آج کے درس کے ضمن میں آخری مقام سورۃ النور کی تین آیات (۵۴ تا ۵۶) پر مشتمل ہے. اس میں سے اکثر حصے کا مفہوم تو ہمارے سامنے آ چکا ہے‘ صرف ایک نکتہ ہے جس کی وضاحت درکار ہے‘ باقی ہم صرف ترجمہ کریں گے . فرمایا : قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ ’’کہہ دیجیے (اے نبیؐ !) اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی‘‘.اب یہاں ہر جگہ پر مقدر (understood) مانیے : وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ ’’اور اپنے میں سے اصحابِ امر کی‘‘. آگے فرمایا: فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ ’’پھر اگر وہ روگردانی کریں (پیٹھ موڑ لیں) تو جان لو کہ رسولؐ پر ذمہ داری ہے اس کی جس کا بوجھ اس پر ڈالا گیا ہے اور تم پر ذمہ داری ہے اس کی جس کا بوجھ تم پر ڈالا گیا ‘‘.صاحب امر بھی اللہ کے ہاں مسئول ہے اور تم بھی اللہ کے ہاں مسئول ہو. رسول کے ذمہ ابلاغ اور تبلیغ کا حق ادا کر دینا ہے اور تمہارے ذمہ اسے قبول کرنا ہے. اگر بالفرض ابلاغ میں کمی رہی تو رسول پکڑے جائیں گے اور اگر انہوں نے اپنا کام پورا کر دیا تو رسول بری ہو جائیں گے اور اب ساری پُرسش تمہاری ہو گی. اسی طرح امراء کے ذمے جو بھی فرائض اور ذمہ داریاں ہیں وہ ان کے مسئول ہیں‘ انہوں نے جلد بازی میں فیصلہ کر لیا تو اپنی جواب دہی اللہ کے یہاں کریں گے‘ انہوں نے تمہارے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا تو وہ اس کے لیے اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے‘ لیکن اگر مأمورین نے اپنے فرائض ادا نہ کیے تو اُن کی پُرسش ہو گی.دنیا میں کوئی چیز یک طرفہ تو ہوتی نہیں. اگر مأمورین کے کچھ فرائض ہیں تو امراء کے بھی فرائض ہیں اور امراء کے حقوق ہیں تو مأمورین کے بھی کچھ حقوق ہیں. لیکن ہمارا تصور یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ کو مرتکز کرے‘ اپنے حقوق کی طلب پر توجہ کاارتکاز نہ کرے. اگر کوئی حق مارا گیا تو دنیاوی اعتبار سے تو نقصان ہے‘ مگر اُخروی اعتبار سے نفع ہے. ذمہ داری تو اس پر ہے جس نے آپ کا حق مارا ہے. آخرت میں جا کر لین دین ہو جائے گا‘ حساب کتاب ہو جائے گا. وہاں تم کچھ حاصل ہی کرو گے‘ ہاتھ سے کچھ دینا نہ پڑے گا. اگر اصل ’’یوم التغابن‘‘ آخرت ہے تو تمہارے لیے یہ نفع کا سودا ہے‘ نقصان کا تو نہیں.
یہاں سورۃ الاعراف کی یہ آیت بھی پیش نظر رکھئے جو تصورِ شہادت علی الناس کے ضمن میں بہت اہم ہے : فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾ ’’ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا تھا اور لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی‘‘. رسول بھی تو مسئول ہے‘ وہ بھی بندہ ہے (وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ) پھر ان کے نیچے جو بھی نظمِ جماعت کے صاحبِ امر ہوں گے وہ بھی غیر معصوم انسان ہیں‘ ان سے بھی خطا اور نسیان کا ارتکاب ہو سکتا ہے. لہذا سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ تم اپنی ذمہ داری کو دیکھو کہ کیا ہے‘ اس میں تو کوئی کمی نہیں کر رہے؟ اس کی جواب دہی تمہیں کرنی پڑے گی.
وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ ’’اوراگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے‘‘. وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۵۴﴾ ’’اور رسول کے ذمہ نہیں ہے مگر صاف صاف پہنچا دینا‘‘.
آگے فرمایا: وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ... ’’اللہ نے وعدہ کیا ہے تم سے یعنی اُن سے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے…‘‘ میں نے ’’یعنی‘‘ کے ساتھ ترجمہ اس لیے کیا ہے کہ یہاں ’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے ‘بلکہ ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے .اس وعدہ کے اوّلین مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے کہ بعض کے ساتھ یہ وعدہ ہو اور بعض کے ساتھ نہ ہو ‘ بلکہ مِنْ بیانیہ ہے کہ تم سے یعنی اُن سے جو ایمان لائے ہوں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہوں.البتہ ان کے بعد سب کے لیے یہ مِنْ تبعیضیہ ہے.یہ نہیں کہ جو بھی جماعت قائم ہو جائے اور جو لوگ بھی اس کام کے لیے کمر کس لیں اُن سے یہ وعدہ ہے. بلکہ اُن کے ساتھ اللہ کا وعدہ ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کے ساتھ مشروط ہو گا. حتمی اور قطعی وعدہ اور بشارت صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے تھی. بعدکا معاملہ مشروط رہے گا. جو جس درجہ میں ان تقاضوں کو پورا کرے گا اسی درجہ میں وہ اس وعدہ کا مصداق بننے کی امید رکھ سکتا ہے. اور پھر بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت اپنے تئیں یہ سمجھ رہی ہو کہ وہ ایمان اور عمل صالح کے تقاضے پورے کر رہی ہے ‘لیکن ابھی اس کا اقتدار اللہ کی حکمت اور مصلحت میں نہ ہو. ابھی کوئی کمی ہے جسے اللہ جانتا ہے. تم تو اپنے آپ کو کامل سمجھ رہے ہو مگر اللہ جانتا ہے کہ تم کتنے کچھ کامل ہو اور کتنے کچھ نہیں ہو. فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ٪﴿۳۲﴾ (النجم) ’’اپنے آپ کو نفسِ مزکیٰ نہ سمجھا کرو‘وہ جانتا ہے اس کو جو واقعی متقی ہے‘‘. بہرحال اللہ کا یہ وعدہ اُن لوگوں سے ہے جو ایمان اور عمل صالح کے تقاضے پورے کر دیں گے. یہاں اپنے ذہن میں سورۃ العصر کے مضامین تازہ کیجیے اور پھر پورا منتخب نصاب ذہن میں لے آیئے. عمل صالح سے مراد صرف نماز ‘روزہ اور نوافل نہیں‘ بلکہ عمل کا پورا ایک جامع تصور ہے. ایمان بھی صرف زبانی اقرار کا نام نہیں‘ بلکہ اس کے عملی تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہے.
اللہ نے ان سے کیا وعدہ کیا ہے : لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ ’’وہ لازماً انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسے کہ اس نے ان سے پہلوں کو خلافت عطا فرمائی تھی‘‘. یہ آیت مبارکہ خاص طو رپر یہاں شامل کی گئی ہے ‘ ورنہ پہلی آیت پر ہمارا یہ درس مکمل ہو جاتا ہے.یہ بہت اہم آیت ہے اور یہ خلافت راشدہ کی حقانیت پر اہل تشیع کے خلاف برہانِ قاطع ہے. اللہ کا یہ وعدہ جن حضرات سے پورا ہوا کیا وہ ایمان اور عمل صالح کے اعلیٰ ترین معیار پر نہیں ہوں گے؟ یا پھر (معاذ اللہ) اللہ کا وعدہ جھوٹا ہے اور اللہ منافقوں کے ساتھ یہ وعدہ کر رہا ہے؟ یہ خلافت بالفعل قائم ہوئی یا نہیں ہوئی؟ یہ تو تاریخی واقعہ ہے‘ اس میں تو کسی کواختلاف نہیں ہو گا. تو کن سے یہ وعدہ کیا گیا تھا؟ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یہ آیت ان کے غلط فلسفے اور گمراہ کن نظریات کے پورے تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دینے والی ہے.
اس وعدۂ استخلاف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ ’’اور وہ لازماً تمکن عطا فرمائے گا (زمین میں جما دے گا) اُن کے لیے اُن کے اس دین کو جو اللہ نے ان کے لیے پسند فرما لیا ہے‘‘. یہ الفاظِ مبارکہ خلافت راشدہ کے لیے بھی سند ہیں اور خلفاء راشدین کے لیے بھی. وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ ’’اور لازماً بدل دے گااُن کے خوف کی اس کیفیت کے بعد اُس کو امن کی ایک حالت سے‘‘. ان الفاظ میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ جن حضرات کی رائے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ کاعہد ِخلافت ‘ خلافت ِراشدہ میں شامل نہیں ہے‘ ان کے موقف کے لیے بھی دلیل موجود ہے. اس لیے کہ اس پورے عرصے میں امن نہیں تھا‘ یہ جنگ و جدال کا دَور تھا‘ تلواریں ایک دوسرے کے خلاف چلتی رہیں. شاہ ولی اللہ دہلویؒ بہت منطقی انسان تھے. انہوں نے دو باتوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا کہ ایک شخص کا اپنی ذات میں خلیفۂ راشد ہونا اور ہے‘ جبکہ اس کے عہد خلافت کا خلافت راشدہ میں شامل ہونا اور ہے. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذات میں خلیفۂ راشد ہیں ‘خلافت راشدہ کے تمام معیارات ان کی ذات کی حد تک پورے ہیں‘ لیکن ان کا عہد حکومت اس معیار پر پورا نہیں اتر رہا. ایک تو اس عرصے میں افتراق رہا اور اس دَور میں عالمِ اسلام ایک وحدت نہیں رہا. دوسرے یہاں امن کی کیفیت نہیں تھی.
آگے فرمایا: یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ ’’وہ میری ہی بندگی کریں گے ‘ میرے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں کریں گے‘‘. یہ بہت بڑی بڑی بشارتیں ہیں اور دورِ خلافت راشدہ کے چوبیس برس اس کا مصداقِ اَتم اور مصداقِ کامل ہیں. بعد میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ عمارت یک دم بالکل ہی زمین بوس ہو گئی ہو ‘بلکہ درجہ بدرجہ نیچے آئی ہے.لیکن ایک آئیڈیل اور ہر اعتبار سے دورِ نبوت کا عکسِ کامل یہ چوبیس یا ساڑھے چوبیس برس تھے. وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۵﴾ ’’اور جو اِس کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہی لوگ درحقیقت فاسق ہیں‘‘. یہاں ’’بَعۡدَ ذٰلِکَ ‘‘ سے کیا مراد ہے؟یہ کہ اس وعدے کے بعد بھی! اللہ کا اتنا پختہ وعدہ ‘اللہ کی طرف سے اتنی موثّق توثیق اور پھر بھی کوئی کفر کرے! اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب دین اس طرح غالب ہو چکا ہو اور امن قائم ہو چکا ہو‘ فتنہ باقی نہ رہے ‘اس کے بعد بھی اگر کوئی غلط راستے پر چلتا ہے تو وہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس میں خیر کا کوئی عنصر ہے ہی نہیں.
آخری آیت میں فرمایا : وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ... ’’اور نماز قائم کرو اور زکو ٰۃ ادا کرو…‘‘.ہمارے آج کے درس کے خاتمے کے لیے یہ نہایت جامع اور نہایت موزوں الفاظ آ گئے ہیں. یہاں سورۃ الحج کی آخری دو آیات ذہن میں تازہ کیجیے‘ جن میں ایمان کے منطقی تقاضے بیان کیے گئے ہیں: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ.... الخ دین کے عملی تقاضوں کی آخری سیڑھی جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے آنحضورﷺ نے دین کا ’’ذروۃ السنام‘‘ قرار دیا ہے‘ لیکن عمل کے زینے کی پہلی سیڑھی فرائض دینی کی بجا آوری اور ارکانِ اسلام کی پابندی ہے. لہذا سب سے پہلے فرمایا : ’’رکوع کرو اور سجدہ کرو‘‘. پہلی سیڑھی پر قدم جماؤ گے تو دوسری پرچڑھنے کا امکان ہو گا. اگر یہیں پر قدم لرز رہے ہیں اور آپ کو استقامت حاصل نہیں تو اگلی کا کیا سوال؟ اسی لیے وہاں آخر میں پھر فرمایا: فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸﴾ ’’پس قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور مضبوط پکڑو اللہ (کی رسی) کو‘ وہ تمہارا مالک ہے‘ سو خوب مالک ہے اور خوب مددگار‘‘. یعنی اگر یہ سارا تصورِ دین سمجھ آ گیا اور تین منزلیں ذہن میں جم گئیں تو بسم اللہ کرو. کہاں سے کرو گے؟ قائم کرو نماز ‘ادا کرو زکوٰۃ! پہلی سیڑھی تو وہی ہو گی. ستون ڈالو گے تو چھت کا امکان ہے. پہلی منزل بنے گی تو دوسری کا امکان ہے اور دوسری بنے گی تو تیسری کا امکان ہے. لہذا وہاں (سورۃ الحج میں) جو ترتیب تھی وہی یہاں (سورۃ النور میں) ہے : وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾’’اورقائم کرو نماز اور ادا کرو زکو ٰۃ اور اطاعت کرو رسولؐ کی تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘. واضح رہے کہ یہاں رسولؐ کی اطاعت صرف رسول کی حیثیت میں مراد نہیں ہے ‘ بلکہ امیر کی حیثیت میں بھی‘ سپہ سالار کی حیثیت میں بھی‘ چیف ایگزیکٹو کی حیثیت میں بھی اور چیف جسٹس کی حیثیت میں بھی مراد ہے. چنانچہ آیتِ مبارکہ کے آخری الفاظ بہت معنی خیز ہیں : وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾ ’’اور رسولؐ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے!‘‘
ooاللھم ربنا اجعلنا منھم‘ اللھم اغفرلنا وارحمنا واھدنا وعافنا وارزقنا‘ انت ولینا فی الدنیا والآخـرۃ‘ توفنا مسلمین والحقنا بالصالحین برحمتک یا ارحم الراحمینoo