اب دیکھئے ’’ نہی عن المنکر بالید‘‘ کیا ہے؟ یہ کہ آپ گھیراؤ کریں کہ فلاں کام شریعت کے خلاف ہے‘ ہم جیتے جی نہیں ہونے دیں گے .اس کا نام گھیراؤ (picketing) ہے‘ کہ ہم ظالم کا ہاتھ پکڑ لیں گے‘ ظلم نہیں ہونے دیں گے. جو شے بھی دین کے خلاف ہے وہ ظلم ہے. یہ سب ظلم کے مظاہر ہیں. حق صرف یہ ہے کہ زمین اللہ کی ہے‘ اس پر قانون اللہ کا چلے گا. اس سے انحراف ہی تو ظلم ہے. یہی تو دراصل کفر اور شرک ہے. ازروئے الفاظ قرآنی : وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾....فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾....فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۴۷﴾ (المائدۃ) ’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی تو کافر ہیں … وہی تو ظالم ہیں … وہی تو فاسق ہیں‘‘. اس کفر ‘ ظلم اور فسق کے خلاف جب اقدام ہو گاکہ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلے گا. ایک امکان ہے کہ اس میں انقلابی جماعت کو پسپائی ہو جائے. اگر ایسا ہو جائے تو فبہا ‘اور کیا چاہیے! اور اگر کامیابی نصیب ہو جائے تو اسی انداز سے ایک ایک کر کے منکرات کو اِس قوت کے ساتھ ہٹواتے چلے جائیں گے .یہی ہمارا مطلوب ہے. اس کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے. حکومت طلب کرنا تو اصلاً بیماری اور مرض ہے. یہ بڑا پُرخطر راستہ ہے. اِدھر کہاں جاتے ہو؟ مت ماری گئی ہے اُن کی جو اِس راستے کو اختیار کرنا چاہتے ہیں. اس راستے میں تو طالع آزما لوگ آپ کے ساتھ آئیں گے. آپ کو کیا پتا کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ کس کا دل چیر کر آپ دیکھیں گے؟ کسی کے دل میں حبّ جاہ اندر ہی اندر مچل رہی ہو تو آپ کو کیا پتا! لیکن اس انقلابی راستے پر تو وہی آئے گا جو سر پر لاٹھی کھانے کو تیار ہو. یہاں وہی آئیں گے کہ جو اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوں. امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا جو بلند ترین درجہ ہے اس میں جان کا خطرہ تو موجود ہے. اس لیے کہ تصادم ہو کر رہے گا. اگر حکومت پسپائی نہیں کر رہی ہے تو وہ لاٹھیاں برسائے گی‘ آنسو گیس چھوڑے گی‘ جیلوں میں ٹھونسے گی‘ گولیاں برسائے گی. تو اس میں جان کا اندیشہ تو بہرحال ہے.
یہی وجہ ہے کہ اب اس مضمون کو سورۃ التوبۃ کی اس آیت سے جوڑا گیا ہے : اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ (التوبۃ:۱۱۱) ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں جنت کے عوض‘‘. گویا اس کام کے لیے تو سرفروش چاہئیں. یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ ’’وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں‘ پس وہ قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں‘‘. حضورﷺ کے دَور میں تو دو طرفہ معاملہ تھا کہ مسلمان قتل کرتے بھی تھے اور قتل ہوتے بھی تھے‘ جبکہ اِس دَور میں صرف یک طرفہ طور پر قتل ہونے کا معاملہ ہے. اگرچہ اس کی شرائط پوری ہو رہی ہوں تو قتال بھی جائز ہے. اگر کچھ فساق و فجار دین کے راستے کے اندر ایک رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے ہوں اور آپ نے باقی سارے تقاضے پورے کر لیے ہوں تو کیا ان کی جانیں اتنی مقدس ہیں کہ ان کی وجہ سے دین کو پامال رہنے دیا جائے؟ یہ بات نہ عقل کی میزان پر پوری اترنے والی ہے اور نہ نقل کی میزان پر.
حدیث نبویؐ میں ’’جہاد بالید‘‘ کے الفاظ ہیں .یعنی ہاتھ سے جہاد‘ قوت سے جہاد. اب دیکھنا یہ ہے کہ دَورِ نبویؐ میں جہاد بالید کا کیا تصور تھا جب حضورﷺ نے جہاد بالقلب‘ جہاد باللسان اور جہاد بالید کے الفاظ ادا فرمائے؟ اس وقت تو جہاد بالید کے معنی قتال ہی کے تھے ‘کیونکہ اس وقت تو مظاہروں‘ (demonstrations) کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ موجودہ سیاسی ادارے وجود میں آئے تھے. یہ تو آج کے دَور میں اس عمرانی ارتقاء کی بنیاد پر مظاہروں اور گھیراؤ کی صورت پیدا ہو گئی ہے. لہذا میرے نزدیک اس حوالے سے امام ابوحنیفہؒ ‘کا موقف صد فی صد درست ہے .کچھ بہت ہی محتاط قسم کے لوگ اور بعض روایات کے ظاہر پر بہت زیادہ ڈیرہ ڈال دینے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ کسی حال میں بھی مسلمان کے خلاف بغاوت نہیں کی جا سکتی اِلاّیہ کہ وہ کلمۂ کفر کہے اور کفر کو نافذ کرے. اس کے لیے حکمت کی ضرورت ہے کہ اس موضوع پر جملہ روایات کو سامنے رکھ کر اُن میں تطبیق پیدا کی جائے‘ ان کو جمع کیا جائے‘ ان میں باہم موازنہ کیا جائے اور پھر اُن سے نتیجہ نکالا جائے. جبکہ امام ابوحنیفہؒ کا موقف یہ ہے کہ فاسق و فاجر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی جا سکتی ہے‘ البتہ اس کی شرائط بہت ساری ہیں. لہذا اس کو بھی آپ مطلقاً خارج از بحث نہ کیجیے. آج اس کو خارج از بحث کرنے کا جو تصور ہے یہ سب سے زیادہ زور اور شدت کے ساتھ غلام احمد قادیانی نے دیا تھا اور یہ چیزیں ہمارے بہت سے حلقوں کے ذہنوں کے اندر مختلف درجے میں سرایت کیے ہوئے ہیں. بہرحال میں نے اس کو سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۱ کے ساتھ جوڑا ہے .جن مؤمنین نے جنت کے عوض اللہ سے اپنے جان و مال کا سودا کیا ہے وہ کس ہستی کے ہاتھ پر کیا ہے‘ یہ ہم سورۃ الفتح کی آیت میں پڑھ چکے ہیں: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ ’’یقینا جو لوگ آپؐ سے بیعت کر رہے ہیں وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے ہیں‘‘.
اب اگلی آیت (آیت ۱۱۲) میں ان مؤمنین کے نو اوصاف بیان ہوئے ہیں . ایک بات تو یہ نوٹ کیجیے کہ ابتدا ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ کی صفت سے ہے کہ وہ اللہ کے حضور توبہ کرنے والے ہوتے ہیں. یہ پہلا قدم ہے. تنظیم اسلامی کے ہر کتابچے پر ہماری ایک تحریر چھپتی رہی ہے : ’’تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت : تجدید ایمان‘ توبہ‘ تجدید عہد‘‘. تو یہ نقطۂ آغاز ہے . ایک مسلمان معاشرے میں اصلاح کا آغاز ایمان لانے سے نہیں بلکہ ایمان کی تجدید سے ہو گا. اسی کا نام تو بہ ہے. اس کے بعد دوسری صفت ’’الۡعٰبِدُوۡنَ ‘‘ ہے کہ اب خود اللہ کے بندے بنو‘اس کی بندگی کے تقاضے پورے کرو. جیسا کہ سورۃ الحج کے آخر میں ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾ ’’اے ایمان والو! رکوع کرو‘ اور سجدہ کرو‘ اور اپنے ربّ کی بندگی کرو اور بھلائی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘. پہلے قدم کے بغیر دوسرا قدم نہیں ہو گا اور دوسرے قدم کے بغیر تیسرا قدم نہیں ہو گا. اس کے بعد ’’ الۡحٰمِدُوۡنَ ‘‘ کی صفت آئی ہے کہ وہ اللہ کی حمد کرنے والے ہوتے ہیں. اس کا زیادہ تعلق انسان کے شعور‘ ذہن اور فکر کے ساتھ ہے. جتنی اللہ کی معرفت بڑھے گی اتنی ہی اللہ کی حمد کی جا سکے گی.
اس کے بعد چوتھی صفت ’’السَّآئِحُوۡنَ ‘‘ کی ہے کہ وہ سیاحت کرنے والے (لذاتِ دُنیوی سے کنارہ کش رہنے والے) ہوتے ہیں.اس صفت کا عمل سے بڑا گہراتعلق ہے. سیاحت کسے کہتے ہیں ؟ پرانے زمانے میں سیاحت یہ ہوتی تھی کہ لوگ بن باس لے لیتے تھے .جنگلوں کو نکل جاتے تھے .یہ تربیت کا ایک خاص اسلوب رہا ہے. اس نے ایک‘ institution کی شکل اختیار کر لی جسے ہم ’’رہبانیت‘‘ کہتے ہیں. اس کی اسلام میں نفی کی گئی ہے .لیکن حضورﷺ نے فرمایا کہ اسلام میں ’’سیاحت‘‘ صوم یعنی روزہ ہے. یہ بھی تو ایک طرح کی رہبانیت ہے کہ نہ کھانا ہے‘ نہ پینا ہے اور نہ تعلقِ زن و شو ہے. جہاد فی سبیل اللہ بھی اسلام کی رہبانیت ہے. اس میں بھی آدمی کو گھر کے آرام اور گھر کی سہولتوں وغیرہ کو چھوڑ کراللہ کی راہ میں نکلنا پڑتا ہے. یہاں اس چیز کو خاص طو رپر نوٹ کیجیے. یوں سمجھئے کہ زمین سے جڑے رہنے کے ذہن اور مزاج کو بدلنا ہو گا. سیاحت اصلاً یہی ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلنا .یہ نہ ہو کہ ؏ ’’حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے!‘‘ دنیا کے لیے تو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ کی تلاش میں یہاں سے وہاں نقل مکانی کرتے پھریں‘ لیکن دین کے معاملے میں یہ سمجھیں کہ یہ کیسے مناسب ہے کہ کسی کے ہاتھ میں اختیار دے دیا جائے کہ وہ جب ہمیں طلب کرے ‘ ہم حاضر ہو جائیں گے. یہ چیز عکس ڈال رہی ہے انسان کے value structure پر کہ اس کے ہاں کس چیز کی کیا اہمیت ہے. کبھی اس بارے میں سوچا کہ دُنیوی معاملات میں تو گھر والے کبھی آڑے نہیں آتے‘ جہاں بہتر روزگار مل رہا ہو وہاں گھر والے خود بھیجتے ہیں اور سامان باندھنے میں بیوی بچے سب لگ جاتے ہیں ‘جبکہ دین کے معاملے میں کہتے ہیں پاگل ہو گئے ہو‘ دماغ خراب ہو گیا ہے؟ گھر بار چھوڑرہے ہو؟ بیٹھے رہو! حالانکہ کوئی حرکت اس کے بغیر نہیں چل سکتی کہ یہ ترجیح معین ہو کہ تمہارا تعلق کس کے ساتھ ہے زمین سے یا اللہ سے؟ زمین سے یا دین سے؟ سورۃ العنکبوت میں یہی بات کہی گئی ہے : یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’اے میرے اہل ایمان بندو! میری زمین وسیع ہے ‘پس تم میری ہی بندگی کرو‘‘. یعنی دین کے تقاضے جہاں اور جس طور سے بہتر سے بہتر ادا ہوں وہاں چلے جاؤ. حرکت میں رہو! زمین کے اندر کہیں جڑیں نہ اتارلو کہ نہ زمین ہلے نہ ہم ہلیں. انسان سوچتا ہے کہ میں نے یہاں محنت کی ہوئی ہے‘ یہاں پریکٹس جمائی ہوئی ہے‘ میری بیس سال کی مشقت اس زمین میں گڑی ہوئی ہے ‘یہاں سے ہل جاؤں تو مجھے کہیں جا کر از سر نو پریکٹس جمانی ہو گی. یہاں میری شہرت ہے اور میرے تعلقات ہیں. تو فرمایا کہ یہ اللہ کی راہ میں سیاحت کرنے والے ہوتے ہیں. ان کا نظریہ بقول اقبال یہ ہوتا ہے: ؏ ہرملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست.
پھر یہ کہ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ ’’(وہ) رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے (ہوتے ہیں)‘‘. جھکنے کی ابتدا رکوع سے ہوتی ہے اور انتہا سجدہ ہے. آگے فرمایا: الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ ’’(یہ)نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روک دینے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (ہوتے ہیں)‘‘ .اس میں لفظ ’’الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے .اس کو سمجھ لیجیے کہ ایک ہے خود حدود اللہ پر قائم رہنا. اس کا حکم تو پہلے آ چکا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ دیکھنا موت نہ آئے مگر حالت فرمانبرداری میں. اور پھر ’’ الۡعٰبِدُوۡنَ ‘‘ میں بھی یہ بات آ گئی ہے. لہذا یہاں محض یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی حدود کی خود حفاظت کرنا اور اس پرکاربند رہنا.یہ بات بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے‘مگر اس کا مطلب اصلاً یہ ہے کہ اللہ کی حدود کے پہرے دار بن کر کھڑے ہوجاؤ کہ انہیں اب نہیں توڑنے دیں گے. خدائی فوج دار بنو کہ ہم اللہ کے سپاہی ہیں اور اُس کی حدود کے محافظ ہیں. یہ ذمہ داری ہے جو تم پر ڈالی گئی ہے . ترتیب اور سیاق دیکھئے کہ کہاں سے چلی ہے یہ بات! الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ کہ اللہ کی حدود کے پہرے دار بن کر کھڑے ہو جاؤ‘ سنتری بن جاؤ! کوئی تمہیں گرانے کے بعدہی اللہ کی حد توڑ سکے. جیسے گاندھی نے کہا تھا :پاکستان صرف میری نعش پر بن سکتا ہے. جسے ہم محاورے میں کہتے ہیں کہ فلاں کام ہم جیتے جی نہیں ہونے دیں گے. تو ’’الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ‘‘ کا یہاں یہ مطلب ہے. یہ ہے اقدام کا عنوان !یہ ہے ایک بگڑے ہوئے اسلامی معاشرے میں قرآن و حدیث کی رہنمائی میں اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام!!
بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم