جائزہ کمیٹی کی رپورٹ اور اس کے خلاف مولانا مودودی کی چارج شیٹ

راقم الحروف نے جو بیان جائزہ کمیٹی کی خدمت میں پیش کیا تھا، وہ کمیٹی کو پیش کئے جانے والے تحریری بیانوں میں سب سے زیادہ طویل تھا اور اس کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ جبکہ دوسرے اکثر زبانی و تحریری بیان زیادہ تر جماعت اسلامی کے ارکان و متفقین اور خصوصاً اس کے ہمہ وقتی کارکنوں کی دینی و اخلاقی حالت اور دیانت و تقویٰ کے منافی واقعات و معاملات سے بحث کرتے تھے ، وہاں اس بیان میں جماعت کی پالیسی پر اصولی تنقید اور اس کے موقف کے بارے میں اصولی بحث کی گئی تھی اس طرح اس بیان ے اس دینی و اخلاقی گراوٹ و انحطاط کی منطقی توجیہہ پیش کر دی جس کی تفصیل دوسرے تحریری بیانوں میں درج تھی اور جس کا تذکرہ جماعت اسلامی کے بے شمار ارکان نے جائزہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر زبا نی گفتگوؤں میں انتہائی درد مندی اور پریشانی کے ساتھ کیا تھا گویا کہ جبکہ دوسرے زبانی و تحریری بیان جماعت کے امراض کی علامات سے بحث کرتے تھے وہاں اس بیان نے ان امراض کی تشخیص پیش کر دی اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی کر دی جن سے ان امراض نے جنم لیا تھا اور تقویت پائی تھی. 

جائزہ کمیٹی کے بزرگ رکن مولانا عبد الجبار غازی صاحب 
(۱نے بعد میں ایک موقع پر مجھے بتایا کہ ’’تمہارا بیان پڑھ کر میں نے اپنی نوٹ بک میں یہ الفاظ درج کئے تھے کہ ’’حیرت ہوتی ہے کہ یہ نوجوان جو ہمارے مقابلے میں جماعت اسلامی میں ایک (۱) اب عرصہ ہوا کی اللہ کے جارِ رحمت میں پہنچ چکے ہیں. بالکل نو وارد کی حیثیت رکھتا ہے اور جسے حالات و واقعات کا علم بہت کم ہے، محض لٹریچر کے منطقی تجزیئے سے ان نتائج تک پہنچ گیا ہے جن تک ہم بوڑھوں کی رسائی تمام حالات و واقعات کے بچشم سر مشاہدے سے ہوئی ہے … ‘‘

کمیٹی کے ایک دوسرے رکن شیخ سلطان احمد صاحب ے اس بیان کے طریق استدلال کا ایک خلاصہ تیار کیا، تاکہ فوری حوالے کے کام آ سکے. شیخ صاحب موصوف ہی نے مجھے ان بعض مقامات کی اصلاح کی جانب بھی متوجہ کیا جہاں شدتِ جذبات میں سخت الفاظ استعمال ہو گئے تھے، چنانچہ میں نے ایسے سخت الفاظ اور جملوں کو قلم زد کر دیا جن سے دلآزاری ہو سکتی تھی اور اصلاح کے بجائے ضد اور ہٹ دھرمی کے پیدا ہو جانے کا امکان تھا. کمیٹی کے کنوینر حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب اور اس کے چوتھے رکن مولانا عبد الغفار حسن صاحب نے بھی منجملہ اس بیان کو پسند فرمایا اور اس محنت پر مجھے داد دی جو میں نے دو ہفتے کے مختصر وقفے میں اس بیان کے تحریر کرنے پر صرف کی تھی. 

رپورٹ جائزہ کمیٹی … جائزہ کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کرنے اور ان ارکان سے ملاقات کے بعد جو جماعت کی پالیسی اور طریق کار یا اس کے نظم و نسق اور دستور سے متعلق اپنا نقطہ نظر کمیٹی کے سامنے پیش کرنا چاتے تھے، کچھ عرصہ اس پورے مواد کو مرتب کرنےمیں صرف کیا اور بالآخر ایک جامع رپورٹ وسط نومبر ۱۹۵۶ء میں امیر جماعت کی خدمت میں پیش کر دی. 

یہ رپورٹ تا حال جماعت اسلامی پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا راز 
(Top Level Secret) ہے. ایک رکن شوریٰ کے ان الفاظ سے کہ ’’در اصل جائزہ کمیٹی نے پوری جماعت میں جھاڑ و پھیر کر اس کا سارا گند جمع کیا ہے اور اس غلاظت کے ڈھیر کو اس رپورٹ کی شکل میں پیش کر دیا ہے‘‘. کسی حد تک اس رپورٹ کے مواد کے بارے میں اندازہ ہو سکتا ہے. اور اگرچہ ان ہی رکن شوریٰ نے یہ کہہ کر ’’میں دعوے سے کہتا ہوں کہ دورِ صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) میں بھی کوئی ایسی جائزہ کمیٹی مقرر کی جاتی تو وہ اس سے بھی زیادہ گندا مواد جمع کر کے پیش کر سکتی تھی‘‘ اپنے آپ کو اور اپنی طرز پر سوچنے والے دوسرے لوگوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی. لیکن اس مواد سے جس طرح کا لرزہ جماعت کے اربابِ حل و عقد پر طاری ہو گیا تھا، اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جب مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر اس رپورٹ کی نقول ارکانِ شوریٰ کو دی گئیں تو ان کو انتہائی تاکید کے ساتھ ہدایت کی گی کہ اس کی یا اس کے کسی حصے کی نقل شوریٰ سے باہر نہ جانے پائے اور جب ایک موقع پر ایک رکن شوریٰ نے انتہائی سراسیمگی کے عالم میں اعلان کیا کہ ان کا نسخہ غائب ہو گیا ہے تو پوری شوریٰ پر سنسنی طاری ہو گئی اور ایک کھلبلی سی مچ گئی اور اطمینان کا سانس اس وقت تک نہ لیا جا سکا جب تک یہ معلوم نہ ہو گیا کہ ان صاحب کا نسخہ گم نہیں ہوا بلکہ وہیں کہیں کاغذوں میں ادھر ادھر ہو گیا تھا اور محض گھبراہٹ کی وجہ سے مل نہیں رہا تھا. 

اجلاس مرکزی مجلس شوریٰ … جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس جو ۲۵؍ نومبر سے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۵۶ء تک تقریباً دو ہفتے جاری رہا، جماعت کی تاریخ میں ایک اہم واقعے کی حیثیت رکھتا ہے. اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے تمام فعال اور با اثر اراکین واضح طور پر دو گروہوں میں منقسم ہو گئے. ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ جماعت اسلامی غلط رخ پر بڑھ آئی ہے. ۴۷ء میں طریق کار میں جو تبدیلی کی گئی تھی وہ اصولاً اور مصلحتاً دونوں ہی اعتبار سے غلط تھی اور اب خیریت اسی میں ہے کہ فوراً اس سے رجوع کیا جائے اور ’’اوپر سے نیچے‘‘ انقلاب لانے کے خواب دیکھنا چھوڑ کر پھر وہی ’’نیچے سے اوپر‘‘ کی طرف تبدیلی لانے کا طریقہ اختیار کیا جائے. اور دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ جماعت اسلامی کے حق میں مہلک ثابت ہو گا. جماعت کو اسی موجودہ طریق کار پر کاربند رہنا چاہیے. خرابیاں اول تو اتنی نہیں ہیں جتنی کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوتی ہیں اور جتنی ہیں وہ فطری ہیں اور انسانی تاریخ میں کوئی دَور ایسا نہیں گزرا جس میں یہ خرابیاں نہ پائی جاتی ہوں. حتیٰ کہ عین دَور صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین میں بھی اگر کوئی جائزہ کمیٹی اس طرز سے ’’جائزہ‘‘ لیتی تو ایسا ہی نہیں اس سے بھی کہیں زیادہ غلیظ مواد جمع کر سکتی تھی. پہلے خیال کے پیش کرنے والوں میں سب سے زیادہ نمایاں حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب تھے اور ان کے علاوہ عبد الغفار حسن صاحب اور شیخ سلطان احمد صاحب نے اس خیال کی تائید میں بڑی مؤثر اور درد انگیز تقریریں کیں. دوسری جانب کے خطیب اعظم جناب نعیم صدیقی تھے. 

مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے بظاہر اپنے آپ کو ’’بزرگانِ جماعت‘‘ کی حیثیت سے اس بحث سے بالاتر رکھا لیکن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے بارے میں یہ بات بالکل ظاہر تھی کہ وہ پہلے گروہ سے اتفاق رکھتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے راقم الحروف کے بیان کو پڑھا تو اس کو بہت سراہا اور تمام اراکین شوریٰ کو بشمول امیر جماعت یہ مشورہ دیا کہ وہ اس بیان کو ضرور پڑھیں. مولانا کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے: 

’’اگرچہ اس شخص (راقم الحروف) نے خود مجھ پر بہت سخت تنقید کی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھے اس سے خوشی ہی ہوئی ہے. میں یہ چاہتا ہوں کہ تمام اراکین شوریٰ اس بیان کو پڑھیں. حقیقت یہ ہے کہ اس شخص نے ہماری ہی تحریروں سے مرتب کر کے ایک آئینہ ہماری نگاہوں کے سامنے لا رکھا ہے جس میں ہم اپنی موجودہ صورت دیکھ سکتے ہیں‘‘.
مولانا مودودی صاحب نے اگرچہ براہِ راست بحث میں کوئی حصہ نہیں لیا اور چند باتیں کہیں تو بھی اس انداز سے کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ پہلو بھی نگاہوں کے سامنے آ جائیں ورنہ یہ میری پختہ اور طے شدہ آراء نہیں ہیں. لیکن جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سے ان کی ناگواری اور اس پوری بحث سے جو انقباض ان کو ہو رہا تھا، وہ ان کے بشرے سے بالکل ظاہر تھا اور اس کا ہلکا سا اظہار انہوں نے اس طرح کر بھی دیا کہ امارتِ جماعت سے استعفاء اس بنا پر پیش کر دیا کہ چونکہ اس رپورٹ میں مجھ پر ذاتی طور پر بہت تنقید ہوئی اور الزامات لگائے گئے ہیں، لہٰذا میں امارت سے مستعفی ہوتا ہوں تاکہ اس رپورٹ پر غور و خوض میری زیر صدارت نہ ہو. لیکن ان کے اس خیال کی پوری شوریٰ نے متفقہ طور پر تردید کر دی اور کہا کہ یہاں غالباً کوئی ایک شخص بھی ایسا موجود نہیں ہے جو اس رپورٹ یا اس سے ملحقہ بیانات میں ہدفِ تنقید و ملامت نہ بنا ہو لہٰذا اس کی کوئی حاجت نہیں کہ کوئی ایک شخص اپنے منصب 
سے مستعفی ہو. 

جماعت کے تیسرے بزرگ رکن مولانا عبد الجبار غازی صاحب نے بحث میں تفصیلی حصہ لینے کے بجائے انتہائی جذباتی انداز میں مولانا مودودی صاحب کو وہ کیفیات یاد دلائیں جو جماعت کے قیام کے وقت دلوں میں پائی جاتی تھیں اور مولانا سے درخواست کی کہ اب بھی وقت ہے کہ اصلاح کر لی جائے اور اسی اعتماد اور اتحاد کی فضا کو پیدا کر کے از سر نو اسی جذبے اور ولولے کے ساتھ تحریک اسلامی کی تجدید کی جائے. غازی صاحب پر شوریٰ کی اس صورت حال نے کہ وہ دو متحارب گروہوں میں بٹ گئی تھی، بہت برا جذباتی اثر ڈالا. چنانچہ دورانِ اجلاس ان پر قلب کا دورہ پڑا اور وہ صاحب فراش ہو گئے اور بقیہ اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے. 

شوریٰ کے دونوں متضاد اور متحارب گروپوں کا اختلاف انتہا 
(CLIMAX) پر پہنچ گیا تو پھر ایک رد عمل پیدا ہوا، اور اس کی ضرورت محسوس کی گئی کہ دونوں انتہاؤں کو چھوڑ کر اعتدال کی راہ اختیار کی جائے. چنانچہ ’’مصالحت‘‘ کی کوششیں شروع ہو گئیں اور بہت کچھ رد و قدح اور کسر و انکسار کے بعد ایک قرار داد پر ’’اتفاق‘‘ ہو گیا جس کے الفاظ درج ذیل ہیں: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان دو ہفتوں کے مسلسل غور و خوض کے بعد ان تمام مسائل و معاملات کے متعلق جو جماعت کے پچھلے کام، آئندہ لائحہ عمل اور عام حالات کے بارے میں جائزہ کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعہ سے زیر بحث آئے تھے، حسب ذیل نتائج پر پہنچی ہے. 
(۱) … جماعت نے تقسیم ملک سے پہلے اور بعد اب تک جو کام کیا ہے اس کے متعلق مجلس شوریٰ اس بات پر مطمئن ہے کہ جماعت اپنے اصول، مسلک اور بنیادی پالیسی سے منحرف نہیں ہوئی ہے. البتہ تدابیر کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں اور صحیح قرار دینے کی صورت میں بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفید 
نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں. جنہیں رفع کرنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے.

(۲) … مجلس شوریٰ کی رائے میں جو لائحہ عمل ۱۹۵۱ء کے اجتماع عام منعقدہ کراچی میں پیش کیا گیا تھا اور جو اب تک جماعت اسلامی کا لائحہ عمل ہے، وہ اصولاً بالکل درست ہے اس کو برقرار رہنا چاہیے. لیکن مجلس شوریٰ یہ محسوس کرتی ہے کہ دستور اسلامی کی پیہم جدو جہد کی وجہ سے لائحہ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے خاطر خواہ کام نہیں ہو سکا ہے اور اس کے باعث ہمارے بنیادی کام میں بہت بڑی کسر رہ گئی ہے اس لیے مجلس کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جماعت کی بنیادی دعوت اور لائحہ عمل کے پہلے تین اجزاء کی طرف اب پوری توجہ اور کوشش صرف کرنے کی ضرورت ہے اور اس بنا پر سر دست کسی انتخابی مہم کے لیے کام کرنا قبل از وقت ہو گا. البتہ اسلامی اقدار کے قیام و بقاء اور دستور اسلامی کے تحفظ، اصلاح اور نفاذ کے لیے ناگزیر اقدامات سے دریغ نہ ہونا چاہیے.

(۳) … مجلس کی رائے میں نظامِ جماعت کے اندر اصل حجت کتاب و سنت ہے اور اس کے بعد آئینی سند ہونے کی حیثیت جماعتی لٹریچر کی عبارات کو نہیں بلکہ دستور جماعت اور ان جماعتی فیصلوں کو حاصل ہے جو دستور کے مطابق جماعت کے مجاز اداروں (امارت، مجلس شوریٰ اور ارکان کے اجتماع عام) نے کئے ہوں. البتہ لٹریچر کے کسی مضمون سے مختلف پائی جائے تو وہ یا تو اس مضمون کی ناسخ ہو گی یا اس مضمون کے وہی معنی معتبر ہوں گے جو جماعتی فیصلوں کے مطابق ہوں. 

(۴) … جائزہ کمیٹی کے ذریعہ سے جماعت کے جو اصلاح طلب حالات و معاملات مجلس کے سامنے آئے ہیں ان کے حقیقی اسباب مشخص کرنے اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب تدابیر تجویز کرنے کا کام ایک مجلس کے سپرد کر دیا گیا ہے جو امیر جماعت، مولانا امین احسن صاحب، چودھری غلام محمد صاحب اور نعیم صدیقی صاحب پر مشتمل ہو گی. علاوہ بریں جائزہ کے دوران میں جن متعین واقعات کی نشاندہی مختلف مقامات پر جائزہ کمیٹی کے سامنے کی گئی ہے، ان کی تحقیقات اور 
اصلاح کے لیے مجلس شوریٰ نے مناسب طریقہ تجویز کر دیا ہے جس کے مطابق حتی الامکان جلدی کارروائی کی جائے گی‘‘. 

یہ قرار داد ایک مصالحتی فارمولا تھی جو محض اس خوف کے منفی محرک سے معرض وجود میں آئی تھی کہ اگر کچھ لے اور دے یعنی 
(GIVE AND TAKE) کے اصول کے تحت ’’صلح‘‘ نہ کی گئی تو جماعت اسلامی کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا. اس میں ایک طرف اس خطرے کا سد باب کیا گیا کہ اگر یہ اعتراف کر لیا گیا کہ ہم نو دس سال ایک غلط راستے پر چلتے رہے ہیں تو نہ صرف یہ کہ جماعت کے کارکنوں کی ہمت شکنی ہو گی اور ان میں کام کرنے کا جذبہ باقی نہ رہے گا، بلکہ جماعت کی قیادت پر سے ان کا اعتماد بالکل اٹھ جائے گا اور اس کا وہ وقار باقی نہیں رہے گا جو نظم جماعت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے. چنانچہ ’’تدابیر کے صحیح اور غلط ہونے کے بارے میں دو رایوں‘‘ کے امکان کو تسلیم کرنے اور ’’بعض مضر نتائج‘‘ کے بر آمد ہونے کے اقرار کے ساتھ ساتھ کارکنانِ جماعت کو اطمینان دلایا گیا کہ ’’جماعت اپنے اصول، مسلک اور بنیادی پالیسی سے منحرف نہیں ہوئی ہے‘‘.

دوسری طرف جماعت کی بعد از تقسیم کی پالیسی میں نہ صرف یہ کہ ’’عدم توازن‘‘ کا اقرار کیا گیا جس کی بنا پر جماعت کے ’’بنیادی کام میں بڑی کسر رہ گئی ہے‘‘ بلکہ عملا اس طریق کار کے ایک ستون یعنی ’’انقلاب قیادت بذریعہ انتخابات‘‘ کو بالکل ہی منہدم کر دیا گیا اور دوسرے ستون یعنی ’’دستور اسلامی کے تحفظ، اصلاح اور نفاذ‘‘ کے لیے بھی بس ’’ناگزیر‘‘ اقدامات کی اجازت برقرار دکھی گئی. 

اس طرح یہ قرار داد ایک پیچیدہ مصالحتی فارمولا بن گئی جو اپنے الفاظ اور ان کی ترتیب کے اعتبار سے کسی ذہین مصنف کا شاہکار تو قرار دی جا سکتی تھی لیکن اس سے اس کا کوئی امکان نہیں تھا کہ جماعت کے کارکنوں کو ذہنی اطمینان حاصل ہوتا اور ان کے سامنے اپنے سفر کا رخ اور آئندہ کے طریق کار کا واضح نقشہ آ سکتا.

اس قرار داد پر دستخط ثبت کر کے شوریٰ نے اطمینان کا سانس لیا اور اس طرح بزعم خویش جماعت اسلامی کو انتشار سے بچا کر شوریٰ کے معزز اراکین اپنے اپنے گھروں کو روانہ 
ہو گئے. 

رد عمل … 
لیکن جلد ہی شوریٰ کے اس اجلاس کی کارروائی اور اس کی پاس کردہ اس قرار داد کے خلاف رد عمل شروع ہوا. 

ایک طرف اراکین شوریٰ اپنے اپنے حلقوں کو لوٹے اور وہاں ارکان جماعت نے ان سے قرار داد کی وضاحت طلب کی تو مختلف طرز خیال کے لوگوں نے اپنے نقطۂ نظر سے وضاحت کی اور شوریٰ میں جو واقعی ذہنی انتشار موجود تھا وہ جنگل کی آگ کی طرح جماعت کے بعض حلقوں کے ارکان میں پھیلنا شروع ہو گیا.

دوسری طرف مولانا مودودی صاحب پر ایک شدید ذہنی اور نفسیاتی رد عمل کے اثرات رونما ہوئے. ظاہر بات ہے کہ مولانا موصوف ہی جماعت اسلامی کے مؤسس تھے اور وہی از یومِ تأسیس تا امروز اس کے امیر رہے تھے. جماعت کی بعد از تقسیم پالیسی کے معمار 
(ARCHITECT) بھی خود وہی تھے. لہٰذا اس پالیسی کے بارے میں اس فیصلے سے کہ یہ غلط تھی، ایک طرح سے ان کے فہم و فراست پر حرف آتا تھا اور اس کو برداشت کرنے کے لیے بہت زیادہ ہمت کی ضرورت تھی. (وَ مَا یُلَقّٰھَا اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ مَا یُلقّٰھَا اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ) شوریٰ کے اجلاس کے دوران کچھ تو مولانا ہمت قائم کئے رہے اور کچھ شوریٰ کی اکثریت چونکہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ سے شدید متاثر تھی لہٰذا بے بس سے بھی رہے لیکن اجلاس کے بعد ان کی طبیعت میں ردِ عمل شروع ہوا جس کو ان کے آس پاس جماعت کے مرکزی عملے کے لوگوں نے تقویت پہنچائی. در حقیقت یہ مولانا مودودی کے لیے آزمائش کا ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا. ان کے سامنے دو راستے کھلے تھے:-

ایک اصلاح کی سواء السبیل، کہ غلطی کا اعتراف کر کے تلافی مافات کی سعی کی جاتی اور جلدی میں جو اقدام ۴۷ء میں کر دیا گیا تھا، اس کو غلط تسلیم کر کے از سر نو سفر شروع کیا جاتا اس میں اس تحریک کی خیر بھی تھی اور اسی کا تقاضا وہ ’’شورائیت‘‘ اور 
’’جمہوریت‘‘ بھی کرتی تھی جس پر جماعت کے دستور کی بنیاد رکھی گئی تھی کہ اب جبکہ مرکزی مجلس شوریٰ کی ایک واضح اکثریت نے ایک واضح DIRECTIVE دے دیا تھا، مولانا شوریٰ کی رائے کا احترام کرتے اور جماعت کا رخ تبدیل کر دیتے اگر مولانا ایسا کرتے تو شوریٰ کے وہ اراکین جنہوں نے انہیں اس رخ پر مڑنے پر مجبور کیا تھا، بہر حال ان کے دیرینہ نیاز مند اور رفیق کار اور ان ہی کی دعوت پر جمع ہونے والے لوگ تھے. اور اس کا کوئی سوال نہ تھا کہ مولانا کے ان سے ’’شکست‘‘ کھانے کا تصور پیدا ہوتا. 

دوسری 
اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِا لْاِثْمِ کی قدیم راہ کہ طریق کار کی تبدیلی کو اپنی ذات شکست تصور کر کے ’’عزت نفس‘‘ کے تحفظ کے لیے مرنے مارنے پر تُل جایا جائے. 

بد قسمتی سے مولانا مودودی نے اس دوسری راہ کو اختیار کیا اور آیہ قرآنی 
وَ لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا کا مصداق بن گئے اور پوری بے رحمی کے ساتھ اس سارے تانے بانے کو تار تار کرنے پر تُل گئے جسے بہت محنت مشقت سے بیس پچیس سال کی محنت سے خود بُنا تھا.