منہج انقلابِ نبویؐ ‘ کا حالاتِ حاضرہ پر انطباق

اب اس غور و فکر اور سوچ بچار کے دو مراحل ہوں گے. پہلے مرحلے میں ایک خالص معروضی مطالعہ‘ (absolutely objective study) کرنا ہو گا کہ حضور نے اقامتِ دین کا کام کیسے کیا. اس میں دو چیزیں نمایاں ہو رہی ہیں‘ جس کو میں نے ’’سیرت‘‘ اور ’’فلسفۂ سیرت‘‘ سے تعبیر کیا ہے. سیرت تو اس جدوجہد کے سلسلہ وار مراحل بتائے گی کہ آپ نے ابتداء ً یہ کیا‘ پھر یہ کیا‘ پھر یہ کیا ‘لیکن یہ سوال کہ ایسا کیوں ہے؟اس کی کیا حکمتیں ہیں؟ حضور نے پہلے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ پھر یہ دوسرا قدم کیوں آیا؟ پہلے اور دوسرے قدم کے مابین کتنا فاصلہ ہے؟ دوسرا قدم اٹھانے کے لیے کیا شرائط ہیں‘ کیا لوازم ہیں‘ کون سے تقاضے کس حد تک پورے ہو چکے ہوں کہ اگلا قدم اٹھایا جائے گا؟ ان تمام سوالات کا واضح طور پر جواب سیرت النبی میں نہیں ملتا ‘بلکہ یہ چیزیں ’’فلسفۂ سیرت‘‘ کے طور پر سیرت سے اخذ کرنی ہوں گی.

دوسرے مرحلے میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس ماحول اور جس دَور میں ہم یہ کام کر رہے ہیں اس کے اعتبار سے آیا سیرت النبی سے اخذ شدہ طریق کار میں ہمیں کہیں کسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟ بجائے اس کے کہ غیر شعوری طور پر انسان زمانی اور مکانی عوامل سے متأثر ہو کر کوئی تبدیلی کر لے ‘اسے شعوری طور پر اس چیز کو معین کرنا چاہیے‘ تاکہ صغریٰ کبریٰ جوڑ کر جو نتیجہ نکالا گیا ہو اُس پر نظر ثانی بھی ممکن ہو سکے‘اور برعکس نتائج نکلنے کی صورت میں یہ دیکھا جا سکے کہ آیا اس معاملے میں ہمارا صغریٰ غلط تھا یا کبریٰ غلط تھا! ان چیزوں کو میں اپنی تقاریر میں معین کر چکا ہوں.

اقامت دین کے لیے پہلا مرحلہ دعوت کا ہے. اس میں تو زمان و مکان کے تغیر سے کوئی فرق و تفاوت نہیں ہو گا ‘بلکہ یہ عین منہاج ِ نبویؐ کے مطابق ہو گی. دوسرا مرحلہ تنظیم کا ہے. اس کے طریق کار میں صرف ایک فرق ہو گا . وہ یہ کہ وہاں تو تنظیم کی اصل بنیاد تھی نبی اکرم پر ایمان‘ ان کی تصدیق. گویا جس نے آپ کو نبی اور رسول مانا وہ مطیع ہے. اس کے لیے کسی اضافی بیعت کی فی الاصل ضرورت نہیں تھی. میرے نزدیک سیرت النبی میں بیعتوں کا جو نظام ہمیں نظر آتا ہے وہ دراصل بعد والوں کی راہنمائی کے لیے ہے. چنانچہ اس سلسلے میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا قول نہایت اہم ہے ‘اسے یاد رکھنا چاہیے.غزوۂ بدر سے قبل ہونے والی مجلسِ مشاورت میں انہوں نے عرض کیا تھا : اِنَّا آ مَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ… حضور !آپ متردّ دکیوں ہیں؟ آپ شاید اِس خیال کی وجہ سے متردّد ہیں کہ ہم نے بیعت عقبۂ ثانیہ میں صرف یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر مدینے پر حملہ ہو گا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے! لیکن ہمارے سامنے تو یہ حقیقت موجود ہے کہ ہم آپؐ پر ایمان لائے ہیں‘ ہم نے آپؐ کی تصدیق کی ہے‘ ہم نے آپؐ کو نبی مانا ہے‘ رسول مانا ہے. اب ہمارے لیے استثناء کہاں ہے؟ آپؐ جو حکم دیں گے ہم بسر و چشم اس کی تعمیل کریں گے. آپ ہمیں حکم دیں گے تو ہم اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں گے‘ آپ حکم دیں گے تو ہم اپنی اونٹنیوں کو لاغر کر دیں گے‘ لیکن برک الغماد تک جا پہنچیں گے. آپ حکم دیجیے ہم حاضر ہیں! یہ ہے وہ اصل بات. لیکن ظاہر بات ہے کہ تنظیم کی یہ بنیاد اَب کبھی نہیں ہو گی. لہذا اب ہمارے پاس اس کے لیے صرف ایک ہی مسنون و ماثور راستہ ہے‘ ایک ہی اساس اور بنیاد ہے اور وہ بیعت ہے. اس پر ہمارے دروس تفصیلاً ہو چکے ہیں.

اس کے بعد تیسرا مرحلہ آتا ہے تربیت اور تزکیہ کا. اس میں بھی اگر ہم نے بعینہٖ وہی رُخ اختیار نہ کیا جو محمدٌ رسول اللہ کا ہمیں نظر آتا ہے تو اس تربیت اور تزکیہ 
سے وہ اوصافِ مطلوبہ کبھی پیدا نہیں ہوں گے جو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے ضروری ہیں. طریقِ نبویؐ سے ہٹ کر اگر تزکیہ اور تربیت کا عمل اختیار کیا جائے تو اِس میں ہو سکتا ہے کہ کچھ روحانی ترقع پیدا ہو جائے‘ کچھ کشف و کرامت کا زیادہ عمل دخل ہمیں نظر آنے لگے‘ لیکن وہ صورت ہرگز پیدا نہیں ہو گی جو ایک انقلابی جدوجہد کے لیے ناگزیر ہے. کشف و کرامت کی بھی نفی قطعاً نہیں ہے ‘لیکن دراصل جو طریقِ تربیت و تزکیہ محمدٌ رسول اللہ نے اختیار فرمایا ہمیں حتی الامکان اسے اختیار کرنا ہے. البتہ کس حد تک ہم اس طریق کار کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے ‘ یہ بات دوسری ہے‘ اس کا تعلق کمیت سے ہے‘ یہ‘ quantitative element ہے. لیکن اپنی امکانی حد تک معروضی مطالعہ کر کے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس تربیتی نظام کے کیا اجزائے ترکیبی تھے جو محمدٌ رسول اللہ سے ثابت ہیں اور ہمیں اپنی امکانی حد تک اس کی پیروی کرنی ہے.

چوتھا مرحلہ صبر محض 
(passive resistance) کا ہے. یہ زبانی ایذاء کے مقابلے میں بھی ہو گا‘ جیسے حضور سے فرمایا گیا: فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ (طٰہٰ:۱۳۰اور وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ (الحجر) اور جسمانی ایذاء کے مقابلے میں بھی ہو گا‘ جس کا سورۃ العنکبوت میں ذکر آیا : فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ (آیت ۱۰. یہ مرحلہ بھی جوں کا توں رہے گا‘ یعنی زبانی اور جسمانی ایذاؤں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے اور جوابی کارروائی ہرگز نہیں کرنی. اب سوال ہے کہ یہ صبر محض (passive resistance) کا مرحلہ کب تک رہے گا!توجان لیجیے کہ جب تک مکمل تجزیے کے بعد یہ رائے قائم نہ ہو جائے کہ اب ہمارے پاس اتنی قوت موجود ہے اور وہ مناسب تربیت پا چکی ہے کہ اب وہ اقدام کرے‘ چیلنج کرے اور اس قائم نظام کی دکھتی رگ کو کہیں سے چھیڑے‘ اُس وقت تک یہ صبر محض جاری رہے گا. 

اب آگے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اقدام کی صورت کیا ہو گی؟ تو پہلے یہ جان لیجیے کہ اب اُس دَور میں اور اِس دَور میں بہت فرق واقع ہو چکا ہے. لہذا اب ہمارے 
سامنے دو عوامل کارفرما رہیں گے. ایک عامل یہ کہ وہاں حضور بذاتِ خود موجود تھے. آپؐ کا اپنا ایک مقام اور مرتبہ ہے. پھر یہ کہ وہاں ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف کافر تھے. جو آپؐ پر ایمان لایا وہ مسلمان‘ جو ایمان نہیں لایا‘ وہ چاہے اپنی جگہ پر کتنا ہی نیک اور شریف آدمی ہو اور چاہے وہ موحّد کامل ہی کیوں نہ ہو‘ وہ کافر. لہذا وہاں بالکل دو ٹوک اسلام اور کفر کی جنگ تھی. یہاں یہ معاملہ نہیں ہے .یہاں بگڑا ہوا مسلمان معاشرہ ہے. درس کے عنوان میں اسی کو شامل کیا گیا ہے. یہاں سب مسلمان ہیں‘ شرعاً مسلمان‘ فقہی طو رپر مسلمان. اور مسلمان کے کچھ حقوق ہیں. یہ وہ حقیقت ہے جس سے ایک بنیادی فرق واقع ہوا جس کو ملحوظ رکھنا پڑے گا. بعض لوگ اپنے جوشِ تبلیغ اور جذبے میں اس کو نظر انداز کر دینے کی طرف چلے گئے. اُن میں پھر سختی اور انتہا پسندی آئی ہے‘ اور یہ انتہا پسندی بہت خطرناک ہے. مسلمان بہرحال مسلمان ہے‘خواہ کوئی فاسق ہے یا فاجر ہے‘ کوئی اوہام میں مبتلا ہو گیا ہے‘ کوئی شرکِ خفی میں مبتلا ہے‘ بلکہ اگر کوئی شرکِ جلی بھی کر رہا ہے لیکن اس کی کوئی تأویل کر رہا ہے‘ تو ان معاملات کا سارا تعلق افتاء اور قضاء سے ہے. ہم اپنے جوش میں آ کر انہیں مشرک‘ کافر یا اس طرح کا کوئی اور لقب نہیں دے سکتے. مسلمان بہرحال مسلمان ہے‘ لہذا یہاں اب منطقی طور پر کچھ فرق لازمی ہو گا.

میں اس کا ہرگز قائل نہیں ہوں کہ اقامت دین صرف جمالِ روحانی یا جمالِ عقلی سے ممکن ہے. ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا. اقامت دین یا بالفاظِ دیگر غلبۂ دین حق کے لیے آخری مرحلہ آئے گا جس میں لازماً سردھڑ کی بازی لگانی پڑے گی. اِس لیے کہ اس کا تعلق اصل میں ایک جمے ہوئے مضبوط نظام کو جڑ سے اکھیڑنے سے ہے‘ جس میں مختلف طبقات ہوتے ہیں‘ جنہیں خصوصی مراعات حاصل ہوتی ہیں اور خصوصی مفادات حاصل ہوتے ہیں. ان کے پاس سرمایہ ہوتا ہے جس سے وہ غنڈوں کو خرید سکتے ہیں. وہ اس سرمائے سے علمائے سوء کو خرید سکتے ہیں. لہذا یہاں کی جنگ بڑی پیچیدہ جنگ ہے اور اس میں جان کی بازی لگانے کا مرحلہ تو لازماً آ کر رہے گا. مسلمان کے خلاف ہتھیار 
اٹھانا اگرچہ مطلقاً خارج از بحث نہیں ہے‘ خصوصاً امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک اگر دین کے غلبے کے لیے اس کی ضرورت پیش آئے اور اس کی شرائط پوری ہو گئی ہوں تو اس کی بھی اجازت ہے‘ لیکن وہ شرائط بڑی کڑی اور بہت سخت ہیں. وہ معاملہ بہرحال نہیں ہے جو کافروں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا ہے. دوسرے یہ کہ اِس دَور میں حکومتوں کے پاس وسائل ‘ ذرائع اور قوت بے پناہ ہے اور شہری پہلے کے مقابلے میں بالکل نہتے ہیں. اس اعتبار سے بھی مسلمان حکومتوں کے خلاف جنگ اگرچہ ناممکن تو نہیں ہے ‘ گوریلا جنگ ہو سکتی ہے‘ لیکن عملاً یہ بہت ہی مشکل ہے. 

اب ان دو حالتوں میں اقدام کے لیے ہمیں غور و فکر کر کے کوئی اور عنوان‘ کوئی اور راستہ اور طریقہ تلاش کرنا ہو گا. انسانی تمدن کے بتدریج ارتقاء کے نتیجے میں روشن خیالی 
(illumination) کی منازل طے کرتے ہوئے ہم جہاں پہنچے ہیں وہ ہے اصل میں اس درس کا موضوع اور اس کا عنوان. اب یہ راستہ اور طریقہ بھی ہمیں کہیں باہر سے نہیں تلاش کرنا. یہ پوری وضاحت کے ساتھ قرآن اور سنت رسولؐ میں موجود ہے .یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلام کے آخری اور کامل دین ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے. اور یہ ہے درحقیقت فریضہ ’’نہی عن المنکر‘‘ جسے قرآن و حدیث میں بہت نمایاں کیا گیا ہے. حدیث میں نہی عن المنکر کے تین مراتب آئے ہیں. ان میں سب سے اونچا مرتبہ نہی عن المنکر بالید ہے. 

نوٹ کیجیے کہ زمانے نے جہاں مسلح اقدام کو بہت ہی مشکل بنا دیا ہے وہاں زمانے نے ایک متبادل طریقہ بھی پیدا کیا ہے. اس معاملے میں درحقیقت اس سیاسی ارتقاء ‘ 
(political evolution) کوسمجھنا ہو گا جو اکثر و بیشتر لوگوں کے سامنے نہیں ہے. انسان کے سیاسی شعور کے ارتقاء اور سیاسی اداروں کے ارتقاء سے آج یہ بات واضح ہو ئی ہے کہ حکومت اور شے ہے‘ ریاست اور شے ہے. یہ بات آج سے دوسو برس پہلے بھی دنیا کو معلوم نہیں تھی. یہ بھی ایک اکتشاف ہے اور ایک طرح کی ایجاد ہے. جیسے موٹر‘ ریل‘ ہوائی جہاز جیسی مادی ایجادات ہیں ویسے ہی یہ عمرانی ایجادات ہیں. مادی ایجادات کا تو ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ جبکہ بدقسمتی سے اس عمرانی ایجاد کا فہم و شعور‘ خاص طور پر ہمارے رجالِ دین کے طبقے میں ‘موجود نہیں ہے. اس لیے کہ انہوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا‘ یہ ان کا موضوع نہیں ہے کہ جدید پولیٹیکل سائنس کیا ہے اور جدید تصورِ ریاست کیا شے ہے. آج کے دَور میں حکومت تو پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی رہ گئی ہے‘ اصل شے اب ریاست ہے. شہری کی وفاداری ریاست سے ہوتی ہے‘ حکومت سے نہیں ہوتی. حکومت تو ریاست کے تین بنیادی اعضاء‘ (organs) میں سے ایک ہے. یعنی قننہ‘ (Legislature)‘ عدلیہ ‘ (Judiciary) اور انتظامیہ‘(Executive) میں سے حکومت کے پاس صرف انتظامیہ کا کردار ہے‘ یعنی یہ صرف تنفیذی اور انتظامی قوت ہے‘ جبکہ قانون سازی کا ادارہ اور ہے‘ عدلیہ کا ادارہ اور ہے. مزید یہ کہ ہر شہری کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل میں رائے دے اور ناپسندیدہ حکومت کو بدل دے. جماعت سازی بھی اس کا حق مانا گیا ہے ‘ اس لیے کہ اگر وہ جماعت نہیں بنائے گاتو قوت کیسے وجود میں آئے گی؟ اور اجتماعی قوت کے بغیر وہ حکومت کو کیسے بدلے گا اور وسائل و ذرائع کو کیسے مجتمع کرے گا کہ اپنے فکر کو لوگوں کے سامنے لا سکے؟ حکومت کی تبدیلی کا ایک جمہوری طریق کار ہے اور ایک انقلابی طریق کار . لیکن جماعت سازی اور اظہارِ رائے بہرحال شہری کے وہ حقوق ہیں جن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی. یہ جو ادارے (institutions) وجود میں آئے ہیں انہوں نے ان راستوں کو اَب کھول دیا اور آسان کر دیا ہے. گویا تمدنی ارتقاء نے ایک دروا زہ بند کیا ہے تو دوسرا دروا زہ کھول دیا ہے. آدمی کو اگر اِن چیزوں کا شعور نہ ہو تو بھی وہ شش و پنج میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں کیا کرے اور کیسے کرے؟ تو ان تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہو گا. درحقیقت اس سیاق و سباق میں نہی عن المنکر کی جو اہمیت قرآن و حدیث سے ہمارے سامنے آتی ہے اس کو سمجھنے کے لیے اس منتخب نصاب ( ۲) میں اس درس کو شامل کیاگیا ہے.

٭ ٭ ٭ 
اس درس میں سورۂ آل عمران کی تین آیات (۱۰۲تا۱۰۴) شامل کی گئی ہیں‘جن میں سے اس درس کی ترکیب کے اعتبار سے صرف آخری اور مختصر آیت (۱۰۴) متعلق ہے:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ 

اسی طرح سورۃ التوبۃ کی دو آیات میں سے آیت ۱۱۲ اِس موضوع سے متعلق ہے. اس میں اہل ایمان کے نو اوصاف بیان ہوئے ہیں‘ جن میں سے آخری تین اوصاف کا تعلق اصل میں اس موضوع سے ہے : الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ اس سے ماقبل آیت ۱۱۱ کا مطالعہ ہم گزشتہ درس میں کر چکے ہیں کہ اس آیت سے درحقیقت بیع اور پھر بیع سے بیعت کا تصور اجاگر ہوا ہے. ان دونوں آیتوں کا باہمی ربط یہ ہے کہ آیت ۱۱۲ میں اہل ایمان کے جو اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں ان میں سے یہ جو آخری تین اوصاف ہیں ان کے لیے قوت درکار ہے. اور اس قوت کے لیے وہ لوگ درکار ہیں جو اللہ سے وہ بیع و شرا ء کر چکے ہوں جو آیت ماقبل میں مذکور ہے : اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ ’’یقینااللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے خرید لی ہیں ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض‘‘. اس لیے یہاں پر اس آیت کو بھی شامل کیا گیا.