نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ :
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۶۲﴾لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ ؕ وَ یَوۡمَ یُرۡجَعُوۡنَ اِلَیۡہِ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۶۴﴾ (النور) 

عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۴۳﴾لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۴﴾ اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ ارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ ﴿۴۵﴾وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ﴿۴۶﴾لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۷﴾لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۴۸﴾وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۴۹﴾ (التوبۃ) …صدق اللہ العظیم 


ہمارے منتخب نصاب (۲) میں جو امور زیر بحث آئے ہیں ان سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ایک اسلامی نظمِ جماعت میں مأمورین کو امراء کے ساتھ کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے. ان میں آداب اور قواعد و ضوابط بھی ہیں اور اصلاً اس اجتماعیت کی روحِ رواں کی نشاندہی کی گئی ہے. جہاں تک رخصتوں اور معذرتوں کا معاملہ ہے‘ اس ضمن میں سورۃ النور کی آخری آیات (۶۲ تا ۶۴) اور سورۃ التوبۃ کی آیات (۴۳ تا ۴۹) میں بظاہر ایک تضاد سامنے آتا ہے. اس تضاد کو رفع کرنا اور ان دونوں میں تطبیق کا جاننا ضروری ہے.

سورۃ النور کی آخری تین آیات (۶۲ تا ۶۴) کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کس قدر باریک بینی سے ان امور کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے جن پر کسی اجتماعیت میں ایک عمدہ ماحول اور باہمی اعتماد کی فضا برقرار رہ سکتی ہے. ارشاد ہوتا ہے : 
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ ’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر‘ اور جب وہ ان( )کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں ہوتے ہیں تو وہ وہاں سے ہرگز نہیں جاتے یہاں تک کہ اُنؐ سے اجازت حاصل کر لیں‘‘. یہاں نوٹ کیجیے کہ ’’اِنَّمَا‘‘ کلمۂ حصر ہے.سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کا اسلوب بھی یہی ہے اور وہاں بھی ایمانِ حقیقی کی دو شرائط یا دو لوازم بیان ہوئے ہیں ایک اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور دوسرے اللہ کی راہ میں مال اور جان کے ذریعے جہاد. ارشاد ہوتا ہے : 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 

’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر ‘پھر شک میں نہیں پڑے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. وہی لوگ ہیں سچے .‘‘
ان دو اجزاء میں سے ایک یہاں (سورۃ النور میں) بھی جوں کا توں موجود ہے‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان. دوسرا جزو وہاں 
جہاد فی سبیل اللہ بالمال والنفس ہے‘ جبکہ یہاں اس کی جگہ اس کے لازمی تقاضے کے طور پر اجتماعیت کا ایک وصف لایا گیا ہے ‘کیونکہ جہاد ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ ایک اجتماعیت موجود نہ ہو. یہاں یہ ذہن میں رکھئے کہ نبی اکرم کی یہاں کون سی حیثیت مراد ہے؟ امیر یا سپہ سالار ہونے کی حیثیت! کیونکہ اگر آپؐ مدینہ میں ہیں تو سربراہِ مملکت ہیں‘ اگر کسی غزوہ پر تشریف لے گئے ہیں تو آپؐ کی حیثیت سپہ سالار کی ہے. جب تک آپؐ مکہ مکرمہ میں تھے آپؐ ایک جماعت کے امیر تھے . آپ کی ان تمام حیثیتوں سے بالاتر اور عظیم ترین حیثیت یہ ہے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں. باقی تمام حیثیتیں اس کے تابع ہیں.لیکن ہر جگہ اس حیثیت کو علیحدہ سمجھ لینا چاہیے جس حیثیت کا ذکر اُس خاص مقام پر ہو رہا ہو. یہاں اجتماعی نظم کا معاملہ زیر بحث ہے. اگر انسان اجتماعی نظم کے معاملے میں بے پروا ہو جائے کہ اسے جو حکم ملا ہے اس کے مطابق کام کر لیا تب بھی ٹھیک ہے اور نہیں کیا تب بھی کوئی حرج نہیں ‘ کہیں ساتھ گئے ہوئے ہیں اور کسی ڈیوٹی پر معین کیے گئے ہیں ‘اب جی میں آیا تو کھڑے رہے جی میں نہیں آیا تو وہاں سے چل دیے‘ تو ظاہر ہے کہ یہ طرزِ عمل اجتماعیت کی نفی ہے. اس قسم کے لوگ کتنی ہی کثیر تعداد میں جمع ہو جائیں وہ کبھی بھی جماعت نہیں کہلائیں گے‘ بلکہ وہ ایک ہجوم اور انبوہ ہو گا. علامہ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے ایک شعر میں واضح کیا ہے ؎

عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عیدِ محکوماں ہجومِ مؤمنیں! 

ہجوم تو بہت بڑا جمع ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں کوئی کام ہجوم (mob) سے نہیں ہوا.یہ صرف کوئی منفی کام ہی کر سکتا ہے‘ لیکن کوئی مثبت اور تعمیری کام کرنے کے لیے ایک منظم جماعت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جن کے مراتب (cadres) معین ہوں کہ کون کس کا حکم سنے گا اور مانے گا‘ اس نظم میں کون کس سے بالاتر ہے ‘اس کی تعیین ہو اور اس میں سمع و طاعت کا نظام چل رہا ہو ‘ جوکہ حضور کے بعد لامحالہ سمع و طاعت فی المعروف ہے‘لیکن اس میں سمع و طاعت کی روح برقرار ہو. یہ نہیں کہ جی میں آیا تو مان لیا جی میں نہیں آیا تو نہیں مانا. کسی اجتماع میں بلایا گیا ہے تو اگر طبیعت آمادہ ہوئی تو پہنچ گئے‘ اگر طبیعت آمادہ نہیں ہوئی تو نہیں آئے. چھوٹے چھوٹے عذرات اور معمولی مشغولیتیں اور مصروفیتیں آڑے آئیں. معاشرے کی عام رسومات کو اس کام میں آڑے آنے دینے سے درحقیقت یہ اندازہ ہوتا ہے گویا اس کام کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے. تو فرمایا کہ مؤمن تو بس وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور اُن میں سمع و طاعت کی یہ کیفیت پیدا ہو چکی ہے کہ جب بھی وہ رسولؐ کے ساتھ کسی اجتماعی کام کے ضمن میں ہوتے ہیں تو جب تک اجازت حاصل نہ کر لیں وہاں سے نہیں جاتے. 
آگے اسی بات کو اس کے دوسرے رخ کے حوالے سے بیان کر دیا کہ: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ ’’(اے نبیؐ !) بے شک جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو حقیقتاً اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں‘‘.یعنی جو لوگ آپؐ سے اجازت حاصل کر کے رخصت ہوتے ہیں‘ یا کسی کام پر طلب کیا گیا ہو تو اگر کسی وجہ سے نہیں آ سکتے تو پہلے سے عذر پیش کر کے آپؐ سے اِذن حاصل کر لیتے ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقتاً اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں. ان میں احساس ہے کہ ہمیں اس کام میں شامل ہونا چاہیے تھا‘ حضور جس مہم پر بھیج رہے ہیں اس میں بہ دل و جان شریک ہونا چاہیے تھا. ہمارے ایمان کا تقاضا یہی تھا کہ جب ہم ایک اجتماعی کام کے سلسلے میں حضور کے ساتھ ہیں تو وہاں سے نہ ہلیں جب تک کہ آپؐ سے اجازت طلب نہ کر لیں.ان کا یہ احساس بہت مبارک ہے‘ اور یہ درحقیقت ان کے ایمان کی علامت ہے‘ یہ احساس درحقیقت ان کے احساسِ فرض اور ان کے تصورِ نظم جماعت کا مظہر ہے. یہاں ایک طرح سے ان کی تعریف کی جا رہی ہے. 

آگے ارشاد ہوتا ہے : 
فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ ’’پس جب وہ آپؐ سے اپنے کسی کام کی وجہ سے اجازت طلب کریں تو آپؐ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں‘‘. یعنی جب وہ اپنے کسی معاملے کی وجہ سے آپ ؐ کے سامنے معذرت پیش کریں یا بیماری یا کسی اور اہم مصروفیت کی بنا پر آپؐ سے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیا کریں. نوٹ کیجیے ‘ فرمایا جا رہا ہے کہ جسے آپ چاہیں اجازت دیں. یہ قابل غور بات ہے.یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر کسی نے معذرت کر لی ہے تو اب وہ یہ سمجھے کہ یہ آخری کام تھا جو میں نے کر لیا‘ اب مجھ سے اور کیا مطلوب ہے ؟میں نے نظمِ جماعت کا تقاضا تو پورا کر لیا‘ اب صاحبِ امر پر لازم ہے کہ وہ معذرت قبول کرے. یہ طرزِ عمل بھی اجتماعیت کی نفی ہے. اجتماعیت کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ آپ نے اپنا معاملہ صاحبِ امر کے حوالے کر دیا ہے ‘اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ آپ کے عذر کو قابلِ قبول سمجھتا ہے یا نہیں. اس میں منطقی طور پر یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی کام کی پوری اہمیت سب کو بتا دی جائے. وہ صاحبِ امر ہی جانتا ہے کہ اِس وقت کیا کام درپیش ہے‘ اس موقع کی کیا نزاکت و اہمیت ہے اور اس کے نتائج کتنے دُور رس واقع ہو سکتے ہیں‘ یہ لمحہ اس جماعت‘ تحریک اور دعوت کے لیے کتنا فیصلہ کن ہو سکتا ہے. اب وہ ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا کہ اس کے مقابلے میں میرے ساتھی کے عذر کی کیا نوعیت و اہمیت ہے ‘اس نظم کو اس سے کتنا نقصان واقع ہونے کا اندیشہ ہے‘ اور اس کی معذرت قبول نہ ہونے کی صورت میں اس کو کتنی تکلیف پہنچے گی . ظاہر ہے ہر معاملے میں توازن رکھنا پڑتا ہے. ہو سکتا ہے کہ یہ بات لوگوں کے سامنے بھی ہو‘ لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے سامنے ہو. بلکہ اس بارے میں حضور کی ایک حدیث مبارکہ ہے : اِسْتَعِیْنُوْا عَلَی الْحَوَائِجِ بِالْکِتْمَانِ ’’اپنے مقاصد کے حصول میں اخفاء سے مدد لو‘‘ .اپنے تمام کارڈز ٹیبل پر نہیں رکھ دیے جاتے‘ اپنے تمام منصوبوں کا اعلان نہیں کیا جاتا‘ بلکہ بسا اوقات ایک تحریک میں اور خصوصاً کسی انقلابی تحریک میں ایسے مراحل ناگزیر ہیں کہ آپ کرنا کچھ چاہتے ہوں اور آپ تأثر کچھ اور دیں. آپ نے جانا مشرق کو ہے لیکن کچھ ایسے احوال پیدا کر دیے جائیں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ مغرب کو جا رہے ہیں. چنانچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کو ایک ایک چیز علیحدہ کر کے بتا دی جائے. جس شخص پر امارت کی ذمہ داری ہے وہ اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہے‘ لہذا اگر آپ اس نظم سے منسلک ہیں تو آپ کی روش یہ ہونی چاہیے کہ آپ نے ایک عذر پیش کر دیا‘ اب ذہناً تسلیم کریں کہ صاحب امر کا اختیار ہے‘ اگر وہ میرے عذر کو قابلِ قبول سمجھتا ہے تو ٹھیک ہے‘ نہیں سمجھتا تو دنیا کی کوئی مجبوری و رکاوٹ اور کوئی مشغولیت اس کام سے بڑھ کر اہم نہیں ہے. حقیقت یہ ہے کہ اگر ترجیحات کی تعیین نہ ہوئی تو کام آگے نہیں چلے گا اور قدم قدم پر رکاوٹ پیش آئے گی. چنانچہ اس راہ میں پہلی شرطِ لازم یہی ہے کہ آدمی طے کر لے کہ یہ کام مقدم ہے اور باقی سب کچھ مؤخر ہے ؏ شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی!

ہر تحریک میں ہر مرحلہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ فیصلہ کن ہی ہو‘ لہذا اس موقع کے اعتبار سے اگر آپ نے کوئی عذر پیش کر دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘ لیکن نظم کا تقاضا یہ ہو گاکہ یہ نہ سمجھئے کہ عذر کا پیش کر دینا ہی بس آخری تقاضا تھا جو پورا ہو گیا‘بلکہ انسان کو ذہناً تیار ہونا چاہیے کہ اگر عذر قبول ہو گا تو ٹھیک ہے ‘ورنہ مجھے ہر دوسرے کام پر اِس کام کو ترجیح دینی ہے. 
آگے فرمایا: وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ ’’اور (اے نبیؐ !) ان کے لیے اللہ سے استغفار بھی کیجیے‘‘. اب یہاں نوٹ کیجیے کہ انہوں نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے کہ استغفار کی ضرورت ہے. انہوں نے تو اجازت طلب کی ہے‘ وہ بغیر اِذن کے نہیں گئے ہیں اور ان کو اللہ پہلے سے سند دے چکا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس کے رسول پر. اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کسی دنیاوی مصروفیت کو اتنا اہم سمجھا کہ دین کے کام سے رخصت چاہی اور فی نفسہٖ یہ شے ایک کمزوری کی علامت ہے. ؏ ’’نوارا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کمیابی!‘‘کے مصداق میں یہ بات کبھی اس انداز سے بھی سمجھایا کرتا ہوں کہ فرض کیجیے اگر کوئی بیمار ہے تو کیا شفا آپ کے ہاتھ میں ہے؟ اور اس کی زندگی اور موت کا دار و مدار آپ کی موجودگی پر ہے؟ اگر کسی کا انتقال ہو گیا ہے تو کیا آپ کے وہاں جائے بغیر تدفین نہیں ہو گی؟ یا فرض کیجیے کہ کوئی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہے تو کیا آپ جا کر حضرت عزرائیل کو روک لیں گے؟ اسی بات کا دوسرا رخ دیکھئے! کیا اللہ ہر چیز پر قادر نہیں ہے؟ کیا وہ وہاں آپؐ کے بغیر اس ضرورت کو پورا نہیں فرما سکتا؟ حضور فرماتے ہیں: مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللہُ فِیْ حَاجَتِہٖ (۱’’اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے کسی کام میں لگا ہوا ہو تو اللہ اس کے کام کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے‘‘. یہ تو انسانوں کا باہمی معاملہ ہے‘ آپ اپنے کسی بھائی یا رفیق یا کسی عزیز کے کام میں لگے ہوئے ہیں تو اللہ آپ کے کام میں لگ جاتا ہے‘ تو آپ سوچئے کہ اگر آپ اللہ کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو کیا اللہ آپ کے کام میں نہیں لگے گا؟ بقول شاعر ؎

کار سازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر ما در کارِ ما آزارِ ما!
یعنی میرا کارساز میرے کام کی فکر میں ہے اور اپنے کام کی خود فکر کرنا میرے لیے آزار کا موجب بن جاتا ہے . انسان کی فکر محدود ہے ‘ علم محدود ہے اور عقل محدود ہے ‘تو جب وہ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المظالم والغضب‘ باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ.

وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم. 
خود فکر کرے گا‘ خود تدبیر کرے گا تو لازماً ٹھوکر کھائے گا اور اپنے لیے مصیبت کھڑی کر لے گا. تو کیا ’’تفویض الامر الی اللہ‘‘ آسان ترین نسخہ نہیں ہے کہ ’’اپنے کام کو اللہ کے حوالے کر دو‘‘. اور کسی کام کا اللہ کے حوالے کر دینے کا انتہائی یقینی طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے کام میں لگ جائیں. ویسے تو آپ خود تدبیر کرتے ہوئے بھی اللہ سے دعا مانگ سکتے ہیں لیکن اگر آپ اللہ کی نصرت کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ لازماً آپ کی نصرت کرے گا. اس لیے کہ کسی شریف اور بامَروّت انسان سے بھی یہ بات بعید ہے کہ آپ اس کے دست و بازو بنیں اور وہ آپ کو تن تنہا چھوڑ دے‘ تو اللہ کے بارے میں کیسے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دے! اور دین کا کام ایک طرح سے اللہ کی نصرت ہے ‘جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ(الصف:۱۴’’اے اہل ایمان! اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کے معاملے میں؟‘‘ ایک اور جگہ فرمایا : وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ (الحدید:۲۵’’اوراللہ جاننا چاہتا ہے (ظاہر کر دینا چاہتا ہے) کہ کون ہیں اس کے وفادار بندے جو اُس کی اور اُس کے رسول کی مدد کرتے ہیں غیب میں ہونے کے باوجود‘‘. یعنی فی الاصل تو یہ ایک کمزوری ہے ‘ البتہ جنہوں نے آپ سے اجازت طلب کرنے کی پروا ہی نہیں کی‘ جنہیں نظم کا سرے سے احساس ہی نہیں ہے ‘ان سے تو یقینا بہتر ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنا عذر پیش کیا ‘ معذرت کی اور اجازت طلب کی. لیکن فی الاصل یہ ایک کمزوری کی بات ہے.دین کے اس کام میں تو ایسا ہونا چاہیے کہ ’’ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم!‘‘ کہ جو کچھ بھی ہو ‘ ہم تو اب دریا میں اپنی کشتی ڈال چکے ہیں اور ہم نے اپنے تمام معاملات بہ تسلیم و رضا اللہ کے حوالے کر دیے ہیں. ؎

سپردم بہ تو مایۂ خویش را 
تو دانی حسابِ کم و بیش را!

اس ضمن میں سورۃ التغابن کے درس میں جو چیزیں آتی ہیں‘ یعنی تفویض الامر اور تسلیم و رضا‘ ان تمام کیفیات کو یہاں اپنے ذہن میں لے آیئے. تو فرمایا : فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۶۲﴾ ’’تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ سے معافی طلب کریں‘یقینا اللہ غفور ہے‘ رحیم ہے‘‘. اور اسی کا ایک عکس ‘جیسا کہ سورۃ التغابن میں فرمایا‘ تمہیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے . اس حوالے سے امراء کے لیے کیا ہدایات ہیں یہ بات اگلے درس میں آئے گی‘ لیکن یہاں یہ نوٹ کر لیجیے کہ حضور کا طرزِ عمل یہی تھا کہ آپؐ سے جو بھی آکر عذر پیش کرتا آپؐ جرح کیے بغیر اُس کا عذر قبول کر لیتے اور رخصت عطا کر دیتے تھے. اس لیے کہ خواہ مخواہ کسی کے لیے ایک ایسی آزمائش پیدا کردینا یا اس کے لیے فوری طورپر کوئی بڑا امتحان لے آنا خلافِ مصلحت ہے. اس کی حقیقت آگے چل کر کھلے گی. پھر یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر محسوس بھی ہو کہ میرے کسی ساتھی نے اس وقت کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے تب بھی اس کے لیے استغفار کریں اور خود بھی اسے معاف کریں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بھی تو غفور ہے‘ رحیم ہے. سورۃ التغابن کی یہ آیت ذہن میں تازہ کیجیے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یقینا تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘ پس ان سے ہوشیار رہو‘ اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تویقینا اللہ غفور ہے‘ رحیم ہے.‘‘

یعنی اپنے اہل و عیال کی تربیت کے اعتبار سے جو روش اَنصب ہے وہی اختیار کرنی چاہیے اور وہی روش امراء کو اپنے مأمورین کے ساتھ اختیار کرنی چاہیے. اب یہاں بظاہر خطاب تو حضور سے ہے لیکن اصل میں بالواسطہ طور پر خطاب کا رُخ لوگوں کی طرف ہے کہ تم اپنی جگہ پر یہ سمجھ لو کہ دین کے اس کام سے عذر پیش کرنا اور رخصت 
طلب کرنا فی الاصل ایک کمزوری ہے. یہ اس بات کی علامت ہے کہ یا تو اللہ پر توکل میں کمی ہے یا آپ ابھی مطمئن نہیں ہیں کہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کر دیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان میں خامی اور کمی ہے. ؏ نغمہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی!

اب آگے چلیے . فرمایا: 
لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ ’’مت ٹھہراؤ رسول کے بلانے کو اپنے مابین اس طرح جیسے تمہارا ایک دوسرے کو بلا لینا‘‘. یہاں لفظ دعا (پکارنا‘ بلانا) محتمل المعنیین ہے اور اس کے دونوں مفہوم مراد لیے گئے ہیں . یہاں ’’رسولؐ کو بلانا‘‘ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ آپ رسول ؐ کو بلا رہے ہوں اور ’’رسولؐ کا بلانا‘‘ بھی ہو سکتا ہے کہ رسول ؐ آپ کو بلا رہے ہوں. یہ پکارنا دو طرفہ مفہوم کا حامل ہے. اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ رسول سے گفتگو کرنے کو تم ایسا نہ سمجھ لو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو. آپ کا ادب و احترام اور اُن کی تعظیم ملحوظ نہیں رکھو گے تو اس اجتماعیت کو نقصان پہنچے گا جس کی شیرازہ بندی رسول کی مرکزی شخصیت کے گرد ہو رہی ہے. یہ مضمون سورۃ الحجرات میں پورے شرح و بسط کے ساتھ آ چکا ہے :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳
’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو‘ اور ان سے اس طرح بلند آہنگی سے بات نہ کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو‘ مبادا تمہارے سب اعمال غارت ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو. حقیقت میں تو وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو رسول کے سامنے پست رکھتے ہیں وہی ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے. ان کے لیے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہے‘‘.

وہاں واقعات کے پس منظر میں ہدایات بھی آ گئیں. فرمایا: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵

’’یقینا جو لوگ پکارتے ہیں آپؐ کو حجروں کے باہر سے اُن میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے. اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی طرف نکل آتے تو یہ اُن کے حق میں بہتر تھا ‘اور اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘.

تو یہ رُخ بھی یہاں مراد ہو سکتا ہے جو ہمارے اس منتخب نصاب میں سورۃ الحجرات میں آگیا ہے. یہاں ایک بات اور نوٹ کر لیجیے کہ اسی ادب و احترام کا ایک عکس اپنے امراء کے لیے ہونا چاہیے. بیعت ارشاد میں بھی یہی آداب تلقین کیے جاتے ہیں کہ جس مرشد کے ساتھ آپ نے اپنا ایک تعلق قائم کیا ہے‘ آپ اس سے ایک رہنمائی چاہ رہے ہیں‘ اس کی ہمت سے آپ اپنی ہمت کی تقویت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اگر اس کا ادب و احترام نہیں ہو گا تو آپ ہی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ ان کا کیا بگڑے گا!جیسے کہا جاتا ہے : با ادب بانصیب‘ بے ادب بے نصیب. یہاں پر وہ معاملہ درجہ بدرجہ اس نظمِ جماعت میں بھی ہے کہ ہر شخص اپنے سے بالاتر کے ساتھ یہی انداز اختیار کرے. اسی کی انتہائی شکل آپ کو ملٹری ڈسپلن میں ملتی ہے. اپنے سے بالاتر کو سلیوٹ کرنا اسی حوالے سے ہے. اگر یہ نہیں کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس نظم اور ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں ہو رہا. لہذا اپنے امراء کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ نہ صرف بالفعل موجود ہو بلکہ ظاہر بھی ہو رہا ہو‘ اس کی ایک فضا طاری ہو جائے .ان آداب کے اعتبار سے یہ تو ایک پہلو ہو گیا.

دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ کو رسول نے بلایا اور طلب کیا ہے تو اسے کسی دوسرے کے طلب کرنے کے برابر نہ ٹھہرا لو. کسی اور کی طلبی پر آپ حاضر ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہو گا. اسے تھوڑی سی شکایت ہو جائے گی ‘ وہ کچھ گلہ و شکوہ کر لے گا لیکن رسولؐ کے بلانے کو اس پر قیاس نہ کر لینا. اس کو بھی ذہن میں رکھئے کہ ایک تو بحیثیت رسول ان کا بلند ترین مقام ہے‘ لیکن اسی میں ہمارے لیے رہنمائی اور تعلیم 
مضمر ہے کہ اسلامی نظمِ جماعت میں امیر کا طلب کرنا اپنے کسی دوست‘ کسی بھائی یا کسی عزیز کا طلب کرنا نہیں ہے. اس نظمِ جماعت کی طرف سے جب طلب کیا جائے تو نقشہ وہی ہونا چاہیے جو اِن اشعار میں بیان ہوا ہے ؎

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریتِ جاں ‘ راحتِ تن ‘ صحتِ داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہلِ ہوس کی!

یہ دو اشعار بہت عمدہ ہیں اور یہ تحریکی مزاج کے عکاس ہیں کہ کسی انقلابی جماعت میں شریک لوگوں کا کیا انداز ہونا چاہیے. یہ کہ جیسے ہی گھنٹی بجی اور اس جرس کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچی‘ تو آواز تنہا واپس نہیں گئی‘ ہم اس کے ساتھ ہی گئے. اس راستے میں جو چیزیں رکاوٹ بن سکتی ہیں‘ خیریتِ جاں‘ راحتِ تن‘ صحتِ داماں‘ ان میں سے کوئی چیز بھی راستے میں رکاوٹ نہیں بنی.
 
بہرحال جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں‘ عذر پیش کرنا فی الاصل کمزوری کا اظہار ہے. کیوں نہیں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کرتے؟ کیوں نہیں اپنے معاملات سے بے فکر ہو کر اس کام میں لگ جاتے؟ 

آگے فرمایا : 
قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ ’’اللہ اُن کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے چپکے سے کھسک جاتے ہیں‘‘. ’’قَدْ‘‘ کے آنے سے بات میں ایک قطعیت پیدا ہوتی ہے.یہ عام طور پر فعل ماضی پر آتا ہے اور اس کو ’’فعل حال مکمل‘‘ (Present Perfect Tense)میں تبدیل کر دیتا ہے. یہاں یہ مضارع پر آ رہا ہے اور اس سے مراد ہے کہ یہ معاملہ ایک ہی واقعہ سے متعلق نہ سمجھنا‘ بلکہ اللہ کایہ معاملہ دائمی ہے‘ جاری و ساری ہے اور اس میں قطعیت اور حتمیت ہے.یہاں لفظ ’’ یَتَسَلَّلُوۡنَ ‘‘ استعمال ہوا ہے . سَلَّ . یَسُلُّ کا مطلب ہے نیام سے تلوار کھینچ لینا‘ تلوار سونت لینا.باب تفعل میں تَسَلَّلَ . یَتَسَلَّلُ کا مطلب ہو گا کھنچ جانا‘ خود نکل جانا. بہترین ترجمہ ہو گا کھسک جانا.یعنی اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہیں تم میں سے وہ لوگ جو کھسک جاتے ہیں ایک دوسرے کی اوٹ لے کر. حضور نے طلب کیا ہے تو جمع تو ہو گئے. لیکن اب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں مسئلہ کیا ہے. شاید کوئی عام بات ہو‘ یا ویسے ہی مشورہ ہو‘ یاکوئی سماجی قسم کا معاملہ ہو ‘اس مغالطے میں پہنچ تو گئے .آگے جا کر معلوم ہوا کہ کوئی جیش بھیجنا ہے‘ لشکر کی روانگی کا فیصلہ ہے . حضور نے مطالبہ رکھا ہے کہ اِنۡفِرُوۡا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا ’’نکلو اللہ کی راہ میں خواہ ہلکے ہو یا بوجھل‘‘. لہذا اب جان پر بنی ہوئی ہے کہ کسی طریقے سے نظر بچا کر کھسک جائیں. ان الفاظ میں ایک پوری ذہنیت کا نقشہ موجود ہے کہ جوجان کترا کر نکل جاتے ہیں. حالانکہ اہل ایمان کا معاملہ تو اس کے برعکس یہ ہوتا ہے ؎

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں!

ایک اور مقام پر اس ذہنیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۱﴾ (الحج)
’’اورلوگوںمیں سے وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے کنارے‘ پس اگر اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو اس سے مطمئن ہو جاتا ہے‘ اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے (کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے)تو اپنے چہرے کے بل واپس پلٹتا ہے. اس نے دنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی. یہ ہے صریح خسارہ‘‘.

چنانچہ آگے فرمایا: 
فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۳﴾ ’’تو ڈرنا چاہیے ان لوگوں کو جو رسولؐ کے معاملے کی مخالفت کر رہے ہیں مبادا اُن پر کوئی بہت بڑا فتنہ مسلط ہو جائے یا اللہ کی طرف سے اُن پر کوئی دردناک عذاب مسلط کر دیا جائے‘‘. 

اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ’’خبردار رہو ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے‘‘. لِلّٰہِ کے شروع میں جو لام ہے یہ لامِ تملیک بھی ہے اور ’’لامِ استحقاق‘‘ بھی. یہ قدرت کے لیے بھی ہے ‘یعنی جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے‘ اللہ ہی کے دستِ قدرت میں ہے ‘کوئی چیز اُس کی قدرت سے باہر نہیں‘ کوئی چیز اُس کے اختیار سے آزاد نہیں. تمام عناصرِ فطرت اُس کے حیطۂ قدرت میں ہیں. تمام سلسلۂ اسباب و علل اُس مسبّب الاسباب کے قبضۂ قدرت میں ہیں. لہذا یہ نہ سمجھو کہ تم چلے جاؤ گے تو یہ ہو جائے گا اور تم گھر میں نہیں رہو گے تو یہ ہو جائے گا. ہو گا وہی جو اِذنِ ربّ ہو گا .اور اگر تم اس کے ساتھ اپنے معاملے کو درست رکھو تو وہ تمہارے معاملے کو درست کرے گا. قَدۡ یَعۡلَمُ مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَیۡہِ ؕ ’’ تم جس روش پر ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘. بامحاورہ ترجمہ ہو گا کہ تم جتنے پانی میں ہو اُس سے چھپا ہوا نہیں ہے. جس روش پر تم ہو وہ اس کے علم میں ہے . ایمان کتنا کچھ ہے ‘ اس میں نفاق کس حد تک سرایت کر گیا ہے‘ اس میں کس حد تک واقعتا آخرت کی ترجیح ہے اور کس حد تک دنیا طلبی شامل ہو گئی ہے‘ اللہ خوب جانتا ہے. وَ یَوۡمَ یُرۡجَعُوۡنَ اِلَیۡہِ فَیُنَبِّئُہُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا ؕ ’’اور جس دن وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے تو وہ ان کو (اپنے علمِ کامل کی بنا پر) جتلا دے گا (بتا دے گا) جو کچھ کہ انہوں نے عمل کیا تھا‘‘. وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿٪۶۴﴾ ’’اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘.

اب آیئے دوسرے مقام کی طرف .یہ سورۃ التوبۃ کی آیات ۴۳ تا ۴۹ پر مشتمل ہے. یہاں پس منظر میں غزوۂ تبوک اور اس کے لیے نفیر عام ہے‘ لہذا 
یہاں جو ایک بہت بڑا بنیادی فرق ہے اگر پہلے اس کو سمجھ لیا جائے تو دونوں مقامات کے مابین جو ظاہری تضاد نظر آتا ہے اس کو رفع کرنے میں مدد ملے گی. نبی اکرم کی حیاتِ دُنیوی کے دوران جتنی بھی جنگیں اور غزوات ہوئے اور آپؐ نے جتنے بھی سرایہ بھیجے‘ کبھی بھی آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس میں ہر مسلمان کا شریک ہونا لازمی ہے ‘بلکہ سارا دار و مدار ترغیب و تشویق پر ہوتا تھا کہ لوگو !نکلو اللہ کی راہ میں اور جنت حاصل کرو. سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ کے مصداق ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو . لیکن غزوۂ تبوک کے موقع پر نفیر عام ہوئی اور سب کے لیے نکلنا لازم قرار دیا گیا‘ اِلّا یہ کہ کوئی شخص عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرے. تو اس طرح کا لزوم صرف غزوۂ تبوک کے موقع پر ہوا. اب ظاہر ہے کہ وہاں منافقین کثیر تعداد میں موجود تھے. 

یہ ۹ھ تھا اور اُس وقت تک یہ شجرۂ خبیثہ پورے طور پر برگ و بار لا چکا تھا. اب وہ آ رہے ہیں اور جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر اللہ کے رسول  سے اجازت طلب کر رہے ہیں.اور آپ کی مروّت کا یہ عالَم تھا کہ آپؐ نے کبھی کسی جھوٹے کو اس کے مُنہ پر جھوٹا نہیں کہا. یہ نہ سمجھئے کہ رسول اللہ ان کے حالات سے بے خبر تھے. یہ تو ہر صاحب بصیرت شخص اندازہ کر لیتا ہے کہ فلاں شخص اِس وقت جھوٹ بول رہا ہے اور اس شخص کی اصل کیفیت کیا ہے. نبی اکرم نے تو عام اہل ایمان کے بارے میں فرمایا: اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ (۱’’مؤمن کی فراست سے ڈرو‘ اس لیے کہ وہ تو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘.تو آپ غور کیجیے کہ رسول اللہ کی فراست کا عالم کیا ہو گا! لیکن رسول اللہ اچھی طرح جاننے کے باوجود اُن کے عذر تسلیم کر لیتے تھے اور انہیں رخصت دے دیتے تھے.اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ وہ جری ہو کر استہزاء کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ ’’ھُوَ اُذُنٌ‘‘ کہ یہ تو صرف کان ہی کان ہیں. گویا اِن کے دماغ میں (معاذ اللہ) بھیجا نہیں ہے ‘ہم جھوٹ بولتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں ‘ ہم جا کر بالکل بغیر کسی حقیقت کے کوئی بناوٹی عذر پیش کرتے ہیں اور وہ تسلیم کر لیتے ہیں‘ جو چاہو اِن کے کان میں اُتار دو یہ اسے تسلیم کر لیتے ہیں. اس سے آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ نبی اکرم کی یہ عادت کس قدر راسخ تھی کہ جس نے عذر پیش کیا آپؐ نے قبول کر لیا. اس میں یقینا مصلحت یقینا تھی‘ جو آگے بیان ہو جائے گی. جو بھی چیز اخلاقِ عالیہ و فاضلہ کے مطابق ہو گی اس میں مصلحت یقیناہو گی‘ لیکن اگر کسی وقت بالفعل کوئی مصلحت نظر نہ آئے تو بھی کوئی حرج نہیں‘ آدمی اس پر اپنے اخلاق کے تقاضے کے اعتبار سے (۱) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃ الحجر. عمل کرتا ہے. 

یہاں ذرا گرفت کا انداز ہے. رسول اللہ کو کچھ ٹوکا گیا ہے کہ عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ یہ ’’انشائیہ‘‘ کلمہ بھی ہو سکتا ہے اور خبریہ بھی ہو سکتا ہے. جیسے ’’رضی اللہ عنہم‘‘ خبریہ کلمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’اللہ اُن سے راضی ہو گیا‘‘ اور دعائیہ کلمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’اللہ اُن سے راضی ہو جائے‘‘. تو یہاں بھی دو ترجمے ہوں گے. ایک یہ کہ ’’اللہ نے آپؐ کو معاف فرما دیا‘‘. یہ کلام خبریہ ہے .اور دوسرا یہ کہ ’’اللہ آپؐ کو معاف فرمائے‘‘. یہ کلامِ انشائیہ ہے. لیکن کس بات پر؟ فرمایا: لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۴۳﴾ ’’ آپؐ نے ان کو اجازت کیوں دی (آپ نے ان کا عذر کیوں قبول کیا)؟ یہاں تک کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ کون ہیں جو (اپنے ان عذرات میں) سچے ہیں اور آپ جان لیتے کہ کون ہیں جو جھوٹے ہیں‘‘. 
نوٹ کیجیے کہ یہاں بھی وہی الفاظ آئے ہیں جیسے سورۃ العنکبوت کے آغاز میں آئے ہیں. وہاں فرمایا: 
فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾ ان الفاظ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ’’پس اللہ لازماً جان کر رہے گا ان لوگوں کو جو سچے ہیں اور لازماً جان کر رہے گا ان کو بھی جو جھوٹے ہیں‘‘.لیکن چونکہ اللہ تو جانتا ہے‘ اس کا علم تو کامل ہے ‘لہذا ہم ترجمہ اس طرح کرتے ہیں : ’’پس اللہ لازماً ظاہر کر دے گا کہ کون سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں‘‘. اسی سورۃ میں آگے چل کر پھر یہ بات آئی کہ : وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ﴿۱۱﴾ ’’اوراللہ لازماً کھول کر رکھ دے گا کہ کون مؤمن صادق ہیں اور لازماً کھول کر رکھ دے گا کہ کون منافق ہیں‘‘. تو یہاں پر بھی وہی بات ہے. ظاہر ہے کہ یہ کسی آزمائش ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کون کیا ہے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جاتا ہے. جب آپ نے عذر قبول کر لیا تو آزمائش ختم ہو گئی اور ان کے نفاق پر پردہ پڑا رہ گیا. اگر آپ تحقیق کرتے اور پھر آپ کہتے کہ نہیں یہ عذر تو اس قابل نہیں ہے کہ اسے قبول کیا جائے‘ ذرا دیکھئے تو سلطنتِ روما سے ٹکراؤ شروع ہو چکا ہے‘ کتنا نازک وقت ہے جو اسلام اور عالمِ اسلام پر آ گیا ہے اور آپ لوگ اپنے ان عذرات کو پیش کر رہے ہیں‘ آپ کا عذر قبول نہیں ہے. اگر آپؐ یہ کہہ دیتے تو اب ان کے لیے امتحان ہو جاتا. جانا تو انہوں نے پھر بھی نہیں تھا‘ لیکن واضح تو ہو جاتا کہ ان کے اندر سرکشی ہے ‘ تمرّد ہے‘ معصیت اور نافرمانی ہے.جب آپؐ نے اجازت دے دی ‘ معذرت قبول کر لی تو اُن کے نفاق کا پردہ چاک نہیں ہوا. 

آگے فرمایا: 
لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ ’’یقینا جو لوگ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپؐ سے یہ رخصت نہیں چاہ سکتے (معذرت نہیں کر سکتے) کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اپنے جان اور مال سے‘‘. وہ کبھی عذر پیش کر کے یہ درخواست نہیں کریں گے کہ انہیں دل و جان کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے. یہ تو ایمان کا لازمی تقاضا ہے ‘ لہذا اہل ایمان اس سے کیسے رخصت طلب کریں گے؟ 

یہ ہے وہ ظاہری تضاد جو اِن دو مقامات پر نظر آتا ہے. وہاں (سورۃ النور میں) الفاظ ہیں: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ ’’(اے نبی!) یقینا جو لوگ آپؐ سے اِذن طلب کرتے ہیں وہی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ اور اس کے رسول پر‘‘. جبکہ یہاں فرمایا کہ ’’جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو اِذن طلب نہیں کرتے‘‘. یہ بظاہر ایک دوسرے کے برعکس باتیں ہیں لیکن حقیقت کے اعتبار سے ان میں کوئی تضاد نہیں.ایک تو اس کی تأویل خاص ہے کہ سورۃ التوبۃ کی آیات غزوۂ تبوک کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں‘ لیکن اس سے قطع نظر عام حالات میں بھی اس کی تطبیق یوں کی جا سکتی ہے کہ اگر تین سیڑھیاں ہوں جیسے منبر کی ہوتی ہیں‘ تو ظاہر ہے کہ پہلی سیڑھی سے دوسری بلند تر ہے‘ لیکن تیسری کے مقابلے میں یہ پست تر ہے. چنانچہ بلندی اور پستی اضافی (relative) چیزیں ہیں. یہ بات اگر سامنے رکھی جائے کہ کون سی شے کس کے حوالے سے پست ہے اور کس کے حوالے سے بلند ہے تو پھر اس کے تین درجے ہوں گے. اصل درجہ جو مطلوب ہے وہ یہ کہ رخصت طلب ہی نہ کی جائے‘ اس لیے کہ اگر آپ کو اللہ کی قدرت پر اور اس کے مسبّبُ الاسباب ہونے پر یقین ہے‘ آپ مانتے ہیں کہ اللہ آپ کی ضروریات کو آپ سے بہتر جانتا ہے اور وہ آپ کے مسئلے کو خود آپ کے انداز سے کہیں بہتر طور سے حل کر سکتا ہے تو پھر عذر کی گنجائش کہاں سے نکلے گی؟تو جو کوئی بھی واقعتا ان باتوں پر ایمان رکھتا ہے وہ تو عذر پیش نہیں کرے گا‘ رخصت نہیں چاہے گا. لیکن اس سے نیچے آیئے تو معلوم ہوگا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوچپکے سے گھر بیٹھے رہتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں شریک ہی نہیں ہوتے‘ یا وہاں سے خاموشی سے کھسک جاتے ہیں. ایسے لوگ نہ عذر پیش کرتے ہیں اور نہ رخصت طلب کرتے ہیں. لہذا ان کے مقابلے میں عذر پیش کرنے والے صاحبِ ایمان قرار پائے کہ اِن کے مقابلے میں اُن کے ایمان کی نفی ہو جائے گی جو عذر بھی پیش نہیں کرتے. لیکن جو معیارِ مطلوب اور مقامِ مقصود ہے اس کے اعتبار سے معذرت اور رخصت طلب کرنا گویا ایمان کی نفی کے مترادف ہے. چنانچہ یہ درحقیقت relative معاملہ ہے. 

اس میں دوسرا پہلو تأویلِ خاص کا ہے کہ جب نفیرِ عام نہ ہو تو عذر کا طلب کیا جانا کچھ اور معنی رکھتا ہے‘ اور جب اس شدت کے ساتھ حکم دیا گیا ہو کہ اب ہر ایک کو نکلنا ہے تو اس سے موقع کی جو نزاکت سامنے آتی ہے اس کے اعتبار سے عذر طلب کرنا کوئی اور معنی رکھے گا. تو ان دونوں پہلوؤ ں سے ان کے مابین تطبیق کو جان لینا چاہیے . آگے ارشاد ہے : 
وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۴﴾ ’’اور اللہ جانتا ہے ان کو کہ جن کے دلوں میں تقویٰ ہے‘‘. جن میں ایمان ہے‘ خشیت ہے‘ انابت ہے. وہ اللہ کی رضا جوئی میں سرگرداں اور سرگرم ہیں.

آگے فرمایا: 
اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ’’یقینا (اے نبیؐ !) جو لوگ آپ سے (اس موقع پر بھی) اجازت طلب کرتے ہیں یہ تو وہی ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘‘ وَ ارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ ﴿۴۵﴾ ’’اور ان کے دل (ریب اور) شک کے اندر مبتلا ہو چکے ہیں (ان کے دلوں میں شکوک و شبہات نے ڈیرے جما لیے ہیں) تو وہ اپنے اس شک کی وجہ سے متردّد ہو کر رہ گئے ہیں‘‘. رَدَّ . یَرُدُّ کا مطلب ہے ’’لوٹا دینا‘‘ اور باب تفعل میں اس کا مطلب ہوتا ہے ’’خود لوٹنا‘‘. جبکہ مُتَرَدِّدٌ ہو گا ’’خود لوٹنے والا‘‘. تو گویا یہ متردّد ہو کر رہ گئے ہیں کہ آگے بڑھیں نہ بڑھیں! چلیں نہ چلیں! اسی کو تَرَبُّص کہا گیا ہے. 

آگے ارشاد ہے : 
وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً ’’اور اگر ان کا واقعی (اللہ کی راہ میں) نکلنے کا ارادہ ہوتا تو انہوں نے اس کے لیے تیاری کی ہوتی (اہتمام کیا ہو تا‘ سامان جمع کیا ہوتا)‘‘. ان کا طرزِ عمل بتا رہا ہے کہ ان کی نیت خراب تھی‘ عین وقت پر آ کر کہہ دیا کہ میری یہ مجبوری ہے‘ جبکہ اس کے لیے اہتمام سرے سے کیا ہی نہیں. انہوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئی بھاگ دوڑ نہیں کی. ان کا اصل ارادہ تو اس سے ظاہر ہو رہا ہے . اگر ان کا واقعی نکلنے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے. وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ ’’اورلیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہیں تھا‘‘. اب یہاں سے تصویر کا دوسرا رُخ شروع ہو رہا ہے. یہ ایک عظیم حقیقت ہے کہ اگر کسی کو توفیق نہیں ملی تو یہ بھی کوئی اندھی‘ بہری کائنات نہیں ہے‘ اس میں ایک ایسی ہستی کا ارادہ کارفرما ہے جو سمیع اور بصیر ہے‘ حیّ اور قیوم ہے‘ علیم اور خبیر ہے. اگر کسی کو توفیق نہیں ملی تو یہ بھی اللہ کا فیصلہ ہے کہ ان کو توفیق نہ ملے. یہ اللہ ہی نے نہیں چاہا کہ وہ نکلیں ‘ اللہ ہی نے ان کا نکلنا پسند نہیں کیا. فَثَبَّطَہُمۡ ’’پس انہیں جما دیا‘‘. زمین میں ان کو گاڑ دیا. ان کے پاؤ ں منوں کے ہو گئے ‘وہ نکل نہیں پائے. وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ﴿۴۶﴾ ’’اور (انہیں) کہا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ‘‘. اصل میں توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور اس کا بھی اس نے قاعدہ بنایا ہے کہ جس کا ارادہ ہو گا اسی کو توفیق ملے گی‘ جس کا ارادہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ اسے زبردستی توفیق دے تو کائنات کا سارا نظم ہی درہم برہم ہو جائے گا. یہ تو امتحان گاہ ہے. جیسے کہا گیا ہے : خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲)’’اس نے موت اور حیات کو تخلیق کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے عمل کے اعتبار سے اچھا‘‘. وہ لشکر کے ساتھ کسی کو زبردستی نکال دیا کرے تو نکلنے والوں کا کوئی کریڈٹ نہیں رہے گا اور نہ نکلنے والے قصوروار قرار نہیں پائیں گے. اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ سابقہ اور حکمتِ تخلیق کے مطابق ہے کہ جن کا ارادہ نہیں ہوتا انہیں اللہ بھی دفع کرتا ہے .جیسے سورۃ التوبۃ میں کہا گیا ہے: فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ (آیت ۲۴’’توجاؤ (دفع ہو جاؤ) انتظار کرو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا آخری فیصلہ سنا دے‘‘. لہذا اللہ ہی نے نہیں چاہا کہ وہ نکلیں اس کی راہ میں. 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے کیوں نہیں چاہا؟ یہ تصویر کا دوسرا رُخ ہے. فرمایا: 
لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا ’’اگر یہ تمہارے ساتھ نکلتے (اس مہم میں تمہارے مابین ہوتے) تو نہ اضافہ کرتے تمہارے لیے مگر برائی کا‘‘. یہ حقیقت ہے کہ شکوہ سنج اور ناراض افراد (disgruntled element) سے کوئی خیر وجود میں نہیں آتا.اس لیے کہ بے دلی سے کام کرنے والا کام بنائے گا کم اور بگاڑے گا زیادہ. وہ بدگمانیاں پیدا کرے گا‘ طرح طرح کے شوشے چھوڑے گا اور لوگوں میں انتشار پیدا کرے گا. تو ایسے لوگوں کا اس جمعیت میں ہونا تو درحقیقت ایک بالقوہ کمزوری (potential weakness) ہے. تعداد زیادہ ہونا ہر حال میں مفید نہیں ہے. اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا کہ اس قسم کے تھڑدلے‘ خام ارادے رکھنے والے اور دنیا پرست لوگ تمہاری صفوں میں ہوں. وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ ’’اور تمہارے مابین فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھوپ کرتے‘‘. ان کی ساری بھاگ دوڑ اسی میں ہوتی کہ وہ تمہارے لیے فتنوں کی تلاش میں کہیں سے کوئی بات اُ چک کر دوسری جگہ جا کر اسے ہوا دیں اور بے اطمینانی پیدا کریں.کہیں اَوس اور خزرج کے مابین پرانی عصبیتوں اور حمیتوں کی چنگاری بھڑکا کر انہیں آپس میں ٹکرانے کی کوشش کریں. اس طرح تو بہت اچھا ہوا کہ تمہاری جمعیت جو نکلی وہ خالص جمعیت تھی اور وہ ان عناصر سے پاک رہی.

آگے فرمایا: 
وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ اس کے بھی دونوں ترجمے مراد ہیں اور دونوں ہی نہایت حکیمانہ ترجمے ہیں. لفظی ترجمہ یہ ہو گا : ’’تم میں ہیں وہ لوگ جو بہت سننے والے ہیں ان کے لیے‘‘. اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اے مسلمانو! تمہاری صفوں میں وہ لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں بڑے دھیان سے‘ کان لگا کر اور دلی آمادگی سے سنتے ہیں. پرنالہ وہیں گرتا ہے جہاں نشیب ہو . تو وہ نشیب ان کے اندر موجود ہے لہذا پوری توجہ سے ان کی باتیں سنتے ہیں. اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے مابین ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کے لیے سنتے ہیں ‘یعنی تمہاری خبریں وہاں پہنچانے کے لیے تمہارے درمیان موجود ہیں.یہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں جاسوسی کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں‘ درحقیقت ان کی حیثیت آلاتِ ترسیل (transmitters) کی ہے. یہ لوگ تمہاری باتیں خوب کان لگا کر سنتے ہیں کہ کوئی خبر رہ نہ جائے‘ کیونکہ انہوں نے فتنے کی آگ بھڑکانے کے لیے یہ باتیں ان تک پہنچانی ہوتی ہیں. وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘. اللہ کی نگاہوں سے وہ چھپے ہوئے نہیں ہیں. 
آگے فرمایا: 
لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۴۸﴾ ’’اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں‘ یہاں تک کہ حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے رہے‘‘.

اب یہ وہ تاریخی پس منظر ہے کہ اے نبیؐ ! یہ آپ کے لیے پہلے سے بہت سے فتنے اٹھا چکے ہیں ‘بہت سے مواقع پر انہوں نے فتنوں کی آگ بھڑکائی ہے اور آپؐ کے لیے معاملات کو تلپٹ کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا. 
قَلَّبَ‘ یُقَلِّبُ ‘ تَقْلِیْبًا کامطلب ہے بدل دینا‘ کسی شے کو الٹ دینا.جیسے ارشاد ہوا : وَ نُقَلِّبُ اَفۡـِٕدَتَہُمۡ وَ اَبۡصَارَہُمۡ کَمَا لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٖۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (الانعام:۱۱۰’’اورہم پلٹ دیں گے ان کے دلوں اور نگاہوں کو اسی طرح جس طرح یہ پہلی مرتبہ (حق کا انکشاف ہونے کے باوجود) اس (کتاب) پر ایمان نہیں لائے تھے‘‘. تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ آپ کے لیے معاملات کو تلپٹ کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے رہے ہیں‘ یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا امر ظاہر ہو گیا. یہ جو حق آیا ہے یہ انہیں پسند نہیں ہے .ان کو تو بڑی ناگواری ہے. لیکن ان کی ناپسند اور ناگواری کے علی الرغم اللہ کا فیصلہ آ گیا ہے. آپ کو معلوم ہے کہ اُس وقت تک جزیرہ نمائے عرب میں تو رسول اللہ کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا . غزوۂ تبوک ۹ھ کا معاملہ ہے جبکہ ۸ھ میں مکہ فتح ہو چکا تھا‘ ۸ھ ہی کے شوال میں غزوۂ حنین بھی ہو چکا تھا اور یوں سمجھئے کہ سرزمین عرب میں آخری معرکہ وہی تھا ‘تو عرب پر تو غلبہ ہو چکا تھااور لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو گئے تھے. لہذا یہ سب کچھ جو ہوا ہے یہ بھی ان کی ناپسندیدگی کے علی الرغم ہوا ہے . اب بیرونِ ملک عرب‘ بین الاقوامی سطح پر انقلابِ محمدیؐ اور غلبہ ٔ دین حق کا جو مرحلہ شروع ہو رہا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ بھی انہیں پسند نہیں ہے . لہذا یہ اگر آپؐ کے ساتھ جاتے تو کوئی نہ کوئی خرابی پیدا کرتے‘ وہاں بھی کوئی نہ کوئی فتنہ برپا کرتے. تو ایک اعتبار سے یہ بہتر ہی ہوا کہ یہ نہیں گئے.

اب دیکھئے‘ ایک ہی بات کے کتنے رُخ ہیں. 
لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ ’’ آپؐ نے انہیں کیوں اجازت دی؟‘‘ یہ علیحدہ بات ہے. آپ کو اجازت نہیں دینی چاہیے تھی‘ تاکہ ان کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی اور ان کی پردہ دری ہوتی کہ یہ کیا ہیں اور کتنے پانی میں ہیں‘ لیکن نتیجہ کے اعتبار سے یہی بہتر ہے کہ وہ نہیں آئے. اس بات کو ہم اپنے معاملات پر منطبق کریں تو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ امیر جماعت کو ذہناً اس طرزِ عمل پر مطمئن رہنا چاہیے کہ وہ اجتماعی معاملات میں ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پوری کوشش کرے‘ لیکن اگر کوئی پیچھے رہتا ہے تو اس کے لیے زیادہ متفکر نہ ہو‘ اس کے بارے میں زیادہ تشویش میں مبتلا نہ ہو. ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے رہ جانے ہی میں بھلائی ہو. غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ تبوک میں بیس دن قیام پذیر رہے لیکن لڑائی نہیں ہوئی تو یہ ایک طرح سے اہل ایمان کی بہت اعلیٰ درجے کی پکنک تھی کہ حضور کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور گفتگو ہو رہی ہے . ظاہر بات ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے حضور کے ساتھ گفتگو کے مواقع تو سب کو حاصل نہ ہو سکتے تھے. دوسرے یہ کہ بیرونِ مدینہ سے بھی لوگ اس لشکر میں موجود تھے.۳۰ ہزار کے لشکر میں جانے کہاں کہاں سے لوگ آئے ہوں گے! اور یہاں صبح و شام سب اہل ایمان آپؐ کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے ہیں. تو وہاں پر ذکر ہو جاتا تھا کہ فلاں صاحب کیوں نہیں آئے؟ تو نبی اکرم اس تذکرے کو پسند نہیں فرماتے تھے . آپؐ کا قولِ مبارک ہوتا تھا کہ دَعْہُ کہ چھوڑو اس کے ذکر کو.اگر اس میں کوئی خیر ہے تو اللہ اسے تمہارے ساتھ ملا دے گا اور اگر اس میں شر ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے شر سے نجات دی‘ اسی میں بہتری ہے. تو دراصل یہ انداز ہونا چاہیے. یہ بھی طے نہ کیجیے کہ لازماً شر ہے. اس لیے کہ آپ کے پاس تو علم کامل نہیں ہے. ہو سکتا ہے کہ عین وقت پر کوئی مجبوری پیش آ گئی ہو‘ زیادہ سے زیادہ خیر اور حسنِ ظن کو اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کریں‘ لیکن تشویش کو روکنے کے لیے اصولاً اس بات کو جان لیں کہ ہر شخص کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے. ہر شخص اپنا بنا رہاہے یا بگاڑ رہا ہے ‘اپنے لیے کمائی کر رہا ہے یا اپنے لیے وبال جمع کر رہا ہے ‘ لہذا اس معاملے میں ہم کیوں خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا ہوں .اگر خیر ہے تو وہ ظاہر ہو جائے گی. کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تلافی کا معاملہ پیدا کر دے گااور اگر شر ہے تو شر کا تو دور رہنا ہی بہتر ہے. 

آگے ارشاد ہے : 
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ ’’اور ان میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے!‘‘اس قول کی ایک خاص تأویل بھی ہے اور عام تأویل بھی. دونوں کو سمجھ لینا چاہیے. ان میں وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے تو اجازت دے ہی دیجیے‘ مجھے آزمائش میں مت ڈالیے !یعنی اجازت نہیں دیں گے تو جانا تو میں نے پھر بھی نہیں‘ لیکن خواہ مخواہ میرے نفاق کا پردہ چاک ہو جائے گا!کیونکہ دل میں یہ فیصلہ پہلے سے موجود ہے. اگر آپ اجازت دے دیں گے تو میرا پردہ پڑا رہ جائے گا . مجھے خواہ مخواہ اس امتحان میں نہ ڈالیے . مجھے اس ابتلاء اور فتنے میں مبتلا ہونے سے بچا لیجیے . فرمایا: اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ ’’ آگاہ ہو جاؤ کہ فتنہ میں تو وہ پڑ چکے ‘‘.یہ بڑاپیارا انداز ہے .جب انہوں نے اللہ کی پکار پر‘اللہ کے رسول ؐ کے فرمان پر‘ اس جماعت کے کسی نظم کے تقاضے پر جو اقامت ِ دین کے لیے قائم ہوئی تھی‘ اپنی کسی ضرورت ‘ مصروفیت یا کسی مصلحت کو مقدم رکھا تو فتنے میں تو وہ پڑ چکے ‘ اور امتحان کس شے کا نام ہے؟ اور ناکامی کس بلا کا نام ہے؟ ناکام تو وہ ہو چکے! سَقَطَ . یَسْقُطُ کسی شے کے وقوع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا ایک مفہوم گر پڑنے کا بھی ہے. یعنی یہ تو گر چکے‘ ناکام ہو چکے‘ اب اور کس آزمائش سے بچنے کی فکر ہے ؟ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۴۹﴾ ’’اور یقینا جہنم ان کافروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘. اس سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ 

اس قول کے بارے میں ایک خاص واقعہ بھی آتا ہے کہ جد ابن قیس (ایک منافق) نے آ کر بڑے گستاخانہ اور استہزائیہ انداز میں کہا کہ حضورؐ ! مجھے تو آپ اس آزمائش میں نہ ڈالیے. میں ذرا حسن پرست انسان ہوں اور جس علاقے میں آپؐ یہ لشکر لے کر جا رہے ہیں وہاں کی رومی عورتیں بڑی حسین ہوتی ہیں‘ معلوم نہیں میں اپنے اوپر قابو رکھ سکوں یا نہ رکھ سکوں‘ تو مجھے تو آپ اس امتحان میں نہ ڈالیے. مفسرین نے یہاں خاص طور پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے. یہ تأویلِ خاص ہو گی‘ لیکن تأویلِ عام اس واقعہ کی محتاج نہیں ہے‘ بلکہ وہ خود اپنی جگہ پوری طرح واضح ہے کہ درحقیقت اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار کے جواب میں عذر پیش کرنا اور رخصت طلب کرنا ایک کمزوری کی علامت ہے ‘اور خاص طور پر جنہوں نے نفیر عام کے اس موقع پر رخصت چاہی وہ تو گویا اپنی ناکامی پر مہر تصدیق پہلے ہی ثبت کر وا چکے. اللہ تعالیٰ ان کیفیات سے ہمیں اپنی امان میں رکھے.آمین!

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم