اب اگر اس آیت کے ساتھ سورۃ آل عمران کی آیت ۱۵۲ کو جوڑ لیا جائے تو مضمون نکھر کر سامنے آ جائے گا. یوں سمجھئے کہ غزوۂ اُحد کا واقعہ مذکورہ بالا آیت کی ایک مثال ہے. یہ اس درس میں بہت اہم آیت ہے. یہاں غزوۂ اُحد کے حالات پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ‘ شدید نقصان ہوا‘ ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے‘ حضور خود مجروح ہوئے‘ آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے‘چہرۂ مبارک لہولہان ہوا. ’’فَتَفۡشَلُوۡا ‘‘ والی بات بھی ہوئی اور ’’وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ‘‘ کا نقشہ بھی سامنے آیا. یہ سارے نتائج نکلے ہیں. لہذا ایک عملی مثال سے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے! اب اللہ تعالیٰ تبصرہ فرما رہے ہیں کہ اے مسلمانو! ذرا غور کرو‘ ذرا نگاہِ باز گشت ڈالو اور سوچو کہ ایسا کیوں ہوا. کیا ہم نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا تھا؟ کیا ہمارا نصرت کا وعدہ غلط تھا؟ کیا ہمیں کافروں سے محبت ہو گئی تھی؟ کیا ہم نے تمہارے مقابلے میں اُن سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا؟ کیا تمہیں ہم نے وَداع کر دیا تھا؟ تم سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا؟ ’وَداع ‘ کا لفظ جو میں نے استعمال کیا ہے اس کا تعلق سورۃ الضحیٰ سے ہے‘ جس میں آپ سے فرمایا جا رہا ہے : مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی ؕ﴿۳﴾ ’’ آپ کے ربّ نے نہ آپ کو چھوڑا نہ وہ آپ سے ناراض ہوا‘‘. وہ ابتدائی مکی دَور ہے‘ اس میں صیغۂ واحد میں گفتگو ہو رہی ہے. یہاں یہی سمجھئے کہ ’’مَا وَدَّعَکُمْ رَبُّکُمْ‘‘ کہ تمہارے ربّ نے تمہیں چھوڑا نہیں ہے. تمہارا ربّ تم سے کنارہ کش نہیں ہوا. اس میں سے کوئی چیز نہیں ہوئی. تو اب سمجھو کہ ہوا کیا ہے؟ 

فرمایا جا رہا ہے : 
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ ’’اور اللہ نے تو تم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا جب کہ تم انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے اللہ کے حکم سے‘‘. لہذا پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کہ تم سے وعدہ خلافی نہیں ہوئی ہے. وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا ﴿٪۸۷﴾ (النساء) ’’اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا کون ہے؟‘‘ اور: وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ (التوبۃ:۱۱۱’’اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا وفا کرنے والا کون ہو گا؟‘‘ تو وعدہ خلافی تو قطعاً نہیں ہوئی‘ بلکہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا. اہل ایمان کو پہلے ہی ریلے میں فتح حاصل ہو گئی تھی. کفار بڑے لاؤ لشکر اور سامان کے ساتھ آئے تھے. کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی نسبت پہلے ہی ایک اور تین کی تھی اور اب منافقین کے واپس چلے جانے کے بعد ایک اور چار کی ہو چکی تھی‘ اس کے باوجود اللہ کا وعدہ صد فیصد درست ثابت ہوا‘ لیکن یہ واضح فتح شکست میں کیوں بدلی‘ اس کو ذرا سمجھو! فرمایا: حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ’’یہاں تک کہ جب تم ڈھیلے پڑے (تم نے نظم کو ڈھیلا کر دیا) اور تم نے امر میں جھگڑا کیا (کھینچ تان کی) ‘‘. اب دیکھئے سورۃ الانفال کی آیت ۴۶ والے الفاظ ہی یہاں آ رہے ہیں. یہ بہت اہم الفاظ ہیں. میں نے اسی لیے وضاحت میں ’’نظم کو ڈھیلا کرنا‘‘ اور ’’تنازع‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں‘ تاکہ ایک شے کی حقیقت کھل کر سامنے آئے. اسے فقہ اللغۃ کہتے ہیں کہ لغت کے اندر بصیرت کا حاصل ہوجانا. یعنی ایک لفظ کا مفہوم‘ اس کی مراد‘ اس کے مجازی معنی اور اس کے حقیقی معنی کو سمجھنا. ہر لفظ کا ایک باطن ہوتا ہے‘ اسے سمجھ لینے سے بصیرتِ باطنی پیدا ہوتی ہے. 

یہاں یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ سورۃ الانفال غزوؤ بدر کے بعد اور غزوؤ اُحد سے پہلے نازل ہوئی ہے جس کی آیت ۴۶ کا ہم نے مطالعہ کیا ہے. وہاں مسلمانوں کو پیشگی حکم دیا گیا تھا کہ : 
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا ’’اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور جھگڑا مت کرو!‘‘ اور پیشگی تنبیہہ بھی کر دی گئی تھی : فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ’’ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی‘‘. یعنی ایسا بھی نہیں ہوا کہ پیشگی متنبہ نہ کیا گیا ہو. لیکن پھر تم نے (غزوۂ اُحد کے موقع پر) نظم کو ڈھیلا کیا اور امر میں جھگڑا کیا ‘ کھینچ تان کی. یہ کس کا امر تھا جس میں جھگڑا ہوا اور کھینچ تان ہوئی؟اسے بھی تنقیح کے ساتھ سمجھ لیجیے. اصلاً تو امر محمدٌ رسول اللہ کا تھا جو اُس وقت سپہ سالارِ اعلیٰ ہیں. یہ کوئی نص کا معاملہ نہیں تھا‘ بلکہ تدبیر سے متعلق معاملہ تھا کہ اس درّے سے یہ پچاس تیر انداز ہرگز نہ ہٹیں. لیکن اپنی بات کی تاکید کے لیے حضور کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ ’’خواہ تم یہ دیکھو کہ ہم سب شہید ہو گئے ہیں اور پرندے ہماری بوٹیاں نوچ کر کھا رہے ہیں تب بھی تم یہاں سے مت ہٹنا‘‘. یہ انتہائی تاکیدی الفاظ ہیں. اب وہاں پچاس افراد ہیں اور ان کا ایک کمانڈر ہے. اب صورتِ واقعہ یہ ہے کہ رسولؐ وہاں موجود نہیں ہیں. اب صورت یہ ہوئی کہ فتح ہو گئی. اب تأویل کا اختلاف ہو گیا. اکثر تیر اندازوں نے کہا کہ اب تو فتح ہو گئی‘ کس لیے یہاں کھڑے ہو ‘چلو یہاں سے! جبکہ ان کا کمانڈر انہیں روک رہا ہے کہ دیکھو‘ رسول اللہ کے حکم کو یاد کرو. لیکن ان کا موقف یہ تھا کہ وہ حکم تو اُس وقت تھا اگر شکست ہوتی‘سب مارے جاتے‘سب شہید ہو جاتے. اب تو فتح ہو گئی ہے ‘ یہ حکم اب یہاں پر نافذ نہیں ہو رہا ہے. اب پہلے درجے میں یہ دیکھئے کہ یہ نص کا نہیں‘ بلکہ تدبیر کا معاملہ ہے. دوسرے یہ کہ اس تدبیر کے معاملے میں بھی معصیتِ صریحہ نہیں ہے‘ بلکہ تأویل ہے. اس تأویل کی وہ مثال بھی ذہن میں رکھئے گا کہ ’’عصر کی نماز نہ پڑھنا جب تک بنوقریظہ کے ہاں نہ پہنچ جاؤ‘‘. اس کی دونوں تأویلیں ہوئیں. ایک تأویل یہ ہوئی کہ عصر کی نماز سے پہلے پہلے بنو قریظہ تک پہنچنا لازمی ہے اور دوسری یہ کہ بنو قریظہ کے ہاں پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھنی ہے .اور دونوں کوحضور نے مساوی قرار دیا . تو یہ تأویل کی بات ہے. لیکن اب تیسرے درجے پر آ یئے! اگر کمانڈر یہ تأویل قبول کر لیتا تو یہ تأویل کی بات ہو جاتی‘ لیکن کمانڈرنے قبول نہیں کی تو اب لازماً کمانڈر کا حکم چلے گا. یہاں معاملہ نظم کا ہے. جسے امیر بنایا گیا تھا تأویل تو اس کی چلنی تھی نہ کہ مأمورین کی. لہذا معصیت ہو ئی تو اس کمانڈر کی. 

یہاں میں نے معاملے کو کتنا 
dilute کر دیا. یہاں معاذ اللہ ‘ اللہ کے حکم کی یا رسول کے حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوئی. یہاں معاملہ نصوص کا نہیں‘ تدبیر کا ہے اور تدبیر میں بھی کھلم کھلا سرتابی نہیں ہے‘ بلکہ تأویل ہے. تأویل اگر کمانڈر کی ہوتی تو یہ غلطی نظر انداز ہو جاتی. مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو نظر انداز فرما دیتا. لیکن وہاں نظم ٹوٹا ہے‘ کمانڈر کا حکم نہیں مانا گیا اور ۳۵ تیر انداز وہاں سے چلے گئے‘ ۱۵ رہ گئے. اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے . اصلاً مطلوب یہ ہے کہ اس کا تجزیہ کر کے‘ تنقیح کر کے اچھی طرح سمجھ لیجیے.