اُمراء کا اپنے رُفقاء کے ساتھ طرزِ عمل اور اُسوۂ رسولﷺ

نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعدُ :
اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم … بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙوَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۱۵﴾ۚفَاِنۡ عَصَوۡکَ فَقُلۡ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾ۚوَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ﴿۲۱۷﴾ۙ (الشُّعراء)

لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾ (الحجر) 

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾ (الکہف) 

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۲﴾وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِّیَقُوۡلُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ ﴿۵۳﴾وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢ ابِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۴﴾ (الانعام)
فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾ (آل عمران) 

اس درس کے تین حصے ہیں اور ہر حصے میں قرآن حکیم کے دو دو مقامات شامل ہیں اور اس کے لیے قرآن مجید کے چھ مختلف مقامات سے آیات منتخب کی گئی ہیں. چنانچہ اس درس کے مضامین کو تین ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے. 

۱) نرمی‘ شفقت اور احترام کا برتاؤ

سورۃ الشعراء اور سورۃ الحجر کی آیات میں حضور کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے بازو ان لوگوں کے لیے جھکا کر رکھیے جو اہل ایمان میں سے آپؐ کا اتباع کر رہے ہیں. سورۃ الشعراء میں ارشاد ہوا : وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۱۵﴾ۚ ’’اور (اے نبیؐ !) اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھیے ان لوگوں کے لیے جو آپؐ کی پیروی کرتے ہیں اہل ایمان میں سے‘‘. اور سورۃ الحجر میں فرمایا: وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۸﴾ ’’اور (اے نبیؐ !) اپنے کندھے جھکا کر رکھیے اہل ایمان کے لیے‘‘. ان آیات میں مزید کوئی وضاحت نہیں کی گئی‘ صرف یہی کہا گیا ہے کہ ’’اہل ایمان کے لیے اپنے شانوں کو جھکا کر رکھیے!‘‘

سورۃ الشعراء میں جو 
’’مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ‘‘ آیا ہے تویہ مِنْ تبعیضیہ بھی ہو سکتا ہے اور بیانیہ بھی. مِنْ تبعیضیہ ہونے کی صورت میں اس سے مراد یہ ہو گی کہ اگرچہ کہنے کو تو سبھی مسلمان ہیں‘ لیکن آپؐ کو جو اِس طرزِ عمل کا حکم دیا جا رہا ہے وہ صرف ان کے لیے ہے جو آپؐ کے بالفعل متبعین ہیں. یہاں گویا تخصیص ہو جائے گی کہ قانونی طور پر تو منافقین بھی مسلمان ہیں‘ لیکن ان کے لیے یہ طرزِ عمل مطلوب نہیں‘ بلکہ ان کے لیے برعکس طرزِ عمل اختیار کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو سورۃ التوبۃ اور سورۃ التحریم میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ (التوبۃ:۷۳ و التحریم:۹’’ اے نبی( )! کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کیجیے (کشمکش کیجیے) اور اُن پر سختی کیجیے!‘‘ یعنی منافقین کے ساتھ تو وہ معاملہ ہونا چاہیے جو کفار کے ساتھ ہے. ان کے ساتھ بھی کشمکش کیجیے‘ جہاد کیجیے اور اُن پر سختی کیجیے . جیسے کفار کے ضمن میں فرمایا: وَ لۡیَجِدُوۡا فِیۡکُمۡ غِلۡظَۃً ؕ (التوبۃ:۱۲۳)’’اور ہونا یہ چاہیے کہ وہ تمہارے اندر (اپنے لیے) سختی پائیں‘‘. لہذا اس حوالے سے ’’ مِنْ ‘‘ تبعیضیہ ہے. اور یہ ’’مِنْ‘‘ بیانیہ بھی ہو سکتا ہے‘یعنی اہل ایمان جو آپؐ کی اتباع کریں.

اب چاہے اسے 
مِنْ تبعیضیہ مانا جائے یا مِںْ بیانیہ‘ نتیجے کے اعتبار سے قطعاً کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اصل حکم ان کے لیے نرمی‘ شفقت اور احترام کا ہے. انہیں اللہ کا عطیہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ نے انہیں میری نصرت و اعانت کے لیے پسند کیا اور چن لیا ہے. کسی بھی داعی اور امیر کا اپنے تمام رفقاء اور ماتحتوں کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ ہونا چاہیے! ہر صاحب امر اور ذمہ داری کے منصب پر فائز ہر انسان کو اپنے ماتحت معاونین اور ساتھیوں کے ساتھ یہی رویہ رکھنا چاہیے ‘ تاکہ انہیں بھی محسوس ہو کہ ان کے دلوں میں ان کی وقعت ہے‘ یہ ان کی قدر کرتے ہیں اور ان پر شفقت کرتے ہیں. نوٹ کیجیے کہ یہاں وہی الفاظ آئے ہیں جو سورۂ بنی اسرائیل میں والدین کے ساتھ طرزِ عمل کے ضمن میں آئے ہیں کہ : وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾ ’’اور جھکا دو اُن دونوں(والدین) کے لیے تواضع و انکسار کے شانے رحمت سے اور دعا کروکہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے میری بچپن میں پرورش کی‘‘. اس سے متصلاً قبل فرمایا: فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾ ’’پس انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو‘ اور ان سے بات کرو تعظیم کے ساتھ‘‘. اب وہی طرزِ عمل ’’خفضِ جَنَاح‘‘ کے الفاظ میں یہاں پر ظاہر کیا جا رہا ہے. اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے. لہذا جو بھی کسی چھوٹی یا بڑی جمعیت کا ذمہ دار شخص ہو‘ جو بھی اجتماعیت پر امیر ہو ‘خواہ بڑی تعداد میں لوگ اس کی تحویل میں ہوں یا تھوڑی تعداد میں‘ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا طرزِ عمل اس طرح کا ہونا چاہیے . آگے فرمایا: فَاِنۡ عَصَوۡکَ فَقُلۡ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾ۚوَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ﴿۲۱۷﴾ۙ ’’پھر اگر یہ آپ کی نافرمانی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تو اس سے بَری ہوں جو طرزِ عمل تم اختیار کر رہے ہو. اور آپؐ اُس ذات پر توکل کیجیے جو عزیز بھی ہے رحیم بھی ہے‘‘. یعنی مأمورین اگر کوئی نافرمانی کرتے ہیں تو بھی انسان ان سے اپنا اظہارِ براء ت تو ضرور کردے کہ میں تمہارے اس عمل سے بری ہوں ‘ لیکن اس سے کوئی تشویش نہ ہو. اس لیے کہ معاملہ توکُل کا کُل اللہ کے حوالے ہے‘ البتہ اپنا توکل اللہ پر رکھو ‘اپنی گنتی پر نہ رکھو‘ اپنے ساتھیوں سے زیادہ امیدیں وابستہ ہی نہ کرو‘ امید وابستہ کرو تو صرف اللہ کی ذات سے. جیسے اقبال نے کہا ؎

بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے! 

جس شخص کی امید انسانوں سے وابستہ ہو جاتی ہے جب ان کی طرف سے اس کی امید کے برعکس رویہ ظاہر ہوتا ہے تو اس پر ردّعمل کے طور پر مایوسی طاری ہوتی ہے اور اس کے قویٰ جواب دے دیتے ہیں‘ اعصاب شل ہو جاتے ہیں. اور جس کی ساری امید اللہ ہی کی ذات کے ساتھ ہواُس صورتِ حال میں اس کا طرزِ عمل مختلف ہوتا ہے. ظاہر ہے کہ کسی کے غلط طرزِ عمل سے وقتی طور پر افسوس ہونا تو بالکل فطری بات ہے ‘لیکن اس پر کوئی مستقل منفی اثرات مترتب نہیں ہوں گے‘ اس لیے کہ اس کا توکّل کُل کاکُل اللہ پر ہے‘ اپنے ساتھیوں پر نہیں.
یہ مضمون چونکہ آگے آ رہا ہے اس لیے اِس وقت میں نے آیت کے صرف اس حصے کو بیان کیا ہے کہ : 
وَ اخۡفِضۡ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۱۵﴾ۚ اس میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امراء سے اپنے مأمورین کے حق میں جو روش درکار ہے اس کا ایک وصفِ لازم ’’خفضِ جَنَاح‘‘ ہے ‘یعنی ان کے سامنے اپنے کندھے رحمت اورشفقت سے جھکا کر رکھنا ‘ ان کے سامنے تواضع اختیار کرنا‘ تحکمانہ لہجہ اور انداز اختیارنہ کرنا.

۲) کم حیثیت ساتھیوں کی دلجوئی

امراء کے لیے دوسرا مطلوبہ وصف خاص طور پر اُن ساتھیوں کی دلجوئی ہے جن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقات سے ہو. یہ کسی اجتماعیت کے اندر ایک بڑا عملی مسئلہ ہوتا ہے جس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں. اس لیے کہ ایک طرف تصوریت (idealism) ہے اور دوسری طرف حقیقت پسندی (realism) ‘ ان دونوں چیزوں کو بیک وقت تھام کر رکھنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے. حقیقت پسندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عالمِ اسباب بنایا ہے اور اس کے لیے جو بھی قانون اللہ نے بنا رکھا ہے اس کے اعتبار سے کسی بھی انقلابی جدوجہد میں صاحبِ حیثیت لوگ آئیں گے تو گاڑی چلے گی‘ صاحبِ ثروت لوگ آئیں گے تو وسائل جمع ہوں گے‘ صاحبِ وجاہت لوگ آئیں گے تو کچھ لوگ ان کے اثرات کی وجہ سے کھنچ کر آ جائیں گے. یہ حقیقت پسندی (realism) ہے‘ اور اسے نظر انداز کرنا غلطی ہو گی‘ یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہو گا. یہی وجہ ہے کہ حضور نے خاص طور پر دعا کی کہ اے اللہ! عمر و بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے ایک کو تو ضرور میری جھولی میں ڈال دے. آپ نے ایساکیوں کیا؟اس لیے کہ ان حضرات کی معاشرے میں ایک حیثیت تھی ‘ ایک مقام تھا. پھر یہ کہ ان کا ایک کردار تھا‘ ایک دفعہ جو بات تسلیم کر لیتے اس پر کٹ مرنے کو تیار تھے. ایسے باہمت اور باعزیمت لوگ آگے آئیں تو تحریک یا اجتماعیت کی گاڑی چلتی ہے . یہی وجہ ہے کہ جو شخص بلند ترین تصوریت کے آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے نیچے ہی نہ اترے اسے تو یہ بات قابلِ اعتراض نظر آئے گی کہ اللہ کے رسول طائف گئے اور وہاں صرف تین سرداروں سے ملے. کیا صرف ان کو دوزخ کی آگ سے بچانا مطلوب تھا؟ کیا وہاں کی عوام کا حق نہیں تھا؟ نبی کی دعوت تو عام ہونی چاہیے‘ اسے تو ایک ایک انسان کو جہنم کی آگ سے بچانا مطلوب ہے. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ نے خود فرمایا: لَاَنْ یَھْدِیَ اللہُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ (۱’’اگر ایک انسان کو بھی اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بڑھ کر دولت ہے‘‘.کیا طائف میں اور انسان نہیں تھے؟ یہ وہ واقعیت پسندی اور حقیقت پسندی (realism) ہے جسے میں سمجھانا چاہ رہا ہوں. میں نے یہ انداز اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ مسئلہ واضح ہو جائے کہ یہ چیزیں عملی طور پر ہوتی ہیں. 

انقلابی دعوت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اوّلاً اعلیٰ طبقات کو اپنا ہدف بناتی ہے‘ لیکن اس میں تعداد کے اعتبار سے زیادہ نچلے طبقات سے لوگ آتے ہیں‘ یعنی غرباء‘ فقراء‘ غلام‘ مسکین‘ اس لیے کہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں اتنی بھاری نہیں ہوتیں جتنی سرمایہ داروں اور سرداروں کے پاؤں میں بھاری بیڑیاں پڑی ہوئی ہوتی ہیں. وہ اگر اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو ان کی دولت ‘ حیثیت اور وجاہت متاثر ہوتی ہے‘ سرمایہ جاتا ہے‘ سرداری جاتی ہے‘ چودھراہٹ جاتی ہے. آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کا جملہ سنا ہو گا کہ ’’اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے لیکن کوئی دولت مند انسان آسمانی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘. یہ اگرچہ قاعدہ کلیہ تو نہیں ہے‘ لیکن یہ ایک عظیم حقیقت ضرور ہے. تو ان دونوں چیزوں کو سامنے رکھیے. اعلیٰ طبقات سے جو لوگ آتے ہیں ان میں سے ایک ایک لاکھ کے برابر ہوتا ہے. حضراتِ ابوبکر‘ عثمان‘ طلحہ‘ زبیر‘ سعد بن ابی وقاص‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعیدبن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو مقام ہے وہ آپ کو معلوم ہے. یہی وہ لوگ ہیں جنہیں آپ عشرۂ مبشرہ کہتے ہیں. بعد میں ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ایمان لا کر شامل ہوئے. لیکن یہ تو چھٹے سال کی بات ہے‘جبکہ مقدم الذکر وہ لوگ ہیں جو شروع میں ایمان لائے اور ان میں سے ہر ایک کا جو مقام ہے وہ ہر شخص جانتا ہے. لیکن جو فقراء و غرباء رسول اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لائے ان میں ہر ایک کی خواہش تھی کہ آپ کی عنایت مجھ پر ہو اور ہم 
(۱)صحیح البخاری‘ کتاب فضائل اصحاب النبی ‘ باب مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ . وصحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ . آپ کی توجہ کا مرکز بنیں‘ جبکہ رسول اللہ کے سامنے اس تحریک کی اپنی ایک مصلحت تھی. فرض کیجیے کہ فقراء اور مساکین آپؐ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اُس وقت کوئی قرشی سردار آگیا ہے تو اُس وقت آپؐ اس کی طرف التفات فرمائیں گے. یہ اس حقیقت پسندی کا تقاضا ہے. لیکن ہو سکتا ہے کہ ان فقراء اور مساکین کے دلوں پر چرکا لگے اور انہیں گمان ہو کہ کہیں ان کی نگاہ میں بھی دولت ہی کا تو اصل مقام نہیں ہے؟ کیا (معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ) ان کی نگاہ میں بھی دنیاوی مال و دولت اور وجاہت کی وہی قدر و قیمت ہے جو دوسروں کی نگاہوں میں ہے؟ تو اس سے شک و شبہ پیدا ہوگا. اسی قسم کا ایک واقعہ تھا‘ جس سے سورۂ عبس کا آغاز ہوا ہے . فرمایا:

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ 

’’ ترش رو ہوا اور بے رُخی برتی. اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آ گیا. (اے نبیؐ !) تمہیں کیا خبر شاید وہ سدھر جائے ‘یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نفع بخش ہو! جو شخص بے پروائی برتتا ہے ‘اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ‘ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے ‘اور ڈر رہا ہوتا ہے‘ تواس سے تم بے رُخی برتتے ہو. ہرگز نہیں‘ یہ تو ایک نصیحت ہے. پس جس کا جی چاہے اسے قبول کرے. یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں‘ بلند رتبہ ہیں‘ پاکیزہ ہیں‘ معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں.‘‘

اس انداز میں اللہ تعالیٰ کی ایک خاص شانِ جلالی ظاہر ہو رہی ہے.کچھ قرشی سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضور ان سے گفتگو فرما رہے تھے. اس دوران حضرت عبد اللہ بن اُمّ مکتوم آ گئے جو ایک نابینا صحابی تھے.وہ دیکھ بھی نہیں سکے کہ صورتِ حال کیا ہے. وہ 
اب بار بار حضور کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں ‘جبکہ حضور قرشی سرداروں سے محو گفتگو ہیں .ان سے حضور کی (معاذ اللہ) کوئی ذاتی غرض نہ تھی‘ بلکہ ان غرباء اور فقراء کی مصلحت بھی اس میں تھی کہ یہ صاحب حیثیت لوگ ایمان لے آئیں تو انہیں کچھ تحفظ حاصل ہو. دین کی مصلحت بھی اس میں تھی کہ اقامت دین کی گا ڑی آگے چلے گی. لیکن اُس وقت حضور کو ذرا سی ناگواری ہو گئی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی کہ آپؐ کو یہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا. 

اس کا ایک اور رُخ بھی ہے کہ کفار اسے غلط رنگ دیتے تھے کہ اے محمدؐ ! ہم تو آپؐ کے پاس آنا چاہتے ہیں‘ لیکن آپ نے ہمارے ان غلاموں کو جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں‘ اپنے گرد جمع کر رکھا ہے تو ہم کیسے آئیں! بہرحال ہمارا ایک مقام ہے. ہم اپنے مرتبے سے گر کر اِن لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے‘ لہذا اگر ہم سے گفتگو کرنی ہے تو ان کو ہٹایئے. یہ ان کی چال تھی. وہ چاہتے تھے کہ ان کے اندر بددلی پیدا ہو اور جو جمعیت اکٹھی ہوئی ہے وہ بھی ساتھ نہ رہے اور ہم نے توساتھ دینا ہی نہیں ہے.یہ واقعہ قرآن مجید میں تفصیل سے آیا ہے. حضرت نوح علیہ السلام سے خاص طو رپر ان کی قوم کے سرداروں نے کہا تھا کہ 
وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ (ھود:۲۷’’اور ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذِل تھے‘ بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے‘‘. یہ جو تمہارے گرد کچھ لوگ جمع ہیں یہ تو ہمارے گھٹیا درجے کے لوگ ہیں. اور یہ چشمِ سر سے دکھائی دے رہا ہے کہ کون لوگ تمہارے گرد جمع ہو گئے ہیں‘ ان کے اوپر گھمنڈ نہ کرنا‘ ان کی ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے.

تو یہ ایک نفسیاتی پیچیدگی ہے جو ہر تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے اور عملاً یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں. یہ مسائل ایک طرح سے اس دنیا میں پل صراط کی مانند ہیں جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے. تھوڑا سا اِدھر ہو جائیں تو بھی تباہی ہے اور تھوڑا سا اُدھر ہو جائیں تو بھی تباہی ہے. ایک طرف 
Idealism ہے اور دوسری طرف Realism ہے. ایک طرف واقعہ یہ ہے کہ اصل اہمیت تو تقویٰ‘ خشیت‘ انابت اور ایمان کی ہے اور دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی چیز کی کامیابی کا دار و مدار اگرچہ بالکلیہ تو اللہ پر ہے لیکن اس کے جو بالفعل عوامل ہیں ان میں حیثیت اور وجاہت جیسی چیزیں بھی شامل کی جاتی ہیں. ان دونوں کے مابین ایک معتدل روش اختیار کرنے کے لیے بڑی بیدار مغزی اور فہم و فراست کی ضرورت ہے. اس میں تھوڑا سا اِدھر اُدھر ہو جانا قرین قیاس ہے .اس لیے کہ رسول اللہ کی بھی اس معاملے میں گرفت ہوئی ہے تو تابہ دیگراں چہ رسد! ہم سے تو خطا کا امکان سو گنا زیادہ رہے گا. تاہم اگر اصولی بات سامنے رکھتے ہوئے انسان اس معاملے میں متوازن رویہ قائم کرنے کی کوشش کرتا رہے تو اس کے لیے مفید ہو گا کہ قرآن حکیم کے ان مقامات کو اپنے سامنے رکھے جن میں اس کے لیے ہدایات موجود ہیں. 

اس ضمن میں سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا: 
وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ’’اور روکے رکھیے اپنے آپ کو (تھامے رکھیے اپنے آپ کو) ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں‘ وہ اُسی کے روئے انور کے طالب ہیں (اس کی رضا چاہتے ہیں).‘‘ انسان کسی سے خوش ہوتا ہے تو اپنے پورے رُخ کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے. اگر آپ کسی سے ناراض ہیں تو رُخ دوسری طرف کر لیں گے اور بات کریں گے بھی تو آنکھوں میں آنکھیں نہیں ملائیں گے‘ بلکہ ذرا مغائرت کے ساتھ جواب دیں گے‘ اس سے زیادہ التفات نہیں ہو گا. چنانچہ اللہ کا رُخ چاہنا یااللہ کے روئے انور کا طالب ہوناسے مراد ہے اس کی عنایت‘ شفقت اور محبت کی طلب کرنا کہ اللہ ان سے راضی ہو جائے ‘ان پر اللہ کی نظر کرم ہو. وہ اس کی عنایتوں کے طالب رہتے ہیں اور صبح و شام اس کو پکارتے رہتے ہیں. آگے فرمایا: وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ ’’اور ان سے اپنی نگاہ نہ پھیریئے.‘‘ آپؐ دوسروں کی طرف متوجہ نہ ہوں. آپ کی توجہ کا اصل مرکز یہ ہونے چاہئیں‘ ان کی تربیت اور تزکیہ کیجیے ‘ ان کو بہتر سے بہتر کیجیے! ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب تک پہنچانے کے لیے مسلسل کوشاں رہیے اور ان سے اپنی توجہ کو ہٹایئے نہیں. 

آگے فرمایا: 
تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ’’کیا تم دُنیوی زندگی کی زینت چاہتے ہو؟‘‘ یہ قرآن مجید کے مشکل مقامات میں سے ہے. لفظی ترجمہ تو یہ ہو گا کہ ’’تم چاہتے ہو دنیا کی زندگی کی چمک دمک‘‘ لیکن ہم اس کی تأویل اس طرح کریں گے کہ آپؐ کے ظاہری طرزِ عمل سے لوگوں کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ آپ بھی (معاذ اللہ) دُنیوی زینت کے طلب گار ہیں. اس لیے کہ اللہ کے یہاں تو ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ کی رو سے طرزِ عمل کا معاملہ نیت پر موقوف ہے اور اللہ آپؐ کی نیت کو جانتا ہے. لیکن دنیا تو ظاہر سے فیصلہ کرتی ہے. ہو سکتا ہے کہ آپؐ کے ساتھی یہ سمجھیں کہ ہماری طرف نگاہِ کرم نہیں ہے‘ بلکہ نظرِ التفات ان صاحب حیثیت لوگوں کی طرف ہے اور شاید آپؐ کے دل میں بھی انہی چیزوں کی قدر و قیمت ہے. چلیے یہ تو اپنے ہیں‘ آپ ؐ ان کی غلط فہمی رفع کر دیں گے‘ لیکن آپ کے مدّمقابل بھی تو اسی مغالطے میں مبتلا ہو جائیں گے کہ ان کی اقدار اور ترجیحات بھی وہی ہیں جو ہماری ہیں ‘ان کی نگاہ میں بھی انہی چیزوں کی قدر و قیمت ہے جن کی ہماری نگاہوں میں قدر و قیمت ہے. تو یہ درحقیقت اس اندیشے کا سدّباب ہے. اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ محمدٌ رسول اللہ پر (معاذ اللہ) الزام عائد کر رہے ہیں کہ آپ بھی فی الواقع حیاتِ دُنیوی کی زینت کے طالب ہیں.

آگے ارشاد فرمایا: 
وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا ’’اور آپؐ اس کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے‘‘.نوٹ کیجیے یہاں الفاظ ہیں کہ انہیں ہم نے غافل کیا ہے‘ اصل میں وہ ہمارے یہاں سے مردود اور راندۂ درگاہ ہو چکے ہیں .جیسے قرآن میں اہل ایمان کے لیے الفاظ ہیں کہ ’’اللہ نے انہیں پسند کر لیا ہے‘‘ اسی طرح جن کو یہ توفیق نہیں ملی گویا اللہ نے انہیں ردّکر دیا ہے. اللہ نے انہیں آپؐ کی رفاقت و اعانت کے قابل ہی نہیں سمجھا تو ان کے دلوں کو اپنی یاد سے غافل کردیا. اب اگر وہ صاحب حیثیت ہیں یا اصحابِ سیادت و قیادت ہیں تو بھی آپؐ ان کو چنداں اہمیت نہ دیجیے اور ان کی بات نہ سنیے! میں نے عرض کیا تھا کہ عربی زبان میں امر کے معانی حکم اور مشورہ دونوں کے آتے ہیں. اسی طرح اطاعت کا معنی بالفعل کسی کی بات پر عمل کر لینابھی ہے اور دلی آمادگی سے کسی کی بات بالفعل سن لینا بھی ہے. تو یہاں وَ لَا تُطِعۡ کا ترجمہ ہو گا کہ ’’ آپ ان کی بات پر کان ہی نہ دھریئے‘‘ .وہ لوگ آتے تھے اور رسول اللہ کو طرح طرح کی مصلحتیں سمجھاتے تھے‘ مداہنت کی کوشش کرتے تھے. بار بار سفارتیں آ رہی ہیں‘ قریش کے بڑے بڑے سردار وفد کی صورت میں آتے تھے اور کہتے تھے کہ اے محمد( )! جہاں آپ اشارہ کر دیں وہاں آپؐ کی شادی کر دی جائے گی‘ آپ جتنی کہیں گے دولت کا ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے ‘اور (معاذ اللہ) اگر آپ بادشاہ بننے کی ہوس میں ہیں تو اگرچہ آج تک کوئی ہمارا بادشاہ نہیں ہے اور ہم کسی کو بادشاہ تسلیم کرنے کے خوگر اور عادی نہیں ہیں ‘ حریت ہمارے مزاج کا ایک جزوِ لاینفک ہے‘ لیکن ہم آپ کو بادشاہ مان لیتے ہیں. ہماری طرف سے یہ تمام پیشکشیں موجود ہیں.تو فرمایا گیا کہ اس طرح کی بات سننا بھی خطرے کی علامت ہے. آپ انہیں ایسا تأثر بھی نہ دیں کہ چلو بات سن تو رہے ہیں. اس سے انسان کو غلط امید وابستہ ہو جاتی ہے. 

مزید فرمایا: 
وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾ ’’اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے‘‘. یعنی آپ ان کی بات پر توجہ بھی نہ فرمایئے جن کے دلوں کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے. وہ راندۂ درگاہ ہیں ‘ہم نے انہیں مسلوب التوفیق کر دیا ہے. اور وہ تو اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے تمام معاملات حد سے تجاوز کرنے والے ہیں. ہر معاملے میں نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی حد کے پابند نہیں ہیں‘ ان کی زندگی تو اس گھوڑے کی مانند ہے جس کی باگ ٹوٹ چکی ہو. 

یہی مضمون سورۃ الانعام میں آیا ہے . فرمایا: 
وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ ’’اور مت دھتکاریئے ( اپنے سے دُور مت کیجیے) ان لوگوں کو جو اپنے ربّ کو صبح و شام پکارتے ہیں‘ وہ اس کے رُخ ِ انور (اس کی رضا) کے متلاشی ہیں‘‘. وہ اس کے نام کی مالا جپتے ہیں‘ اس کی تسبیح و تحمید و تہلیل کرتے ہیں. یہ وہ زمانہ ہے جس میں پنج وقتہ نماز کا نظام قائم نہیں ہوا تھا اور صرف صبح و شام کی نماز تھی. آپ کو معلوم ہو گا کہ پنج وقتہ نماز کے نظام سے قبل کبھی دو اور کبھی تین وقت کی نماز تھی‘ بلکہ ابتدا میں تو صرف قیام اللیل ہی تھا. پھر سورۂ بنی اسرائیل کے نزول کے بعد پنج وقتہ نظامِ صلوٰۃ قائم ہوا تو بات مختلف ہو گئی. یہاں صبح و شام اللہ کو پکارنے سے مراد صبح و شام کی نماز ہے. 
آگے ارشاد ہے: 
مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ’’ آپ پر ان کے حساب کی کچھ بھی ذمہ داری نہیں ہے اور نہ اُن پر آپ کے حساب کی کچھ ذمہ داری ہے‘‘. ایک جگہ اہل ایمان سے یوں خطاب ہوا ہے : فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ (النور:۵۴’’(لوگو!) ان (حضور )پر تو وہی ذمہ داری ہے جس کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے (وہی اس کے مسئول ہوں گے) اور تم پر وہ ذمہ داری ہے جو تم پر ڈالی گئی ہے ( اس کے مسئول تم ہی ہو)‘‘.تویہاں حضور سے خطاب ہے اور بصیغہ غائب اہل ایمان کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ پر ان کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ‘وہ کیا کرتے ہیں کیا نہیں کرتے وہ اپنا حساب اللہ کے ہاں خود دیں گے ‘اور نہ آپ کے حساب میں سے کسی شے کی مسئولیت ان پر ہے. آپؐ کو اپنا کام کرنا ہے اور آپؐ کا کام ہے پہنچا دینا. اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ ؕ (الشوریٰ:۴۸’’ آپ پر نہیں ہے مگر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری‘‘. اب کون قبول کرتا ہے کون نہیں کرتا اس کی کوئی جواب دہی آپ سے نہیں ہے. ابوجہل نے کیوں نہیں مانا‘ بلالؓ نے کیوں مان لیا؟ اس سے آپ کا سروکار نہیں ہے. یہ یا تو اُن کا ارادہ ہے یا اللہ کی توفیق ‘ دو ہی عوامل ہیں. آپ بلا تفریق اور بلا کم و کاست پہنچادیجیے. اب کسے اللہ نے توفیق دی اور کسے ردّ کر دیا ‘یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون رد ّکیے جانے کے قابل تھا. نہ آپؐ کے ذمہ ان کے حساب میں سے کوئی شے ہے اور نہ ان پر آپ کے حساب میں سے کوئی ذمہ داری ہے. فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۲﴾ ’’تو اگر آپ انہیں دھتکار دیں گے تو (معاذ اللہ) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے‘‘. 

آگے ارشاد ہوا: 
وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِّیَقُوۡلُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ ’’اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈالا ہے‘ تاکہ یہ (انہیں دیکھ کر) کہیں کہ کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے بڑا احسان فرمایا ہے؟‘‘یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اچھی بات ہوتی تو ہم قبول کرتے. یہ غریب غرباء ‘ غلام‘ بے حیثیت لوگ ‘ کیا یہ ہیں جن پر اللہ کا کرم ہوا؟ اگر یہ ایسے ہی اللہ کے لاڈلے اور پیارے تھے تو ان پر پہلے اللہ کا فضل و کرم کیوں نہیں ہوااورکیوں انہیں اللہ نے مفلسی میں ڈالا ہوا تھا؟ کیوں ان کو فاقوں میں مبتلا کیا ہوا تھا؟ ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اگر دنیا میں کسی کو کوئی حیثیت حاصل ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس پر مہربان ہے. تو چونکہ اللہ دنیا میں ہم پر مہربان ہے تو یہ شے اگر واقعتا قیمتی ہوتی تو ہمیں ملتی‘ انہیں نہ ملتی. یہ وہ بات ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا کہ اللہ نے ان کو ان کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے اوروہ ان کے لیے اس حق کے پہچاننے میں ایک اوٹ بن گئے ہیں. آگے فرمایا: اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ ﴿۵۳﴾ ’’کیا اللہ تعالیٰ خوب واقف نہیں ہے اپنے ان بندوں سے جو شکر کرنے والے ہیں؟‘‘ اللہ ان کو خوب جانتا ہے جو اس حق (قرآن) کی اصل قدر و قیمت سے واقف ہیں اور اس کا شکر ادا کرنے والے ہیں. 

اب سورۃ الانعام کی اگلی آیت میں ایک اضافی بات آ رہی ہے. فرمایا: 
وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ ’’اور جب آپ کے پاس (اے نبیؐ !) آئیں وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہئے: تم پر سلامتی ہو‘ تمہارے ربّ نے (تمہارے لیے) اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے‘‘. اب یہاں وہی نقشہ آ رہا ہے جو پہلے حصے میں تھا‘ یعنی شفقت اور تبشیر کا انداز. نبی اکرم کی دعوت کے دونوں پہلو ہیں‘ جہاں انذار ہے وہاں تبشیر بھی ہے. آپؐ اپنے ساتھیوں کے لیے مبشر تھے ‘حوصلہ افزائی فرمانے والے تھے. ظاہر ہے بشارت کے اور کون مستحق ہوں گے؟ اب اس بشارت اور رحمت کا مظہر کیا ہے؟ فرمایا: اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢ ابِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۴﴾ ’’یہ کہ اگر تم میں سے کوئی جہالت کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھے‘ پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ (اللہ تعالیٰ) معاف کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘. 

یہاں 
’’اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ ‘‘ میں ’’مِنۡکُمۡ‘‘ اہم ہے .یعنی جن لوگوں نے رُخ ہی غلط اختیار کیا ہوا ہے تو اب اگر ان کی کوئی نیکی بھی ہے تو وہ کسی کھاتے میں نہیں‘ جبکہ تم سیدھے راستے پر آ گئے ہو‘تم نے اپنا رُخ درست کر لیا ہے‘ تم نے وہ منزل طے کر لی ہے کہ اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا (میں نے تواپنا رُخ پھیر لیا ہے یکسو ہو کر اُس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے) تو اگر تم میں سے کسی سے کسی وقت کوئی خطا سرزد ہو جائے ‘ کوئی غلط حرکت صادر ہو جائے جہالت کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا. یہاں ’’بِجَہَالَۃٍ ‘‘ کے لفظ کو بھی سمجھ لیجیے!اردو میں تو جہالت اَن پڑھ اور ناواقف ہونے کو کہتے ہیں‘ جبکہ عربی میں اگرچہ اس کا یہ مفہوم بھی ہے ‘ لیکن یہ تابع ہے‘ اصل مفہوم یہ ہے کہ جذباتی ہونا‘ مشتعل مزاج ہونا. عمرو بن ہشام کو ابوجہل اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہی مشتعل مزاج اور اکھڑ مزاج آدمی تھا. 

یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر جذبات کی رو میں بہہ کریا عدمِ واقفیت کی بنا پر انسان سے کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے‘پھر اس کے بعد وہ اس سے توبہ کرے اور اپنی اصلاح کر لے‘ اپنے رویے کو درست کر لے‘ یہ نہیں کہ پرنالہ وہیں بہتا رہے‘ تو یقینا اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے. [توبہ کا پورا تصور ہمارے منتخب نصاب (۱) کے درس میں جو کہ سورۃ الفرقان کے آخری رکوع پر مشتمل ہے ‘ آ جاتا ہے.] یہ گویا کہ تبشیر و بشارت ہے کہ اللہ 
کی شانِ غفاری کو بار بار اُن کے سامنے لاتے رہنا کہ اگر خطا ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں ہے‘ تم بھی استغفار کرو‘ میں بھی تمہارے لیے استغفار کروں گا‘ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے گا.اُسوۂ رسول کی روشنی میں امراء کی طرف سے اپنے ساتھیوں کی اسی طرح حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہیے. 

۳) رأفت و رحمت اور خوئے دلنوازی

یہاں سے اب تیسرا حصہ شروع ہو رہا ہے. وہی کیفیت جو پہلے حصے میں آئی تھی‘ یہاں اور زیادہ نمایاں ہو کر‘ زیادہ گاڑھی شکل میں نکھر کر اور ابھر کر سامنے آ رہی ہے . ایک توسورۃ التوبۃ کے آخری حصے کی آیت ہے جوبڑی پیاری آیت ہے. نبی اکرم کے اہل ایمان کے ساتھ معاملے کی شاید اتنی پیاری تعبیر آپ کو کہیں اور نہ ملے. اسی کا ایک عکس داعی ٔ حق کے اندر اپنے ساتھیوں کے لیے ہونا چاہیے. کسی بھی چھوٹے یا بڑے امیر سے اپنے مأمورین کے لیے یہی کیفیات مطلوب ہیں ‘اس لیے کہ ہمارے لیے تو مشعل راہ اُسوۂ محمدیؐ ہی ہے‘ ہمیں چلنا تو آپ ہی کے نقش قدم پر ہے. فرمایا جا رہا ہے : لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ ’’(لوگو!) آ گئے ہیں تمہارے پاس ایک رسول تم ہی میں سے‘‘. مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ کے مختلف درجات ہوں گے. ہرگز یہ نہ سمجھئے کہ ہم ان میں نہیں ہیں. اس کا مصداق پہلے درجے میں بنو ہاشم اور دوسرے درجے میں قریش ہیں‘ اس لیے کہ بنو ہاشم قریش کا ایک گھرانہ ہے. تیسرے درجے میں اہل عرب (اُمّیین‘ بنو اسماعیل) آئیں گے اور چوتھے درجے میں پوری بنی نوعِ انسانی ہے. اس لیے کہ آپ بھی بنی آدم میں سے ہیں‘ حوا کے بیٹے ہیں. اس اعتبار سے اس میں درجہ بدرجہ تمام نوع ِ انسانی شریک ہو جائے گی. 

آگے ارشاد ہے : 
عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ ’’بہت شاق گزرتی ہے ان پر وہ چیز جو تمہارے لیے تکلیف دہ ہے‘‘. جو چیز تم پر بھاری پڑ رہی ہووہ اُن پر بہت گراں گزرتی ہے. وہ تو تمہارے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ اور بہتر سے بہتر چاہتے ہیں. اگر وہ تمہیں کھینچ رہے ہیں تو خیر کی طرف کھینچ رہے ہیں‘ ترغیب دے رہے ہیں تو بھلائی کے لیے دے رہے ہیں. بظاہر تمہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ تمہیں مشکل میں ڈال رہے ہیں. جیسے حدیث میں آتا ہے کہ حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ (۱یعنی جہنم ایسی چیزوں سے چھپا دی گئی ہے جو نفس کو بہت مرغوب ہیں اور جنت ایسی چیزوں سے گھیر دی گئی ہے جو نفس انسانی کو پسند نہیں ہیں. لیکن تم یہ کانٹوں بھری باڑ عبورکر کے ہی جنت میں داخل ہو سکو گے. وہ اگر تمہیں ان کانٹوں بھری باڑ کی طرف لے جا رہے ہیں تو درحقیقت وہ تمہیں اس جنت کی طرف لے جا رہے ہیں. 

آگے فرمایا: 
حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ ’’وہ تم پر بہت ہی حریص ہیں‘‘. یعنی تمہارے لیے ہر خیر کے طالب ہیں‘ ہر بھلائی کے جویا ہیں. یہاں نوٹ کیجیے کہ ابھی اہل ایمان کی تخصیص نہیں ہے‘ اہل ایمان کی تخصیص آگے چل کر آئے گی. یہ تونبی اکرم کی وہ قلبی کیفیت ہے جو پوری نوعِ انسانی کے لیے تھی. آپ کا سینہ مبارک نہایت کشادہ ہے کہ ہر فردِ نوعِ بشر کے لیے آپ ؐ چاہیں گے کہ وہ سختی سے بچے اور اس کے لیے خیر و فلاح ہو‘ اس کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب ہوں. آنحضور کے مزاج میں کوئی بخل نہیں ہے. اس لیے کہ سابقہ انبیاء و رُسل کے برعکس آپؐ پوری نوعِ انسانی کی طرف بشیر و نذیر بنا کر مبعوث فرمائے گئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ سابقہ انبیاء و رُسل کے ہاں ہمیں عالمگیر پیغام نہیں ملتا‘ بلکہ موجودہ انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف یہ الفاظ منسوب ہیں کہ ’’یہ پیغام دوسروں کے لیے نہیں ہے‘‘. اور ایسے سخت الفاظ بھی آئے ہیں کہ ’’کوئی شخص اپنے بچوں کے حصے کی روٹی کتوں کے آگے نہیں ڈالتا‘ یہ تمہارے بچوں (یعنی بنی اسرائیل) کے لیے ہے‘‘. یہ بھی آیا ہے کہ ’’میں صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آیا ہوں‘‘.

اگرچہ ہم حتمی طورپر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان الفاظ کی نسبت حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف درست ہے یا نہیں‘ لیکن منطقی طور پر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے. اس لیے کہ آپؑ کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف تھی. قرآن مجید میں آپؑ کے لیے رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب حجبت النار بالشھوات. اِسۡرَآءِیۡلَ کے الفاظ آئے ہیں. اور سوائے محمدٌ رسول اللہ کے باقی تمام رسول کسی نہ کسی معین قوم‘ قبیلے یا شہر کی طرف بھیجے گئے تھے. صرف حضرت محمد کی ذاتِ بابرکات اس سے مستثنیٰ ہے کہ جن کی بعثت عام ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸’’(اے نبیؐ !) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘. اس پہلو سے یہاں جامعیت ہو گی‘ اس لیے کہ دعوتِ حق کے لیے یہی کیفیت تو مطلوب ہے کہ یہ خیر خواہی کے جذبے سے ہو. چونکہ آپ‘ نے پوری نوعِ انسانی کو دعوت دینی ہے تو اگر پوری نوعِ انسانی کے لیے خیر خواہی نہیں ہو گی تو دعوت کا تقاضا ابتدائی درجہ میں بھی پورا نہیں ہو سکتا. لہذا یہاں ابھی تخصیص نہیں ہے‘ بلکہ عموم ہے. اسی لیے میں نے لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ کے مفہوم میں اس کا دائرہ بنی ہاشم سے لے کر بنی آدم تک وسیع کیا ہے. اور عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ میں بھی پوری نوعِ انسانی آئے گی. 

البتہ آیت کا آخری ٹکڑا یہ ہے کہ: 
بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ ’’(آپ ) مؤمنین کے حق میں انتہائی روؤ ف اور رحیم ہیں‘‘. ’’رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ‘‘ کے الفاظ پر مکمل بحث سورۃ الحدید کے چوتھے رکوع کے ضمن میں ہوئی ہے. یہ عجیب بات ہے کہ سورۃ الحدید کے پہلے رکوع میں رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ کی صفت اللہ کے لیے آئی ہے : ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۹﴾ ’’وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے‘ تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے. اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق ہے نہایت مہربان ہے‘‘. اور سورۃ الحدید کے آخری رکوع میں یہ الفاظ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کے لیے آئے ہیں. فرمایا: وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ (آیت ۲۷’’اور ان کے دلوں میں ہم نے رأفت اور رحمت پیدا کر دی جنہوں نے آپ (علیہ السلام) کی پیروی کی‘‘. جبکہ یہاں روؤ ف اور رحیم کے الفاظ محمدٌ رسول اللہ کے لیے آئے ہیں.یہ جان لیجیے کہ رأفت اور رحمت ایک ہی کیفیت کے دو رُخ ہیں. پہلے کسی سے ہمدردی ہوتی ہے‘ پھر اس کی مدد کی جاتی ہے. پہلے کسی کے دکھ کو آپ اپنے اندر محسوس کریں‘ تب ہی تو آپ اس کی مدد پر آمادہ ہوں گے. ان کیفیات کو فزیالوجی میں sensory اور motor کہا جاتا ہے.یعنی پہلے آپ کو احساس ہوا کہ مجھے ہاتھ پر کسی چیز نے کاٹ لیا ہے‘ پھر آپ کا ہاتھ ایک دم وہاں سے ہٹا. ایک لمحے پر محیط یہ عمل دراصل اس طور سے انجام پاتا ہے کہ جہاں کاٹا گیا وہاں سے sensation دماغ میں گئی‘ دماغ نے اسے interpret کیا کہ وہاں کوئی تکلیف دہ شے ہے‘ وہاں سے فوراً ہاتھ جھٹک دینا چاہیے. وہاں سے احکام صادر ہوئے اور وہ motor nerves کے ذریعے ان عضلات تک پہنچے کہ حرکت کرو تاکہ ہاتھ یہاں سے ہٹ جائے. اسی طرح سے یہ ایک sensory پہلو ہے جس سے آپ کسی کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں. جیسے امیرؔ مینائی نے کہا : ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!

’’رأفت‘‘ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ کا مظہر ہے اور ’’رحمت‘‘ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ کا مظہر ہے. اور آپ کی ذات میں یہ دونوں مظہر اہل ایمان کے حق میں بتمام و کمال موجود تھے. بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾ یعنی آپ اہل ایمان کے دکھ درد کو محسوس کرنے والے اور ان کے حق میں انتہائی شفیق اور مہربان ہیں‘ دکھ درد کو دُور کرنے والے ہیں. یہ نبی اکرم کی شان ہے اہل ایمان کے حق میں .اسی طرح جو بھی آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لوگوں کو دعوت دیتا ہے اسے اسی کا ایک عکس اپنے اندرپیدا کرنا ہو گا. جیسے اقبال نے کہا ہے کہ سالارِ کارواں کی اصل متاع یہی ہے کہ نفس گرم بھی ہو اور دل روشن بھی ہو‘ اپنے ساتھیوں کے حق میں بہت نرم خو ہو اور ان کے دلوں کو موہ لینے والا بھی ہو. یہ ساری کیفیات مطلو ب ہیں. اب ہم سورۂ آل عمران کی آیت ۱۵۹ کا مطالعہ کرتے ہیں. یہ آیت اس سلسلے کی اہم ترین آیت ہے . فرمایا: فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ ’’(اے نبیؐ ) یہ اللہ کی رحمت کا سبب ہے کہ آپؐ ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہیں‘‘.اب تک ہم نے جن آیات کا مطالعہ کیا ہے ان میں رسول اللہ کو ہدایات تھیں کہ آپ اہل ایمان کے لیے یہ طرزِ عمل اختیار کیجیے‘ جبکہ یہاں کہا جا رہا ہے کہ آپ فی الواقع مؤمنین کے لیے انتہائی شفیق اور رحیم ہیں. اب یہیں سے یہ موضوع شروع ہورہا ہے کہ یہ سب اللہ کی رحمت اور شفقت کا مظہر ہے کہ اے نبیؐ ! آپؐ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہیں .درحقیقت اللہ تعالیٰ نے آپؐ کا مزاج اور آپؐ کی طبیعت کی ساخت ہی اس طرح بنائی ہے. وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ ’’اور اگر آپؐ سخت دل اور تند خو ہوتے تو یہ آپؐ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے‘‘. جیسے اقبال نے کہا ہے : ؎

کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!

اس کے برعکس اگر امیر کارواں میں خوئے دل نوازی ہو تو لوگ اس کے گرد کھنچے چلے آتے ہیں. بقول اقبال ؎ 

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں؟ 
فقط یہ بات ‘کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق!

تو اگر داعی ٔ‘ حق تند خو اور سنگ دل ہو تو لوگ منتشر ہو جائیں گے.

اب اصل بات یہ ہے کہ کیا کرنا چاہیے!نرمی تو آپؐ کے دل میں ہے‘ لیکن اس نرمی کا ظہور کیسے ہو. اس کے لیے آپ کو چار کام گنوائے جا رہے ہیں.

پہلی بات یہ فرمائی گئی : 
فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ ’’ آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں‘‘. اس کی ضرورت ہر صاحب امر کو ہے‘ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا. سورۃ التغابن میں اہل و عیال کے بارے میں ہدایت ِقرآنی ہے : وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’اور اگر تم عفوو درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو یقینا اللہ غفور ہے رحیم ہے‘‘. یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل و عیال کی تربیت کے لیے معاف کرنے کی خُو نہایت مؤثر ہے .اس لیے کہ ہروقت کا دنگا فساد‘ ڈانٹ ڈپٹ‘ اٹھتے بیٹھتے کی جھڑکی‘ یہ سب چیزیں گھر کے اندر میدانِ کارزار کا سا ماحول پیدا کرنے کے مترادف ہیں‘ اور ان سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے. اس سے ضد‘ ہٹ دھرمی اور اپنی غلطی پر اصرار جیسے برے نتائج نکلتے ہیں ‘ انسان ڈھیٹ ہو جاتا ہے‘ شرم و حیا کے پردے چاک ہو جاتے ہیں. تو یہاں پر بھی حکم دیا جا رہا ہے کہ: فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ ’’آپ ( ) انہیں معاف کیا کریں‘‘. یہ معاف کر دینا انسان کا شعوری فیصلہ ہونا چاہیے اور اپنے دل پر جو میل آیا ہو اسے دھو لینا چاہیے‘ ورنہ اس کھردری سطح پر میل جمع ہو جائے گا.لہذا انسان شعوری طور پر فیصلہ کرے کہ میں نے معاف کیا‘ اور کوشش کر کے دل سے اس میل کو نکال دے.

دوسری بات فرمائی : 
وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ’’اور ان کے لیے (اللہ سے) استغفار بھی کیا کریں‘‘. یہ پہلی بات کا منطقی نتیجہ ہے .کیونکہ کسی کے لیے اللہ سے دعا اسی وقت ہو گی جب اس کی طرف سے دل صاف ہو گا. اس لیے کہ دعا کا اصل جوہر درحقیقت اخلاص ہے. اگر اخلاص نہیں ہے تو وہ دعا نہیں ہے‘ بلکہ ایک رسم ہے جو پوری کر دی گئی ہے. جبکہ ایک جگہ فرمایا گیا ہے: فَادۡعُوۡہُ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ؕ (المؤمن:۶۵’’پس اللہ کو پکارو اُس کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے‘‘. تو جب تک اس شخص کے لیے فی الواقع آپ کے دل میں یہ اخلاص پیدا نہ ہو تو چاہے آپ نے رٹے ہوئے الفاظ زبان سے ادا کر دیے لیکن استغفار کا حق ادا نہیں ہو گا. اس کا ایک عکس یہ بھی ہے کہ آپ استغفار کریں گے تو اس سے آپ کا دل بھی صاف ہو گا. تنہائی میں اگر آپ اپنے کسی ساتھی کی زیادتی پر جو اُس نے آپ پر کی ہو‘ اللہ سے استغفار کریں گے تو آپ کا دل میل سے بالکل صاف ہو جائے گا .
تیسرے نمبر پر فرمایا : 
وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ ’’اور معاملات میں انہیں شر یک ِ مشورہ کیا کریں‘‘. یہاں لفظ ’’امر‘‘ وسیع مفہوم کا حامل ہے.یہ دراصل خاص طور پر کمزور اور ضعیف ساتھیوں کے لیے حکم دیا جا رہا ہے‘ کیونکہ سارا پس منظر انہی کے بارے میں ہے. ان کے لیے نرمی ہونی چاہیے‘ نہ یہ کہ درشتی‘ سختی اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ ہو. انہیں شعوری طور پر معاف کرنا ہے‘ ان کے لیے استغفار کرنا ہے. اور پھر ایسا بھی نہ ہو کہ تمہاری نگاہ میں ان کی قدر اس طرح گر جائے کہ اب انہیں مشوروں سے خارج کر دو. یہ تیسرا نتیجہ نکل سکتا تھا جس کا یہاں سدّباب کیا گیا کہ اعتماد کو ٹھیس نہ لگ جائے.اس لیے کہ انسان ہر چیز کا تأثر لیتا ہے. ایسا شخص لازماً یہ تأثر لے گا کہ اب میں ان کی‘ good books میں نہیں رہا‘ یہ اب مجھ سے بات نہیں کرتے اور کبھی مجھ سے مشورہ نہیں کرتے.یہ چیز اُن کے دل کو آپ سے دور کرنے میں بڑی مؤثر ثابت ہو گی. اور ظاہر ہے کہ دلوں کے فاصلے اس اجتماعیت کے ضعف کا موجب ہوں گے جو آپ اللہ کے دین کے لیے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.لہذا انہیں بھی مشوروں میں شریک کیا کریں. کسی کو مشورے میں شریک کرنا درحقیقت اس پر اظہارِ اعتماد ہے. آدمی کو جن کے خلوص اور فہم پر اعتماد ہوتا ہے ان سے ہی وہ مشورہ کرتا ہے. 

اس ضمن میں چوتھی بات یہ فرمائی گئی کہ : 
فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ ’’پھر جب آپ کسی چیز کا عزم کر لیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجیے!‘‘ آپ ان کو مشورے میں ضرور شریک کیجیے‘ البتہ آپ پر کوئی اپنا فیصلہ ٹھونسنے والا نہیں ہے. مشورے کے بعد فیصلہ آپ ہی کو کرنا ہے. مشورہ اپنے نفس کے اعتبار سے ایسی چیز ہے کہ لازم نہیں کہ اس کو قبول کیا جائے. اس لیے تمام لوگوں کو مشورے میں شریک کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر ووٹوں کی گنتی سے فیصلہ کرنا ہو تا تب تو آپ کو چھلنیاں لگانی ہو تیں کہ اگر سب پختہ و ناپختہ لوگوں کو مشوروں میں شریک کر لیا گیا تو غلط فیصلہ ہو سکتا ہے. لیکن جب فیصلہ صرف امیرکے ہاتھ میں ہے تو پھر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے انہیں ضرور مشوروںمیں شریک کیا جانا چاہیے!

بہت سے لوگوں نے یہاں خواہ مخواہ کھینچ تان کی ہے کہ امیر کے لیے مشورہ قبول 
کرنا لازم ہے. ان کے نزدیک گویا یہاں لفظ ہونا چاہیے تھا : ’’فَاِذَا عَزَمْتُمْ‘‘ شاید اللہ تعالیٰ بھول گیا (معاذ اللہ). اور اگر یقین ہو کہ یہ اللہ کا کلام ہے جس میں کوئی شوشا بھی یوں ہی الل ٹپ نہیں آ گیا ؏ 
’’زیر ہر ہر لفظ غالب ؔچیدہ ام میخانۂ ‘‘
اور ؎ 

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیو!
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے 

تو پھر ماننا پڑے گا کہ ’’عَزَمۡتَ ‘‘ میں یہ واحد مذکر حاضر کی ضمیر بڑی فیصلہ کن ہے. فرمایا جا رہا ہے : فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ ’’پس جب (اے نبیؐ !) آپ فیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکل کیجیے‘‘. پھر یہ ہرگز نہ سوچیے کہ کس کی رائے مخالف تھی اور کس کی رائے حق میں تھی‘ اور یہ کہ اگر کسی کی رائے کے خلاف فیصلہ کر لیا تو اقامتِ دین کی گاڑی نہیں چلے گی. آیت کے آخر میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾ ’’یقینا اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘. اللہ اپنے ان بندوں کو پسند کرتا ہے جو اپنے معاملے کو اُس کے حوالے کریں اور اسی پر توکل کریں‘ اور یہ یقین رکھیں کہ وہی ہو گا جو اللہ چاہے گا‘ باقی کسی کی ناراضگی اوررضامندی سے اور کسی کا ساتھ دینے یا نہ دینے سے کوئی فیصلہ کن فرق واقع نہیں ہوگا.

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیم