یہیں وہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ نظم اجتماعی میں اظہارِ رائے کی حیثیت کیا ہے! 
دراصل اظہارِ رائے یا مشورہ دینا حق نہیں ہے بلکہ فرض ہے. تم اپنی رائے دو‘ مشورہ دو‘ اس کے بعد تم فارغ ہو‘ تمہاری ذمہ داری ادا ہو گئی. ہمارے یہاں حقوق پر توجہ بہت زیادہ ہے‘ جبکہ فرائض نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں. اصل میں تو ایک ہی لفظ کو آپ حق بھی کہہ سکتے ہیں اور فرض بھی کہہ سکتے ہیں. شوہر کا جو حق بیوی پر ہے وہی بیوی کا فرض شوہر کے ضمن میں ہے. اسی طرح بیوی کا جو حق شوہر پر ہے وہی شوہر کا فرض بیوی کے ضمن میں ہے. یہ حقوق و فرائض کا معاملہ ہے. لیکن آج جو ہمارا معاشرہ سارا تلپٹ ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق کی بات سب کرتے ہیں ‘ فرض کی بات کوئی کرنے کو تیار نہیں. اگر انسان کی توجہ ذرا فرائض کی طرف منعکس ہو جائے تو تمام معاملات درست ہو جائیں. لہذا اپنے فرائض ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں. کوئی حق اگر مارا بھی گیا تو اللہ کے ہاں اس کی تلافی (compensation) ہو جائے گی‘ فرض کے اندر کوتاہی ہو گئی تو کیا کرو گے؟ جواب دہی تمہاری ہو گی. اگر فریق ثانی نے تمہارا کوئی حق مار لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سارا لین دین ہو جائے گا. وہاں کی کرنسی نیکیاں اور بدیاں ہے‘ وہاں تو اعمال کامبادلہ ہو گا‘ یعنی نیکیوں اور بدیوں کا. لہذا اس میں گھاٹے کا سودا نہیں ہے. گھاٹے کا سودا اس میں ہے کہ تم نے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی‘ اس کی جواب دہی اللہ کے ہاں کرنی پڑے گی. وہاں اپنی نیکیاں دینی پڑ جائیں گی اور ہو سکتا ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کا وبال تمہارے اوپر آ جائے. تو یہاں یہ نوٹ کر لیجیے کہ اسلامی نظمِ جماعت میں مشورہ دینا حق نہیں ہے‘ فرض ہے. آدمی فرض ادا کر کے فارغ ہو جاتا ہے. اب وہ یہ نہیں کہتا کہ لازماً میری بات مانی جائے. اپنی بات منوانے پر اصرار تو عبداللہ بن اُبی کا طرزِ عمل ہے. مشورہ دینے میں کوئی رکاوٹ (inhibition) پسندیدہ نہیں ہے. اس میں کسی کے روکنے کی وجہ سے یا کسی کے خیال اور لحاظ کی بنا پر رک جانا پسندیدہ نہیں ہے. تم بات کہو! کہنے کے بعد تم نے اپنا فرض ادا کر دیا‘ عند اللہ تم بری ہو گئے. اب معاملہ صاحبِ امر کا ہے. وہاں ووٹوں کی گنتی سے فیصلے نہیں ہوں گے. تنظیم کا وہ ڈھانچہ ہی مختلف ہوتا ہے جس میں کہ یہ سارا معاملہ ووٹوں کی گنتی سے وجود میں آتا ہے. 

آپ نے نوٹ کر لیا ہو گا کہ اس ایک حدیث میں اسلامی نظم جماعت کے جتنے بھی دستوری تقاضے ہیں ان کا حصر موجود ہے. میرے نزدیک تو یہ جوامع الکلم میں سے ہے. ظاہر بات ہے کہ یہ الفاظ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خود نہیں کہے ہوں گے ‘بلکہ محمدٌ رسول اللہ نے تلقین فرمائے اور ان میں حضور نے نظم اور ڈسپلن کے اعتبار سے بیعت کرنے والوں کا اس طرح ’’گھیراؤ‘‘ کیا ہے کہ کہیں کوئی رخنہ باقی نہیں چھوڑا. معاذ اللہ‘ آپؐ کی کوئی ذاتی غرض نہیں تھی. دین کا کام کرنا ہے تو اس کے لیے ایک مضبوط نظم والی جماعت چاہیے‘ ڈھیلا ڈھالا ادارہ نہیں چاہیے.