اسی طرح اس سے آگے بڑھ کر کوئی شخص صرف مسلمان ہی نہیں‘ آپ کا بھائی بھی ہے‘ یا آپ کے والد ہیں‘ یا آپ کے عزیز ہیں‘ تو ان کے جو بھی قانونی حقوق ہیں وہ برقرار رہیں گے‘ وہ آپ کو دینے ہوں گے. البتہ یہ کہ اگر وہ مرضِ نفاق کا شکارہیں تو ان کے ساتھ رشتۂ محبتِ قلبی برقرار نہیں رہے گا. اگر وہ برقرار رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ پہلے دو نقطے (اللہ کی محبت اور رسولؐ کی محبت) ہی صحیح طو رپر وجود میں نہیں آئے.وہ اگر مستحکم ہو گئے ہوں تو ممکن نہیں ہے کہ یہ محبتِ قلبی کوئی اور سمت اختیار کرے.

وہ اہل ایمان کون ہیں؟ فرمایا: 
الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾ ’’جو نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور جھکے ہوئے ہوتے ہیں‘‘. اس آیت میں اہل ایمان کی تین صفات بیان ہوئی ہیں. جہاں تک اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا تعلق ہے یہ مضمون ہمارے منتخب نصاب کے حصہ سوم میں سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات اور سورۃ المعارج کی درمیانی آیات کے ذیل میں تفصیل سے زیر بحث آ چکا ہے. اب اس مقام پر اصل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ کس سے متعلق ہے؟ بعض حضرات نے یہ سمجھا ہے کہ ان اہل ایمان کی جو پوری ایک باطنی کیفیت ہے‘ یعنی فروتنی‘ عجز‘ جھکے ہوئے رہنا ‘ اس کے اظہار کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے. سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں عباد الرحمن کی (گزشتہ سے پیوستہ) ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ‘‘. دریافت کیا گیا : یارسول اللہ! وہ کیا ہیں؟ فرمایا : ’’(۱) جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو‘ (۲) جب وہ تمہیں (کھانے وغیرہ کی) دعوت دے تو اسے قبول کرو‘ (۳) جب وہ تم سے خیر خواہی چاہے تو اس کی خیر خواہی کرو‘ (۴)جب اسے چھینک آئے اور وہ ’’الحمد للہ‘‘ کہے تو تم ’’یرحمک اللہ‘‘ کہو‘(۵) جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمارپرسی کرو‘ (۶) اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ (اور اس کی نماز جنازہ پڑھو)‘‘ خصوصیات کے ضمن میں الفاظ آئے ہیں : الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ’’جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں‘‘. ان کی نشست و برخاست سے‘ ان کی چال ڈھال سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بندہ سمجھتے ہیں‘ آقا نہیں سمجھتے. ان کے اندر فروتنی ہو‘ تواضع ہو. وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ کاایک اور مفہوم بھی ہو سکتا ہے جس کی طرف رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ یا اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ میں اشارہ کیا گیا ہے‘ کہ اہل ایمان کے سامنے جھکے رہنے والے‘ ان کے لیے متواضع‘ ان کے لیے اپنے کندھوں کو اس طرح جھکا دینے والے جیسے کہ مرغی اپنے بچوں پر اپنے پروں کو جھکاتی اور پھیلاتی ہے ‘یا جس کا نقشہ ہمارے اس منتخب نصاب میں سورۂ بنی اسرائیل کے تیسرے رکوع میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ جیسے کہ ایک شخص کو اپنے والدین کے سامنے اپنے شانوں کو جھکا کر رہنا چاہیے . 

اس ضمن میں میری ایک ذاتی رائے ہے‘ جو میرے علم کی حد تک تاحال کسی اور نے ظاہر نہیں کی. ہو سکتا ہے کہ ظاہر کی ہو لیکن میرے علم میں نہ ہو. قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے ہوئے بارہا ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک بات کی طرف میرا ذہن منتقل ہوا اور میں سمجھتا رہا کہ شاید کسی اور نے یہ بات نہیں کہی ہے اور اس کی وجہ سے اس رائے پر میرا دل پوری طرح سے ٹھک نہیں سکا کہ یہ بات شاید کسی اور نے نہیں کہی ہے‘ ہو سکتا ہے کہ غلط ہو‘ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رائے سلف میں موجود ہے تو اس پر اطمینان ہوا. مثال کے طور پر صوم کے بارے میں مَیں نے بہت پہلے ایک رائے ظاہر کی تھی‘ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہی مولانا انور شاہ کاشمیریؒ کی رائے ہے اور یہ رائے سلف میں موجود ہے. سورۃ الحج کی آیات 
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ... کے بارے میں میرا ایک وجدانی خیال تھا کہ یہ اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئی ہیں. بعد میں مجھے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا قول مل گیا کہ ان کی رائے بھی یہی ہے. تو میں یہی بات عرض کر رہا ہوں کہ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ کے بارے میں میری جو رائے ہے میرے علم کی حد تک یہ بات کسی اور نے نہیں کہی ہے‘ لیکن اللہ کرے کہ سلف میں کسی اور نے کہی ہو‘ اور مجھے اس پر اور زیادہ اعتماد ہو جائے. وہ رائے یہ ہے کہ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ کا تعلق اصل میں وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ کے ساتھ ہے. کوئی شخص کسی کو کچھ دے رہا ہوتا ہے تو اس میں ایک فطری بات ہے کہ دینے والا اپنے آپ کو اس لینے والے سے بالاترسمجھ بیٹھتا ہے .بلکہ اس فطری بات کا اظہار ایک حدیث میں بھی ہوا کہ اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْــرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی (۱حضور نے فرمایا: ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘. یہاں اصل میں حضور نے انفاق کی ترغیب دلانے کے لیے فرمایا ہے کہ ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘. اور اس میں ایک طرح کی تعلیم بھی ہے کہ لینے سے حتی الامکان بچناچاہیے‘ انسان اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کرے اور کوشش کرے کہ محنت سے کمائے اور اپنی ضروریات خود پوری کرے. تو جب دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے تو اب اس کا ایک عکس دینے والے پر پڑسکتا ہے اور وہ یہ خیال کر سکتا ہے کہ میں برتر ہوں اور یہ کم تر ہے. چنانچہ ایتائے زکوٰۃ کا معاملہ اس انداز سے ہو کہ آدمی عاجزی سے‘ جھک کر دے رہا ہو‘ بجائے اس کے کہ اکڑ کر دے رہا ہو. 

یہ معاملہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس تحریک میں‘ اس جماعت میں‘ اس جدوجہد میں جو ہمارے ساتھ شریک ہیں‘ ان میں سے وہ لوگ جو حاجت مند ہوں‘ اور خاص طورپر وہ لوگ جو اس لیے حاجت مند ہو گئے کہ انہوں نے اپنی توانائیاں اللہ کے دین کے لیے وقف کر دی ہیں‘ اب ظاہر بات ہے کہ ان کی کوئی خدمت‘ ان سے کوئی تعاون‘ ان کی کوئی مدد اگر کی جائے گی تو جھک کر ہی کی جائے گی. وہ فقیر تو نہیں ہیں‘ مانگنے والے تو نہیں ہیں‘ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں‘ وہ اپنی ساری ضروریات خود پوری کر سکتے ہیں‘ لیکن وہ اللہ کی راہ میں گھر گئے ہیں .اس کے لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۷۳ ‘اچھی طرح سمجھ لیں. سورۃ البقرۃکے رکوع ۳۶ اور ۳۷ انفاق فی سبیل اللہ ہی کے موضوع پر ہیں. رکوع ۳۷ میں یہ آیت آئی ہے کہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الزکاۃ‘ باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنی. وصحیح مسلم‘ کتاب الزکاۃ‘ باب بیان ان الید العلیا خیر من الید السفلی …اس انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے اعلیٰ مصرف کیا ہے اور اس کے اوّلین مستحق کون ہیں؟ یہ بات مَیں بعض دروس میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ اسلام میں سوال کی مذمت ہے اور اسلام گداگری کو ایک ادارہ (institution) کی حیثیت سے ختم کرنا چاہتا ہے. جبکہ ہمارے ہاں خیرات بانٹنے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے‘ یہ درحقیقت اس institution کو تقویت دینے اور اس کو مستحکم کرنے کا موجب ہے. لہذا جان لینا چاہیے کہ اس قسم کی گداگری اور خیرات بانٹنے کی یہ کیفیت ہرگز اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے. سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۷۳ میں بیان کیا گیا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر مستحق کون ہے اور اس انفاق فی سبیل اللہ کا اصل ہدف کیا ہو گا. 

فرمایا: 
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ’’اُن احتیاج والوں کے لیے جو گھر گئے ہوں اللہ کے راستے میں‘‘. فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے. جو لوگ اس جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں وہ انفاق کے اوّلین مستحق ہیں. اس کے ذیل میں وہ لوگ بھی آئیں گے جو صرف دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیں. وہ جو تین تین سو اصحابِ صفہ حضور کی صحبت میں رہتے تھے‘ ظاہر بات ہے کہ وہ بھی محنت کر سکتے تھے ‘معاشی جدوجہد کر سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو روک لیا تھا‘ تھام لیا تھا‘ وابستہ کر لیا تھا محمدٌ رسول اللہ کے ساتھ اور انہی کے ذریعے سے مشکوٰۃِ نبوت کی روشنی پورے عالم میں پھیلی. انہی میں سے ایک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ جو حدیث نبویؐ کے پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے. اگرچہ وہ ۷ھ میں ایمان لانے والوں میں سے ہیں‘ لیکن ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد صحابہ کرامؓ میں سب سے بڑھ کر ہے‘ اس لیے کہ وہ تو اپنے آپ کو باندھ کر بیٹھ گئے تھے. اسی وجہ سے ان کے ذریعے سے علمِ حدیث پھیلا.
فی سبیل اللہ کے ضمن میں ہمارے سامنے جہاد فی سبیل اللہ کا پورا جامع نقشہ ہونا چاہیے. اس کے مختلف گوشے ‘ مختلف شعبے اور اس کے لیے ہمہ وقت ‘ہمہ تن لوگوں کی ضرورت پیش نظر رہنی چاہیے. 
لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ ’’وہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے‘‘. وہ اس سبیل اللہ کی جدوجہد میں اس طرح محصور ہو کر رہ گئے ہیں کہ اپنے ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں چل پھر نہیں سکتے. یہاں زمین میں چلنا پھرنا سے مراد اپنی معاشی جدوجہد کے لیے چلنا پھرنا ہے‘ بھاگ دوڑہے. یہ اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہے .تو اس کے لیے ضربًا فی الارض کا محاورہ استعمال ہوتا ہے. یعنی وہ اپنی معاش کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کر سکتے.

یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ ’’ناواقف انہیں غنی سمجھتا ہے ان کی خود داری کی وجہ سے‘‘. وہ اپنی عفت اور عزت کی حفاظت کرتے ہیں‘ وہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کر کے اپنی عزتِ نفس ہتھیلی پر رکھ کر اُس کے سامنے پیش نہیں کرتے‘ بلکہ وہ خود داری کا مظاہرہ کرتے ہیں. چونکہ وہ سائل نہیں ہیں‘ مانگتے نہیں ہیں‘لہذا ناواقف شخص یہ سمجھے گا کہ یہ غنی ہیں‘ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ ان کی کوئی احتیاج نہیں ہے.

تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ ’’ہاں ان کو تم پہچان سکتے ہو اُن کے چہروں سے‘‘.تم ان کی اندرونی حالت کا اندازہ ان کے چہروں سے کر سکتے ہو. ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کو فاقہ آیا ہوا ہے تو اس کے چہرے پر نمایاں ہو گا . اگر کوئی کسی معاشی پریشانی اور الجھن میں ہے تو وہ ا س کے تمام اطوار سے ظاہر ہو گی‘ لہذا انہیں ڈھونڈو‘ انہیں تلاش کرو! وہی دراصل اس انفاق کے صحیح ہدف ہیں.

لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ ’’وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے‘‘.لپٹ کر سوال کرنا گداگری کا انداز ہے جو اصل میں ایک پیشہ ہے‘ ایک مزدوری ہے. گداگر تو اپنی اس محنت کی اجرت آپ سے لیتے ہیں کہ جو انہوں نے آپ کا گھیراؤ کر کے اور آپ سے لپٹ کر آپ سے کچھ نکلوانے کے لیے کی ہے. 

وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۷۳﴾٪ ’’اور جو کچھ مال تم خرچ کرو گے تووہ یقینا اللہ کو معلوم ہے‘‘.اب دیکھئے‘ ایسے لوگوں کو جو کچھ آپ دیں گے تو اس وقت ایک تو وہ کیفیت ہونی چاہیے جو ابھی ہم نے پڑھی کہ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ . ان کو کسی احساسِ برتری کے تحت نہیں دیا جائے گا ‘ بلکہ اس احساس کے تحت دیا جائے گا کہ برتر وہ ہیں‘ ہم تو دنیا کے دھندوں میں لگے ہوئے ہیں‘ہم اس کام میں ہمہ وقت‘ ہمہ تن نہیں آ سکے‘ یہ وہ ہیں کہ جنہوں نے ہمت کی ہے اوریہ چھلانگ لگائی ہے ‘ تو برتر وہ ہیں نہ کہ ہم. اور اگر وہ قبول کر لیں تو ان کا احسان ہے‘ نہ کہ ہمارا احسان ان پر کہ ہم انہیں کچھ دے رہے ہیں. اور دوسرے یہ کہ یہ انفاق خالصتاً اخفاء کے ساتھ ہو گا. چنانچہ یہاں اس کا اشارہ کر دیا گیا: وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۲۷۳﴾٪ یعنی جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے‘ جو خیر‘ جو بھلائی‘ جو مال تم اللہ کی راہ میں ان خود دار ضرورت مندوں کو دو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘اللہ اس کو جانتا ہے. تمہیں اس کے لیے کہیں اور اعلان کرنے کی اور اس کا کہیں چرچا کرنے کی ضرورت نہیں ہے.
سورۃ المائدۃ کی اگلی آیت میں فرمایا : 
وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿٪۵۶﴾ ’’اور جو کوئی دوست رکھے اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو تو (اسے معلوم ہوکہ یہ ہے اللہ کی جماعت اور) اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘.اب یہ مضمون گویا کہ تاکیدی شکل میں آ رہا ہے‘ اصل بات تو پوری ہو چکی ہے. فرمایا کہ جس کسی کا محبت کا یہ تعلق اور رشتۂ ولایت اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے اور اہل ایمان سے قائم ہو جائے اب یہاں عبارت میں ایک حذف ہے کہ ’’اب یہ لوگ بنیں گے حزب اللہ‘‘. ان سے درحقیقت اللہ کی پارٹی وجود میں آئے گی. یہ اس اجتماعیت کی وہ روح ہے جو اگر اس میں جاری و ساری ہے تو یہ لوگ حزب اللہ کہلانے کے اہل ہوں گے . اگر حذف کھول دیا جائے تو ترکیب یوں ہو گی : ’’اُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ‘‘ (تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اللہ کی پارٹی بنیں گے اور جان لو کہ اللہ کی پارٹی بہرحال غالب آ کر رہے گی.) غلبہ پھر انہی کے لیے ہو گا.لیکن ا س کے لیے پیشگی اہلیت‘ (prequalification) سے آگاہ کر دیا گیا کہ کون لوگ حزب اللہ یا اللہ کی جماعت بننے کے اہل ہیں. اصل مضمون تو سورۃ المائدۃ کی آیات ۵۵۵۶ میں پورا ہو گیا‘ اب اس کی شرح سورۃ المجادلۃ کی آیات ۱۴ تا ۲۲ میں ملاحظہ کر لیجیے. زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں. ان آیات میں ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ کے اصول کے تحت حزب اللہ کے مقابلے میں حزب الشیطان کا concept بھی لایا جا رہا ہے‘ کہ ظاہر بات ہے کہ یہاں صرف حزب اللہ ہی نہیں ہے‘ حزب الشیطان بھی ہے‘ اور ان کے مابین ہمیشہ سے معرکہ آرائی جاری ہے ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی

یہ کشمکش دو پارٹیوں کے مابین ہے‘ ایک حزب اللہ ہے تو مقابلے میں حزب الشیطان بھی ہے. اب اس حزب الشیطان کا ایک حصہ تو وہ ہے جو بالکل ظاہر و باہر ہے‘ سامنے ہے‘ مدّمقابل ہے‘ سامنے سے وار کر رہا ہے. لیکن ایک عنصر خود مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے جو حزب الشیطان کا ایجنٹ بنتا ہے.یہ مارِ آستین ہے. یہ وہ عنصر ہے جس نے اس مدّمقابل حزب الشیطان کے ساتھ (جو قانونی سطح پر بھی کھلم کھلا کافر ہیں) کوئی رشتۂ اخوت ابھی جوڑ رکھا ہے اور کوئی محبت کا تسمہ ابھی لگایا ہوا ہے ‘حالانکہ ان کے ساتھ محبت کے کوئی تسمے اگر ابھی لگے ہوئے ہیں‘ کوئی رشتہ ٔ اخوت باقی رہا ہے تو یہی اس حزب اللہ کے لیے بالقوۃ کمزوری کا مقام‘ (potential source of weakness) ہے. یہ گویا کہ اس فصیل کا رخنہ ہے جس میں غنیم کسی بھی وقت داخل ہو سکتا ہے. لہذا ان آیات میں پہلے تو ان منافقین کا کردار بیان ہوا ہے. منافقین کے بارے میں ہمارے ہاں ایک غلط فہمی عام ہے کہ یہ کردار صرف رسول اللہ کے دور میں تھا اور اس کا آج کے دور سے کوئی تعلق نہیں. چنانچہ مطالعہ قرآن حکیم کے دوران جب کسی مقام پر منافقین کا تذکرہ آتا ہے توبالعموم دل پر ایک حجاب سا آ جاتا ہے کہ یہ تو منافقوں کی بات ہوئی ‘لیکن جان لیجیے کہ منافق جو تھے ان کے ماتھے پر لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا کہ یہ منافق ہیں‘ قانوناً وہ مسلمان تھے. لہذا یہ نہ سمجھئے کہ یہ کیفیت ہمارے اندر نہیں ہو سکتی. حقیقت ِ نفاق پر اپنے مفصل دروس کے دوران میں سب سے زیادہ اسی نکتے کو emphasise کرتا ہوں. تو اسے پھر ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ انہیں کوئی علیحدہ کیٹیگری نہ سمجھئے ‘بلکہ یہ مسلمانوں ہی میں گڈمڈ ہوتے ہیں‘ انہی کی صفوں میں موجود رہتے ہوئے یہ غنیم کے ایجنٹ بن جاتے ہیں‘ اس لیے کہ کوئی سابقہ دوستی تھی‘ کوئی سابقہ رشتہ داری تھی‘کوئی آپس کا کبھی کوئی معاملہ رہا تھا‘ آپس میں حلیف تھے‘ ایک دوسرے کے حمایتی تھے‘ لہذا کوئی نہ کوئی رشتۂ محبت و اخوت باقی رہا اور شعوری طور ان بندھنوں کو نہیں کاٹا. نتیجتاً ا س حزب اللہ کے لیے بالقوۃ ایک خطرہ وجود میں آ گیا کہ کہیں اندر ہی اندر اس راستے سے غنیم در نہ آئے. 

اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں : 
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا قَوۡمًا ’’کیا تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو یہ رشتۂ ولایت و اخوت و محبت قائم کیے ہوئے ہیں ایک ایسی قوم سے‘‘ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ ’’جو اللہ کی مغضوب ہے‘‘. جن پر اللہ کا غضب بالکل ظاہر و باہر ہے‘ جو اِس لائن کے اُس پار کھڑے ہیں. یعنی مسلمانوں کی صفوں میں رہتے ہوئے بھی ان کے تعلقات کفار کے ساتھ ہیں‘ اعداء اللہ کے ساتھ ہیں‘ حزب اللہ کے کھلم کھلا مخالفین اور معاندین کے ساتھ ہیں. مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لَا مِنۡہُمۡ ۙ ’’یہ لوگ نہ تم میں سے ہیں نہ اُن میں سے‘‘.یہ وہ منافقین ہیں کہ شامل تمہاری صفوں میں ہیں اور رشتۂ محبت اُن سے ہے‘ تو یہ نہ تمہارے ہیں نہ اُن کے ہیں .جیسے سورۃ النساء میں فرمایا گیا : مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ (آیت ۱۴۳کہ وہ بیچ میں کچھ لٹک کر رہ گئے ہیں‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں‘ نہ یہ اِن کی طرف ہیں نہ اُن کی طرف ہیں. وَ یَحۡلِفُوۡنَ عَلَی الۡکَذِبِ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴﴾ ’’اور وہ قسمیں کھاتے ہیں جھوٹ پر جانتے بوجھتے‘‘.جہاں تک مرضِ نفاق کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غیر شعوری نفاق ہو‘ لیکن جب آدمی جھوٹی قسم کھا رہا ہوتا ہے تو وہ غیر شعوری نہیں ہوتی‘ وہ تو اس کو معلوم ہے کہ میں جھوٹ پر قسم کھا رہا ہوں. 

اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے شدید عذاب تیار کیا ہوا ہے. بے شک بہت ہی برا طرزِ عمل ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے‘‘.

آگے تقریباً وہی الفاظ آ رہے ہیں جو سورۃ المنافقون میں موجود ہیں . فرمایا: 
اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً ’’انہوں نے اپنی قسموں کوڈھال بنا لیا ہے‘‘ فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ’’تو یہ خود بھی رکتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں اللہ کی راہ سے‘‘. صَدَّ ‘ یَصُدُّ فعل لازم بھی ہے اور فعل متعدی بھی . اس کا معنی خود رکنا بھی ہے اوردوسروں کو روکنا بھی. فَلَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۱۶﴾ ’’توان کے لیے بہت ہی رسواکن عذاب ہے‘‘.

لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ ’’ہرگز بچا نہ سکیں گے ان کو نہ ان کے مال نہ ان کی اولادیں اللہ کے عذاب سے کچھ بھی‘‘. اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾ ’’یہ دوزخ والے ہیں اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے‘‘.

یَوۡمَ یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا ’’جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا‘‘ فَیَحۡلِفُوۡنَ لَہٗ کَمَا یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ ’’تو یہ اس کے سامنے بھی ویسی ہی (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جیسی تمہارے سامنے کھاتے ہیں‘‘. ظاہر بات ہے کہ دنیا میں جھوٹی قسمیں کھانے کی جو عادت پختہ ہو چکی ہے اور جو اُن کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے‘ وہاں پربھی اس کا ظہور ہو گا. وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ’’اور وہ سمجھیں گے کہ ان کابھی کوئی موقف ہے‘‘. وہ بھی کہیں پر کھڑے ہیں‘ ان کے پاؤں تلے بھی کوئی زمین ہے. اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۸﴾ ’’ آگاہ ہو جاؤ کہ حقیقت میں وہی جھوٹے ہیں‘‘. 

اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ ’’شیطان نے درحقیقت ان کو گھیر لیا ہے‘‘. وہ ان پر قابو پا چکا ہے‘ ان پر مسلط ہو گیا ہے‘ ان پر چھا گیا ہے. فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ ؕ ’’اور ان کو غافل کر دیا ہے اللہ کی یاد سے‘‘. اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ الشَّیۡطٰنِ ؕ ’’یہ ہیں شیطان کی پارٹی کے لوگ‘‘. اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّیۡطٰنِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾ ’’ آگاہ ہو جاؤ کہ بالآخر شیطان کی پارٹی ہی کو خسارے میں رہنا ہے‘‘. بربادی اسی کی ہے‘ تباہی اسی کی ہے‘ ہلاکت اسی کی ہے اب یہ حزب الشیطان یعنی شیطان کی پارٹی کے لوگ کون ہیں؟ ایک حزب الشیطان تو وہ ہے جو کھلم کھلا سامنے آ رہا ہے‘ مقابلہ کر رہا ہے‘ سامنے سے چیلنج کر رہا ہے. وہ ابوجہل‘ ولید بن مغیرہ اور ابولہب جیسے کفار و مشرکین ہیں. جبکہ ایک گروہ وہ ہے جو بظاہر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہے اور اندرسے مارِ آستین بن کر کفار کے ساتھ رشتۂ اخوت استوار کیے ہوئے ہے اور ابھی تک اس نے یک سو ہو کر اُن سے دلی تعلق اور دلی محبت کے رشتوں کو کاٹا نہیں ہے. تو واضح کر دیاگیا کہ یہ بھی درحقیقت حزب الشیطان کا جزو ہیں اگرچہ بظاہر تمہاری صفوں میں داخل ہیں.

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اُولٰٓئِکَ فِی الۡاَذَلِّیۡنَ ﴿۲۰﴾ ’’یقیناوہ لوگ کہ جو دشمنی رکھتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے‘ وہی ہیں کہ جو نہایت ذلیل ہو کر رہیں گے‘‘. یہ سب سے زیادہ پست ہو کر رہیں گے ‘یہی ہیں جو سب سے زیادہ خائب و خاسر ہو کررہیں گے. 

کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے‘‘. اللہ نے تو یہ طے کیا ہوا ہے‘ یہ اس کا فیصلہ ہے.البتہ فیصلے کا ظہور کب ہو گا‘ یہ بات دوسری ہے. اس میں ابھی کتنی دیر لگے گی اور اس دوران اہل ایمان کتنی آزمائشوں سے دوچار ہو جائیں گے‘ یہ مسئلہ علیحدہ ہے. بالآخر اللہ اور اس کا رسولؐ غالب آ کر رہیں گے. یہ رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی مستقل سنت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسولوں سے یہ پختہ وعدہ ہے اور ان کے ضمن میں اللہ کا یہ پختہ فیصلہ ہے کہ رسول کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا. ہاں جو نبی ہو وہ مغلوب ہو سکتا ہے‘ رسول کے مغلوب ہونے کا کوئی سوال نہیں. یہ قرآن کا ایک اہم نکتہ ہے ‘ مگر اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے. اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۲۱﴾ ’’یقینا اللہ تعالیٰ قوت والا ہے‘ زبردست ہے‘‘.جو چاہے کر گزرنے والا ہے. 

لَا تَجِدُ قَوۡمًا یُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ’’تم ہرگز نہیں پاؤ گے ان لوگوں کو جو حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور یومِ آخر پر‘‘ یُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ’’ کہ وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے‘‘. یُوَآدُّوۡنَ ’’و‘د‘د‘‘ مادہ سے باب مفاعلہ ہے‘ یعنی باہم محبت کرنا. اسی سے ہم رشتۂ مو دّت کہتے ہیں. محبت‘ مو دّت‘ رأفت اور رفاقت یہ الفاظ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں. بلکہ سورۃ الحدید کے درس میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رأفت اور رحمت ایک قبیل کی شے ہیں اور مودّت و محبت ایک قبیل کی شے ہیں. ان دونوں کے درمیان مناسبت ہے. فرمایا کہ تم نہ پاؤ گے کہ وہ لوگ جو واقعتا اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کا قلبی رشتۂ محبت ان لوگوں سے ہو جو اللہ سے اور اس کے رسولؐ سے دشمنی رکھتے ہیں. اس کی شرح سورۃ الممتحنہ کی ان دو آیات میں سامنے آئے گی جن کا ہم آخر میں مطالعہ کریں گے. جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول سے عناد رکھتے ہیں‘ دشمنی رکھتے ہیں‘ بغض رکھتے ہیں‘ عداوت رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخر پر حقیقی ایمان رکھنے والے ایسے لوگوں سے رشتۂ محبت و مودّت استوار نہیں کرتے. یہاں رسول پر ایمان کا ذکر نہیں کیا گیا‘ اس لیے کہ محبت یا نفرت کا جو ظاہری طور پر ہدف بن رہا ہے وہ تو رسول کی ذات ہے. لہذا یہاں اللہ پر ایمان اور یومِ آخر پر ایمان کو نمایاں کیا گیا .

وَ لَوۡ کَانُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَہُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَہُمۡ اَوۡ عَشِیۡرَتَہُمۡ ؕ ’’خواہ وہ ان کے باپ ہوں‘ یا ان کے بیٹے ہوں‘ یا ان کے بھائی ہوں‘ یا ان کے عزیز اور رشتہ دار ہوں‘‘. یہاں بھی بالکل وہی مضمون آ گیا جو سورۂ توبہ میں آیا‘ صرف مثبت اور منفی اسلوب کا فرق رہ گیا . وہاں ارشاد ہوا : قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ... الآیۃ علائقِ دُنیوی کی جو فہرست وہاں بیان کی گئی وہی فہرست یہاں ہے‘ سوائے اس کے کہ ازواج کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا‘ باقی چاروں لفظ وہی ہیں. باپ‘ بیٹے‘ بھائی‘ رشتہ دار. اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والے خواہ کتنے ہی قریبی عزیز ہوں اُن کے ساتھ محبت کا رشتہ اب باقی نہیں رہ سکتا‘ اگر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ دل میں جاگزیں ہو چکا ہے.

اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ ’’یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو جما دیا ہے‘‘. لفظی ترجمہ ہو گا:’’ لکھ دیا ہے‘‘. آپ کہتے ہیں کہ یہ بات میرے دل میں کھبی ہوئی ہے‘ گویا یہ میرے دل پر نقش ہے. تو آیت کے اس ٹکڑے کا بہترین ترجمہ یہ ہو گا : ’’اللہ نے ان کے دلوں پر ایمان کو نقش کر دیا ہے‘‘. وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ ’’اور ان کی تائید کی ہے اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ‘‘. روح کا لفظ کثیر المعانی ہے اور اس وقت اس پر مفصل گفتگو ممکن نہیں ہے. ویسے ہمارے دروس میں اس پر گفتگو ہوتی رہتی ہے کہ فرشتہ بھی روح ‘ روحِ انسانی بھی روح ‘ وحی بھی روح. پھر لفظ رِیح (ہوا) بھی اسی مادے سے ہے‘ اس لیے کہ ’’الف‘ واؤ اور یا‘‘ تو حروف علت ہیں‘ بدلتے رہتے ہیں. اسی مادے سے رَوح اور راحت ہے‘ یعنی انسان کو انشراح‘ مسرت اور انبساط کا ایک احساس ہو. تو یہ وہ فیضانِ روحانی ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے. دیکھنے والے انہیں دیکھتے ہیں کہ بظاہر مشکلات میں ہیں‘ مصائب میں ہیں‘ لوگوں کے نرغے میں آ گئے ہیں‘ لوگوں کی دشمنی اور عداوتوں کا مرکز بن گئے ہیں‘ لیکن خود اُن کو ایک باطنی راحت میسر ہوتی ہے. امام ابن تیمیہؒ جب جیل میں تھے تو کہا کرتے تھے ’’اِنَّ جَنَّتِیْ مَعِـیَ‘‘ یعنی میری جنت میرے ساتھ ہے. تم مجھ سے اسے چھین نہیں سکتے. انسان کے دل میں اگر امن ہے‘ سکون ہے‘ چین ہے‘ راحت ہے‘ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے انبساط ہے تو اگر اس کے جسم پر کوڑے بھی پڑ رہے ہوں تو اس کا وہ باطنی سکون درہم برہم نہیں ہو گا. یہ ہے وہ فیضانِ روحانی . وَ اَیَّدَہُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ ؕ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے ذریعے سے ان کی تثبیتِ قلبی فرماتا ہے. یہ مضمون ہمارے منتخب نصاب میں سورۃ حٰمٓ السجدۃ کے حوالے سے موجود ہے. وَ یُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ’’اور داخل کرے گا انہیں ان باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘. خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ’’رہیں گے اس میں ہمیشہ ‘‘. 

رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘.جس طرح یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ کا معاملہ ہے کہ رشتۂ موالات اور محبت دو طرفہ ہے. گویا ؏ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!‘‘اسی طرح باہمی رضا کا معاملہ بھی دو طرفہ ہے. رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ’’اللہ ان سے راضی ہو گیا‘‘ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ’’اور وہ اس سے راضی ہو گئے‘‘.یہ جو اللہ سے راضی ہونے کا معاملہ ہے ‘ یہ آخرت میں جا کر تو بتمام و کمال ہو گا ہی‘ ا س دنیا میں رہتے ہوئے بھی جو لوگ اس مقامِ رضا پر فائز ہو جاتے ہیں‘ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اللہ سے راضی رہتے ہیں اور جس حال میں بھی وہ رکھے وہ راضی برضائے ربّ رہتے ہیں.

اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ ’’یہ ہے اللہ کی پارٹی‘‘. یہ ہے اللہ کی جماعت. یہ ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میں اقبال نے بہت پیارا شعر کہا ہے کہ ؎

اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا 

اس سے متصلاً قبل یہ شعر ہے ؎ 

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا 

دنیا میں مادیت اور روحانیت کے درمیان معرکہ آرائی ہے‘ روح اور جسم کا معرکۂ کارزار گرم ہے‘ خدا کے مقابلے میں کائنات اور حیاتِ اُخروی کے مقابلے میں حیاتِ دُنیوی توجہ کا مرکز بن کر رہ گئی ہے. تہذیب و تمدن اور ثقافت کے نام پر بے حیائی‘ شیطنت اور درندگی کا ننگا ناچ ہے جو دنیا میں ناچا جا رہا ہے. اس معرکۂ کارزار میں اللہ کی پارٹی کے لوگ وہ ہیں جن کی پیشگی اہلیت (prequalification) اوپر بیان کر دی گئی ہے.
آخر میں فرمایا: 
اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾ ’’ آگاہ ہو جاؤ کہ بالآخر اللہ کی جماعت کے لوگ ہی فلاح سے ہم کنار ہوں گے‘‘.یہی جماعت بالآخر کامیاب ہو گی. فلاح کا مفہوم ہمارے منتخب نصاب کے تیسرے حصے کے پہلے سبق میں تفصیل سے بیان ہو چکا : قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾...الخ’’یقینا فلاح پا گئے وہ اہل ایمان ... ‘‘. یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے.

آخر میں سورۃ الممتحنہ کی دو آیات کا ترجمہ کر لیجیے جو اس درس میں مزید شامل کی گئی ہیں‘ اس لیے کہ ان میں ایک فطری تدریج کی طرف اشارہ ہے جس کو کہ شریعت پیشِ نظر رکھتی ہے. قرآن کتابِ ہدایت ہے‘ کتابِ فطرت ہے‘ لہذا اس میں فطری چیزوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جاتا. ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سب کافر برابر نہیں‘ سب مسلمان برابر نہیں. مسلمانوں میں منافق بھی ہیں کہ جو کافروں کے ایجنٹ ہیں‘ ففتھ کالمسٹ ہیں‘ جو حزب الشیطان ہی کا ایک حصہ ہیں کہ جو اہل ایمان کی صفوں میں ہے. کفار میں بھی کچھ تو ایسے ہیں جو اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان سے انتہائی بغض اور دشمنی رکھتے ہیں‘ اس جدوجہد میں مزاحم ہو رہے ہیں‘ آڑے آ رہے ہیں‘ مخالفت کر رہے ہیں‘ جبکہ ایک وہ ہیں کہ جو کچھ نیوٹرل ہیں‘ وہ بھی نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر ہیں. وہ اہل ایمان کے مدّمقابل نہیں آئے‘ ان سے لڑ نہیں رہے‘ ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن رہے‘ بلکہ شاید وہ 
wait and see کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ ذرا تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘ ابھی دیکھو کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے. تو جو اس طرح تمہارے مدّمقابل نہ ہو گئے ہوں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا کہ ان کے ساتھ کچھ نیکی ‘ بھلائی اور عدل و انصاف کا معاملہ کیا جائے. 

اب ہم سورۃ الممتحنہ کی ان دو آیات کا ترجمہ کرتے ہیں : 
لَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ لَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ’’اللہ تعالیٰ نہیں روکتا تمہیں ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے نہ تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی اور نہ تمہیں انہوں نے تمہارے گھروں سے نکالا‘‘ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَ تُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ ’’اس سے کہ تم ان کے ساتھ کوئی حسن سلوک اور انصاف کا معاملہ کرو‘‘. اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۸﴾ ’’یقینااللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘. اِنَّمَا یَنۡہٰىکُمُ اللّٰہُ ’’یقینااللہ تعالیٰ تمہیں منع فرماتا ہے‘‘ عَنِ الَّذِیۡنَ قٰتَلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ اَخۡرَجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ’’ان لوگوں سے کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے‘‘ وَ ظٰہَرُوۡا عَلٰۤی اِخۡرَاجِکُمۡ ’’اور انہوں نے گٹھ جوڑ کیا ہے تمہارے نکالنے پر‘‘ اَنۡ تَوَلَّوۡہُمۡ ۚ ’’ کہ تم ان سے دوستی کرو‘‘. اب یہاں لفظ ولایت آیا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روک دیا ہے کہ تم ان سے رشتۂ محبت اور رشتۂ ولایت استوار کرو. وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۹﴾ ’’اور جو لوگ ان سے رشتۂ ولایت استوار کریں گے (ان سے دوستی کا تعلق رکھیں گے) تو بلاشک وشبہ وہی لوگ ظالم ہوں گے‘‘. اور یہ ظالم کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں بڑا سخت ہے اور بالعموم مشرک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ (لقمٰن) ’’یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘. چنانچہ جب اس کے لیے قرینہ موجود نہ ہو تو شرک ظلم کے معنی میں اور ظالم مشرک کے معنی میں لیا جائے گا.

ooبارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیمoo