جہاں تک سورۂ آل عمران کی تین آیات (۱۰۲ تا ۱۰۴) کا تعلق ہے ‘یہ نوٹ کر لیجیے کہ یہ مقام بھی قرآن مجید کے جامع ترین مقامات میں سے ہے اور ان میں اُمتِ مسلمہ کے لیے تین نکات پر مشتمل ایک مکمل لائحہ عمل دے دیا گیا ہے. یہ درس اصلاً تو ہمارے منتخب نصاب کے حصہ اوّل (جامع اسباق) میں شامل ہونا چاہیے اور سورۃ العصر‘ آیۃ البر ‘ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع‘ سورۂ حم السجدۃ کی آیات ۳۰ تا ۳۶ کے ساتھ آنا چاہیے کہ یہ بالکل اسی معیار اور اسی سطح کا اور اتنی ہی جامعیت کا حامل مقام ہے. اس کی پہلی آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ میں جو چیز ایک فرد سے مطلوب ہے اس کو انتہائی جامعیت ‘ انتہائی اختصار اور انتہائی تاکید سے بیان کر دیا گیا ہے اس آیت میں . یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا سے خطاب ہے. تو گویا سورۃ العصر کا ’’اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ‘‘ خود بخود اِس میں آگیا. اور ’’وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ‘‘ کے لیے اس آیت میں جامع ترین ‘ مؤکد ترین‘ خوبصورت ترین اور مختصر ترین تعبیر ہے کہ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کا حق ہے‘‘. میرے نزدیک یہ آخری تاکید ی اسلوب ہو سکتا ہے اور یہ ناممکن الحصول ہے. اس مقام تک کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا. لیکن اصول بہرحال یہی ہے .یعنی آئیڈیل اونچا ہونا چاہیے‘ نگاہ بلند ہونی چاہیے. اب جہاں تک کوئی رسائی حاصل کر سکے یہ اس کی ہمت ہے ‘البتہ اصول واضح رہنا چاہیے. یہ حکم سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھبرا گئے تھے کہ حضور( )! کس کے لیے ممکن ہے اللہ کا حقِ تقویٰ ادا کرنا! پھر جب سورۃ التغابن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ (آیت ۱۶’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا تم استطاعت رکھتے ہو‘‘. تو اُن کی جان میں جان آئی. حالانکہ سورۃالبقرۃ کے اندر بھی یہ مضمون موجود ہے : لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ (آیت ۲۸۶لیکن اس کو مزید واضح کرنا اطمینان کے لیے ضروری تھا.

اس آیت میں دوسرا حکم ہے : 
وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ ’’اور (دیکھو اہل ایمان!) ہرگز مت مرنا‘ مگر حالت اسلام میں‘‘. بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں اسلام کے جب اصطلاحی معنی مراد لے لیے جاتے ہیں تو اس آیت کی ساری جان نکل جاتی ہے .جان لیجیے یہاں اصطلاحی اور فقہی معانی مراد نہیں ہیں. یہاں ’’مسلم‘‘ کے اصل لغوی معنی مراد ہیں کہ ’’تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر حالت فرماں برداری میں‘‘. یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ کے انتہائی گاڑھے حکم کے ساتھ یہاں پر ’’اسلام‘‘ کا فقہی مفہوم ہرگز مراد نہیں ہو سکتا. یہ اس حکم سے قطعاً مناسبت نہیں رکھتا. جن لوگوں کے ذہنوں میں توازن نہیں ہوتا وہ اس طرح بھٹکتے ہیں. اب اس بحث کو چھوڑ دیجیے کہ گناہِ کبیرہ سے بھی کوئی شخص کافر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا. یہ قانونی بحث ہے. اس دنیا میں آپ کسی کے اوپر کوئی فتویٰ نہیں لگا سکتے. یہاں وہ حدیث نبویؐ ذہن میں رکھئے : لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ (۱’’کوئی زانی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کرتا‘ اور کوئی چور حالتِ ایمان میں چوری نہیں کرتا اور کوئی (شراب پینے والا )حالتِ ایمان میں شراب نہیں پیتا‘‘. حقیقت کے اعتبار سے یہاں یہی مفہوم مراد ہے کہ ’’ہرگز مت مرنا مگر حالت فرماں برداری میں‘‘. جب آدمی گناہ کررہا ہے تو اُس وقت وہ فرماں بردار کہاں ہے! وہ تو فرمان کو توڑ رہا ہے.اس حالت میں موت بڑی عبرت ناک اور حسرت ناک موت ہے. بالفرض ایک شخص کی عین عمل زنا کے دوران جان سلب کر لی جائے تو تصور کیجیے یہ کتنی عبرت ناک موت ہو گی! لیکن اب یہ بھی جان لیجیے کہ یہ عملِ زنا تو ہمیں طبعاً بہت ہی بُرا لگتا ہے‘ اس لیے کہ اسے برا سمجھنا ہماری روایت کا ایک جزو بن گیا ہے‘ یہ ہمارے اجتماعی شعور‘ (collective consciousness) کا ایک جزوِلاینفک ہو گیا ہے‘ جبکہ اس سے سو گنا برا عمل سود ہے. ا ب سود کھاتے ہوئے مرنا‘ اس تصور پر ہمیں جھرجھری نہیں آتی اور ناگواری محسوس نہیں ہوتی‘ حالانکہ یہ زنا سے سو گنا زیادہ برا عمل ہے‘ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ.ایک حدیث نبویؐ کے الفاظ ہیں: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا‘ اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ (۲’’سود کے ستر حصے ہیں‘ ان میں سے سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے‘‘. اس حدیث کی روشنی میں عملِ زنا اور عملِ سود میں کیا نسبت قائم ہو سکتی ہے! ہزار گنا بھی کہا جائے تو کم ہے. اب یہاں جو لفظ آیا ہے : ’’وَ لَا تَمُوۡتُنَّ ‘‘ ’’دیکھنا تمہیں موت نہ آئے‘‘ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ حکم گویا اس حکم کے ہم پلہ ہو گیا ہے کہ: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ . (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحدود‘ باب اثم الزناۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی ونفیہ عن المتلبس. (الفاظ صحیح مسلم کے ہیں) 

(۲) سنن ابن ماجہ‘ کتاب التجارات‘ باب التغلیظ فی الربا. اب ایک ایک لمحہ جاگ کر اور چوکس اور چوکنے رہ کر بسر کرنا ہے کہ کہیں کوئی لمحہ حالتِ معصیت میں نہ گزرے.کیا کوئی ضمانت ہے کسی کے پاس کہ اسی لمحے اس کی موت نہیں آ سکتی؟

اب اس سے آگے آیئے! افراد کو جمع کر کے ان کی شیرازہ بندی سے ایک قوت وجود میں آتی ہے. دیکھئے مسلمانوں کی یہ شیرازہ بندی کس بنیاد پر ہے؟ ان کو جوڑنے والی شے کون سی ہے؟ یہ چیز 
’’حبلُ اللہ‘‘ ہے‘ یعنی قرآن مجید. فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو تھام لو‘‘. سورۃ الحج میں الفاظ آئے ہیں : وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ’’اللہ کے ساتھ چمٹ جاؤ‘‘ .بڑا خوبصورت ربط ہے ان دونوں کے مابین. عَصَمَ‘ یَعْصِمُ کے معنی ہیں ’’کسی کو بچانا‘‘. جیسے حضور‘ سے فرمایا گیا: وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ (المائدۃ:۶۷’’(اے نبی!) اللہ آپ کو بچائے گا (آپ کی حفاظت فرمائے گا) لوگوں سے‘‘. بابِ اِفتعال سے مصدر بنتا ہے اِعتِصام. اس کا مطلب ہے ’’خود بچنا‘ اپنا تحفظ حاصل کرنا‘‘. اس کے ساتھ حرف ’’ب‘‘ کا صلہ لگنے سے یہ متعدی ہو جاتا ہے کہ اس بچاؤ کا ذریعہ کیا چیز بنے گی؟ فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ’’چمٹ جاؤ اللہ سے‘‘ یعنی اللہ کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ! اب ان الفاظ میں جو ایک اجمال ہے اس کی وضاحت ہے بایں الفاظ : وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ کہ اپنے تحفظ کے لیے اللہ کی رسی کے ساتھ چمٹ جاؤ!
اس حوالے سے مَیں بے شمار مقامات پر تفصیلی بحث کر چکا ہوں کہ حبل اللہ (اللہ کی رسی) سے کیا مراد ہے! الفاظ عام ہیں. ان سے توحید‘ دین‘ شریعت‘ کلمۂ شہادت وغیرہ سبھی چیزیں مراد لی جا سکتی ہیں. لیکن جب ہمارے پاس مرفوع تفسیر موجود ہو تو کسی اور طرف جانا درست نہیں ہے. حضور نے حبل اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قرآن ہے. حدیث نبویؐ کے الفاظ ہیں: 
اَلاَ وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ‘ اَحَدُھُمَا کِتَابُ اللہِ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ حَبْلُ اللہِ … (۱’’ آگاہ رہو کہ میں تمہارے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب من فضل علی بن ابی طالب . درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ‘ ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے‘ یہ اللہ کی رسی ہے‘‘. ایک دوسری حدیث میں آیا ہے : ھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ (۱’’یہی (قرآن مجید) اللہ کی مضبوط رسی ہے‘‘. نیز فرمایا : کِتَابُ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ (۲’’اللہ کی کتاب آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ایک رسّی ہے‘‘. تو اب یہ قرآن ہی اصل شے ہے .اب چمٹو قرآن کے ساتھ!اعتصام بالقرآن ہونا چاہیے. اعتصام بالقرآن کے دونوں پہلو اِس میں موجود ہیں جو تفصیل سے بیان ہو چکے ہیں. یعنی تزکیہ بھی ہو گا تو اسی قرآن سے‘ دعوت بھی دی جائے گی تو اسی قرآن سے. جیسے فرمایا گیا ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ (یونس) ’’اے لوگو !تمہار ے پاس آچکی ہے نصیحت تمہارے ربّ کی طرف سے اور یہ شفاء ہے دل کی بیماریوں کی اور اہلِ ایمان کے لیے راہنمائی اور رحمت ہے‘‘. اس سے بڑا معجزہ کوئی نہیں ہے. انسان کے نفس کے اندر جو روگ ہوتے ہیں‘ جیسے حبّ جاہ‘ حبّ دنیا‘ حبّ مال‘ ان کے ازالے اور ان کے معالجے کے لیے اس سے بڑی دوا کوئی نہیں. پھر یہ کہ دعوت اور تذکیر کا ذریعہ بھی یہ قرآن ہے. فرمایا : فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) ’’(اے نبیؐ !) اس قرآن کے ذریعے یاد دہانی کرایئے اس کو جو میری تنبیہہ سے ڈرتا ہو‘‘. یعنی انذار بھی اسی قرآن کے ذریعے اور تبشیر بھی اسی قرآن کے ذریعے. تو یہ اعتصام دونوں اعتبارات سے ہے. 
’’جَمِیۡعًا ‘‘ کے لفظ کے لیے یہاں دونوں امکانات موجود ہیں. ’’جَمِیۡعًا ‘‘ قرآن کا حال بھی ہو سکتا ہے اور مخاطبین کا بھی. یعنی یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ پورے قرآن کو تھامو! ایسا نہ ہو کہ ؎ 

اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے ‘ کچھ گل نے 
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری!

(۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فی فضل القرآن.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب المناقب‘ باب مناقب اھل بیت النبی . 
بلکہ پورے کے پورے قرآن کو اختیار کرو. اہل کتاب کو اُن کی اسی روش پر سرزنش کی گئی ہے. فرمایا: اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ (البقرۃ:۸۵’’کیا تم کتاب کے کچھ حصے کو مانتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟‘‘ تو اے مسلمانو! تمہاری یہ روش نہیں ہونی چاہیے. ویسے عام طور پر ’’جَمِیۡعًا ‘‘ سے دوسرا مفہوم مراد لیا گیا ہے کہ ’’سب مل جل کر اللہ کی مضبوط رسی کو تھام لو‘‘. اس سے اب ایک جمعیت وجود میں آ گئی. یہ مقام مُحْتَمِل المَعنَـیَین ہے‘ یعنی اس میں دونوں معانی کا احتمال ہے‘ اور دونوں اپنی جگہ مقصود بھی ہیں اور مطلوب بھی. یہی ہے اعجازِ کلام اور یہی ہے فصاحت اور بلاغت کا نقطۂ عروج. تو اب وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا میں دونوں باتیں آ گئیں ‘لیکن اس کے بعد والے الفاظ وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ کے ساتھ یہ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے. ’’لَا تَفَرَّقُوۡا‘‘ باب تفعّل سے جمع مخاطب کے لیے صیغۂ نہی ہے اور اس میں عام طور پر ایک ’’ت‘‘ گر جاتی ہے. سورۃ الشوریٰ میں یہ لفظ آ چکا ہے: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ’’ کہ دین کو قائم کرو اور دین کے باب میں متفرق نہ ہو جانا‘‘. تو یہاں بھی اصل میں لفظ وہی ہے ‘ لیکن قواعدِ صرف کی رو سے باب تفعّل میں کبھی ایک ’’ت‘‘ گرا دی جاتی ہے. وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡاآپس میں متفرق مت ہونا‘ بٹ نہ جانا‘ ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہو جانا.

اب اس کے بعد ایک خالص تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ ہے ان الفاظ میں : 

وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا ۚ
’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو جبکہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے‘ تو اس نے تمہارے دلوں کے مابین محبت ڈال دی تو تم اس کی اس نعمت کے سبب آپس میں بھائی بھائی ہو گئے‘‘.

یہاں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ذرا اپنے ماضی کو یاد کروکہ تم آپس میں کتنے بٹے ہوئے تھے ‘ کتنے منقسم تھے! جان لیجیے 
پورے عرب میں کوئی نظام نہیں تھا. حالیؔ نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے ؎ 

کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا!

چھوٹی چھوٹی باتوں پر لمبی لمبی جنگیں چلتی تھیں. خاص طور پر قبیلہ اَوس اور قبیلہ خزرج کے مابین کب سے جنگ چلی آ رہی تھی! جیسے ہمارے ہاں قتل اور خون ریزی کے قبائلی اور خاندانی واقعات نسل در نسل چلتے ہیں‘ تو وہاں بھی کشت و خون کا بازار گرم تھا . صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم تباہی کے آخری کنارے تک پہنچ چکے تھے. وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ ’’اور (یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو) جبکہ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا. اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کو واضح فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو‘‘.اب اس میں آپ تفصیل ‘ تبیین ‘ وعظ اور نصیحت کا جتنا چاہیں رنگ بھر لیں‘ لیکن اس وقت میں اشارات پر اکتفا کر رہا ہوں.
نوٹ کیجیے کہ اب یہاں سے دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے. اس مرحلے میں میرے نزدیک اصل شے جمعیت ہے کہ سب مل جل کر اس رسی کو مضبوطی سے تھام لو. اس میں تبعاً وہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اصل میں دعوت اور تزکیہ کا ذریعہ حبل اللہ یعنی قرآن ہے. اقبال کی جو عزت میری نگاہ میں ہے اس کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ ان مفاہیم کو جس خوبصورتی سے اس نے ادا کیا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی. قرآن کے بارے میں کہتے ہیں ؎

از یک آئینی مسلماں زندہ است
پیکر ملت ز قرآں زندہ است
ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!

’’وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسد ظاہری میں روح ِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے. ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ اور ہمارا قلب زندہ اور ہماری روح تابندہ دراصل قرآن ہی ہے. لہذا اسے مضبوطی سے تھام لو کہ یہی اللہ کی رسی ہے!‘‘
اب تیسری بات آ رہی ہے‘ جو ہمارے اس درس سے متعلق ہے. فرمایا: 
وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ ’’تم میں سے ایک ’’اُمت ‘‘ ہونی چاہیے‘‘. یہاں ’’ اُمَّۃٌ ‘‘ کا لفظ قابلِ غور ہے. اَمَّ ‘ یَؤُمُّ کے معنی ہیں قصد کرنا .جیسے سورۃ المائدۃ میں الفاظ آئے ہیں : آٰمِّیۡنَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ ’’وہ جو بیت حرام کا قصد کر کے چل رہے ہیں‘‘. اسی طرح ’’اُمت‘‘ افراد کا وہ مجموعہ ہے جنہیں ایک مقصد باندھ لیتا ہے. اُمت کسی نسل ‘ زبان یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بنتی. البتہ ’’قوم‘‘ کے لیے یہ چیزیں بنیاد بن سکتی ہیں. قرآن مجید میں ان کی نفی نہیں کی گئی ہے‘ لیکن ’’قوم‘‘ کا لفظ قرآن میں ’’اُمت‘‘ کے معنی میں نہیں آیا. ’’قوم‘‘ کا لفظ کسی قبیلے یا کسی علاقے کے رہنے والوں کے لیے مستعمل ہے. مولانا مودودی نے اس اعتبار سے صحیح کہا تھا کہ ’’مسلمان قوم نہیں ہیں‘‘. اصل میں دو باتیں علیحدہ علیحدہ ہیں. ہندو کے مقابلے میں تو مسلمان ایک قوم ہیں. جب ایک مشترک وطنی قومیت کا تصور پیش کیا گیا تو اس کے جواب میں یہ کہنا کہ نہیں‘ ہندو اور مسلمان ایک قوم نہیں ہیں‘ دو الگ الگ قومیں ہیں‘ یہ بات درست تھی. اس لیے کہ بات کہنے کے مختلف درجے ہوتے ہیں. لیکن یہ بات بلند تر ہے کہ ’’مسلمان ایک قوم نہیں ہیں‘‘ . اس لیے کہ وہ تو ایک جماعت ہیں‘ ایک اُمت ہیں‘ حزبُ اللہ ہیں. البتہ ہمارے زوال اور اضمحلال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم جماعت‘ حزب اور اُمت نہیں رہے‘ بلکہ ایک قوم بن گئے. یہ ہے اصل میں اس پوری بحث کا لُبِّ لباب. چنانچہ مولانا مودودی کی بات صد فی صد صحیح تھی‘ اگرچہ‘ de facto صورت میں اُس وقت جو خطرات تھے ان کے پیش نظر ہندوؤ ں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا شعور دلانا بھی ضروری تھا. بہرحال مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کے لیے پورے قرآن میں کہیں لفظ ’’قوم‘‘ نہیں آیا. قرآن میں یہ لفظ سابقہ انبیاء و رُسل کی دعوت کے ضمن میں آیا ہے کہ : یَا قَوْمِ ‘ یَا قَوْمِ. اس لیے کہ واقعہ یہی ہے کہ وہ اپنی قوموں ہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے‘ اور وہ بین الاقوامیت اور آفاقیت حضور سے پہلے کسی رسول کی دعوت میں نہیں تھی. طبعی طور پر‘ (physically) ابھی یہ ممکن بھی نہیں تھا‘ کیونکہ ابھی وسائل و ذرائع اتنے نہیں تھے لہذا اُن کا دائرۂ دَعوت اپنی اپنی قوم تک محدود تھا.جیسے فرمایا گیا : وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ اور وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ (ھود)چنانچہ ان کی دعوت میں یٰقَوۡمِ کا لفظ مستعمل ہے.جبکہ قرآن میں خطاب ’’یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ اور ’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ‘‘ سے ہوتا ہے.لفظ ’’اُمت‘‘ کا مطلب ‘جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ ہم مقصد‘ ہم ارادہ اور ہم سفر ساتھیوں کا ایک مجموعہ ہے. اس کے لیے قرآن کا دوسرا لفظ ’’حزب‘‘ ہے جو اِس منتخب نصاب نمبر ۲ میں بیان ہو چکا ہے کہ ایک حزب الشیطان ہے اور دوسرا حزب اللہ .

اب یہاں لفظ 
’’مِنْ‘‘ پر غور کریں. ’’مِنْ‘‘ کے یہاں دو اِمکانات ہیں‘ایک ’’مِنْ بیانیہ‘‘ اور دوسرا ’’مِنْ تبعیضیہ‘‘ . یہاں اگر مِن تبعیضیہ مراد لیں گے تو ’’بعض‘‘ اور ’’جزو ‘‘کے معنی پیدا ہو جائیں گے اور عام طو رپر زیادہ تر یہی مفہوم سمجھا گیا ہے. لیکن مولانا ابوالکلام آزادنے ایک بڑی زوردار تحریر لکھی تھی کہ یہاں مِن تبعیضیہ نہیں ہے‘ بلکہ مِن بیانیہ ہے. دیکھئے تبعیضیہ ماننے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ سب کے کرنے کا کام لازمی نہیں رہتا‘ بلکہ یہ ایک فرضِ کفایہ بن جاتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ہونے چاہئیں ‘ کچھ لوگ رہنے چاہئیں جو یہ کام کریں. اصل میں اس مفہوم کی نفی کے لیے انہوں نے اس کو مِن تبعیضیہ ماننے سے انکار کر دیا. اس لیے کہ وہ مسلمانوں کو زوردار دعوت دینا چاہتے تھے کہ یہ ایمان کا عین تقاضا ہے‘ جبکہ مِن تبعیضیہ ماننے سے یہ مغالطہ ہو گیا ہے کہ یہ فرضِ کفایہ ہے کہ کچھ لوگ تم میں سے یہ کام کر دیں تو یہ فرض ادا ہو جائے گا . لہذا انہوں نے اسے مِن بیانیہ کہا ہے اور وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ کا مفہوم یہ لیا ہے کہ ’’تم سے ایک ایسی اُمت وجود میں آنی چاہیے‘‘. ’’تم میں سے‘‘ نہیں ’’تم سے‘‘ . یہ مِن بیانیہ کا مفہوم ہے. جیسے میں بیان کر چکا ہوں‘ سورۃ الفتح کی آخری آیت میں بھی یہ بحث موجود ہے. فرمایا : وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹﴾ ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے‘ مغفرت کا اور بہت بڑے اجر کا‘‘. میں واضح کر چکا ہوں کہ اس آیت میں مِن تبعیضیہ نہیں‘ بیانیہ ہے. صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پوری جماعت سے اللہ کا یہ وعدہ ہے. اگر تبعیضیہ مانیں گے تومِنْکُمْ سے تبعیض ہو جائے گی اور ذہن کو شیعیت کی طرف منتقل کرنے کے لیے ایک بہانہ بن جائے گا. وہی معاملہ یہاں ہے‘ لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اس امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مِن تبعیضیہ ہو. 

اب اس کا حل کیا ہو گا؟ اس کا جواب اسی سورۂ مبارکہ کی آیت ۱۱۰میں بایں الفاظ آ گیا ہے : 
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ’’تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے‘‘. اب اگر کوئی مغالطہ ہو سکتا تھاتو وہ نکل گیا. پوری اُمت سے کہا گیا ہے کہ ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے دنیا والوں کے لیے نکالا گیا ہے‘‘. مزید فرمایا: تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ ’’تم (لوگوں کو) نیکی کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘. لہذا اگریہاں (آیت ۱۰۴ میں) ’’مِن تبعیضیہ‘‘ مان کر کسی کمی کا پہلو آ جاتا ہے تو اس سے اس کی تلافی ہو گئی‘ اس تصور کا راستہ بند ہو گیا. اور اگر ’’مِن بیانیہ‘‘ ہو تو یہ دونوں آیتیں (آیت ۱۰۴ و ۱۱۰) بالکل ہم معنی ہو جائیں گی. جیسے کہا جاتا ہے : لِلْاَمِیْرِ مِنْ اَوْلَادِہٖ جُنْدٌ کہ امیر کی تو اولاد ہی سے ایک لشکر وجود میں آ گیا ہے‘اسے کسی اور لشکر کی ضرورت ہی نہیں. اگر اللہ نے اسے سو بیٹے دے دیے ہوں تو لشکر تو بن گیا . پچھلے زمانے میں تو ایک شخص کے سو بیٹے ہو سکتے تھے .تو یہاں پر ’’مِن تبعیضیہ‘‘ نہیں ہے ‘بلکہ ’’مِن بیانیہ‘‘ ہے. اسی کو مولانا ابوالکلام آزاد دلیل کے طور پر لائے ہیں کہ لِلْاَمِیْرِ مِنْ اَوْلَادِہٖ جُنْدٌ. درحقیقت پوری اُمت کے سامنے ایک مقصد اور ایک ہدف رکھاجا رہا ہے کہ تم سے ا ب ایک اُمت وجود میں آنی چاہیے.تمہیں جو آپس میں اینٹوں کے مانند جوڑ کرایک دیوار بنائی جا رہی ہے تو اسی مقصد کے لیے. پہلے ایک فرد کا معاملہ تھا. فرمایا گیا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ پھر ان افراد کی شیرازہ بندی کے لیے حبل اللہ دے دی گئی. اب شیرازہ بندی خود مطلوب و مقصود تو نہیں ہے‘ جماعت خود کوئی مطلوب و مقصود شے نہیں ہوا کرتی‘ جماعت تو کسی ہدف اور کسی مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے. اب وہ مقصد کیا ہے؟ یہ مقصد ہے جو اس سلسلے کی تیسری آیت (آیت ۱۰۴) میں بیان ہوا ہے: وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ..... ’’ تم سے یا بالفاظ دیگر تم میں سے وجودمیں آنی چاہیے ایک اُمت جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائے…!‘‘

اس میں ایک تطبیق اور بھی ہے. ایک لحاظ سے تو اس پوری اُمت کو یہ کام کرنا ہے. یہ تو ہمیں دَورِ صحابہؓ میں نظر آتا ہے. لیکن اس دورِ زوال میں کیا ہو گا؟ اب پوری اُمت تو اس کام پر قائم نہیں. عملی طور پر بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک دم پوری اُمت کو اس کام پر آمادہ کر دیا جائے‘ جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہیں. اس صورت حال میں 
’’مِّنۡکُمۡ‘‘ میں ’’مِن تبعیضیہ‘‘ نکھر کر سامنے آ رہا ہے کہ ’’تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ہونا ہی چاہیے‘‘. اب یہ گروہ جاگے‘ منظم ہو‘ دوسروں کو جگائے. یہ پراسیس تو اسی طرح شروع ہو گا. یوں سمجھئے کہ پہلے وہ نیوکلیئس وجود میں آئے گا تو اس کے گرد مختلف الیکٹرانز آئیں گے اور وہ ایٹم بڑھتا چلا جائے گا. اگر نیوکلیئس ہی نہ ہوتو ایٹم کہاں سے وجود میں آئے گا؟ لہذا وہاں مِن تبعیضیہ کا ایک بہت خوبصورت مفہوم سامنے آتا ہے. یعنی ’’تم میں سے ایک اُمت تو رہنی ہی چاہیے‘‘. ایسا تونہ ہو کہ اس کام کے لیے کوئی نہ رہے .اس کے ساتھ اس حدیث کو جوڑ لیجیے جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ : لاَ تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِّنْ اُمَّتِیْ ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ (۱’’میری اُمت میں ایک گروہ تو ہمیشہ رہے گا جو حق پرقائم ہوگا‘‘. یوں کہنا چاہیے کہ یہ ایک طرح کی حضور نے ضمانت دی ہے. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب قولہ لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق …