اِن نشستوں میں منتخب نصاب (۲) کے دروس جس ترتیب سے آ رہے ہیں اس کودوبارہ ذہن میں تازہ کر لیجیے. درحقیقت درس اوّل میں ہمارے اصل اور بنیادی منتخب نصاب (۱) اور اس منتخب نصاب (۲) کے مابین ربط قائم کیا گیا ہے. جہادِ فی سبیل اللہ اور اس کا ہدف اوّلین شہادت علی الناس ‘ جو سورۃ الحج کی آخری آیت میں مذکور ہے : وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ (آیت ۷۸) ’’اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ اس کی راہ میں جہاد کا حق ہے‘‘.اور اس کی غرض و غایت ‘ اس کا مقصد بھی اسی آیت میں بیان ہوا: لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ ’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو‘‘. پھر سورۃ الصف کے حوالے سے جہاد کی نہایت زوردار دعوت ہے ان الفاظِ مبارکہ میں: تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ (آیت ۱۱) ’’تم ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ‘‘.اور اس کا ہدف‘ اس کی غایتِ قصویٰ اور اس کی آخری منزل بیان ہوئی سورۃ الصف کی آیت ۹ میں : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجااپنے رسول (ﷺ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق دے کر تاکہ اسے غالب کرے کُل کے کُل نظامِ زندگی پر‘‘.یہ دونوں مقامات ہمارے منتخب نصاب(۱) میں شامل ہیں.
شہادت علی الناس اور غلبۂ دین کے تصور کو مزید مؤ کد کیا گیا اس منتخب نصاب(۲) کے درس اوّل میں ‘ جو سورۃالشوریٰ کی آیات ۱۳تا۱۵ پر مشتمل ہے‘ جس میں اقامتِ دین کا تصور سامنے آیا. اس میں اقامتِ دین کے لیے نہ صرف پکارا گیا ہے بلکہ للکارا گیا ہے : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ’’یہ کہ تم دین کو قائم کرو اور اس (دین کے معاملہ ) میں متفرق مت ہو جانا‘‘. اس درس کے ضمن میں عرض کر چکا ہوں کہ ۵۳ آیات پر مشتمل اس پوری سورت (الشوریٰ) میں جمع کے صیغہ میں صرف ایک ہی فعل امر آیا ہے : اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ اور ایک ہی فعل نہی آیا ہے : وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ اور پھر سورت کے آخر میں جا کر دوبارہ ان دونوں کے لیے زوردار دعوت ہے . ویسے تو ’’امر‘‘ اور ’’نہی‘‘ دونوں میں اللہ کا حکم آ گیا‘ لیکن سورت کے آخری حصے میں اسے مزید مؤکد کیا گیا : اِسۡتَجِیۡبُوۡا لِرَبِّکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ مَا لَکُمۡ مِّنۡ مَّلۡجَاٍ یَّوۡمَئِذٍ وَّ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نَّکِیۡرٍ ﴿۴۷﴾ ’’اپنے ربّ کا حکم مان لو اُس دن کے آنے سے پہلے کہ جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے. اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے والا ہوگا‘‘.
شہادت علی الناس اور غلبۂ دین کی یہ جدوجہد کس نے کی؟ اور وہ لوگ کن اوصاف کے حامل تھے؟ یہ سورۃ الفتح کی آخری آیت کا مضمون ہے جو ہمارے اس منتخب نصاب (۲) کے درس دوم میں ’’اقامت ِ دین کے لیے کام کرنے والوں کے مطلوبہ اوصاف‘‘ کے عنوان سے شامل ہے. پھر اسی عنوان کے تحت سورۃ المائدۃ کی آیت ۵۴ اور سورۃ الشوریٰ کی آیات ۳۶ تا ۴۳ بھی اس نصاب میں شامل کی گئی ہیں.
ان اسباق کے ذریعے یہ بات معین ہو گئی کہ اگرچہ مسلمان کا اصل نصب العین سوائے نجاتِ اُخروی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے اور کچھ نہیں‘ تاہم اس دنیا میں اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اور اس کے لیے منزل اللہ کے دین کا غلبہ اور اس نظام کابالفعل قیام ہے جس میں اللہ کو حاکمِ حقیقی تسلیم کیا جائے اور اسی کو شارعِ حقیقی مانا جائے. ظاہر ہے اُس کے نمائندے کی حیثیت سے محمدٌ رسول اللہﷺ ہیں‘ لیکن حاکمِ حقیقی اللہ ہے اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ . اس تصور کو ہم نے ایک جدید اصطلاح ’’اسلامی انقلاب‘‘ سے واضح کیا. یہ انقلاب لازماً افراد سے شروع ہو گا‘ اور افراد میں بھی انکے اذہان و قلوب سے. اور اس کا نتیجہ عملی انقلاب ہو گا. پھر جو افراد جمع ہوں گے وہ ایک بنیانِ مرصوص بنیں گے‘ ایک قوت کی شکل اختیار کریں گے اور یہ قوت اللہ کے دین کے اس غلبے کے راستے میں مزاحم قوتوں کو چیلنج کرے گی اور اُن سے ٹکرائے گی. اس چیلنج اور ٹکراؤ کے نتیجے میں اگر اللہ کو منظور ہوا تو اللہ کا دین غالب ہو جائے گا‘ بصورتِ دیگر ایسے افراد اللہ کی راہ میں اپنی جانیں دے کر سرخرو ہو جائیں گے. یہ بالکل دو اور دوچار کی طرح سیدھا اور واضح راستہ ہے. انسان کے دل میں اگر چور ہو تو وہ جدھر سے چاہے چور دروازہ بنائے اور نکل جائے‘ لیکن یہ بالکل سیدھا راستہ ہے‘ سیدھا تصور ہے. اس میں کہیں جھول اور ہیر پھیر نہیں ہے‘ اس میں کہیں تکلف اور تصنع نہیں ہے.
اب جہاں تک اس انقلاب کے عمل کا تعلق ہے‘ اس کے ضمن میں پہلی بات جس کو ہم نے نمایاں کیا ہے وہ یہ کہ یہ انقلاب محض اسی راستے سے آ سکتا ہے جس راستے سے محمد ٌرسول اللہﷺ نے برپا کیا تھا‘جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ہے ‘ جسے امام مالکؒ نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے :
’’ لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا ‘‘
’’اس اُمت (مسلمہ) کے آخری حصہ کی اصلاح محض اسی طریق پر ہو گی جس پر کہ پہلے حصہ کی ہوئی ہے‘‘.
دیگر تبلیغی ‘ تدریسی‘ تعلیمی اور اصلاحی کام وغیرہ تو اس کے بغیر ہو سکتے ہیں‘ ان میں سے ہر ایک اہمیت کا حامل ہے ‘لیکن اگر اقامت دین اور اظہار دین الحق علی الدین کلّہ کا کُلی تصور سامنے ہو تو اس کے لیے راستہ سوائے اُسوۂ رسولؐ کے اور کوئی نہیں.ذاتی اصلاح کے لیے اگر کوئی خانقاہی نظام پہلے کی طرح اب بھی موجود ہو اور مفید نتائج برپا کر رہا ہو تو اس کی نفی نہیں ہے. اسی طرح وعظ و تلقین و ارشاد کا جو سلسلہ بھی اجتماعی اور انفرادی سطح پر ہو رہا ہے‘ اس کی بھی نفی نہیں ہے ‘وہ بھی ایک خدمت ہے کہ جو ہو رہی ہے. دین کی تعلیم و تدریس کا کوئی کام کہیں ہورہا ہے‘ وہ چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو چاہے بڑے پیمانے پر ہو‘ اس کی بھی نفی نہیں ہے. وہ بھی ایک مفید خدمت ہے جو ہو رہی ہے. لیکن اگر اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ اور وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ کے قرآنی احکام کے حوالے سے غلبۂ دین اور اقامت دین کا کلی تصور پیش نظر ہو کہ دین کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے ہو جائے تو اس کے لیے ہمیں پوری طرح غور و فکر اور سوچ بچار کر کے اور پوری باریک بینی سے اپنی تمام ذہانت اور استعداد کو بروئے کار لا کر خالص معروضی طور پر یہ سمجھنا ہو گا کہ محمدٌ رسول اللہﷺ نے یہ کام کیسے کیا!اس پر میری مفصل تقریریں تحریری صورت میں چھپ چکی ہیں.