اب آگے چلیے! سورۃ الانفال (آیت ۴۶) میں فرمایا : وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ’’اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی‘‘. اب یہاں اَطِیۡعُوا کا لفظ رسول کے ساتھ بھی دہرا کر نہیں لایا گیا. اس لیے کہ الفاظ کے استعمال میں بھی قرآن مجید میں لفاظی نہیں ہے ‘کم سے کم جچے تلے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں. یہاں چونکہ امراء کے اِس سلسلے کو نمایاں کرنا اور اس میں فرق و تفاوت کو واضح کرنامقصود نہیں تھا‘ لہذا ایک ہی بار ’’اَطِیۡعُوا‘‘ لایا گیا. اور قرآن میں ہمیشہ ’’اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ‘‘ ہی آتا ہے کہ’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو‘‘.

رسول اللہ کی جملہ حیثیتوں میں ایک حیثیت مدنی دَور میں یہ بھی تھی کہ آپ حاکم یعنی چیف ایگزیکٹو اور چیف جسٹس بھی تھے اور قانون سازی کا سارا اختیار بھی آپ کے ہاتھ میں تھا. جیسے حضور نے فرمایا کہ اللہ نے کچھ چیزیں حرام کی ہیں اور میں نے بھی کچھ چیزیں حرام کی ہیں. یہاں میں آپ کی جس حیثیت کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں وہ قبل از ہجرت کی حیثیت ہے. اس وقت مَکّہ میں آپؐ 
(۱) حوالہ گزر چکا ہے. کی حکومت نہیں تھی ‘ کوئی علاقائی تسلط آپؐ ‘ کو حاصل نہیں تھا. مَکّے میں تو آپ مغلوب تھے‘کمزور تھے. اگرچہ بظاہر الفاظ مناسب نہیں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کفر کو غلبہ حاصل تھا‘ کفار و مشرکین کے ہاتھ میں اختیار تھا‘ صحابہ کرامؓ کو اذیتیں دی جا رہی تھیں اور ان کی داد رسی کا بھی کوئی راستہ نہیں تھا. اس حالت میں تو دراصل مسلمان ایک جماعت تھے‘ جس کے امیر محمدٌرسول اللہ تھے. رسول ہونے کی حیثیت تو بلاشبہ تمام حیثیتوں سے بالاتر ہے. اسی لیے اس حیثیت کو قرآن میں نمایاں کیا گیا ہے جو سب سے اعلیٰ‘ سب سے اہم اور سب سے بلند ہے. لیکن سیرت النبیؐ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر جگہ پر دیکھئے کہ حضور  کس حیثیت سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں. کہیں آپؐ صرف منصف کی حیثیت سے کام کر رہے ہوتے ہیں. رسول کی حیثیت سے تو آپؐ سے خطا کا کوئی امکان نہیں ہے‘ لیکن آپ نے فرمایا کہ منصف کی حیثیت سے مجھ سے خطا ہو سکتی ہے .ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ لوگو! تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو‘ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق زیادہ چرب زبان ہے‘ اپنی بات کو دلیل کے ساتھ زیادہ زوردار انداز میں پیش کر سکتا ہے‘ جبکہ دوسرا بیچارہ اس پہلو سے عاجز ہے ‘تو وہ چرب زبان مجھ سے غلط فیصلہ کروا لیتا ہے. تو جان لو کہ میری عدالت سے بھی اگر تم کوئی غلط ڈگری لے گئے اور کسی زمین کے ٹکڑے کے بارے میں تم نے غلط فیصلہ حاصل کر لیا تو جان لو کہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہو گاجو تم لے کر جائو گے. کس قدر واضح حدیث ہے کہ بحیثیت منصف خطا ہو سکتی ہے . وہ تو صرف رسول کی حیثیت ہے جو خطا سے پاک ہے ‘ منزہ ہے‘ معصوم ہے.

غزوۂ بدر میں رسول اللہ نے ایک مقام بتایا کہ یہاں پڑاؤ کیا جائے. صحابہؓ نے کہا کہ حضورؐ !اگر تو یہ وحی کا فیصلہ ہے ‘ یہ آپؐ کا بحیثیت رسول امر ہے تو سرتسلیم خم ہے‘ ہماری عقلیں وحی کے مقابلے میں عاجز ہیں‘ ناقابل التفات ہیں. لیکن اگر معاملہ یہ نہیں ہے تو اجازت دیجیے کہ ہم عرض کریں! جب اجازت مل گئی تو صحابہ نے عرض کیا کہ حضورؐ ! جنگی مہارت اور جنگی علم و فہم کے اعتبار سے ہم عرض کر رہے ہیں کہ یہ جگہ 
مناسب نہیں ہے. آپ نے اسے تسلیم کر لیا اور پڑاؤ وہاں سے اٹھا کر دوسری جگہ ڈالا جہاں صحابہؓ نے مشورہ دیا تھا. تو اگر ان تمام حیثیتوں کو علیحدہ علیحدہ نہیں رکھا جاتا تو آدمی مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے. تو یہاں فرمایا: وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور جھگڑا مت کرو‘‘. اب یہاں لفظ تنازع آ گیا کہ جھگڑا مت کرو‘ کھینچ تان مت کرو. اگر یہ کرو گے تو کیا ہو گا؟ فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ’’توتم ڈھیلے پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘. ’ فَشَلَ‘ کا مطلب ہے کسی چیز کا ڈھیلا پڑ جانا. میں نے ’’ کسا ہوا نظم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے. اس کے مقابلے میں ’’ڈھیلا نظم‘‘ ہے. یعنی اب اس کا چاک و چوبند والا معاملہ نہیں رہا. بعض تراجم میں ’’فَتَفۡشَلُوۡا ‘‘ کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ’’تم نامرد ہو جاؤ گے‘‘. اس لفظ کی اس حوالے سے بڑی مناسبت ہے . یہاں نظم کا ڈھیلا پڑنا مراد ہے جس کی طرف یہاں اشارہ ہو رہا ہے کہ اگر تم نے کھینچ تان شروع کر دی ‘ اگریہ تمہاری عادتِ ثانیہ بن گئی تو تمہاری ہمت ختم ہو جائے گی‘ تم پر نامردی سوار ہوجائے گی اورتم ڈھیلے پڑ جاؤ گے .اور اس کا ایک اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ’’اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘. یعنی کفار و مشرکین پرسے تمہاری دھاک ختم ہو جائے گی‘ تمہارا رعب اور دبدبہ ختم ہو جائے گا. یہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا نتیجہ نکل رہا ہے. یہ گویا کہ اب اس تنازع کی منفی کیفیت ہے جس سے یہ نتائج رونما ہوں گے. اور یہ جان لو کہ اصل میں جماعتی نظم کا ڈھیلا پڑنا اس مقصد کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جائے گا جس کے لیے جماعت قائم ہوئی تھی . جماعت تو کسی مقصد کے لیے قائم ہوتی ہے. جماعت بذاتہٖ تو مطلوب نہیں ہے .وہ فی نفسہٖ مطلوب شے نہیں ہے‘ کسی مقصد کے لیے ہے .تو تمہارا ڈھیلا پڑ جانا اور تمہاری ہوا کا اکھڑ جانا ‘ اس کا نقصان اس مقصد عظیم کو پہنچے گا جس کے لیے تم نے وہ اجتماعیت اختیار کی اور اسے قائم کیا. 

آگے فرمایا: 
وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾ ’’اور صبر کرو (ڈٹے رہو ‘ جمے رہو) ‘یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘.اس میں صبر کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ اطاعت امر کے لیے صبر کی ضرورت ہے. ایک صبر ہے مخالفین کے مقابلے میں ڈٹے رہنا اور ایک صبر ہے ایذاء پر. لیکن صبر علی الطاعۃ اور صبر عن المعصیۃ بھی تو صبر کی قسمیں ہیں.معصیت اور نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا بھی تو صبر ہے اور اطاعت پر کاربند رہنا بھی صبر ہے.اس صبر علی الطاعۃ اور صبر عن المعصیۃ کے لیے بھی وہی chain ہو گی‘ یعنی اللہ کی اطاعت پر صبر اور اللہ کی معصیت سے صبر‘ رسول کی اطاعت پر صبر اور رسول کی نافرمانی سے صبر‘ اسی طرح اولی الامر کی اطاعت پر صبر اور اولی الامر کی نافرمانی سے صبر. ایک چیز سے اپنے آپ کو روکناصبر ہے اور ایک چیز پر اپنے آپ کو جمانا صبر ہے. چنانچہ یہاں دراصل اطاعت پر صبر کا حکم ہے. اور اطاعت میں وہی تین کڑیاں پیش نظر رہیں گی: اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ ’’اطاعت کرو اللہ کی‘ اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے صاحب امر کی‘‘. اگرچہ لفظ ’’صبر‘‘ عام ہے لیکن درحقیقت یہ اسی صبر علی الطاعۃ کی طرف اشارہ ہے. اور اسی کی منفی شکل ہے صبر عن المعصیۃ. اطاعت اور معصیت پر صبر کا اوّلین استحقاق اللہ کا ہے‘ اس کے بعد رسول کا اور پھر تیسرے درجے میں آتے ہیں وہ صاحب امر جو اہل ایمان میں سے ہوں.