حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت کے حوالے سے میں نے بیعت کے جو الفاظ شروع میں سنائے یہ روایت متفق علیہ ہے. آپ جانتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے اس سے اونچا درجہ کسی حدیث کا نہیں جو متفق علیہ ہو‘ جس کی صحت پر امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ دونوں کا اتفاق ہو. اب ہم اس حدیث کا لفظاً لفظاً مطالعہ کرتے ہیں . عَنْ عُبَـادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ’’حضرت عبادہ بن صامت سے روایت کی گئی ہے‘ اللہ اُن سے راضی ہو‘‘.میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ دونوں بیعتوں میں موجود تھے‘ بیعتِ عقبۂ اُولیٰ کی روایت بھی ان سے ہے اور بیعت عقبۂ ثانیہ کی روایت بھی ان سے ہے. کہتے ہیں : بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  ’’ہم نے بیعت کی تھی رسول اللہ سے‘‘.کس بات پر بیعت کی تھی؟ کیا قول و قرار ہوا تھا؟ کیا معاہدہ ہوا تھا؟ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ’’سمع و طاعت پر‘‘. یعنی سنیں گے اور مانیں گے . جو حکم ہو گا بسر و چشم تسلیم کریں گے. نوٹ کر لیجیے کہ یہاں معروف کا لفظ نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ نظم جماعت کی بیعت ہے جو محمدٌ رسول اللہ کے ہاتھ پر ہو رہی ہے. لہذا یہاں اس اضافی لفظ کو لانے سے جو تھوڑا سا معاملہ نرم پڑتا تھا اس سے گریز کیا گیا. مدینہ آ کر یہ بیعت حضور نے پھر سب سے لی ہے‘ مہاجرین سے بھی لی ہے. ہجرت کے بعد تو پھر ایک نظم قائم ہو رہا تھا.

چنانچہ بیعت لیتے ہوئے آنحضور بعض اوقات ’’فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ یا ’’فِیْ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘ کے الفاظ کا اضافہ فرما دیا کرتے تھے کہ اپنی حدّ استطاعت تک ‘ اپنی امکانی حد تک اس بیعت پر قائم رہو گے. لیکن یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اس معاملے میں ’’اُمّ السُّنَّۃ‘‘ کا درجہ درحقیقت اسی حدیث کو حاصل ہے اور اس میں وہ الفاظ موجود نہیں ہیں‘ تاکہ بات پوری ہو‘ پختہ ہو‘ گاڑھی ہو. حضور کے معاملے میں معروف کی کوئی اضافی شرط لگانے کی عقلاً یا نقلاً ضرورت ہی نہیں. البتہ آئندہ ہمیشہ یہ شرط موجود رہے گی. وہ چاہے بیعتِ حکومت ہو یا بیعت نظم جماعت. ’’فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ کی یہ شرط تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی بیعت کے ساتھ بھی موجود تھی‘تابہ دیگراں چہ رسد! ان سے زیادہ کس کو حق ہو گا سمع و طاعت کا؟ لیکن وہاں بھی معروف کی شرط برقرار تھی. اس لیے کہ اب کوئی شخص اپنی ذات میں معیار نہیں ہے‘ اب معیارِ مطلق اللہ اور اس کا رسولؐ ہے. 

اب آگے جو الفاظ آ رہے ہیں ان پر غور کیجیے . چونکہ ڈسپلن قائم کرنا ہے لہذا ایسے الفاظ لائے گئے ہیں جو ایک حصار قائم کر رہے ہیں اور بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑ رہے. 
عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ’’ہم سمع و طاعت پر کاربند رہیں گے چاہے مشکل ہو چاہے آسانی ہو‘‘. شعوری طور پر زبان سے ایک شخص جب یہ الفاظ کہتا ہے‘ اور اگر واقعتا وہ بودا انسان نہیں ہے اور سیرت و کردار کے اعتبار سے اسے دیمک نے چٹ نہیں کیا ہوا تو وہ یہ جب کہے گا خوب سوچ سمجھ کر کہے گا کہ میں حکم سنوں گا اور مانوں گا ‘چاہے تنگی ہو ‘چاہے آسانی ہو. عُسر کا لفظ ویسے تو ہر مشکل کے لیے عام ہے لیکن اس کا اطلاق خاص طور پر مالی تنگی پر ہوتا ہے. بعض احادیث میں مالی تنگی کا ذکر زیادہ آیا ہے .تو اس بات پر بیعت ہو رہی ہے کہ چاہے ہمارے لیے آسانیاں ہوں‘ فراوانیاں ہوں یا تنگیاں ہوں‘ ہر حالت میں ہم آپؐ کا حکم سنیں گے اور مانیں گے. 

وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ’’طبیعت کی آمادگی میں بھی اور ناگواری میں بھی‘‘.منشط‘ نشاط سے بنا ہے. نشاط طبیعت کے اندر ایک آمادگی کی کیفیت ہے. انسان جب کسی چیز سے متفق ہوتا ہے تو اس کے لیے کام کرنے کے لیے طبیعت میں آمادگی ہوتی ہے. فرض کیجیے کہ کبھی کسی اجتماعی معاملے میں بہت بحث اور ردّ و قدح ہوئی ہے اور آراء کا اختلاف سامنے آیا ہے. اب ظاہر بات ہے کہ آخری فیصلہ تو ایک ہو گا‘ اور وہ کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق ہو گا اور کچھ کی رائے کے خلاف ہو گا. اب جن کی رائے کے مطابق فیصلہ ہوا ہے انہیں تو آپ دیکھیں گے کہ بڑے چاق و چوبند ہو کر اس میں لگ رہے ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو اُن کی طبیعت کا انشراح ہے‘ ان کی اپنی رائے یہی تھی‘ ان کی رائے کے مطابق فیصلہ ہوا ہے‘ جبکہ جن لوگوں کی رائے کے خلاف فیصلہ ہوا ہے انہیں اب اپنی طبیعت کو اس کے لیے مجبور کرنا پڑے گا.تو ’’ فِی الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ‘‘ کے الفاظ نے ان دونوں کیفیتوں کا گھیراؤ کر لیا ہے.چاہے طبیعت آمادہ ہو اور چاہے طبیعت پر جبر کرنا پڑے‘ اکراہ کرنا پڑے‘ اسے مجبور کرنا پڑے. اس لیے کہ نظم اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا. جماعتی زندگی کی تو روحِ رواں یہی ہے. یہی اس کا لازمی تقاضا ہے.

اگر آدمی طے کر لے کہ فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق ہو گا تو ہم ساتھ دیں گے‘ ورنہ جن کی رائے کے مطابق ہوا وہ آگے بڑھیں‘ تو یہ جماعتی اعتبار سے منافقت ہے‘ جس کی سب سے نمایاں مثال غزوۂ اُحد میں سامنے آئی جب عبد اللہ بن اُبی اپنے تین سو آدمیوں کے ساتھ یہ کہہ کر واپس لوٹ گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا توہم خواہ مخواہ اپنی جا نیں خطرے میں کیوں ڈالیں؟ اس کی رائے یہ تھی کہ مدینہ کے اندر محصور ہو کر دفاع کیا جائے . عجیب بات ہے کہ خود حضور کی رائے بھی اگرچہ یہی تھی‘لیکن حضور نے اپنے ساتھیوں کی رائے کا احترام کیا اور ان کی دل جوئی کے لیے‘ ان کے جذبات کا پاس کرتے ہوئے‘ اپنی رائے پر ان کی رائے کو مقدم رکھ کر فیصلہ کر دیا. حضور جب مدینہ منورہ سے نکلے تو آپؐ کے ہمراہ ایک ہزار کی نفری تھی‘ لیکن اس شخص نے عین میدانِ جنگ میں کتنا بڑا نقصان پہنچایا‘ جس سے اس وقت کتنے ہی مؤمنین صادقین کے پاؤں میں بھی ایک دفعہ تو تزلزل پیدا ہوا ہو گا کہ ایک تہائی نفری ٹوٹ کر جارہی ہے! پہلے ہی ہم مقابلے میں ایک تہائی تھے‘ تین ہزار کا ایک ہزار سے مقابلہ تھا‘ اب ہماری ایک تہائی نفری ٹوٹ کر جا رہی ہے. اسی لیے سورۂ آل عمران میں الفاظ آئے ہیں : 
اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ (آیت ۱۲۲)’’(وہ وقت یاد کرو) جب تم میں سے بھی دو گروہ ایسے تھے کہ جو ڈھیلے پڑ گئے تھے‘‘. جن کے پاؤں میں تزلزل آ گیا تھا . عبد اللہ بن اُبی کا یہ اقدام کس بنیاد پر تھا ؟ ان لوگوں کا کہنا تھا : ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ (آیت ۱۵۴’’ہمارے ہاتھ میں بھی کوئی اختیار ہے کہ نہیں؟‘‘ اپنی من مانی کرتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں فیصلہ کر دیتے ہیں‘ یہ معاملہ تو نہیں چل سکتا‘ اگر اس طرح معاملہ چلانا ہے تو پھر خود ہی جائیں‘ خود ہی اپنی جان و مال پر سارے خطرات برداشت کریں‘ ہم ساتھ نہیں دیں گے!! یہ ہے وہ چیز جس کا سدّباب کیا گیا ان الفاظ میں کہ فِی الْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ چاہے ہماری طبیعت میں نشاط ہو‘ آمادگی ہو اور چاہے ہمیں اپنی طبیعت پر جبر کرنا پڑے. اگر ہم اسے خوشگوار فیصلہ محسوس کریں تب بھی حکم مانیں گے اور اگر ہماری طبیعت کے خلاف ہو‘ ہم اس کے لیے اپنی طبیعتوں کو آمادہ نہ پا رہے ہوں تب بھی ہم اپنی طبیعتوں کو مجبور کریں گے اور آپؐ کا حکم مانیں گے.

آگے چلیے ! 
وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ’’اور اس پر بھی (ہم نے بیعت کی)کہ چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے‘‘. یہ جماعتی زندگی کا تیسرا معاملہ ہے. ظاہر بات ہے کہ ایک ہی امیر تو نہیں ہے‘ جماعتی زندگی میں تو ایک chain چلے گی. ایک امیر ہے‘ اس نے کسی کو اپنا ایک نائب مقرر کیا ہے‘ پھر وہ کوئی لشکر بھیج رہا ہے تو وہاں اس نے کسی کو سپہ سالار بنایا ہے. اس لشکر میں سپہ سالار ہی تو نہیں ہے‘ کوئی میمنہ کا اور کوئی میسرہ کا امیر ہے‘ کوئی قلب کا انچارج ہے. میمنہ اور میسرہ کے اندر بھی کئی گروپ ہیں‘ کسی کے پاس کسی گروپ کا جھنڈا ہے‘ کسی کے پاس کسی کا ہے. تو جب بھی کوئی ہیئت اجتماعی قائم ہو گی تو اس میں یہ chain ناگزیر ہے. سوائے ایک شخص کے جو اُس ہیئت اجتماعی کا امیر ہے‘ وہ تو امیر ہی ہے‘ باقی تو ہر شخص امیر بھی ہے اور مأمور بھی ہے. اپنے سے اوپر والے کا مأمور ہے اور اپنے سے نیچے والوں کے لیے امیر ہے. 
اس ضمن میں ایک اعتراض یہ اٹھا دیا جاتا ہے کہ صاحبِ امارت کے انتخاب اور عزل و نصب کے کوئی قواعد و قانون ہونے چاہئیں‘ یہ کیا بات ہوئی کہ جس کو چاہا پسند کر لیا اور اس کو جھنڈا تھما دیا. اس اعتبار سے آخری امتحان جو محمدٌ رسول اللہ نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا لیا ہے وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت کا امتحان ہے. کس اعتبار سے وہ افضل تھے؟ عمر میں وہ پختہ نہیں تھے. ابوبکر و عمر ‘عثمان و علی اور دیگر کبار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود ہیں اور جھنڈا تھما دیا اسامہ بن زیدؓ کو. یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا. جیسے کہ حضور نے فرمایا تھا کہ چاہے تم پر ایک حبشی غلام امیر بنا دیا جائے‘ تمہیں اس کا حکم ماننا ہو گا. یہ نہیں کہ ہم اعلیٰ ہیں ‘ ہم برتر ہیں اور یہ کمتر ہے‘ اس کو ہم پر خواہ مخواہ امیر بنا دیا گیا‘ کوئی معیار ہونا چاہیے‘ کوئی قاعدہ‘ قانون اور ضابطہ ہونا چاہیے‘ یہ کیا ہے کہ بس ایک شخص پسند آ گیااور اس کو امیر بنا دیا!! ان ساری چیزوں کا سدّباب پہلے ہی 
سے کر دیا گیا اور محمدٌ رسول اللہ نے یہ بات تسلیم کروا لی کہ یہ میرا اختیار ہو گا‘ جس کو چاہوں امیر بناؤں. بیعت میں ’’ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا‘‘ کے الفاظ ادا کرنے والے پہلے سے طے کر رہے ہیں‘ عہد کر رہے ہیں کہ چاہے دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے پھر بھی ہم سمع و طاعت پر کاربند رہیں گے. دیکھئے یہاں اس کا بھی امکان ہے کہ آپ یہ سمجھیں کہ واقعتا یہی شخص جس کو امیر بنایا جا رہا ہے ‘افضل ہے یا اہل تر ہے‘ لیکن ایک خیال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہم میں افضل نہیں ہے. اس کے باوجود جس کے ہاتھ میں جھنڈا تھما دیا جائے‘ تمہیں اس کی اطاعت کرنی ہے. یہ chain جو ہے اطاعت کی‘ اسے برقرار رکھنا ہے. جیسا کہ حضور نے فرمایا : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ (۱)’’اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘.اب یہ chain چلی جائے گی .البتہ اب معروف کی شرط آپ سے آپ آ جائے گی. حضور نے بھی کسی کو معین کیا ہو تو وہاں اطاعت فی المعروف ہو گی. 

ایک صاحب کا واقعہ ملتا ہے کہ ان کو حضور نے کسی دستے پر کمانڈر بنا کر بھیجا‘ وہ جلالی مزاج کے آدمی تھے‘ اپنے ساتھیوں سے کسی بات پر نارا ض ہو گئے تو اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے انہیں بہت بڑا گڑھا کھودنے کا حکم دیا. ساتھیوں نے گڑھا کھود دیا. اب حکم دیا کہ اس میں لکڑیاں ڈالو. انہوں نے لکڑیاں ڈال دیں. حکم دیا کہ لکڑیوں کو آگ لگاؤ. انہوں نے آگ لگا دی. یہاں تک تو اطاعت ہو رہی ہے. لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس آگ میں کود جاؤ! اس پر وہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاحکام‘ باب قول اللہ تعالی: واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامرمنکم.وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ. ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے کہ اسی آگ سے بچنے کے لیے تو ہم نے محمدٌ رسول اللہ کا دامن تھاما‘ تو اس آگ میں ہم آپ کے حکم سے کیسے کود جائیں؟ بعد میں یہ معاملہ رسول اللہ کے سامنے پیش کیا گیا. آپؐ نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کیا‘ اور اگر کہیں وہ اس آگ میں کود جاتے تو پھر آگ ہی میں رہتے. یعنی جہنم میں داخل ہو جاتے. آپ نے اس کی توثیق اس لیے فرمائی کہ یہ حکم فی المعروف نہیں تھا ‘ یہ تو منکر کا حکم تھا‘ خود کشی کا حکم تھا. ایسے حکم کی اجازت کسی صاحب امر کو نہیں دی جا سکتی. لہذا چاہے وہ حضور کا مقرر کردہ امیر ہو لیکن اس کی اطاعت بھی فی المعروف ہو گی‘ مطلق نہیں ہو گی. مطلق اطاعت صرف محمدٌ رسول اللہ کی ہے. محمد آخری انسان تھے جن کی اطاعت مطلق تھی‘ ان کے بعد کسی کی اطاعت مطلق نہیں ہے. ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) کی اطاعت مطلق نہیں ہے تو اور کس کی ہو گی؟

یہ بھی نوٹ کیجیے کہ بخاری و مسلم ہی کی بعض روایات میں لفظ 
’’اَمِیْرِیْ‘‘ کے بجائے ’’اَلْاَمِیْرَ‘‘ ہے: وَمَنْ یُطِعِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ اس لیے کہ نبی اکرم کے بعد امارت کو ایک ادارے (institution) کی حیثیت حاصل ہونی تھی. اب یہ تو نہیں ہے کہ ہر ایک کو امارت کا پروانہ محمدٌ رسول اللہ ہی سے ملے گا‘ بلکہ وہ نظم کہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی بجاآوری کے لیے قائم کیا جا رہا ہے‘ جس میں اصلاً اللہ اور اس کے رسولؐ ‘کو مطاع ماناگیا ہے ‘ اب اس میں جو بھی نصب ِ امارت ہو گا اس کے ضمن میں یہ تیسری بات بھی پہلے سے مان لی گئی کہ ہم سمع و طاعت کی روش اختیار کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے . اسی ’’اَثَـرۃ‘‘ سے بابِ ’’اِفعال‘‘ میں لفظ ایثار بنا ہے. سورۃ الحشر میں الفاظ آئے ہیں : وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ’’وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں‘‘. 

آگے چوتھی بات بیان کی جا رہی ہے : 
وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ’’اورہم صاحبِ امر سے جھگڑیں گے نہیں‘‘. جو بھی ولاۃِ امر ہوں گے‘ جو جس سطح پر ہے‘ جس جگہ ہے‘ ہم اس کا حکم مانیں گے‘ اس سے امر میں جھگڑیں گے نہیں.اس کے بعد ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: اِلَّا اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اللہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ اور یہ الفاظ حضور کی طرف سے ہیں کہ:’’سوائے اس کے کہ تم دیکھو (صاحبِ امر کی طرف سے) کوئی کھلم کھلا کفر جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی دلیل موجود ہو‘‘. یہ نہیں کہ ہمیں اختلاف ہے صاحب! ہم تو اس تعبیر کو تسلیم نہیں کرتے! جہاں بات تعبیروں کی یا تدبیروں کی ہو گی‘ جہاں مباحات کا دائرہ ہو گا وہاں آپ اختلاف نہیں کر سکتے. تمہارے پاس اس معاملے میں اللہ کی طرف سے کوئی دلیل قطعی ہو‘ کوئی ثبوت موجود ہو تب تو تم اطاعت سے سرتابی کر سکو گے‘ تب تم کوئی جھگڑا ڈال سکو گے‘ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو معمولی اختلافات ‘ تعبیر کے فرق یا تدبیر میں اختلافِ رائے کی بنیاد پر آپ کوئی جھگڑا پیدا کرنے کھڑے ہو جائیں تو یہ اس بیعت کے خلاف ہو جائے گا.

بیعت کے اگلے الفاظ ہیں : 
وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ’’اور(ہم نے بیعت کی تھی)اس پر بھی کہ ہم حق بات ضرور کہیں گے جہاں کہیں بھی ہوں ‘اور ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے‘‘. ان الفاظ کے ذریعے عقیدت کی بنیاد پر سمع و طاعت میں غلو کا راستہ بند کر دیا گیا جس کے نتیجے کے طور پر شخصیت پرستی برآمد ہوتی ہے. یہ نہیں ہے کہ اندھے‘ بہرے اور گونگے بن کر چلو‘ بلکہ تم اپنی رائے کو برقرار رکھو. اپنی سوچ اور عقل کے اوپر پہرے نہ بٹھاؤ‘ اس کو بروئے کار لاؤ. اللہ نے جو استعدادات دی ہیں‘ ان کو بھرپور طریقے پر استعمال کرو اور تمہاری جو رائے ہو اُس کے بیان کرنے میں کبھی بھی کوئی ہچکچاہٹ‘ کوئی جھجک‘ کسی کارعب یا کسی کی عقیدت مانع نہ آئے. کسی ملامت کرنے والے کے خوف سے اپنی زبانوں پر تالے مت ڈالو!