وہ بیعت جو محمدٌ رسول اللہﷺ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حدیبیہ کے مقام پر کی ‘اس کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت ۱۸ میں صراحت کے ساتھ آیا ہے : لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ ’’اللہ تعالیٰ راضی ہو چکااہل ایمان سے جبکہ (اے نبیؐ ) وہ آپ سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے‘‘.فعل ماضی پر جب ’’قَدْ‘‘ آتا ہے تو اس کے قطعی‘ حتمی اور یقینی ہونے کو ظاہر کرتا ہے. فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ’’تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا جو کچھ کہ ان کے دلوں میں تھا‘‘. اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں کی کیفیت کو خوب جانتا تھا. فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ ’’اس لیے اس نے اُن پر سکینت نازل فرمائی‘‘. یعنی قلبی اطمینان عطا فرما دیا . حالانکہ معلوم تھا کہ ہم نہتے ہیں‘ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں‘ ہم پر اچانک ہجوم ہو جائے‘ ایک دم حملہ ہو جائے تو کیا ہو گا؟لیکن نہیں! انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اطمینان اور سکون کی کیفیت نصیب ہو گئی. اس لیے کہ وہ تو جان دینے کا سودا پہلے سے کیے ہوئے ہیں‘ بالکل مطمئن ہیں‘ دل ٹھکا ہوا ہے. انہیں معلوم ہے کہ اس سے بڑا سودا کوئی نہیں. وہ تو جان دیتے وقت ’’فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ پکارنے والے لوگ تھے کہ ربّ کعبہ کی قسم !میں کامیاب ہو گیا!ان کا معاملہ اس طرح کا ڈانواں ڈول معاملہ نہیں تھا. اس کی طرف اشارہ ہو رہا ہے : فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾ ’’تو اللہ نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو بدلے میں قریبی فتح عطا فرمائی‘‘. سورۃ الفتح کے تفصیلی درس میں مَیں یہ بیان کر چکا ہوں کہ اس فتح سے مراد صلح حدیبیہ کی فتح بھی ہے اور فتح خیبر بھی ہے جو اِس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے بطورِ انعام عطا فرمائی اورجس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت سا مالِ غنیمت فراہم فرمایا.