صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندر اس نظم کا شعور اِس قدر پیدا ہو چکا تھا کہ ہر شخص ہر وقت یہ نوٹ کرتا کہ اس وقت میں کس حیثیت میں ہوں اور دوسرا شخص کس حیثیت میں ہے. آیا ہم ہم مرتبہ (equi-status) ہیں اور کوئی تیسرا ہمارا امیر ہے‘ ہم دونوں اس کے تابع ہیں یا یہ کہ میں امیر ہوں اور یہ مأمور ہے‘ یا یہ کہ وہ امیر ہے‘ میں مأمور ہوں.نظم کے اعتبار سے یہ تین مختلف حیثیتیں ہیں‘ اور ایک انسان ہر معاملے میں‘ جو بھی اقدام وہ کر رہا ہے یا زبان سے جو بھی لفظ نکال رہا ہے‘ اس کا رویہ اگر اس شعور کے تحت نہیں ہو گا تو سارا نظم تہہ و بالا ہو جائے گا. ایک نظم جماعت کے ساتھی ہونے کے اعتبار سے یقینا سب برابر ہیں‘ لیکن جب امر قائم ہوا ہے‘ صاحب امر کا نصب ہو گیا ہے‘ اب وہ امیر ہے اور آپ مأمور ہیں. جیسے انسان ہونے کے ناتے مَرد و زن یقینا برابر ہیں. شرفِ انسانیت کے اعتبار سے عورت گھٹیا نہیں ہے‘ لیکن جب ایک مَرد اور ایک عورت کے اندر رشتۂ ازدواج قائم ہوا ہے تو ان کے مابین محض مَرد اور عورت کی نسبت نہیں رہی‘ اب شوہر اور بیوی کی نسبت ہے. یہاں قرآنی ہدایت اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء:۳۴کا اطلاق ہو گا. اب معاملہ بالکل بدل گیا‘ نوعیت تبدیل ہو گئی‘ نسبت اور ہو گئی! اسی طرح تمام رفقاء آپس میں برابر ہیں‘ لیکن جب کوئی صاحب امیر بنادیے گئے تو اب امیر اور مأمور کی جو ایک نسبت قائم ہو جاتی ہے اس کا تعین ہونا چاہیے. چنانچہ اس کی نمایاں ترین مثال جب پہلی مرتبہ میرے سامنے آئی تو عقل دنگ رہ گئی کہ حضور نے ڈسپلن کا کیسا شعورپیدا کیا تھا!

مشہور واقعہ ہے کہ سن ۹ ھ میں حضور نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بنا کر قافلہ روانہ فرما دیا.قافلہ روانہ ہو چکا تھا کہ سورۃ التوبۃ کی ابتدائی چھ آیات نازل ہوئیں‘ جن میں تیسری آیت کے الفاظ یہ ہیں: 
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ یعنی حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے یہ باتیں لوگوں کے سامنے بیان کر دی جائیں‘ ان کا اعلان (proclamation) ہو جائے. تو حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوبھیجا کہ تم میرے نمائندے کی حیثیت سے اجتماعِ حج میں یہ آیات پڑھ کر سنا دو! اس لیے کہ یہ ایک انتہائی اہم اعلان تھا کہ مشرکین سے تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے‘ کسی کا کوئی عہد نہیں رہے گا اور یہ بات کہ چار مہینے ختم ہو ئے تو قتل عام بھی شروع ہو جائے گا . اصل میں مسلمان تو اپنے نظم کو جانتے تھے‘ لیکن ابھی جو لوگ دائرۂ اسلام سے باہر تھے وہ اس سے واقف نہیں تھے .وہ اپنی سابقہ روایت کے مطابق یہ سمجھ سکتے تھے کہ یہ اعلان اسی صورت میں مؤثر (valid) ہے جبکہ حضور کا کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار‘ اُن کے گھرانے کا کوئی فرد یہ اعلان کرے. تو گویا اپنے ذاتی نمائندے کی حیثیت سے حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج دیااور ان کے ذمے لگایا کہ اجتماعِ حج میں ان آیات کو پڑھ کر سنا دیں. جب حضرت علیؓ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ ’’اَمِیْرٌ اَوْمَاْمُوْرٌ؟‘‘ یعنی مجھے پہلے یہ بتا دیجیے کہ آپ امیر کی حیثیت سے آئے ہیں یا مأمو رکی حیثیت سے؟ مجھے اپنی حیثیت بھی معلوم ہونی چاہیے اور آپ کی حیثیت بھی. اگر حضور نے مجھے معزول کر کے آپ کو امیر بنایا ہے تو میں حاضر ہوں‘ امارت سنبھالیے! اور اگر ایسا نہیں ہے تو بھی مجھے معلوم ہونا چاہیے . حضرت علیؓ نے فرمایا : ’’مَاْمُوْرٌ!‘‘ یعنی میں امیر بنا کر نہیں بھیجا گیا ‘ امیر آپ ہی ہیں ‘میں مأمور بنا کر بھیجا گیا ہوں‘ صرف ایک خاص کام میرے ذمے لگایا گیا ہے‘ وہ میں کروں گا. یہ ہے اس نظم اور ڈسپلن کا احساس! 

اس نظم و ضبط کو میں انقلاب کے معاملے میں مثال کے طور پر پیش کیا کرتا ہوں کہ محمدٌ رسول اللہ کے برپا کردہ انقلاب میں یہ پہلو مثالی حیثیت کا حامل ہے .جس معاشرے میں کوئی نظم اور کوئی ڈسپلن نہیں تھا ‘جسے 
’’قَوۡمًا لُّدًّا ‘‘ (جھگڑالو قوم)کہا گیا ہے‘ اس میں کون کسی کی بات سنتا تھا اور کون کسی کے سامنے سر جھکانے کو تیار ہوتا تھا.اس قوم میں ڈسپلن کا یہ احساس پیدا کیا! اسی کا مظہر تھا کہ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو حضرت خالدرضی اللہ عنہ کی جگہ پر کمانڈر مقرر کیا گیا تو حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ اچھا جی‘ اب مجھے رخصت دیجیے‘ جو شخص میرے ماتحت رہا ہے میں اس کے ماتحت رہ کر اب کیسے کام کروں گا! اس لیے کہ محمدٌ رسول اللہ نے جو تربیت کی تھی اس کا نتیجہ تھا کہ ہر ایک کے پیشِ نظر یہی تھا کہ مجھے اپنا فرض ادا کرنا ہے‘خواہ امیر کی حیثیت سے ہو خواہ مأمور کی حیثیت سے. جس کو جو حکم ملا ہے اس کو وہ کام کرنا ہے‘ ہم اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے حاضر ہوئے ہیں‘ کسی پر احسان رکھنے کے لیے نہیں آئے. یہ ساری جدوجہد ہم اپنی عاقبت بنانے کے لیے کر رہے ہیں‘ ہم کسی اور کا جھنڈا تھامنے کے لیے نہیں آئے. یہ دوسری بات ہے کہ اپنی عاقبت بنانے کے لیے دین کو قائم کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنا فرض ہے. اس فرض کی ادائیگی کے لیے اجتماعیت لازم ہے اور جماعتی حیثیت کے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا. اس کے لیے ایک ڈسپلن ہو گا‘ جس میں امراء کی اور مأمورین کی ایک chain ہو گی.ظاہر بات ہے کہ جب امیر اور مأمور کی یہ نسبت قائم ہو گی تو اس نسبت کا پھر جو بھی تقاضا ہو گا وہ پورا کیا جائے گا. لیکن سمع و طاعت کا یہ معاملہ شخصی نہیں ہو گا ‘بلکہ اس نظم کے اعتبار سے کسی شخص کی جو حیثیت ہے اسی درجے میں اس کی اطاعت ہو رہی ہے. یہ ہے وہ نظم جماعت جو آنحضور نے قائم کر کے دکھا یا اور یہ ہے وہ بیعت کا نظام جو منصوص بھی ہے ‘ مسنون بھی ہے اور مأثور بھی. 

یہاں یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ رسول اللہ مختلف مواقع پر اور بھی بیعتیں لے لیتے 
تھے.مثلاً کسی سے بیعت لی : ’’عَلٰی نُصْحٍ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘. یعنی اس بات پر کہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کرو گے.اسی طرح آپؐ نے کہیں ہجرت کی بیعت‘ کہیں جہاد کی بیعت اور کہیں موت کی بیعت لی. کہیں یہ بیعت بھی لی کہ میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے (عَلٰی اَنْ لَّا نَفِرَّ) (۱تو حضور کے زمانے میں یہ بیعتیں ہوئی ہیں. لیکن یہ جان لیجیے کہ اصل بیعتیں دو بنیں: ایک بیعت اسلام اور اس کے ساتھ بیعت ارشاد ‘اور دوسری بیعت جہاد اور بیعت سمع و طاعت. اس لیے کہ اس اجتماعیت کے لیے بیعت سمع و طاعت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے ثابت ہے جس کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا. نظم اجتماعی کے ضمن میں اس حدیث کو اصل ’’منات‘‘ کی حیثیت حاصل ہے. یعنی یہ وہ کھونٹا ہے جس کے گرد اجتماعیت کی چکی گھومتی ہے. اس حدیث کا تو ایک ایک لفظ ہم میں سے ہر شخص کو زبانی یاد ہونا چاہیے اور ان تقاضوں کا پورا شعور ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ ہمیں اب اپنی اجتماعیت ہیئت کو بالکلیہ اس پوری حدیث کے سانچے میں ڈھالنا ہے اور اب بالکلیہ اسی بیعت کے نظام پر اپنے پورے ڈسپلن کو اور اپنے پورے ڈھانچے کو کھڑا کرنا ہے. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. 

آج کے اس درس کو میں اس شعر پر ختم کر رہا ہوں جو متفق علیہ روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھود تے ہوئے پڑھ رہے تھے:

نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا
(۲

’’ہم ہیں وہ لوگ جنہوں نے محمد سے جہاد کی بیعت کی. اب یہ جہاد جاری رہے گا جب تک ہمارے جسم و جان کا رشتہ برقرار ہے‘‘.

بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیم (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب استحباب مبایعۃ الامام الجیش عند ارادۃ القتال.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب التحریض علی القتال وباب حفر الخندق. 
وصحیح مسلم‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب غزوۃ الاحزاب وھی الخندق.