قرآن و سنت کی روشنی میں سمع و طاعت کا تصور

ہم اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ کام بغیر ایک منظم جماعت کے ممکن نہیں. یعنی صرف جماعت ہی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک منظم (disciplined) جماعت ناگزیر ہے. اس کے لیے قرآن و سنت کی اصطلاح ’’سمع و طاعت‘‘ ہے. ’’وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا‘‘ ’’سنو اور(بلا چون وچرا)اطاعت کرو ‘‘.یہ اصطلاح ہمارے منتخب نصاب (۱) میں سورۃ التغابن کے آخر میں بایں الفاظ ذکر ہوئی ہے : فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنے امکان کی حد تک‘‘تاحدّ استطاعت .اللہ کا تقویٰ تو دین کی روح ہے. اور اس کا جو نظام بنے گا وہ ہو گا سمع و طاعت کا نظام کہ سنو اور بس اطاعت کرو. اور اس کے لیے انفاق کی ضرورت ہے. یہ تینوں چیزیں سورۃ التغابن میں ایک ساتھ ذکر ہوئی ہیں کہ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا ’’اور (التزام کے ساتھ) سنو اور (بلا چون و چرا) اطاعت کرو اور انفاق کرو‘‘. ہم یہ جانتے ہیں کہ انفاق دو طرح کا ہے‘ انفاقِ مال اور بذلِ نفس . یہ بات سورۃ الحدید کی ابتدائی آیات میں واضح ہو جاتی ہے. تو اب بات گویا پوری طرح کھل کر سامنے آ گئی کہ روح ِ دین اللہ کا تقویٰ ہے اور نظامِ دین سمع و طاعت ہے اور اس نظام کے تحت انفاقِ مال اور بذلِ نفس مطلوب ہے. یہی وہ چیز ہے جو اِس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے جوحضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے . رسول اللہ نے فرمایا : ’’(مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں : التزامِ جماعت‘ سمع و طاعت‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ ‘‘.

اس حدیث میں جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان میں تیسری بات ’’اطاعت‘‘ ہے‘ اوراس کے لیے جو نظام قرآن و سنت سے منصوص اور مأثور ہے اور جو ہماری پوری تاریخ میں معمول بہٖ رہا ہے وہ بیعت کا نظام ہے. ہر چھوٹی بڑی اجتماعیت اسی کی بنیاد پر قائم ہوئی. ڈھیلی سے ڈھیلی اجتماعیت بھی جو خالص انفرادی اصلاح کے عنوان سے قائم ہوئی ‘ وہ بھی بیعت کے عنوان سے قائم ہوئی‘ حکومت بنی تو بیعت کے تحت بنی‘ حکومت سے بغاوت کی نوبت آئی تو بیعت کی بنیاد پر آئی. ہماری پوری تاریخ میں یہی نظرآتا ہے ‘ لہذا اس کا نظام‘ نظامِ بیعتِ سمع و طاعت ہے. یہ بیعتِ سمع و طاعت نبی اکرم اور دیگر انبیاء و رُسل کے لیے مطلق‘ غیر مشروط اور غیر مقید ہے‘ لیکن آنحضور کے بعد ہر شخص کے لیے‘ خواہ وہ خلافتِ راشدہ تھی خواہ بیعتِ ارشاد ہو‘ ’’فی المعروف‘‘ کی شرط کے ساتھ مقید ہے. اس کے سوا اس نظامِ اطاعت کے حوالے سے کوئی فرق نہیں .البتہ ایک اور پہلو سے اس میں ایک فرق ہے‘ جسے اچھی طرح سمجھ لینا 
چاہیے ‘تاکہ اس کی اہمیت بھی سامنے آ جائے اور اس کا صغریٰ کبریٰ بھی پورے طور سے واضح ہو جائے‘ اور اس طرح سے انشراح ِ صدر ہو جائے.

اس کے ضمن میں سب سے پہلی آیت جو ہم نے منتخب کی‘ وہ سورۃ النساء کی آیت ۵۹ ہے. ارشادِ الٰہی ہے : 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ ’’اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اُس کے رسول کی اور اپنے میں سے اصحابِ امر کی‘‘. بیعت کے سلسلے میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : ’’ وَعَلٰی اَنْ لَا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ‘‘ کہ ہم نہیں جھگڑیں گے اصحابِ امر سے‘ چاہے جو بھی امیر ہو. یہ بات ذہن میں رکھئے کہ امارت کا ایک باقاعدہ سلسلہ ہوتا ہے. ایک ہی شخص امیر نہیں ہوتا. حضور مسلمانوں کے امیر مطلق تھے. پھر آپؐ کہیں کوئی جیش بھیجتے تھے تو کسی کو اس کا امیر بناتے تھے. پھر اس جیش میں بھی کوئی ایک امیر نہیں ہوتا تھا‘ اس کے تابع مختلف دستوں کے کمانڈر ہوتے تھے. یعنی کوئی میمنہ پر امیر ہے تو کوئی میسرہ پر‘ کوئی قلب پر امیر مقرر کیا گیا ہے تو کوئی ہراول دستے پر. اسی طرح کوئی پیچھے محفوظ فوجوں (Reserved Forces) پر امیر ہے. پھر فوج کے مختلف حصوں کی مزید تقسیم بھی ہو سکتی ہے. میمنہ اور میسرہ کے اندر بہت سے دستے اور ان کے الگ الگ کمانڈر ہوسکتے ہیں. چنانچہ یہ تو ایک سلسلہ ہے‘ اس لیے ’’اولی الامر‘‘ کوجمع کی صورت میں لایاگیا ہے.

مزید نوٹ کیجیے کہ یہاں اطاعت کی جو تین کڑیاں ہیں‘ اللہ کی اطاعت‘ رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت‘ ان میں سے پہلی دو کڑیوں کے ساتھ تو فعل امر 
’’اَطِیۡعُوا ‘‘ کی تکرار ہوئی ‘ لیکن تیسری کڑی کے ساتھ نہیں ہوئی. ورنہ عام ذہن چاہتا ہے کہ یا تو ایک ہی مرتبہ اَطِیۡعُوا کا لفظ کافی ہے ‘ کیونکہ بریکٹ کے باہر والی قدر بریکٹ کے اندر موجود تمام اقدار سے ضرب کھاتی ہے. یا پھر اگر تکرار کی گئی تھی تو ایک لفظ کے اضافے سے کوئی حرج نہیں تھا کہ اولی الامر کے ساتھ بھی لفظ ’’اَطِیۡعُوا ‘‘ دہرادیا جاتا. لیکن نہیں‘ جو کچھ ہوا بالحق ہوا‘ اللہ کی حکمت کی بنیاد پر ہوا. یہ اللہ کا کلام ہے. اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت تو مطلق ہے‘ جب کہ اولی الامر کی اطاعت مقید اور مشروط ہے اور پہلی دو اطاعتوں کے تابع ہے .لہذاپہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے جو اِن الفاظ کی ترکیب کے اندر مضمراور مقدر (understood) ہے. 

اب ذرا توجہ کولفظ اطاعت پر مرکوز کیجیے! اس کا مادہ ’’طوع‘‘ ہے اور طوع بمقابلہ ’’کرہ‘‘ کے آتا ہے ‘جیسے 
طوعاً و کرہاً عام مستعمل ہے. اطاعت کہتے ہیں دلی آمادگی سے کسی کی بات ماننے کو. یہی اصل میں مطلوب ہے. اگرچہ حدیث میں جو بیعت کے الفاظ ہیں ان میں ساتھ ہی اضافہ کر دیا گیا کہ اطاعت اگر بطوعِ خاطر ہے فبہا‘ ورنہ اگر کرہاً ہے تو بھی کرنی پڑے گی. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں: بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ … ’’ہم نے بیعت کی تھی رسول اللہ سے کہ ہم سمع و طاعت پر کاربند رہیں گے‘ چاہے مشکل ہو یا آسانی ہو‘ طبیعت کی آمادگی میں بھی اور ناگواری میں بھی…‘‘یعنی چاہے تمہیں کوئی چیز ناپسند ہو‘ تمہارے بارِ خاطر ہو‘ تمہاری رائے اس کے حق میں نہ ہو‘ لیکن چونکہ فیصلہ ہو گیا ہے‘ صاحبِ امر نے طے کر دیا ہے اور آپ اسے خلافِ دین ہونا یا شریعت کے کسی واضح حکم کے مخالف ہونا بھی ثابت نہیں کر سکے تو آپ کو وہ فیصلہ ماننا پڑے گا. اگرچہ جماعتی نظم میں جو روح درکار ہے‘ جس سے کامیابی کی ضمانت ہو گی‘ وہ تو یہ ہے کہ جماعت کی اصل ریڑھ کی ہڈی کے اندر یہ اطاعت اپنی اصل روح کے ساتھ یعنی بطوعِ خاطر ہو رہی ہو. 

اب اس میں جو اصل بات ہے‘ جسے میں چاہتا ہوں کہ آپ پورے شرح وبسط کے ساتھ سمجھ لیں ‘ وہ یہ ہے کہ اولی الامر کے ساتھ شرط ہے 
مِنۡکُمۡ کی. اس سے ثابت ہو گیا کہ اولی الامر مسلمان ہونے چاہئیں. اب اگر کہیں غیر مسلم زبردستی قابض ہو جائے تو مجبوراً اور اضطراراً تو اس کی اطاعت کی جا سکتی ہے‘ جیسے بھوک سے مرتا انسان سُوَر یا مردار کھا سکتا ہے‘ جیسے فرمایا گیا : فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (البقرۃ:۱۷۳(پس جو حالت مجبوری میں ہو تو اس پر [یہ ناپاک چیز کھانے میں] کوئی گناہ نہیں‘ بشرطیکہ [اس کے کھانے میں]کوئی سرکشی اور حد سے تجاوز نہ ہو).ورنہ اسلام میں اصلاً غیر مسلم کی اطاعت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے. اس اعتبار سے کراچی کا مقدمۂ بغاوت ہماری گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کے اندر روشنی کا ایک عظیم مینار ہے‘ جہاں ہماری تین عظیم شخصیتوں نے انگریز کی عدالت میں برملا تسلیم کیا کہ ہاں ہم باغی ہیں اور مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار نہیں ہے.