اس بیعت کی اصل حقیقت پر جو آیۂ مبارکہ روشنی ڈالتی ہے وہ سورۃ التوبۃ کی آیت۱۱۱ ہے. بیعت کے حروفِ اصلی ’’ب‘ ی‘ ع‘‘ ہیں اور بیع و شراء کے معنی خرید و فروخت کے ہیں. اور یہ ذہن میں رکھئے کہ جب تک کرنسی وجود میں نہیں آئی تھی تو خرید و فروخت اصلاً مبادلۂ اشیاء کا نام تھا. مبادلۂ اشیاء میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ چیز اُس دوسری چیز کی قیمت ہے‘ اور برعکس بھی کہا جا سکتا ہے کہ نہیں‘ یہ دوسری چیز اُس پہلی چیزکی قیمت ہے. دونوں ہی شے بھی ہیں اور دونوں ہی قیمتیں بھی ہیں. البتہ عربی زبان مین بیع او رشراء کے دو طرفہ الفاظ کا استعمال موجود ہے. اس اعتبار سے شراء کے معنی ہو جائیں گے بیچنا‘ جبکہ بابِ افتعال سے ’’اشْتِرَاء‘‘ خریدنے کے معنی میں آئے گا. سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے : وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۲۰۷’’لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو بیچتے ہیں اپنی جانیں اللہ کی رضا کی تلاش میں‘‘. یہاں شَرٰی ‘ یَشْرِی بیچنے کے معنی میں آیا ہے اور سورۃ التوبۃ میں ’’اِشْتَرٰی‘‘ (باب افتعال) خریدنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے. اسی طرح لفظ بیع غالب استعمال کے اعتبار سے فروخت کرنے کے مفہوم میں آتا ہے. بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) کے الفاظ ہمارے ہاں عام طور پر مستعمل ہیں. بائع وہ ہے جو بیچ رہا ہے‘ لیکن جب یہ باب تفاعل یا باب مفاعلہ میں آئے گاتو اِن دونوں ابواب میں ایک خاصہ تو اضافی مبادلے کا پیدا ہو جاتا ہے اور ان کا دوسرا خاصہ دو فریقوں کے مابین کسی دو طرفہ معاملے کا وجود میں آنا ہے. جیسے جہد سے مجاہدہ اور قتل سے مقاتلہ ہے اسی طرح باب مفاعلہ میں بیع سے مبایعہ ہوا. اب مبایعہ میں جب دو فریق شریک ہو جائیں گے تو پھر وہی اشیاء کے مبادلے کی صورت بن جائے گی. اور اس دَور میں چونکہ کرنسی ایک علیحدہ شے معین ہو گئی ہے تو کرنسی سے کسی شے کا مبادلہ ہے. بہرحال قرآن مجید میں یہ بیع کا لفظ تو کثرت سے آیا ہے‘ لیکن سورۃ البقرۃ میں باب تفاعل سے ’’ تَبَایَعۡتُمۡ‘‘ بھی آیا ہے.اور یہاں آپ دیکھیں گے کہ ’’مبایعہ‘‘ باب مفاعلہ سے بھی وارد ہوا ہے. تو یہ درحقیقت مبادلہ ہے ‘ جس کے لیے ہماری زبان میں سادہ ترین لفظ ’’لین دین‘‘ ہے.

آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات اور نوٹ کر لیجیے کہ ایک تو نقد بیع ہے‘ یعنی چیزوں کا باہمی تبادلہ ہو گیا یا کرنسی سے کسی شے کا مبادلہ ہو گیا‘ اور ایک ہے مستقبل کے اعتبار سے کوئی سودا کرنا. اس صورت میں ذرا اضافی پیچیدگی‘ 
(complication) آتی ہے. سورۃ البقرۃ میں لفظ ’’ تَبَایَعۡتُمۡ‘‘ اسی مفہوم میں آیا ہے. فرمایا: وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ (آیت ۲۸۲’’اورجب کوئی سودا کیا کرو (جو فی الفور نہیں ہو رہا ہے) تو ضرور گواہ بنا لیا کرو‘‘. اس لیے کہ یہ ایک معاہدہ ہے . اس کی بحث ہمار ے ہاں فقہ میں ’’بیع سَلم‘‘ کے عنوان سے آتی ہے. بیع سَلم وہ ہے جس میں کوئی مستقبل کا سودا ہو رہا ہے. مستقبل کی بیع کو اسلام عام طور پر discourage کرتا ہے‘ اس لیے کہ اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں اور کسی نہ کسی طور سے سود کا عنصر داخل ہو جانے کا امکان ہے. لہذا اصلاً تو اسلام چاہتا ہے کہ سودا نقد ہوا کرے. بیع کی بہترین صورت تو وہی ہے‘ البتہ انسانی تمدن کے تحت یہ ضرورت بھی پیش آتی ہے کہ کسی وقت کوئی ادھار سودا بھی ہو. اسلام نے اس کی صرف ایک شکل کو جائز رکھا ہے کہ مبادلے کے جو دو رُخ ہیں ان میں سے ایک شے بتمام و کمال اُسی وقت ادا ہو جائے . مثلاً آپ کو ماہِ مئی کے لیے گندم کا کوئی سودا کرنا ہے کہ دس ہزار من گندم دو سو روپے من کے حساب سے کوئی خرید رہا ہے اور کوئی بیچنے کا عہد کر رہا ہے تو اس گندم کی جو کل قیمت بنتی ہے وہ خریدار کے لیے اسی وقت ادا کر دینا لازم ہے ‘ جبکہ اسے گندم ماہِ مئی میں ملے گی. یہ بیع سَلم کہلاتی ہے.اور یہ ہے درحقیقت وہ ’’مبایعت‘‘ یا ’’تبایع‘‘ کہ اس میں ایک سودا ہو رہا ہے لیکن بیع فی الفور مکمل نہیں ہوئی‘ مبادلۂ اشیاء اسی وقت نہیں ہوا.

ان چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بات اور نوٹ کر لیں کہ عربوں کے ہاں جب اس مبایعت یا تبایع کا معاملہ ہوتا تھا تو چونکہ یہ بات قول و قرار کے درجے میں ہوتی تھی‘ لہذا اس کو پختہ کرنے کے لیے ہاتھ ملانا ان کے ہاں ایک علامت کے طور پر رائج تھا کہ بات پختہ ہو گئی. ہوتے ہوتے اس کا استعمال نقد خرید و فروخت پربھی ہونے لگا کہ جب کوئی سودا طے ہو جاتا اور بات پوری ہو جاتی تو اس پر بھی وہ مصافحہ کرتے. یہ ہاتھ کا ملا لینا درحقیقت اُس وقت اِس بات کی علامت ہوتا تھا کہ اب بات پوری ہو گئی‘ سودا طے ہو گیا‘ جو ردّ و قدح اور بحث و تمحیص ہونی تھی وہ ہو چکی. 

اب دیکھئے کہ قرآن حکیم اس بیع کا ذکر کن اسالیب میں کرتا ہے.قرآن مجید کسی حقیقت کی توضیح کے لیے مختلف اسلوب اختیار کرتا ہے .جہاں تک تجارت اور خاص طور پر اس بیع و شراء کا معاملہ ہے‘ اسے ہر انسان سمجھتا ہے. عامی سے عامی اور اَن پڑھ سے اَن پڑھ انسان بھی اس سے نابلد نہیں. یہ وہ بنیادی تصورات 
(concepts) ہیں کہ جن سے کوئی شخص ناواقف نہیں. چنانچہ دیکھئے سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ نے یہی الفاظ استعمال کیے. فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰
’’اے اہلِ ایمان! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تمہیں عذابِ الیم سے چھٹکارا دلا دے؟‘‘

تجارت میں ہوتا کیا ہے؟ کچھ سرمایہ‘ تھوڑا یا کم اور کچھ محنت.اور اس سرمائے 
اور محنت کے لگانے سے مطلوب ایک نفع اور فائدہ ہوتا ہے. تین چیزیں اس کے لازمی اجزاء ہیں. چنانچہ یہاں وہ نفع سامنے رکھا گیا کہ عذاب الیم سے چھٹکارا پانا! اس عظیم نفع کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو یہ تجارت کرنی پڑے گی. اور جیسے تم تجارت میں سرمایہ بھی لگاتے ہو اور محنت بھی کرتے ہو اِسی طرح اس تجارت میں بھی سرمایہ اور محنت دونوں لگیں گے . وہ تجارت ہے کیا؟ 

تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱
’’ایمان پختہ رکھو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے (اس میں اپنے مال بھی کھپاؤ اور اپنی جانیں بھی). یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو‘‘.

اب یہ وہ اسلوب ہے کہ جس کو عامی سے عامی انسان بھی سمجھ جائے گا. اس لیے کہ ان تصورات کو سمجھنے کے لیے فلسفہ و منطق پڑھنے کی ضرورت نہیں. یہ انسانی معاملات کے بنیادی تصورات ہیں جن کو ہر انسان جانتا ہے. ابھی میں نے سورۃ البقرۃ کی ایک آیت آپ کو سنائی : 
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ (آیت ۲۰۷یعنی لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو اپنی جانیں بیچتے ہیں‘ اپنی صلاحیتیں‘ اپنی توانائیاں‘ اپنی قوتیں‘ اپنے اوقات بیچتے ہیں.کس لیے؟اللہ کی رضا جوئی کے لیے. یہی انداز ایک حدیث میں آیا ہے. نبی اکرم نے فرمایا: کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَایِعٌ نَفْسَہٗ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا (۱)یعنی ہر انسان جب صبح کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بیچنا شروع کر تا ہے. وہ کہیں کسی دفتر میں اپنی صلاحیتوں کو کھپا رہا ہے‘ اپنا وقت صرف کر رہا ہے‘ کہیں کسی کھیت میں محنت کر رہا ہے‘ اپنی توانائیاں کھپا رہا ہے‘ اپنا خون پسینہ ایک کر رہا ہے. شام تک وہ اپنے آپ کو بیچ رہا ہوتا ہے. البتہ اس کا نتیجہ مختلف نکلتا ہے. اپنے نفس کے بیچنے والے ایک وہ ہیں جو شام کو گھر لوٹتے ہیں تو گناہوں کی (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الطھارۃ‘ باب فضل الوضوء. وسنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللہ ‘ باب منہ. گٹھڑی بھی ساتھ لے کر آتے ہیں‘ اپنے نفس کو تباہ و برباد کر کے لوٹتے ہیں‘ اس کے لیے جہنم کا پروانہ حاصل کر کے واپس آتے ہیں. اور ایک وہ ہیں جو جہنم سے رہائی کا پروانہ لے کر آتے ہیں. فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا. وہ بھی ہیں جو گردن کو چھڑا کر لاتے ہیں اور وہ بھی ہیں کہ جو اِس کو ہلاکت کے حوالے کر کے آتے ہیں.

دین کی اس کُلی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لیے وہی انداز سورۃ التوبۃ میں اختیار کیا گیا : 
اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ ’’یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی بسبب اس کے کہ ان کے لیے جنت ہے ‘‘. یعنی اللہ نے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں . اب آپ یہ جان لیجیے کہ یہ بیع سَلم ہو گی. یہ مبادلہ یہاں نہیں ہو رہا. جنت تو آخرت میں ملے گی‘ جبکہ جان و مال یہاں حوالے کرنے ہوں گے. ایسی خرید و فروخت کو بیع سَلم اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک شے فوری طور پر سپرد کر دی جاتی ہے. لفظ تسلیم ہم اردو میں بھی سپرد کر دینے اور حوالگی کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں. تو ’’ بیع‘‘ کا ایک طرف کا پہلواگر مکمل حوالہ ہو جائے‘ اس کی تسلیم ہو چکے‘ وہ بیع سَلم ہے. اب اس کا جو بھی دوسرا عوض ہے وہ کسی وقت معینہ پر ملے گا. اسی طرح کی ایک مبایعت یا تبایع کا معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے مابین ہوا. 

اب اس بیع کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ کیا ہے: 
یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ ’’وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘ پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں‘‘. وہ جان جو اللہ کو دے چکے‘ اب وہ اس کو کھپا رہے ہیں‘ لگا رہے ہیں اللہ کے راستے میں. نوٹ کیجیے کہ یہاں قتال کا لفظ آیا ہے جو خاص ہے‘ جبکہ جہاد عام ہے‘ تو جہاں خاص کا ذکر آئے گا وہاں عام خود بخود اس میں شامل سمجھا جائے گا‘ جیسے ہر رسول تو نبی ہے ہی‘ ہر نبی رسول نہیں ہے‘ لہذا جہاں لفظ رسول آجائے وہاں نبوت مقدر (understood) ہے‘ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے. یہاں بھی خاص اور آخری بات ’’قتال‘‘ کا ذکر ہو گیا‘ جہاد اس میں بدرجۂ اُولیٰ مراد ہے. اب وہ اس جہاد اور ’’قتال‘‘ میں اپنی جانیں بھی کھپا رہے ہیں ‘ اپنے مال بھی کھپا رہے ہیں. ’’جہاد‘‘ کی طرح ’’قتال‘‘ بھی جان اور مال دونوں کو محیط ہے. انسان کے پاس سب سے قیمتی متاع جان ہے‘ جب وہ اس کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں حاضر ہو جاتا ہے تو برسبیل تغلیب یہاں از خود مال بھی مراد ہو گیا. لہذا قتال میں جہاد بالمال والنفس گویا کہ یہاں پورا کا پورا مندرج ہے‘ understood ہے.

سلسلۂ جہاد و قتال کے ضمن میں آخری شے کا ذکر کیا جا رہا ہے اور ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق باقی ساری چیزیں اس میں از خود مذکور ہو گئیں. 
فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ’’وہ قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘‘. جان کا سودا تو پہلے کر چکے‘ اب تو صرف اس کی حوالگی باقی تھی‘ سو وہ بھی ہو چکی.

اللہ تعالیٰ کی اہل ایمان سے بیع و شراء بیع سلَم ہے‘ ایک ادھار سودا ہے کہ جان و مال تو یہاں سپرد کر دیے ہیں اور جنت کا وعدہ آخرت میں ہے اور ادھار سودے پر انسان کے دل میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ تردّدپیدا ہوتا ہے. اب یہ ادھار تو ہے بھی اتنا بڑا ادھار کہ یہاں صرف سالوں اور مہینوں کا مسئلہ نہیں‘ ایک عالَم اور دوسرے عالَم کا فرق ہے. اگرچہ اِس عالَم سے اُس عالَم میں منتقلی اسی وقت فی الفور بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں وقت لگ جائے. ہمیں معلوم نہیں کہ ابھی اس دنیا میں مزید کتنا عرصہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے فیصلے میں ہے. لہذا اس ادھار سودے پر طبیعت میں ایک اضطراب اور تردّد کا پیدا ہونا طبعی اور فطری ہے. اور پھر یہ وہ چیز ہے کہ جس پر شیطان کو وسوسہ اندازی کا موقع ملتا ہے کہ تم تو یہاں اپنا سب کچھ کھپا رہے ہو‘ پتا نہیں وہ آخرت ہو گی بھی کہ نہیں ہو گی! تم نے کسی پر اعتماد کر کے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن پتا نہیں واقعہ کیا ہے! یہ ہے اصل میں شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ جس کو پس منظر میں رکھیں گے تب سمجھ میں آئے گا کہ اللہ کے اس وعدے کی حقانیت پریہاں اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے اور اتنا تاکیدی انداز کیوں اختیار کیا گیا ہے : 
وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ ’’یہ وعدہ اللہ کے ذمے ثابت ہے( شدنی‘ قطعی‘ یقینی اور حتمی وعدہ ہے) تورات میں‘ انجیل میں اور قرآن میں‘‘ . ’’وَعۡدًا عَلَیۡہِ ‘‘ میں ’’علیٰ ‘‘ کا صلہ جو آیا ہے اس میں انتہائی زور ہے کہ یہ وعدہ اس کے ذمے ہے اور یہ وعدہ اس پر ثابت ہے‘ یہ قطعی ہے‘ یہ حتمی ہے‘ یہ یقینی ہے. اور اس کی تین مرتبہ توثیق ہو چکی ہے. اور تین کیا‘ اس کی توثیق تو ہزاروں بلکہ لاکھوں مرتبہ ہوئی. اگر وہ روایت درست ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے ہیں‘ تو ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وعدے کی توثیق کی ہے. لیکن تین بڑے بڑے ادوار کے حوالے سے فرمایا کہ تورات میں یہ وعدہ ہوا‘ انجیل میں یہ وعدہ ہوا اور اب قرآن میں یہ وعدہ ہو رہا ہے. 

مزید فرمایا : 
وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ ’’اور اپنے عہد کا ایفاء کرنے والا اللہ سے بڑھ کر کون ہو گا؟‘‘ اَوْفٰی کا لفظ جب آتا ہے تو اس کی دو شکلیں ممکن ہیں. فعل کی صورت میں اَوْفٰی‘ یُوْفِیْ‘ اِیْفَاءً بابِ افعال سے آتا ہے. لیکن یہاں یہ اَفْعَلُ کے وزن پر صیغۂ تفضیل ہے.یعنی سب سے بڑھ کر وفا کرنے والا‘ سب سے زیادہ پورا کرنے والا. کون ہو گا اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا؟ یہ دوسری تاکید ہو گئی. یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ ایک انسان کسی وقت جذبات میں کوئی بڑا فیصلہ کر بیٹھتا ہے. وقتی طور پر ایک تحریک پیدا ہوئی تو اپنا کیریئر تج دینے کا فیصلہ کر لیا اور کسی کے ساتھ جڑ گئے. لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ طبیعت بجھی بجھی سی ہے‘ بجائے اس کے کہ طبیعت میں بشاشت ہو‘ وہ شخص اندر ہی اندر سے محسوس کر رہا ہے کہ یہ میں کتنا بڑا فیصلہ کر بیٹھا ہوں‘ معلوم نہیں میں نے صحیح کیا ہے یا غلط کیا ہے‘ مجھے اتنا بڑا قدم اٹھانا بھی چاہیے تھا کہ نہیں! آناً فاناً کوئی فیصلہ کرنے کے بعد اس طرح کی کسی کیفیت کا پیدا ہونا کوئی بعید نہیں ہے. لیکن اگر اس قسم کی کیفیت کا انسان کے اندر کوئی مستقل سایہ پڑ رہا ہو تو یہ ایک بہت خوف ناک مرض کی علامت ہے. پھر اس ضمن میں اس کے اندر جو ایک کشمکش یا کشاکش ہوتی ہے وہ جماعتی زندگی کے اندر فتنہ انگیزی شروع کرتی ہے. ایسا شخص طرح طرح سے اپنے اس عدمِ اطمینان کا اظہار کرتا ہے. وہ محسوس کرتا ہے کہ میں جذبات میں ایک غلط فیصلہ کر بیٹھا ہوں ‘لیکن اس کا علی الاعلان اعتراف آسان نہیں ہوتا. چنانچہ غیر شعوری طور پر اس کے اپنے اندر ایک بہت بڑی ہلچل ہوتی ہے‘ اور یہی ہلچل پھر جماعتی زندگی کے اندر طرح طرح کی خرابیوں کے پیدا ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے. 
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب آیت کے ان الفاظ مبارکہ کا مطالعہ کیجیے : 
فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ ’’تم خوشیاں مناؤ اپنی اس بیع پر جو تم نے کی ہے!‘‘ یہ سودا کرنے کے بعد ملول کیوں ہو گئے؟ غمگین کیوں ہو گئے؟ تمہاری طبیعت میں انقباض کیوں آ گیا؟ کیا تمہیں اللہ کی بات پر یقین نہیں؟ تم کہیں بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا تو نہیں ہو؟ یا تمہارا ’’ویلیو سٹرکچر‘‘ کا معاملہ ابھی واقعتا پختہ نہیں ہوا تھا اور یہ بات تم نے شعوری طور پر طے نہیں کی تھی کہ ہم دنیا دے کر آخرت قبول کر رہے ہیں؟ سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا گیا : بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ ’’مگرتم اس دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو‘ حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے‘‘. مطلوب یہ ہے کہ اس بات پر انسان کا دل مطمئن ہو جائے. اگر ایک وقت میں انسان اس کو قبول کر لے‘ اختیار کر لے یہ اور بات ہے اور اس پر دل کا جم جانا اور دل کا ٹھک جانا دوسری بات ہے. 

ہمارے منتخب نصاب میں سورۂ حٰمٓ السجدۃ کے درس کا آغاز ان الفاظِ مبارکہ سے ہوتا ہے : 
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا ’’یقینا جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے ‘ پھر اس پر جم گئے‘‘. استقامتِ عملی درحقیقت استقامتِ قلبی کا نتیجہ ہوتی ہے. بالفعل جم جانا اسی وقت ممکن ہو گا جب کہ دل ٹھک چکا ہو. اسی کو حضور نے فرمایا: قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ (۱’’کہو میں ایمان لایا اللہ پر‘ پھر اس پر جم جاؤ‘‘.اگر ایمان میں ضعف ہو گا اور استقامتِ باطنی نہیں ہو گی تو اب انشراح کیسے ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی وعدہ کر بیٹھا ہو‘ لہذالگا بندھا کچھ ساتھ چل بھی رہا ہو‘ اپنی عزتِ نفس کے تحفظ میں کچھ نہ کچھ بھاگ دوڑ بھی کررہا ہو‘ کبھی کوئی بات مان بھی لیتا ہو ‘لیکن اندر کی (۱) مسند احمد . وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب جامع اوصاف الاسلام. کیفیت وہ نہ ہو جس میں بشاشت اور استبشار ہو. چنانچہ جس طرح سورۂ حٰمٓ السجدۃ میں یہ الفاظ آئے ہیں : وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾ ’’اور بشارت حاصل کرو اُس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے‘‘. اسی طرح یہاں فرمایا گیا: فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ! تمہارے چہرے تو دمکنے چاہئیں. تمہیں تو اس پر جشن منانا چاہیے. تم نے وہ سودا کیا ہے کہ جس سے بڑا سودا کوئی نہیں. تم نے اپنے جسم و جان کی وہ قیمت وصول کی ہے جس سے بڑی قیمت کوئی نہیں. تم نے جنت کے عوض سودا کیا ہے‘ یہ کوئی معمولی بات نہیں. تم نے اپنی جان اور مال کا جو سودا کیا ہے اس کی جتنی بڑی قیمت تمہیں ملی ہے اس پر تو تمہیں خوش ہونا چاہیے .

وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ ’’اور( جان لو کہ) یہی ہے بڑی کامیابی!‘‘ دنیا کا کوئی سودا ایسا نہیں ہے کہ جو اِس کے مقابلے میں آ سکے. دنیا و مافیہا اس کے مقابلے میں ہیچ ہے. یہ ہے وہ بیع جو اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے کی گئی ہے. ’’جہاد و قتال‘‘ اقامت دین کی اس جدوجہدکا جامع عنوان ہے. اس میں جان لگتی ہے‘ مال کھپتا ہے‘ یہاں تک کہ جان کے جانے کا رسک لے کر آدمی کو میدان میں اترنا پڑتا ہے. لہذا اگر یہ سودا شعوری طور پر پہلے کر لیا گیا ہو اور اس پر دل ٹھک چکا ہو تو گاڑی ہمواری کے ساتھ رواں دواں رہے گی‘ لیکن اگر یہاں اس میں کوئی کمی ہے تو پھر قدم قدم پر رکاوٹ آئے گی. وہ رکاوٹ اندرونی اور داخلی ہوتی ہے جس کا ظہور خارج میں بھی ہو کر رہے گا.

اللہ اور بندے کے درمیان ہونے والی اس بیع میں اللہ درحقیقت مشتری یعنی خریدنے والا ہے اور بندۂ مؤمن بائع یعنی بیچنے والا ہے. مبایعت ان کے مابین ہے‘ لیکن عالمِ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے موجود نہیں. ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے غیب میں ہے یا یہ کہ ہم اس سے غیب میں ہیں. لہذا اب بالفعل یہ معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی انسان دنیا میں اس کے نمائندے کی حیثیت سے یہ سودا کرتا 
ہے. جب تک نبوت و رسالت جاری رہی وہ نمائندہ نبی اور رسول ہوتا تھا. نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہونے کے بعد اب یہ نمائندہ وہ شخص ہو گا جو نبوی منہاج پر دین کی دعوت کے لیے کھڑا ہو‘ اقامت دین کے لیے کمر کس کے میدان میں آئے اور ندا لگائے: مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ. کون ہے میرا مددگار اللہ کے راستے میں؟ جو لوگ اس کی پکار پر لبیک کہیں ان کے اور اس داعی کے مابین اب یہ معاہدہ ہو گا اور بات پختہ کرنے کے لیے علامت کے طور پر مصافحہ بھی ہو گا. اس ’’مصافحہ‘‘ (بیعت) کا ذکر اب سورۃ الفتح میں ہو رہا ہے. 

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کے مابین جونسبت قائم ہوئی اس نے جو ظاہری صورت اختیار کی وہ بیعت کی شکل ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محمدٌ رسول اللہ سے کی ہے. یہ بات میں نے بارہا کہی ہے کہ حضور کے معاملے میں یا کسی نبی کے معاملے میں اس بیعت کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘ اس لیے کہ نبی اور اُمتی یارسول اور اُمتی کی نسبت اس سے اہم تر ہے. اُمتی ہر حال میں مطیع ہے. ہمارے ہاں تو اُمتی کا تصور بگڑ چکا ہے ‘لیکن کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو اس میں اشتباہ ہو سکتا تھا کہ محمد کو رسول مان لینے کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ آپؐ کو مطاع ماننا! یہ تو سابقہ انبیاء کرام کی دعوت بھی قرآن مجید میں ان الفاظ میں آئی ہے : اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح) ’’یہ کہ اللہ کی بندگی کرو‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘. سورۃ الشعراء میں حضرت نوح‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام ‘سب کی دعوت کے ضمن میں یہ الفاظ آئے ہیں : اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ ﴿۱۰۷﴾ۙفَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ ’’میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں‘ لہذا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘. 

اس اعتبار سے وہاں تو وہ اصل بنیادی نسبت زیادہ قوی اور مضبوط موجود ہے‘ لیکن میں اس با ت پر پوری طرح انشراحِ صدر رکھتا ہوں کہ بیعت کا معاملہ حضور نے اُمت کی رہنمائی کے لیے کیا ہے. آپؐ کو بیعت لینے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی . 
لیکن آپؐ کے بعد آئندہ تو نبی اور اُمتی کی یہ نسبت کبھی قائم نہیں ہوگی. وہ تو ہمیشہ ہمیش کے لیے‘ تاقیامِ قیامت قائم ہو چکی محمدٌ رسول اللہ اور ہر کلمہ گو کے مابین. لیکن جب بھی کوئی عملی جدوجہد ہو گی‘ کوئی اجتماعیت تشکیل پائے گی‘ کوئی تعیین ہو گی کہ کون لوگ اعوان و انصار ہیں اور معین ہو گا کہ ان کی کتنی قوت ہے‘ تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی علامت اور اس کا کوئی نظام ہونا لازم ہے. چنانچہ یہ ہے وہ نسبتِ بیعت کہ جو اَب اُمت کے اندر چلی ہے. اُمت کی پوری تاریخ میں آپ کو نظر آئے گا کہ جو بھی اجتماعی ہیئت وجود میں آئی وہاں بیعت کا نظام اختیار کیا گیا. اجتماعیت کی بلند ترین اور نمایاں ترین صورت حکومت کا قیام ہے‘ وہ بھی بیعت کی بنیاد پر قائم ہوتی رہی. اس کی خفی ترین صورت سلسلۂ ارشاد و اصلاح ہے‘ اس کے لیے بھی بیعت کا نظام رائج ہے. کبھی حکومت کے خلاف بغاوت کی تحریک اٹھی تو وہ بھی بیعت کی بنیاد پر اٹھی. چنانچہ اجتماعیت درحقیقت جس شے کا نام ہے وہ اسلام میں بیعت ہی کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے.