’نقض غزل‘ کا عنوان سورۂ نحل کی آیت نمبر ۹۲ سے ماخوذ ہے جس میں ایک ایسی حواس باختہ بڑھیا کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو محنت و مشقت جھیل کر سوت کاتتی ہے، اور پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گویا اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے. جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ میں بھی۵۷۱۹۵۶ء میں ایک ایسا ہی موقع آیا تھا، جب مولانا مودودی مرحوم نے اپنے بعض غلط اقدامات سے ایسی صوت پیدا کر دی کہ مولانا عبد الجبار غازی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبد الغفار حسن، مولانا عبد الرحیم اشرف، مولانا افتخار احمد بلخی، شیخ سلطان احمد، میاں فضل احمد، چودھری عبد الحمید اور جناب سعید ملک سمیت جماعت کی قیادت کی پوری صف دوم، اور راقم الحروف ایسے بہت سے نوجوان کارکن جماعت سے علیحدہ ہو گئے. راقم نے جب ۱۹۶۶ء میں مولانا مودودی مرحوم کے ان اقدامات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات کی ’روداد‘ قلمبند کرنے کا ارادہ کیا تو دفعۃً ذہن سورۂ نحل کی متذکرہ بالا آیت کی جانب منتقل ہوا، چنانچہ ’’نقض غزل‘‘ ہی کو اس تلخ داستان کا عنوان بنا لیا. 

اس تحریر کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ: ’راقم الحروف نے جو بیان جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا وہ کمیٹی کو پیش کئے جانے والے تحریری بیانوں میں سب سے زیادہ طویل تھا‘‘. لہٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ’’جائزہ کمیٹی‘‘ کا اجمالی تعارف کرا دیا جائے. اور اس کے لیے بجائے اس کے کہ اب کچھ لکھا جائے مناسب ہے کہ انہی الفاظ کو درج کر دیا جائے جو راقم نے ۱۹۶۶ء میں اپنے دس سال قبل کے تحریر شدہ ’بیان‘ کو ’’تحریک جماعت اسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کرتے وقت اس کے دیباچے میں تحریر کئے تھے. یعنی: 
’’پیش نظر تحریر در اصل ایک بیان ہے جو بحیثیت رکن جماعت اسلامی راقم الحروف نے اکتوبر ۵۶ء میں جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا.

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے اس کُل پاکستان اجتماع کے موقع پر جو کراچی میں نومبر ۵۵ء میں منعقد ہوا تھا، ایک اجلاس مرکزی مجلس شوریٰ کا منعقد ہوا جس کے سامنے وہ بہت سے اعتراضات اور متبادل تجاویز و مشورے پیش کئے گئے جو جماعت کی پالیسی اور نام سے متعلق جماعت کے اراکین کی جانب سے موصول ہوئے تھے اور جن پر معترضین اور مجوزین حضرات اجتماع ارکان میں بحث کرنا چاہتے تھے. مرکزی مجلس شوریٰ نے اس اندیشے کی بنا پر کہ اگر طریق کار اور دستور سے متعلق ان دقیق بحثوں کو ارکان کے اجتماع میں چھیڑنے کی اجازت دے دی گئی تو ہنگامہ برپا ہو جائے گا، یہ فیصلہ کیا کہ ان اعتراضات اور تجاویز پر غور کرنے کے لیے کہ جن میں نظم جماعت اور اس کے دستور میں بحث کی گئی تھی ایک مجلس تدوین دستور کا انتخاب عمل میں لایا جائے جس میں جماعت کے تمام تنظیمی حلقوں کی تعداد ارکان کے تناسب سے نمائندگی دی جائے تاکہ یہ مجلس جماعت کے لیے ایک نیا دستور مدوّن کرے (اس مجلس میں حلقہ اوکاڑہ کے دو نمائندوں میں ایک راقم الحروف بھی منتخب ہوا تھا) اور ان اعتراضات اور تجاویز پر غور کرنے کے لیے جو جماعت کے طریق کار اور پالیسی سے متعلق ہیں ایک جائزہ کمیٹی کی تشکیل کی جائے جس کے سپرد یہ خدمت ہو کہ وہ تمام پاکستان کا دورہ کر کے جماعت کے عمومی حالات کا جائزہ لے‘ اور ارکانِ جماعت سے فرداً فرداً رابطہ قائم کر کے ان کی بے چینی کے اسباب معلوم کرے اور جو تجاویز ان کے ذہنوں میں ہوں ان کو مرتب کر کے ایک جامع رپورٹ مرکزی مجلس شوریٰ کے سامنے پیش کرے. 

یہ مجلس ابتداءً آٹھ ارکان پر مشتمل تھی، لیکن چند ماہ بعد بعض وجوہات کی بنا پر اس کو مختصر کر دیا گیا اور حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کی سرکردگی میں ان کے علاوہ مرکزی مجلس شوریٰ کے تین اور بزرگ اراکین یعنی مولانا عبد الجبار غازی صاحب، مولانا عبد الغفار حسن صاحب اور جناب شیخ سلطان احمد صاحب پر مشتمل اس ’’جائزہ کمیٹی‘‘ نے تقریباً آٹھ ماہ کے عرصے میں پورے پاکستان کا دورہ کر کے اپنے فرائض مفوضہ کو ادا کیا اور نومبر ۵۶ء میں ایک رپورٹ مرکزی مجلس شوریٰ کی خدت میں پیش کر دی. 

یہی وہ جائزہ کمیٹی تھی جس کی خدمت میں پیش نظر بیان پیش کیا گیا‘‘.

اس کے ساتھ ہی جائزہ کمیٹی کے تینوں ’’بزرگ اراکن‘‘ اور کمیٹی کے ’’فرائض مفوضہ‘‘ کے بارے میں بطور وضاحت یہ حاشیے درج کئے گئے تھے:
(۱) یہ خیال رہے کہ یہی وہ تین حضرات ہیں جن پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی غیر موجودگی میں وقتاً فوقتاً جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری ڈالی گئی.

(۲) مرکزی مجلس شوریٰ منعقدہ ۱۵ تا ۱۸؍ مارچ ۵۶ء نے جائزہ کمیٹی کے معلق حسب ذیل قرار داد منظور کی تھی. 

۱. جماعت کی پالیسی، نظم اور حالات کے متعلق جو اعتراضات، شکایات اور تجاویز سالانہ اجتماع کے موقع پر موصول ہوئی تھیں، ان کے بھیجنے والوں سے گفتگو کر کے یہ تحقیق کریں کہ ان شکایات کی بنیاد کیا ہے اور وہ اصلاح کے لیے ایجابی صورت میں کیا تجاویز پیش کرتے ہیں.
۲. جماعت کے ارکان میں اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کی پالیسی، طریق کار اور حالات کے بارے میں کچھ تبدیلی چاہتے ہیں تو ان سے تحقیق کریں کہ وہ کیا تبدیلی چاہتے ہیں. 

جائزہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ تقریباً ایک سال کی محنت و مشقت کے بعد وسط نومبر ۱۹۵۶ء میں پیش کی اور اس پر غور کرنے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ۲۵؍ نومبر کو شروع ہوا. اور اس روز سے لے کر اواخر فروری ۵۷ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان کے اختتام تک جماعت ایک شدید بحران سے گزری جسن نے ۱۹۴۱ء میں قائم ہونے والی جماعت کو ’’ختم‘‘ اور ایک نئی جماعت اسلامی کو ’’جنم‘‘ دیا. چنانچہ اسی بحران کی داستان ہے جو ’’نقض غزل‘‘ کے عوان سے پیش خدمت ہے. اس بحرانی دور کے بعض ’’نا خوشگوار اور کریہہ واقعات‘‘ کی جانب راقم الحروف نے رکنیت جماعت سے مستعفی ہوتے ہوئے اپنے استعفے کے خط میں اشارہ کیا تھا جس کا اقتباس ذیل میں درج کیا جا رہا ہے، اس لیے کہ یہی گویا اس ’نقض غزل‘ کا اشاریہ یا انڈکس ہے. (واضح رہے کہ میری یہ تحریر اجتماعِ ماچھی گوٹھ کے کل دو ماہ بعد کی ہے، جو ۲۹؍ رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ مطابق اپریل۱۹۵۷ء بحالت اعتکاف لکھی گئی تھی!)

’’جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پیش ہونے سے لے کر اجتماع ماچھی گوٹھ تک جماعت اسلامی پاکستان کے حلقوں میں جن نا خوشگوار اور کریہہ واقعات کا چکر چلا ہے ان کو محض یاد کرنے ہی سے انسان کو سخت اذیت اور کرب کا سامنا کرنا پڑا ہے. اس پندرہ روزہ شوریٰ کے دوران جس میں رپورٹ پر غور ہوا، شوریٰ کے فعال عناص کا دو متقابل اور متحارب گروہوں میں تقسیم ہو جانا، بہت رد و قدح کے بعد اور بالآخر خوف انتشار کی بنا پر بالاکراہ کسر و انکسار کے ذریعے ایک لا یعنی اور مہمل قرار داد کا پاس ہونا، پھر اس کی مختلف توجیہیں اور جماعت کے مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف رد عمل، اس کے نتیجے کے طور پر سازشوں کی برملا تہمتیں، اکابرین جماعت کا ایک دوسرے کے بارے میں انتہائی گری ہوئی رایوں کا اظہار، سعید ملک صاحب کا سنسنی خیز استعفاء اور اس کا اسی انداز میں قیم جماعت کی طرف سے تعاقب، امیر جماعت کا جائزہ کمیٹی کے چاروں ارکان پر نجویٰ، گروہ بندی اور ’’غیر شعوری‘‘ سازش کا الزام، مولانا امین احسن صاحب کا استعفاء از رکنیت جماعت، امیر جماعت کا جذباتی انداز میں استعفاء از امارت جماعت، جماعت کے اندر ایک مہم کے انداز میں امیر جماعت پر قرار داد ہائے اعتماد، دو اراکین مرکزی شوریٰ کی رکنیت جماعت کا تعطل، مولانا عبد الجبار غازی صاحب کا استعفاء از رکنیت جماعت، مولانا عبد الغفار حسن صاحب کا استعفاء از مناصب جماعت، سلطان احمد صاحب کا استعفاء از رکنیت شوریٰ … یہ سارے معاملات میرے لیے اس اعتبار سے تو غیر متوقع نہ تھے کہ میری تو رائے ہی یہ تھی کہ اب جماعت ایک خالص سیاسی جماعت بن گئی ہے اور یہ اس کے نا گزیر ثمرات ہیں، لیکن اس لحاظ سے کمر توڑ دینے والے تھے کہ جماعت میں اخلاقی تنزل اور گراوٹ کے بارے میں اتنی پست رائے میں نے ابھی قائم نہیں کی تھی…‘‘ 

۱۹۶۶ء میں جب راقم نے اپنی کتاب ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ شائع کی ’نقض غزل کا اکثر و بیشتر حصہ تسوید و تبییض کے مراحل سے گزر چکا تھا. لہٰذا راقم کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ اسے بھی کتاب میں شامل کر دے. لیکن بوجوہ اس خیال کو ترک کر دیا گیا. ان ’وجوہ‘ میں سے ایک تو وہ ہے جس کی جانب اسی تحریر میں اشارہ ہے جو ’میثاق‘ ستمبر ۱۹۶۶ء میں جب ’نقض غزل‘ کی سلسلہ وار اشاعت کا آغاز ہوا تو اس کے تعارفی نوٹ کی حیثیت سے درج کی گئی تھی، اور جسے اب بھی من وعن شامل اشاعت کیا جا رہا ہے. (دیکھئے ’نقض غزل‘ کے ٹائٹل کا اندرونی صفحہ!)

’نقض غزل‘ کو ’’تحریک جماعت اسلامی ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں شامل نہ کرنے کا ایک دوسرا سبب یہ تھا کہ میرے ذہن میں اس کتاب کے حصہ دوم کا خاکہ مکمل ہو گیا تھا، جس کا بابِ اول اسے بننا تھا. یہی وجہ ہے کہ جب ’میثاق‘ میں اس کی سلسلہ وار اشاعت ہوئی تو پانچوں پرچوں کی ’فہرست مضامین‘ اور ہر قسط کے عنوان میں اس کی صراحت موجود تھی کہ یہ ’’تحریک جماعت اسلامی حصہ دوم‘‘ کے سلسلہ کی پہلی کڑی ہے. 

’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کے اس مجوزہ حصہ دوم کو تین ابواب پر مشتمل ہونا تھا: 

ایک تو یہی ’نقض غزل‘ جس کا حصہ اول اس وقت پیش نظر ہے، اور حصہ دوم انشاء اللہ آئندہ شمارے میں پیش کر دیا جائے گا!

دوسرا باب ’تعمیر جدید‘کے عنوان سے مولانا مودودی کے ان تین نہایت اہم لیکن اسی قدر ’خطرناک‘ نظریات پر بحث و تنقید پر مشتمل ہوتا جن پر اجتماع ماچھی گوٹھ کے بعد ایک ’نئی جماعت اسلامی‘ کی تعمیر جدید ہوئی. یعنی:

ایک یہ کہ کسی بھی تحریک کے اصول جب آغاز میں بیان ہوتے ہیں تو کچھ اور ہوتے ہیں، لیکن جب عمل کی دنیا میں حقائق و واقعات کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں ’حکمت عملی‘ کے تقاضوں کے مطابق لازماً تغیر و تبدل ہو جاتا ہے اور یہ ’قاعدۂ کلیہ‘ اتنا اٹل ہے کہ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا خود نبی اکرم کی تحریک بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہ سکی تھی! (۱اعاذنا اللہ من ذالک (۱) : مولانا امین احسن اصلاحی نے مولانا مودودی مرحوم کے اس نظریۂ حکمت عملی پر بڑی بھر پور تنقید کی تھی لیکن اول تو اس کا جو جواب مولانا مودودی نے دیا، اور پھر جواب الجواب کا جو سلسلہ چلا وہ اتنا طویل ہو گیا کہ جماعت کے اکثر لوگ اس کی علمی و استدلالی بول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گئے … دوسرے خود مولانا نے اس پر صرف علمی تنقید پر اکتفا کی اور اس کے جو نتائج تحریکی و تنظیمی سطح پر ظاہر ہو سکتے تھے، اور بالفعل ہو رہے تھے، ان کی جانب توجہ نہ کی. لہٰذا اس کی شناعت سے جماعت کے عام ارکان اور کارکنوں کو متنبہ کرنے کا حق ادا نہ ہو سکا! 

دوسرے یہ کہ مشہور اور ممدوح لوگوں کی شخصیتیں جو کچھ کتابوں میں نظر آتی ہیں حقیقتاً ویسی نہیں ہوتیں بلکہ گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ان کاغذی تصویروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں. اور یہ اصول بھی اتنا قطعی ہے کہ خود صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی جیسے کچھ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں نظر آتے ہیں واقعتا ویسے نہیں تھے، یہاں تک کہ اگر ان کے دور میں بھی کوئی جائزہ کمیٹی تشکیل دی جاتی تو وہ اس سے بھی کہیں زیادہ گھناؤنا گند جمع کر کے لا سکتی تھی جتنا جماعت اسلامی کی جائزہ کمیٹی نے پیش کیا ہے. (معاذ اللہ !!) 
تیسرے یہ کہ تحریکیں صرف اصولوں کی بنیاد پر نہیں چل سکتیں بلکہ ان کے لیے 

؏ ’’نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز‘‘
کی حامل شخصیتیں ناگزیر ضرورت کے طور پر درکار ہوتی ہیں، لہٰذا اگر عالم واقعہ میں ایسی کوئی شخصیت دستیاب نہ ہو تو ’’پیراں نمے پرند، مریداں مے پرانند!‘‘ کے مطابق ایسی کسی شخصیت کا مصنوعی طور پر تیار کرنا نہ صرف درست بلکہ لازمی ہے!
اور تیسرے اور آخری باب ’’نوبت بایں جارسید‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جانا مقصود تھا جس میں ’’فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ ‘‘ (الکہف: ۶کے مصداق متذکرہ بالا تینوں نظریات کے ان آثار و ثمرات اور نتائج و عواقب کا اجمالی جائزہ پیش ہوتا، جنہوں نے جماعت اسلامی کی مجموعی پالیسی اور اس کے وابستگان کے مزاج کو اس درجہ تبدیل کر کے رکھ دیا " ؏ 

’’کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!‘‘ 

راقم کے ذہن میں ابھی یہ مواد پک ہی رہا تھا کہ ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہو گئی. اور وہ یہ کہ جیسے ہی ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ شائع ہوئی ایک جانب اخبارات و رسائل اور دوسری جانب انفرادی خطوط میں تبصرے شروع ہو گئے جن میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرے والوں پر ایک ’’الزام‘‘ تقریباً بالاتفاق عائد کیا گیا. مثلاً روزنامہ نوائے وقت لاہور نے لکھا:

’’تدارک کی مؤثر ترین بلکہ اظہر من الشمس صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان جس بات کو سچ اور درست سمجھے اس کے صرف انفرادی اظہار پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنے ہم رائے و ہم خیال اصحاب سے مل کر اپنے نزدیک سچ اور درست کو بروئے کار بھی لائے. یہ عجیب بات ہے کہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والوں نے اپنے اس اقدام کے بارے میں لکھا تو بہت کچھ ہے لیکن اب تک کوئی مثبت اقدام نہیں کیا‘‘. 

اسی طرح روزنامہ ’کوہستان‘ کے تبصرہ نگار نے تحریر کیا:

’’اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک سوال قاری کے ذہن میں بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ جماعت اسلامی کے بارے میں جن لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ صحیح نہج پر کام نہیں کر رہی ہے اور اسی بنا پر وہ اس سے الگ ہوئے، کیا انہوں نے علیحدگی کے بعد سے آج تک نو دس سال کے طویل مرحلہ میں اپنے انداز فکر کے مطابق کوئی کام بھی کیا. کیونکہ جہاں تک تحریک اسلامی کے نصب العین کا تعلق ہے ان حضرات کو پہلے بھی اس سے اتفاق تھا اور اسی بنا پر یہ اس میں شامل ہوئے تھے اور آج بھی جب یہ کتاب طبع ہو کر سامنے آئی ہے انہوں نے اس نصب العین سے اختلاف نہیں کیا. ایسی صورت میں علیحدگی کے بعد بھی اس نصب العین کے لیے اپنے انداز فکر اور طریق کار کے مطابق کام کرنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے … ‘‘

اس الزام کے جواب میں، الحمد للہ کہ راقم الحروف نے کسی سخن سازی سے کام نہیں لیا بلکہ صاف ’اعتراف تقصیر‘ کرتے ہوئے جماعت سے علیحدہ ہونے والے حضرات کی خدمت میں گزارش کی کہ وہ اس پر برافروختہ ہونے کی بجائے سنجیدگی سے غور کریں: 

’’ہمیں اس کوتاہی اور تقصیر کا صاف اعتراف ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ علیحدہ ہونے والوں پر جماعت اسلامی اور اس کے ہم خیال حضرات کا یہ الزام بالکل درست ہے کہ انہیں مجتمع ہو کر اس نہج پر عملی جدو جہد کا آغاز کر دینا چاہیے تھا جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے … آخر میں ہم جماعت سے علیحدہ ہونے والے حضرات کی خدمت میں بھی یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ بالا الزام پر مشتعل ہونے کے بجائے اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور واقعی جائزہ لیں کہ یہ الزام کس حد تک حقیقت پر مبنی ہے … ہماری دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، بہر حال اس معاملے میں ہم سب سے مجموعی طور پر کوتاہی ہوئی ہے اور اس ’الزام‘ کا اصل ’جواب‘ ہماری جانب سے یہی ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی کے طریق کار میں جن غلطیوں کی نشاندہی کر کے ہم علیحدہ ہوئے تھے، ان سے پہلو بچا کر اس مقصد کے لیے اجتماعی جدو جہد شروع کی جائے جس کے لیے جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ‘‘ (تذکرہ و تبصرہ ’میثاق‘ لاہور بابت اگست ۱۹۶۶ء)

اس کے نتیجے میں بحمد اللہ ’’معتزلین جماعت اسلامی‘‘ کے حلقے میں واقعی ہلچل پیدا ہو گئی جس کے باعث پہلے ’’قرار داد رحیم آباد‘‘ منصۂ شہود پر آئی اور پھر ’’اجتماع رحیم یار خان‘‘ منعقد ہوا اور ساتھ ہی احباب اور بزرگوں کی جانب سے ایک زور دار تقاضا ہوا کہ اب جبکہ ہم ایک مثبت تعمیر کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں پرانی تلخیوں کی یاد تازہ نہ کی جائے. تو اگرچہ میرا ذہن اسے تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن میں نے بزرگوں کی بات تسلیم کرتے ہوئے قلم روک دیا!

وہ دن اور آج کا دن، یہ داستان جو پہلے ہی دس سال پرانی ہو چکی تھی دنوں، مہینوں اور سالوں کے بوجھ تلے مزید دبتی چلی گئی. یہاں تک کہ اب اس پر پورے تینتیس؍ ۳۳ سال بیت چکے ہیں، اور حقائق و واقعات پر ثلث صدی کا دبیز پردہ پڑ چکا ہے. 

ان حالات میں اگر اب اس دَور کے واقعات کو محض حافظے اور یادداشت کی بنیاد پر تحریر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں یقینا ذہول اور نسیان کی بنا پر بہت سی غلطیوں کا احتمال ہے. غنیمت ہے کہ ’نقض غزل‘ کی پانچ قسطیں ۶۷۱۹۶۶ء میں شائع ہو گئی تھیں جب اس المیے کے سارے کردار بقید حیات تھے. خصوصاً مولانا مودودی نہ صرف یہ کہ زندہ تھے بلکہ پوری طرح چاق و چوبند تھے. اور جماعت اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بھر پور طور پر ادا کر رہے تھے. لہٰذا اگر ’نقض غزل‘ کی کسی بات کی تردید نہ انہوں نے کی نہ کسی اور نے، جیسے کہ واقعہ ہے، تو یہ اس کے مشمولات کے مستند(Authentic) ہونے کی دلیل قاطع ہے. ویسے بھی اس میں اصل اہمیت کی حامل تو چند دستاویزات ہیں جن میں کسی کمی بیشی کا کوئی احتمال سرے سے موجود ہی نہیں ہے. 

اس دوران میں کئی بار خیال آیا کہ تاریخ کی یہ امانت ادا کر ہی دی جائے، اور تاریخ جماعت اسلامی کے اس ’تاریک باب‘ کو منظر عام پر لے ہی آیا جائے خصوصاً جب ان واقعات و حوادث کو گزرے پورے تیس برس ہو گئے اور اتفاق سے یہ وہی دن تھے جب اخبارات میں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی کتاب کے اُن ’منجمد‘ (Sealed) اوراق کی ’رہائی‘ (Release) کا چرچا ہو رہا تھا جن کی اشاعت تیس سال کے لیے مؤخر کر دی گئی تھی تب تو یہی داعیہ شدت کے ساتھ پیدا ہوا کہ اب ان دستاویزات کو بھی ’رہا‘ کر ہی دیا جائے. چنانچہ تقریباً دو سال قبل اس کا حتمی فیصلہ کر بھی لیا گیا تھا، مگر بعض اسباب کی بنا پر معاملہ پھر التوا میں پڑ گیا. اسی طرح لگ بھگ ایک سال قبل تو نہ صرف یہ کہ دوبارہ فیصلہ ہو گیا بلکہ اس کا اعلان بھی کر دیا گیا لیکن اللہ کی مشیت پھر آڑے آ گئی. یہ اعلان اور اس کا پس منظر ’میثاق‘ باب فروری ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا تھا، جو من و عن درج ذیل ہے:

’’جدہ میں ایک مفصل ملاقات برنی برادران سے بھی ہوئی جس کا ذکر ایک خاص اعتبار سے ضروری ہے. یہ دونوں بھائی، ڈاکٹر شجاعت حسین برنی اور ڈاکٹر فرحت حسین برنی، جدید فنی تعلیم کی اعلیٰ ترین ڈگریاں رکھنے کے ساتھ ساتھ (ڈاکٹر شجاعت معالجہ امراض نفسیاتی میں ڈاکٹریٹ کے حامل ہیں اور ڈاکٹر فرحت انجنیئرنگ میں) نہایت نیک طبیعت اور گہرے مذہبی مزاج کے حامل ہیں، اور دونوں ہی نے نہایت قلیل مدت میں قرآن مجید کے ساتھ گہرے شغف کے علاوہ درس قرآن کی عمدہ صلاحیت حاصل کر لی ہے!

ان میں سے فرحت صاحب کی جماعت اسلامی کی تحریک کے ساتھ وابستگی نہایت گہری اور جذبات ہے، اور وہ غالباً اس وقت جماعت کے جدہ کے حلقے کے سربراہ ہیں!

انہوں نے اثناء گفتگو میں نہایت حسرت کے ساتھ کہا کہ آپ کو جماعت اسلامی سے علیحدہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا! اور جب میں نے عرض کیا کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم لوگ خود علیحدہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ہمیں جبراً علیحدہ کیا گیا تھا اور حالات ایسے پیدا کر دئے گئے تھے کہ اگر ہم جماعت سے علیحدہ نہ ہوتے تو ہماری معنوی موت واقع ہو جاتی، اس لیے کہ اجتماعِ ماچھی گوٹھ (فروری۱۹۵۷ء) میں طے یہ پایا تھا کہ جو لوگ جماعت کی موجودہ پالیسی سے اختلاف رکھتے ہوں وہ اپنی رائے کا اظہار نہ تحریری طور پر کر سکتے ہیں نہ زبانی طور پر، انہیں صرف جماعت کے کُل پاکستان اجتماعِ ارکان میں اظہار رائے کا حق حاصل ہو گا اس کے علاوہ نہ وہ جماعت کے مقامی یا حلقہ وار اجتماعت میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں گے نہ ارکان جماعت سے نجی گفتگوؤں میں! اور ارکان کے کل پاکستان اجتماع کے بارے میں نہ یہ یقینی ہوتا ہے کہ وہ کتنے وقفے کے بعد ہو سکے گا، نہ ہی اس میں کسی اختلافی نقطۂ نظر کو تفصیلاً پیش کرنے کا موقع یا محل ہوتا ہے! گویا جماعت اسلامی میں اظہار رائے کی آزادی ہاتھی کے اُن دانتوں کے مانند ہے جو دیکھنے میں تو بہت بڑے بڑے نظر آتے ہیں لیکن کھانے کے کام نہیں آ سکتے !!

اس پر جس حیرت اور تعجب کا اظہار برنی صاحب نے کیا اس پر خیال آیا کہ جماعت اسلامی کی تاریخ کے اس گمشدہ باب کو اب منظر عام پر ہی آنا چاہیے جو ۵۶ء تا ۵۸ء کے واقعات پر مشتمل ہے اور جس کا ایک اہم حصہ راقم نے بائیس سال قبل ۶۷۶۶ء میں ’’نقض غزل‘ کے عنوان سے تحریر بھی کر دیا تھا اس لیے کہ اس کے بغیر جماعت کے بہی خواہوں پر ہمارا موقف صحیح طور پر واضح نہیں ہو سکتا اور ویسے بھی ان حوادث پر اب تیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اتنے عرصے کے بعد تو دنیا میں حساس ترین دستاویزات کو بھی شائع کر دیا جاتا ہے تاکہ حقائق و واقعات کا علم صفحۂ ہستی سے بالکل گم ہی نہ ہو جائے اور بعد میں آنے والے لوگ ماضی کے حوادث کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکیں اور مستقبل کے بارے میں صحیح فیصلے کر سکیں اس پر یہ بھی یاد آیا کہ یہ فیصلہ ہم نے تقریباً ایک سال قبل کر بھی لیا تھا لیکن پھر دوسری مصروفیات مانع ہوتی رہیں. 

بہر حال اب قارئین ’میثاق‘ نوٹ فرما لیں کہ ’میثاق‘ کی آئندہ اشاعت بابت مارچ ۸۹ء میں ’’نقض غزل‘‘ کی وہ پانچ قسطیں یکجا شائع کر دی جائیں گی جو ۶۷۶۶ء میں شائع ہوئی تھیں اور انشا ء اللہ اپریل کے پرچے میں اس کی تکمیل کر دی جائے گی. واللہ الموفق والمستعان!‘‘ 
اتنے حتمی وعدے کی تعمیل جس سبب سے نہ ہو سکی وہ یہ تھا کہ قریبی رفقاء کا اصرار تھا کہ اس مضمون کو قسط وار شائع کرنے کی بجائے یکمشت کتابی صورت میں شائع کیا جائے، اور اس کے لیے جو فرصت اور یکسوئی درکار تھی وہ کسی صورت میسر نہیں آ رہی تھی. چنانچہ معاملہ لیت و لعل ہی میں تھا کہ اچانک ہفت روزہ ’’آئین‘‘ نے مشکل حل کر دی. کہ ایک جانب تو مولانا مودودی مرحوم کی وہ مبینہ تقریر شائع کر دی جس سے مولانا کا پورا فلسفۂ قیادت و امارت ان کے اپنے الفاظ میں سامنے آ گیا اور اس طرح راقم کو وہ گوہر مقصود حاصل ہو گیا جس کی وہ ایک عرصے سے تلاش میں تھا (یہ تقریر یا تحریر گزشتہ ’’میثاق‘‘ میں اس وعدے کے ساتھ شائع کی جا چکی ہے کہ اس پر ’محاکمہ‘ ہم بعد میں کریں گے چنانچہ انشاء اللہ اسی ’نقض غزل‘ کے ضمن میں یہ وعدہ بھی جلد پورا کر دیا جائے گا) اور دوسری جانب جماعت سے علیحدہ ہونے والوں، بالخصوص راقم کی ذات پر نہایت رکیک حملہ کر کے شدید تقاضا پیدا کر دیا کہ صحیح حقائق کو بلا تاخیر سامنے لایا جائے. بصوت دیگر لوگ یہ باور کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم نے ان کے عائد کردہ الزامات کو درست تسلیم کر لیا ہے. بنا بریں قریبی رفقاء کی رائے بھی بدل گئی جس کے نتیجے میں ’نقض غزل‘ کا حصہ اول پیش خدمت ہے، (حصہ دوم بھی انشاء اللہ اگلے ہی ماہ سامنے آ جائے گا) 

ان مضامین میں، جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے اصل اہمیت تو بعض ’دستاویزات‘ کی ہے، تاہم انہیں ایک مسلسل اور مربوط تحریر کی صورت دینے کے لیے گاہ بگاہ راقم کے ذاتی تجزئے اور تبصرے بھی آ گئے ہیں جن کا لہجہ بالعموم تلخ اور درشت ہے. اس لیے کہ یہ میری اُس دور کی تحریریں ہیں جب مجھ پر مولانا مودودی کے بارے میں تلخی کا رنگ غالب تھا. اپنی اس دور کی بعض دوسری تحریروں کو جب راقم نے ۱۹۸۳ء میں کتابی صورت میں شائع کیا تھا تو بعض وضاحتیں دیباچہ میں درج کی تھیں. ان کا ضروری حصہ یہاں نقل کیا جا رہا ہے:
’’پیش نظر مجموعے کی اشاعت سے قبل جب میں نے اپنی آج سے پندرہ سولہ سال قبل کی ان تحریروں کا جائزہ تنقیدی نگاہ سے لیا تو الحمد للہ کہ اس امر کا تو پورا اطمینان ہوا کہ ان میں حالات و واقعات کا جو تجزیہ سامنے آیا ہے وہ صد فی صد درست ہے. البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ ان میں بعض مقامات پر طرزِ تعمیر اور اندازِ تحریر میں تلخی شامل ہو گئی ہے، جو نہ ہوتی تو بہتر تھا گویا اگر میں ان موضوعات پر آج قلم اٹھاؤں تو تجزیہ تو بنیادی طور پر وہی ہو گا لیکن انداز اتنا تلخ نہ ہو گا. 

لیکن اب ان تحریروں سے اس تلخی کو نکالنا نہ ممکن ہے نہ مناسب ممکن اس لیے نہیں کہ وہ ان کے پورے تانے بانے میں بُنی ہوئی ہے، اور مناسب یا درست اس لیے نہیں کہ پرانی تحریروں کو اگر پرانی تحریروں ہی کی حیثیت سے شائع کیا جائے تو ان میں رد و بدل تصنیف و تالیف کے اصولوں کے خلاف ہے. اگر صاحب تحریر کی رائے میں بعد میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہو تو اسے اضافی حواشی کی صورت میں درج ہونا چاہیے یا علیحدہ وضاحت کی شکل میں!

اس ضمن میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے. اس لیے کہ ان کے ساتھ میرے ذاتی و قلبی تعلق میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت شدت کے ساتھ واقع ہوئی ہے. چنانچہ اس کا آغاز شدید ذہنی و فکری مرعوبیت اور گہری قلبی محبت و عقیدت کے ساتھ ہوا، جس میں ذاتی احسان مندی کا عنصر بھی شدت کے ساتھ موجود تھا. لیکن پھر جب اختلاف پیدا ہوا تو وہ بھی اتنا ہی شدید تھا اور اس کے نتیجے میں طویل عرصے تک مایوسی ہی نہیں شدید بیزاری کی کیفیت قلب و ذہن پر طاری رہی، لیکن آخر کار اس پر افسوس، ہمدردی اور حسرت کا رنگ غالب آ گیا اور قلب کی گہرائیوں میں کم از کم احسان مندی کے احساسات بتمام و کمال عود کر آئے. 

میری پیش نظر تحریریں چونکہ ان تین ادوار میں سے درمیانی دور سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان میں تلخی کا رنگ بہت نمایاں ہے جس کے لیے میں مولانا مرحوم کے تمام محبین و معتقدین سے بھی معذرت خواہ ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ۷۹ء میں امریکہ میں مولانا سے میری وہ ملاقات ہو جاتی جس کی ایک شدید خواہش لیے ہوئے میں وہاں گیا تھا تو میں ان سے بھی معافی حاصل کر لیتا اس لیے کہ اسی زمانے کے لگ بھگ مجھے ایک اطلاع ایسی ملی تھی جس سے پورا اندازہ ہو گیا تھا کہ مولانا کے دل میں میری جانب سے کوئی تکدر یا رنج نہیں ہے‘‘. (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی تالیف: ’’اسلام اور پاکستان‘‘)

اس سلسلۂ مضامین میں بہت سے ایسے حضرات کا ذکر بھی آ رہا ہے جو اس عرصے کے دوران اس عالم فانی سے رحلت فرما چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی، اور ہماری، اور جملہ مسلمانوں کی خطاؤں سے در گذر فرمائے اور سب کو اپنی رحمت و مغفرت کے سائے میں جگہ مرحمت فرمائے! 

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِنَا وَ کَبِیْرِنَا وَ ذَکَرِنَا وَ اُنْثٰنَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ، وَ مَنْ تَوَفَیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِ یْمَانِ. اٰمین! 


وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ