پہلی بات تو یہ ہے جو اجمالاً آپ کے سامنے آ گئی کہ اس ہیئت ِاجتماعیہ میں اگر proper channels کا اہتمام نہیں ہو گا تو شیطان کو دلوں کے پھاڑنے اور نفرتوں اور کدورتوں کی فصلیں اگانے کا بڑا موقع ملے گا. لیکن یہی مسئلہ جب رفقاء کی جانب سے امراء کے ساتھ پیش آتا ہے تو اس کا نام ’’نجویٰ‘‘بنتا ہے. اب یہ غیبت سے کئی گنا زیادہ قبیح شے بن جاتی ہے. اب تک تو میں نے سورۃ الحجرات میں وارد معاشرتی احکام اور نواہی کا اعادہ کیا ہے کہ ایک مسلمان معاشرے اور مسلمانوں کی ہیئت ِ ملّی میں ان چیزوں کی کیا اہمیت ہے. میں عرض کر چکا ہوں کہ اقامت دین کے عظیم مقصد کے لیے قائم اجتماعیت کے لیے اس کی اہمیت سوگنا بڑھ جاتی ہے. چنانچہ جب غیبت کا معاملہ اصحابِ امر کے ساتھ آئے گا تو یہ چیز اس سے بھی سو گنا زیادہ قبیح اور مہلک ہو جائے گی. اس کا کیا سبب ہے؟ پہلے اسے سمجھ لینا چاہیے . دراصل امیر اور مأمور ین کا رشتہ ایسا ہے کہ اس میں گاہے بگاہے مأمورین کی عزتِ نفس کے مجروح ہونے کا امکان فطری طور پر موجود ہے. اوّل تو کسی کا حکم ماننا انسانی طبیعت بالعموم گوارا نہیں کرتی‘ پسند نہیں کرتی. انسان کا نفس اسے یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اصحابِ امر کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں‘ یہ کون سے آسمان سے نازل ہوئے ہیں کہ مجھے حکم دیں‘ میں ان سے کس پہلو میں کمتر ہوں! 

میں یہاں تک عرض کر رہا ہوں کہ رسول اللہ کا معاملہ ہمارے اعتبار سے توبہت مختلف ہے اور اُس وقت جو لوگ موجود تھے ان کا معاملہ بھی ہم سے بہت مختلف تھا. ہمارے لیے تو حضور کی حیثیت اب ایک ادارے 
(institution) کی ہے‘ حضور بنفس نفیس‘ گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان کی صورت میں ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں ‘اور اللہ تو ویسے بھی ہمارے سامنے نہیں ہے‘ لہذا ہمارے لیے اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت ‘ یہ دونوں درحقیقت ادارے ہیں. اس وقت ہمارے اور رسول اللہ کے مابین صرف اُمتی اور رسول کی نسبت ہے ‘جبکہ اس وقت کے لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ ایک تو رسول ان کے سامنے گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان کی صورت میں موجود تھے‘ عام انسانوں کی طرح وہ بھی کھاتے پیتے اور چلتے پھرتے تھے. پھر یہ کہ حضور کے ساتھ ان کی اور بھی بہت ساری نسبتیں موجود تھیں. صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت عباس اور حضرت حمزہ (رضی اللہ عنہما) حضور کے چچا ہیں‘لہذا آپؐ تو بھتیجے ہونے کے اعتبار سے ان سے چھوٹے تھے. صحابیات (رضی اللہ عنہن) میں وہ بھی ہیں جو حضور کی ازواج ِ مطہرات ہیں .ان کے اور آنحضور کے مابین نسبت صرف رسول اور اُمتی کی نہیں ہے‘ شوہر اور بیوی کی بھی ہے .اسی طرح آپ قیاس کرتے چلے جائیں تو معلوم ہو گا کہ وہاں نسبتیں بھی بہت سی تھیں. اس پہلو سے اس وقت آپ کی اطاعت کا معاملہ آج کی نسبت زیادہ مشکل تھا .اس لیے کہ اُس وقت ایک تو نگاہوں کے سامنے موجود ایک گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان کی اطاعت مطلوب تھی اور دوسرے یہ کہ ان کے ساتھ اور بھی کافی نسبتیں تھیں جو کہ ہماری نہیں ہیں. ہمارے لیے حضور کی اطاعت بہت آسان ہے‘ جبکہ ان لوگوں کے لیے اس معاملے میں بڑی اضافی دقتیں اور پیچیدگیاں تھیں. چنانچہ انہیں یہ وسوسے پیش آ سکتے تھے کہ ان کی ہر بات ماننے کی کیا ضرورت ہے! یہ ہم تک اللہ کا جو حکم پہنچاتے ہیں ہم اسے مان لیتے ہیں‘ لیکن ان کی ہر بات کیوں مانیں! اسی موقف کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی : 

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵﴾ (النساء)
’’نہیں (اے محمد !)آپ کے ربّ کی قسم !یہ ہرگز مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہر اختلافی معاملے میں جو اِن کے مابین اٹھ کھڑا ہو ‘ آپ کو آخری حَکَم تسلیم نہ کریں‘ اور جو فیصلہ بھی آپ کریں (نہ صرف یہ کہ اسے بے چون و چرا قبول کریں ‘بلکہ) اپنے دل میں بھی اس کے بارے میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں‘ اور (آپ کی) فرمانبرداری قبول کر لیں جیسا کہ اس کا حق ہے‘‘.

اس طرزِ تخاطب میں جو زور ہے وہ اس پس منظر میں نکھر کر سامنے آتا ہے.

کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص مشورہ دے اور اس کا مشورہ قبول نہ کیا جائے‘ تو اس کے دل پر اس کا ایک ردّعمل لازماً ہو گا کہ انہوں نے میری بات کو اہمیت نہیں دی‘ مجھے کم تر سمجھا‘ کسی اور کی بات کو زیادہ اہمیت دی. کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی اجتماعی ضرورت کے تحت محسوس ہو کہ شاید صاحب امر کا التفات کسی اور کی طرف 
زیادہ ہے اور میری طرف کم ہے . اس سے بھی نفس کے اندر لازماً ایک ردّعمل پیدا ہو تا ہے. اور ایسا لازماً ہوتا ہے ‘کوئی نظم اس کے بغیر نہیں چل سکتا .اور کبھی کسی کوتاہی پر سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بھی ہو سکتی ہے. یہ بھی وہ چیز ہے جس سے انسان کے اندر شدید ردّعمل پیدا ہو سکتا ہے . پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ پر صحیح ہو لیکن کسی مغالطے کی بنا پر اس کو خواہ مخواہ ڈانٹ دیا جائے. ا س کا بھی بہرحال امکان موجود ہے. نبی اکرم کی ذات اس طرح کے مغالطے سے بَری ہے‘ کوئی اور تو اس سے بَری نہیں ہے. ہو سکتا ہے کہ اصحابِ امر تک کوئی غلط اطلاع پہنچی ہو‘ یا ان کے اپنے مشاہدے میں یا اپنی سوچ میں کوئی غلطی ہو.اب اس میں مزید دس گنا زیادہ امکان پیدا ہو گا کہ طبیعت میں ردّعمل اور آزردگی (resentment) پیدا ہو جائے. یہ تمام چیزیں وہ ہیں کہ جن سے امیر اور مأمور کا رشتہ بہت نازک ہو جاتا ہے. اگر اس میل کو انسان شعوری طور پر صاف نہ کرتا رہے اور وہاں کھردری سطح برقرار رہے تو وہاں میل جمع ہوتا رہے گا.اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ کی زبان سے کبھی کوئی چبھتا ہوا فقرہ نکل جائے گا ‘ کبھی آپ کوئی استہزائیہ کلمہ کہہ دیں گے.

پھر کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی نے محسوس کیا کہ کوئی اور بھی ہے جس کے دل میں ایسے جذبات ہیں تو اب ایک انسیت محسوس ہو گی اور وہ جا کر اس سے دکھ درد بیان کرے گا کہ دیکھئے اس جماعت میں آنے کی ہماری کوئی ذاتی غرض تو نہیں ہے‘ فلاں صاحب ہم سے کوئی برتر نہیں ہیں کہ ہم سے اس طرح کا معاملہ ہو رہا ہے . اب وہ دو سے تین‘ پھر تین سے چار ہو جائیں گے اور رفتہ رفتہ ایک جتھے کی شکل اختیار کر لیں گے اور ان کے مابین ایک دوسرے کے لیے قرب اور دلوں کی نرمی پیدا ہو جائے گی. اب صورتِ حال یہ ہو گی کہ کسی اجتماع میں جہاں بیٹھے ہیں یکجا بیٹھے ہیں. اب امیر اگر کچھ کہہ رہا ہے تو اس پر آنکھوں آنکھوں میں باتیں کر رہے ہیں کہ دیکھا‘ یہ بات نکل آئی نا جو ہم سوچتے تھے‘ ہمارا خیال صحیح ہوا کہ نہیں! اس طرح آنکھوں آنکھوں میں تبادلۂ خیال ہوتا ہے ‘ پھرفقرے چست کیے جاتے ہیں. اس کے لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ 
اجتماع میں مل جل کر بیٹھیں‘ آس پاس صرف وہی لوگ ہوں جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کا احساس ہے اور کسی اور کو قریب نہ آنے دیں‘ تاکہ اگر کوئی فقرہ چست کیا جائے تو کوئی سن کر آگے نہ پہنچا دے. پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنہائی میں کھسر پھسر ہو رہی ہے . غیبت جو بہت لذیذ شے ہے ‘ جب یہ امیرکے خلاف ہو گی تو بہت ہی لذیذ ہو جائے گی .اس میں یہ اضافی عوامل شامل ہو جائیں گے. جب بھی طبیعت کے اندر کسی وجہ سے منفی ردّعمل پیدا ہو گا تو اس سے جب کھیتی لہلہائے گی تو بہت بہار دے گی. اب کونوں کھدروں میں‘ علیحدگی میں گفتگو ہو رہی ہے ‘ آپس میں بظاہر بہت دردمندانہ مشورے ہو رہے ہیں کہ دیکھئے‘ تنظیم میں ہمیں تو اس کی مصلحت مطلوب ہے‘ یہ غلط رُخ پر چلے گئے ہیں‘ ان کا انداز غلط ہے ‘ اس سے تنظیم کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ ہم تو اس کی اصلاح کے لیے کوشاں ہیں ‘ ہم تو اصل میں بھلائی کے لیے یہ سارے مشورے کر رہے ہیں‘ ہمیں کسی سے کوئی ذاتی نفرت اور کدورت نہیں ہے. 

اس حوالے سے وہ الفاظ ذہن میں رکھئے جو سورۃ البقرۃ کے دوسرے رکوع میں آئے ہیں : 
وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾ ’’اورجب اُن سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ مچاؤ (رخنہ اندازی نہ کرو‘ اس نظم کو کمز ور نہ کرو‘ اس میں فتنے نہ اٹھاؤ) تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘. ہم تو اصلاح کے لیے کوشاں ہیں‘ ہمارے مشورے تو اصلاح اور بہتری کے لیے ہیں. یہ تمام کیفیات ایک‘ complex مرض کی علامات ہیں جو بہت سے امراض کا مرکب ہے. اس پورے مرض کے کیا اسباب ہیں؟ میڈیکل سائنس میں کسی مرض کی‘ etymology کے دو حصے ہوتے ہیں: اوّلاً‘ predisposing factors جن کی وجہ سے مرض کے حملہ آور ہونے کے لیے فضا ہموار ہوتی ہے ‘ میدان ہموار ہو جاتا ہے.ثانیاً‘ exciting cause جو مرض کے اُبھرنے کے لیے کوئی فوری سبب بن جاتا ہے . یہ وضاحت ہو چکی ہے کہ یہ مرض کیسے وجود میں آتا ہے.

اس انداز سے جوجتھے بندی وجود میں آتی ہے اس کا نام ’’مظاہرہ‘‘ ہے. یہ 
مظاہرہ‘ جسے ہم اسلامی انقلاب کے ضمن میں باطل کے خلاف اقدام کا ایک عنوان تجویز کر رہے ہیں‘ اگر اس اجتماعیت کے اندر ہونا شروع ہو جائے تو ؏ ’’وہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی‘‘ کے مصداق وہ اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے.وہ گویا دیمک ہے جو اندر سے چٹ کر رہی ہے. اس طرح اس کی ساری اجتماعیت اور اجتماعی قوت ختم ہو جائے گی. تو یہ مظاہرہ کسی اجتماعیت کے اندر نہ ہو.