آگے فرمایا: وَ عَصَیۡتُمۡ ’’اور تم نے نافرمانی کی‘‘. میں صراحت کر چکا ہوں کہ نافرمانی اللہ اور اس کے رسول کی نہیں‘ بلکہ کمانڈر کی ہوئی ہے جس پر گرفت کی جا رہی ہے. اس لیے کہ بیعت میں یہ بھی کہا گیا ہے: اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ’’ کہ ہم اصحاب امر سے نہیں جھگڑیں گے (کھینچ تان نہیں کریں گے)‘‘ اب گویاتم نے اس میں معصیت کی مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ ’’اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں وہ چیز دکھا دی جو تمہیں پسند ہے‘‘. عام طور پر لوگ اس بارے میں مغالطے میں مبتلا ہیں کہ اس سے مراد مالِ غنیمت ہے. یہ مالِ غنیمت والی بات تو بالکل ہی غلط ہے. اس لیے کہ مالِ غنیمت کا مسئلہ اُس وقت تو ہو سکتا تھا اگر غزوۂ بدر کی بات ہوتی‘ جبکہ ابھی مالِ غنیمت کی تقسیم کا قانون نہیں آیا تھا. اُس وقت تک یہ روایت تھی کہ جو بھی شخص جتنا مال بھی جمع کر لے گا وہ اسی کا ہے. تو ہر شخص کے اندر خود بخود ایک طلب (urge) پیدا ہوتی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کر لے. اس صورتِ حال میں کوئی شخص سوچ سکتا تھا کہ ہم یہاں کھڑے رہ گئے تو ہمارے ہاتھ پلّے کچھ پڑے گا نہیں . لیکن سورۃ الانفال میں مالِ غنیمت کا حکم تو بیان ہو چکا تھا اور حضورﷺ اس پر عمل کر چکے تھے. مالِ غنیمت کے بارے میں حکم یہ تھا کہ سارا مال جمع ہو گا‘ اس کا پانچواں حصہ بیت المال کا ہو گا اور بقیہ سارا مال مجاہدین میں مساوی تقسیم کیا جائے گا .اور اس تقسیم میں بھی فرق یہ ہو گا کہ پیدل کے لیے اکہرا اور سوار کے لیے دوہرا حصہ ہو گا‘چاہے کوئی پہرے پرہی کھڑا رہا ہو اور اس نے تلواراٹھائی ہی نہ ہو. بلکہ حضورﷺ نے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی حصہ لگایا اگرچہ وہ وہاں شریک بھی نہیں تھے‘ کیونکہ وہ حضورﷺ کے حکم سے مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے .لہذا اُن کو بھی اس غزوہ میں شریک فرض کیا گیا .
تو جب یہ قانون آ چکا تھا تو کسی کو کیا ضرورت تھی کہ وہاں جاتا کہ مال جمع کرے؟ اس خیالِ خام کو ذہن سے نکال دیجیے. اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بڑا سوءِ ظن پیدا ہوا ہے. کیونکہ یہ تو ابھی سن ۳ ہجری کا واقعہ ہے اور اس میں تمام سابقون الاوّلون شریک ہیں. اس میں تو منافقین شریک بھی نہیں ہوئے تھے ‘بلکہ عبد اللہ بن اُبی کے ساتھ میدان چھوڑ کر واپس جا چکے تھے. یہ سن ۱۰ یا ۱۱ کی بات ہوتی تو کسی قدر قابلِ التفات ہوتی کہ اب تو بہت کچے پکے لوگ بھی مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے. جبکہ یہ تو خالص لوگ تھے. ان سے یہ سوءِ ظن بہت بڑی غلطی ہے جن لوگوں کے ذریعے سے بھی پھیلی ہے. اصل بات کیا تھی؟ سورۃ الصف کی آیت ۱۳ سے یہ بات کھل رہی ہے‘ جہاں فرمایا : وَ اُخۡرٰی تُحِبُّوۡنَہَا ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتۡحٌ قَرِیۡبٌ ؕ ’’ایک اور چیز جو تمہیں پسند ہے‘ (یعنی) اللہ کی طرف سے مدد اور فتح جو قریب ہے‘‘. یہ فتح کی طلب اور فتح کی قدر و قیمت ہے جس سے تم ڈھیلے پڑتے ہو.حالانکہ ؏
’’شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ!‘‘
اصل کامیابی تو یہ ہے کہ تم بس اللہ کی راہ میں اپنا تن من دھن لگا دو. جہاں تمہارے اندر جلد سے جلد فتح حاصل کرنے کی طلب پیدا ہو جائے گی ‘ یا تم عجلت پسندی کا شکار ہو جاؤ گے ‘ یا کوئی راہِ یسیر (شارٹ کٹ) تلاش کرو گے‘ ٹیڑھی انگلیوں سے مکھن نکالنے کی کوشش کرو گے تو نتیجتاً اصل منزل سے ہٹ جاؤ گے . یہ ساری حماقتیں صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ دُنیوی فتح محبوب ہے. دنیاوی سطح پر کامیاب ہو جانا‘ اس کی نگاہ کے اندر اہمیت پیدا ہو گئی ہے اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے. غزوۂ اُحد میں بھی غلطی اسی بنیاد پر ہوئی. یہ بات بالکل نفسیاتی اعتبار سے ہے. جب آپ طے کرتے ہیں کہ آپ کو سو(۱۰۰) میل جانا ہے تو آپ شاید ۸۰ یا ۹۰ میل پر جا کر کچھ ڈھیلے پڑیں کہ اب تو منزل قریب آ گئی ہے. اور اگر آپ نے اپنی منزل ہی ۲۰ میل پر متعین کر لی ہے تو یہی کیفیت ۱۷‘۱۸ میل پر پیدا ہو جائے گی. کسی شخص کی اپنے کام کے لیے جتنی مطابقت (adjustment) ہوتی ہے اس کے اندر اتنے ہی عرصہ کے لیے چاک و چوبند ہونے اور آمادۂ عمل رہنے کی کیفیت برقرار رہتی ہے. اور منزل پر پہنچ کر تو آدمی ڈھیلا پڑتا ہی ہے. اس کے بعد تو اعصاب ڈھیلے پڑتے ہیں‘ آدمی کپڑے اتارتا ہے اور پُرسکون (relax) ہو جاتا ہے کہ اب پہنچ گئے . تو یہی فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے اس relaxation کے تحت نظم کو ڈھیلا کیا ہے.جس انداز سے میں نے یہ آیت سمجھائی ہے اس طرح حقیقت کے اعتبار سے ہمیں جوسبق لینا ہے وہ ہمیں پورا مل جائے گا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں سوءِ ظن بھی نہیں رہے گا.
اسی آیت میں آگے فرمایا جا رہا ہے : مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ’’تم میں سے کچھ وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت چاہتے تھے‘‘. اب اس کی تأویل بھی ہم اسی طور سے کریں گے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو دنیا میں فتح کے طالب ہیں اور وہ بھی ہیں جو صرف آخرت کے طالب ہیں. جبکہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے. جیسے سورۃ التغابن میں آیا : یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ (آیت ۹) ’’جس دن (اللہ) تم کو جمع کرے گا جمع ہونے کے دن وہ ہو گا اصل ہار اور جیت کے فیصلے کا دن‘‘. ہار اور جیت کا فیصلہ تو وہاں ہو گا‘ یہاں کی ہار ہار نہیں‘ یہاں کی جیت جیت نہیں. کتنے ہیں جو جیت کر ہارتے ہیں اور کتنے ہیں جو ہار کر جیتتے ہیں. سورۃ التغابن کے یہ الفاظ اپنے دل پر نقش کر لیجیے. یہاں کی فتح کا تصور ہی نہ رکھو. اس دنیا کی کامیابی کی کوئی غرض ہی نہ رکھو! بلکہ احساسِ فرض کے تحت حرکت کرو. دنیا میں کامیابی کا کتنے فیصد امکان ہے اور کتنے فیصد نہیں ہے‘ یہ حساب کتاب اس راستے پر نہیں چلے گا. صد فیصد ناکامی کا یقین ہو پھر بھی انسان اس راہ پر چلے گا اگر اس کا مطلوب صرف آخرت ہو. یہی بات تھی کہ جنگ موتہ کے موقع پر صرف تین ہزار کا لشکر ایک لاکھ سے ٹکرا گیا تھا .اور وہ کسی ایک شخص کا فیصلہ بھی نہیں تھا‘ بلکہ اس ضمن میں باقاعدہ مشورہ ہوا ہے ‘ باقاعدہ تقریریں ہوئی ہیں. یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ یہ معاملہ درست نہیں ہے‘ کیونکہ نسبت تناسب میں بہت زیادہ فرق ہے‘ ایک اور تینتیس کی نسبت ہے. لیکن کچھ لوگوں نے کہا‘ اور ان کی رائے مانی گئی ‘ کہ ہمارا مطلوب و مقصود فتح کب ہے؟ ہمارا مطلوب و مقصود تو شہادت ہے!
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!
لہذا وہاں افہام و تفہیم سے بات طے ہوئی ‘ کوئی جھگڑا نہیں ہوا. اور اس پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے کوئی سرزنش نہیں کی گئی‘ بلکہ مسلمانوں نے اس بات پر سرزنش کی کہ یہ لوٹ کر کیوں آئے؟لوگوں نے ہاتھوں میں ریت اٹھا کر لوٹنے والوں کے چہروں پر پھینکی .رسول اللہﷺنے اُن کا دفاع کیا اور فرمایا کہ انہوں نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار نہیں کی‘ بلکہ ان کا معاملہ ’’مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ‘‘ والاہے‘ یعنی اپنی اصل قوت کی طرف رجوع کرنے کا معاملہ ہے ‘تاکہ پھر سے طاقت لے کر آئیں اور حملہ کریں‘ یہ فرار نہیں ہے. بہرحال اس فرق کو ذہن میں رکھئے! اسی لیے ہم اتنی وضاحت سے بحث کرتے ہیں کہ ہمارا نصب العین صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اُخروی فلاح ہے. نصب العین انقلاب یا اقامت دین اور دین کا غلبہ نہیں ہے. جہاں یہ چیزیں نصب العین کے درجہ میں آئیں گی وہاں حماقتیں لازماً ہوں گی‘ غلطیاں لامحالہ ہوں گی.
آگے ارشاد ہوا : ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ ’’پھر اللہ نے تمہیں پھیر دیا اُن سے‘تاکہ تمہیں آزمائے‘‘. دیکھئے عجیب انداز ہے کہ ’’تمہیں پھیر دیا اُن سے‘‘. مطلب یہ کہ تم دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. اب ہوا یہ کہ تم جس کی قوت سے یہ سب کچھ کر رہے تھے اب اس قوت نے گویا تمہارا رُخ پھیر دیا. کفار نے تمہارا رُخ نہیں پھیرا‘ یہ رُخ اس نے پھیرا ہے ‘تاکہ تمہیں جانچے ‘ پرکھے‘ تمہیں ابتلاء میں ڈالے ‘تاکہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو اور تم آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر سکو. تمہاری اس غلطی سے درگزر بھی کیا جا سکتا تھا کہ تمہیں اُس وقت کوئی سزا نہ دی جاتی‘ لیکن پھر یہ غلطی تمہارے اندر راسخ ہو جاتی.پھر تمہارا ڈھیلا پن مستقل ہو جاتا. تمہیں سبق سکھانا مقصود تھا‘ تمہاری تربیت پیشِ نظر تھی ‘تمہاری اصلاح مقصود تھی. سرزنش اس لیے ضروری تھی تاکہ ایک دفعہ بات واضح ہو جائے کہ نظم کسے کہتے ہیں‘ ڈسپلن کے کیا معنی ہیں‘ اطاعتِ امر کی کیا حیثیت اور کیا اہمیت ہے. یہاں’’لِیَبۡتَلِیَکُمۡ‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ اللہ تمہاری آزمائش کرے. بَـلَا ‘ یَبْلُوْ آزمائش کے لیے آتا ہے. اسی سے ابتلاء بنا ہے. ارشادِ الٰہی ہے: خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲) ’’اللہ نے موت اور حیات کو پیدا فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون حسنِ عمل کا مظاہرہ کرنے والا ہے‘‘.
اہل ایمان کی تسلی کے لیے آگے فرمادیا : وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ ’’اورواقعی وہ تمہیں معاف فرما چکا ‘‘. اب تمہارے لیے آخرت کی کوئی سزا نہیں ہے‘ جو بھی سرزنش تھی یہاں ہو گئی. وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۵۲﴾ ’’اور اللہ اہل ایمان پر بہت بڑے فضل والا ہے‘‘.