اب وہ گروہ کیا کام کرے!فرمایا: یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ ’’ وہ دعوت دیں خیر کی طرف‘‘ .یہ بہت جامع لفظ ہے. آگے فرمایا: وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ ’’اور وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں‘‘. ’’دعوت الی الخیر ‘‘ اور ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کی اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے. ہمیں قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو ایک وحدت ہے‘ یہ ایک باقاعدہ قرآنی اصطلاح ہے. قرآن مجید میں نو مقامات پر یہ بالکل اسی طرح جڑ کر آیا ہے. حضور کے لیے سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا: یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (آیت ۱۵۷’’وہ انہیں معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے روکتا ہے‘‘. اہل کتاب میں سے جو اچھے لوگ تھے ان کی مدح ہوئی ہے ان الفاظ میں : وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ (آل عمران:۱۱۴’’اوروہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘‘. اہل ایمان کے لیے سورۂ آل عمران میں دو مرتبہ یہ اسی طرح جڑ کر آچکا ہے‘ ایک مرتبہ آیت ۱۰۴ میں ‘اور دوسری مرتبہ آیت ۱۱۰ میں بایں الفاظ : کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ سورۃ التوبۃ کی آیت۱۱۲ میں بھی یہ جڑ کر آیا ہے. فرمایا: الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ’’(وہ ہیں) نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے‘‘. 

میں نے ایک مرتبہ ’’نہی عن المنکر کی خصوصی اہمیت‘‘ کے موضوع پر تقریر میں وہ نو مقامات گِنوا دیے تھے جہاں یہ ایک وحدت کی شکل میں بالکل جڑ کر آیا ہے. (یہ خطاب ہماری کتاب ’’اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل‘‘ میں شامل ہے!)جیسے گاڑی کے دو پہیے باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں ویسے ہی یہ دو اجزائے لاینفک ہیں اور ایک ہی حقیقت کے اور ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں ‘ ان کو جدا کر دینا قرآن پر اور اسلام پر بہت بڑا ظلم ہے اور دین کے بنیادی تصورات کی گویا شکست و 
ریخت ہے. البتہ ان دونوں (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کو بریکٹ کر کے ’’دعوت الی الخیر‘‘ کے ساتھ جمع کیجیے. اب یہاں حرفِ عطف ’’و‘‘ ’’دعوت الی الخیر‘‘ اور ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کے درمیان مغائرت کرے گا. اب یہ سمجھ لیجیے کہ یہ مغائرت کیا ہے! دیکھئے دعوت کی اصل روح سوز‘ ہمدردی‘ نصح و خیر خواہی اور اپیل کا انداز ہے. اس میں خوشامد ہے ‘جبکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں قوت کا اظہار ہے‘ اختیار ہے اور وعظ و نصیحت کا نہیں بلکہ تنفیذ کا انداز ہے. یہ چیزیں الفاظ سے ہی ظاہر ہو رہی ہیں.ایک تو اس کی روح کے اعتبار سے یہ دو چیزیں ایک دوسرے کی غیر بن گئیں. 

دوسرے یہ کہ ’خیر‘ کو معین کیجیے! اب یہاں بھی لفظ عام ہے. چنانچہ اس کا اطلاق مختلف چیزوں پر ہو سکتا ہے . ایمان سب سے بڑا خیر ہے ‘ شریعت کُل کی کُل خیر ہے. اس بارے میں جو رائیں بھی ہیں مَیں انہیں غلط نہیں کہتا.کسی نے اسلام کو خیر کہا‘ کسی نے توحید کو خیر کہا‘ کسی نے شریعت کو خیر کہا‘ کسی نے کلمۂ شہادت کو خیر کہا. تویہ سب چیزیں اپنی جگہ پر صحیح ہیں‘ لیکن ہمیں حدیث نبویؐ سے معین کرنا ہو گا کہ خیر کا مصداقِ اوّل کیا ہے‘ جیسے حدیث نبویؐ سے حبل اللہ کا مصداقِ اوّل قرآن معین ہوا. خیر کا لفظ قرآن مجید میں اکثر و بیشتر دو معنی میں آتا ہے. خیر دُنیوی مال و اسباب کے لیے بھی آتا ہے. جیسے فرما یا گیا ہے : 
وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ ؕ﴿۸﴾ (العٰدیٰت) ’’اور یقینا وہ (انسان) دُنیوی مال و اسباب کی محبت میں شدید ہے‘‘. سورۃ الاحزاب کی آیت ۱۹ میں بھی منافقین کے بارے میں آیا ہے : اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ اس کا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے یوں کیا ہے : ’’وہ ڈھکے پڑتے ہیں مال پر‘‘. یعنی جب لڑنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ کہیں چھپ جاتے ہیں اور جب مالِ غنیمت کی تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے آگے وہی ہوتے ہیں‘ سایہ کیے ہوئے ہوتے ہیں مالِ غنیمت پر سب سے آگے کہ انہیں lion's share مل جائے. توخیر کا ایک مفہوم تو یہ ہے. لیکن ظاہر بات ہے کہ یہاں سیاق و سباق کے اندر اس کے فٹ بیٹھنے کا سرے سے امکان نہیں ہے کہ مال و دولتِ دُنیوی کی طرف دعوت دو. اب دوسرا خیر کیا ہے؟ وہ خیر ’’ہدایت‘‘ ہے. یہ بھی جان لیجیے کہ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ دنیا میں نعمت صرف ایک ہی ہے اور وہ نعمتِ ہدایت ہے‘ کوئی اور شے نعمت نہیں ہے .جنہیں ہم عام طور پر نعمتیں کہتے ہیں وہ اگر نعمت ِ ہدایت کے ساتھ ہوں تو نعمت ہیں‘ اس کے بغیر ہوں تو زحمت ہیں. اسی لیے قرآن مجید میں اسی نعمت ہدایت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ : اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ (المائدۃ:۳’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا‘‘. یعنی نعمت ہدایت کا .اور ہدایت کیا ہے؟ الہدیٰ یہ قرآن ہے! آپ سوچیں گے کہ یہ تو ذرا لمبا اور ایچ پیچ استدلال ہے. اس کے لیے اب قرآن سے براہِ راست دلیل پیش کرتا ہوں . سورۂ یونس کی آیات ۵۷۵۸ عظمت قرآن کے بیان میں بہت اہم ہیں. ان کے آخر میں فرمایا : ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾ ’’وہ جو کچھ جمع کر رہے ہیں اُس سب سے بڑھ کر خیر یہی (قرآن) ہے‘‘. یعنی یہ خیر مطلق ہے‘ تمام چیزوں سے بڑھ کر خیر ہے‘ رحمتِ خداوندی کا سب سے بڑا مظہر ہے. سورۃ الرحمن کے آغاز میں فرمایا : اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ یعنی رحمن کی رحمانیت کا مظہر اتم اور مظہر کامل یہی قرآن ہے. تو دعوت الی الخیر کا ہدفِ اوّلین دعوت اِلی القرآن ہے.ظاہر بات ہے خیر کا اس سے بڑا منبع‘ سرچشمہ اور خزانہ کوئی متصور نہیں ہو سکتا.

تو یہ دونوں پہلو آپ کے سامنے آ گئے. ایک یہ کہ دعوت الی الخیر ‘ اور اس میں بھی سوز‘ نصح و خیر خواہی کا جذبہ اور یہاں تک کہ خوشامد. لوگوں کے سامنے گڑگڑا یئے کہ خدا کے لیے قرآن کی طرف لوٹ آؤ‘ اپنی غلط روش سے باز آ جاؤ. لیکن دوسرے پہلو 
(امر بالمعروف ونہی عن المنکر) میں تحکّم بھی ہے اور قوت کا استعمال بھی ہے. یہ اس کی مزاجی نوعیت کا فرق ہے. اس سے بعض لوگوں نے ایک بہت بڑا دھوکہ کھایا ہے کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر صرف حکومت کے کرنے کا کام ہے. ان کے دھوکہ کھانے کا اصل سبب اس کے مزاج میں موجود یہی تحکّم ہے ‘اگرچہ ’’امر‘‘ کا لفظ عربی زبان میں عام ہے اور یہ صرف حکم کے لیے ہی نہیں بلکہ مشورے کے لیے بھی آتا ہے . ایک مصرع ملاحظہ کیجیے : ؏ 

اَطَعْتِ لِآمِرِیْکِ بِصَرْمِ حَبْلِیْ 

شاعر اپنی محبوبہ سے کہہ رہا ہے کہ ’’بالآخر تم نے ان ہی لوگوں کا کہنا مان لیا ناجو تمہیں مجھ سے ترکِ تعلق کا مشورہ دے رہے تھے‘‘. تو یہاں ’’امر‘‘ حکم کے معنی میں نہیں‘ بلکہ مشورے کے معنی میں ہے. چنانچہ امر کے درجے میں یہ ساری چیزیں آ جائیں گی‘ لیکن غالب استعمال کے اعتبار سے لفظ ’’امر‘‘ میں زیادہ رجحان حکم کا ہے. لہذا اس میں ایک طرح کا تحکّم بھی ہے‘ یعنی اس میں تنفیذ ہے‘ طاقت کااستعمال ہے.اور نہی عن المنکر کے ضمن میں تو حدیث نبویؐ نے بالکل ہی واضح کر دیا کہ ایک نہی عن المنکر بالقلب ہے‘ایک نہی عن المنکر باللّسان ہے اور ایک نہی عن المنکر بالید ہے .اس وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہو گیا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو صرف حکومت کے کرنے کاکام ہے. 

اس میں واقعتا کوئی شک نہیں کہ جب اسلامی ریاست قائم ہو جائے تو اصلاً یہ اُس کا ہی منصب اور اسی کا فرض ہے . 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ (الحج:۴۱’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے‘‘.ویسے تو درحقیقت حکومت کی پوری پالیسی میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے‘ لیکن سعودی عرب میں الگ سے ’’ہیئۃ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘ کے نام سے ایک محکمہ بنایا گیا تھا.میں اس کا چشمِ دید گواہ ہوں .۱۹۶۲ء میں مَیں نے جدہ میں یہ نقشہ دیکھا تھا کہ نماز کا وقت آیا اور اس ہیئت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کوئی شخص محض لاٹھی بجاتا ہوا آیا‘ اسے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف لاٹھی کی کھٹ کھٹ کی آواز پر لوگ دکانیں بند کر کے بھاگنے لگے. اگرچہ کچھ لوگ دکان کا شٹر نیچے گرا کر اندر گھس گئے اور انہوں نے نماز نہیں پڑھی لیکن دکانیں بہرحال بند ہو گئیں.اور اب یہ حال ہے کہ اُس ہیئت کے ملازم بے چارے آتے ہیں اور زور زور سے الصلوٰۃ‘ الصلوٰۃ پکارتے ہیں ‘ لوگ سنتے رہتے ہیں اور مسکراتے رہتے ہیں اور دکانوں کے شٹر نیچے نہیں گرتے. تو اس ہیئت کی مٹی اب پلید ہو چکی ہے‘ کیونکہ اوپر مزاج بدل چکا ہے. اب تو وہ اپنی تنخواہ لے رہے ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں. اللہ اللہ خیر صلا. ان کی ڈیوٹی پوری ہو گئی. بہرحال میں عرض کروں گا کہ محض ایک محکمہ بنا لینے سے تو یہ کام ہوتا بھی نہیں. اس لیے کہ جب تک یہ چیز پوری حکومت کی مکمل پالیسی کا جزونہ بنے محض محکمہ بنانے سے یہ تقاضا پورا نہیں ہوتا. چلیے محکمہ بھی بنایا ہو تو لوگوں کو معلوم ہو کہ اُن کے پاس کچھ اختیارات بھی ہیں. چوک میں کھڑے سپاہی سے‘ جو ٹریفک کنٹرول کر رہا ہوتاہے‘ وہ لوگ لرزتے ہیں. اس شُرطے (سپاہی) کا خوف اور رعب ہے ان کے دلوں میں‘ اس لیے کہ اس کے پاس اختیار ہے‘ لیکن ان بے چاروں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا. ان کے لیے تو اب ’’مُطوّع‘‘ کا لفظ عام ہو چکا ہے کہ یہ مُلاٹے کہاں سے آ گئے ہیں! بہرحال یہ تو محض سمجھانے کے لیے ایک ضمنی سی بات تھی. 

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح ہے کہ یہ کام اصلاً ہو جاتا ہے حکومت کا جبکہ اسلامی حکومت قائم ہو. یہ ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے‘ بلکہ یہ اس کے اوّلین فرائض میں داخل ہے .لیکن اگر اسلامی حکومت قائم نہیں ہے تو اس دلیل سے اپنے آپ کو بچا لینا ایک طرح کی فراریت ہے. یہ دین سے غدار ی ہے کہ اس وقت بھی آدمی یہ کہہ کر نکل جائے کہ یہ تو حکومت کے کرنے کا کام ہے .ایک شے ایک خاص محل میں صحیح ہوتی ہے. ظلم یہی توہے کہ 
’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کہ کسی چیز کو اُس کی اصل جگہ سے ہٹا کر کہیں اور لے جانا . لہذا یہ اسلام کے ساتھ بدترین ظلم شمار ہو گا.اس کی مثال مَیں دیا کرتا ہوں کہ اگر حکومت قائم ہے ‘ نظم ٹھیک ہے تو جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے! فرض کیجیے کہ ملک میں انارکی ہو جائے‘ نظام درہم برہم ہو جائے‘ یا پولیس انتہائی کرپٹ ہو چکی ہو اور آپ کو پتا ہو کہ یہ پہرے دار تو خود ڈاکو بنے ہوئے ہیں‘ توان حالات میں آپ کیا کریں گے؟ پاؤں پھیلا کر اطمینان سے سو جائیں گے یا اپنے پہرے کا انتظام کریں گے؟ بالکل وہی معاملہ یہاں ہے کہ اگر اسلامی حکومت قائم ہے تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس کی ذمہ داری ہے‘ لیکن اگر اسلامی حکومت قائم نہیں ہے تو اب یہ ذمہ دار ی ایک ایک فرد پر منتقل ہو جاتی ہے اور یہ ہر فرد کے ایمان کا عین تقاضا ہے. لہذا مراتبِ ایمانی کے ساتھ علی الترتیب تین مراتب ہو جائیں گے: ایک نہی عن المنکر بالقلب. حدیث نبویؐ کی رو سے یہ اضعف الایمان ہے. دوسری حدیث میں آیا ہے کہ : ’’اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے‘‘. دوسرا نہی عن المنکر باللّسان. یہ اس سے ذرا اوپر کا معاملہ ہے اور یوں سمجھئے کہ یہ دعوت کے ساتھ شامل ہو گیا. اور تیسرا مرتبہ جو مطلوب ہے‘ وہ ہے نہی عن المنکر بالید. تو اِن تین الفاظ کو اس طریقے سے علیحدہ علیحدہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو بھی اجتماعیت مطلوب ہے اور جس اُمت کی تشکیل کی طرف یہ آیۂ مبارکہ راہنمائی کر رہی ہے‘ اس کے کرنے کا کام کیا ہے؟ فرمایا: یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ ’’خیر کی طرف بلائیں‘‘. (میری ابتدائی تحریروں میں سے ایک مضمون ’’دعوت الی اللہ‘‘ ہے .اگر آپ نے اس کا مطالعہ کیا ہے تویہاں اُس پورے مضمون کاخلاصہ اپنے ذہن میں رکھیے.)